"مثل برگ آوارہ" کا پندرہواں در
طغرل امریکہ سے نینا کو اکثرفون کرتا تھا۔ وہ اس کی ہمت بندھاتی تھی تاکہ وہ امریکہ میں رہائش اختیار کرکے اپنے بچوں کے لیے کچھ کر سکے۔ تاحتٰی اس نے کہا تھا اگرروسی پاسپورٹ امریکی شہریت کے حصول میں رکاوٹ ہوتووہ اسے طلاق نامہ بھجوا دے گی جس کی بنیاد پر وہ روس کے سفارت خانے میں جا کراپنی روسی شہریت سے دستبردار ہوکرپاکستانی پاسپورٹ کی بنیاد پرسیاسی پناہ حاصل کر سکے۔
مگر طغرل منہ اٹھا کرلوٹ آیا تھا۔ نینا اسے دوبارہ اپنے پاس پا کرخوش توہوئی تھی لیکن اتنی نہیں، غالبا" اس لیے کہ اسے ایک بار پھر بے روزگار اوربے کارخاوند کو بھگتنا پڑ رہا تھا۔ بیکار اس لیے کہ روس اورتقریبا" تمام مغربی ملکوں میں ایسے مرد کو اچھا شوہرخیال کیا جاتا ہے جو گھرکی ٹونٹیاں اورتالے تبدیل کرنے سے لے کر گھر کی مرمت کرنے اوربجلی ٹھیک کرنے تک کا کام کرسکتا ہو۔ روس میں ایسے مردوں کو "سونے کے ہاتھوں والا" کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس طغرل تنکا نہیں توڑتا تھا۔ گھر میں پڑا رہتا ، زیادہ سے زیادہ شہر کے مرکز تک جا کربڑے ہوٹلوں میں پڑا ہوا مفت انگریزی اخبار لے آیا کرتا یا کچھ لکھ لیتا تھا۔ وہ کسی کام کے لیے کہتی تو کہہ دیتا کہ ابھی کرتا ہوں اورپھر بھول جاتا یعنی بھلا دیتا تھا۔ خالص پاکستانی شوہر تھا۔
طغرل کے امریکہ سے لوٹنے کے دوروزبعد نینا کی بیٹی آلا آئی تھی تو اس کے ساتھ ایک نومولود بچی تھی جسے نینا نے طغرل کی گود میں ڈال دیا تھا۔ وہ بچی کودیکھ کر بہت خوش ہوا تھا کیونکہ اس نے ایک عرصے سے کوئی چھوٹا بچہ نہیں دیکھا تھا۔ طغرل کو پہلے روزسے ہی اس بچی کے ساتھ بے حد انس ہوگیا تھا۔ اس کی شاید یہ وجہ تھی کہ اس کی ایمان سے پیدا ہونے والی بچی بھی کوئی ڈیڑھ پونے دوسال کی ہونے کوآئی تھی جسے وہ اب تک نہیں دیکھ پایا تھا۔
طغرل کا کوئی بینک بیلنس نہیں تھا۔ کچھ پیسے تھے جن سے وہ پاکستان جانے کا ٹکٹ خرید سکتا تھا اوربس۔ ایک طرح سے نینا کی تنخواہ پرگذربسرہورہی تھی۔ عورت کتنی بھی وسیع القلب کیوں نہ ہو لیکن اسے اپنی کمائی پراینڈتا مرد اچھا نہیں لگتا۔ وہ تنک مزاج ہوتی جا رہی تھی۔ ہربات پرطغرل کے ساتھ الجھنے لگی تھی۔
ایسے میں طغرل کو کوئی اورچاہیے تھا جس کے ساتھ اٹھکھیلیاں کی جا سکتیں۔ اس نے پرانی شناسا ایلا کوفون کیا تھا جوتب واقف ہوئی تھی جب امریکہ جانے سے پیشتر طغرل ہوٹل کے کمرے چڑھانے کے کاروبار سے وابستہ تھا اورایلا اس ہوٹل میں ایرٹکٹیں بیچا کرتی تھی۔ طغرل سے کھاتی تھی اوروقت افغانیوں کے ساتھ بتاتی تھی۔ خیرکھوٹا سکہ بھی کبھی چل جایا کرتا ہے۔
جنوری کی ایک سرد شام کواس نے مرکزمیں ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ طغرل ایلا کے ندیدے پن کے پارے میں جانتا تھا مگراس نے اسے کسی طرح صرف کافی کے ایک کپ پرٹرخا دیا تھا اورپھردونوں مرکزمیں گھومنے لگے تھے۔ زیرزمین تین منزلہ شاپنگ مال کے اوپر بنے ہوئے پارک میں دوردور تک کوئی نہیں تھا۔ وہاں وہ دونوں ایک بنچ کے نزدیک کھڑے ہو گئے تھے۔ بیٹھا تو جا نہیں سکتا تھا کیونکہ بنچوں تک پربرف پڑی ہوئی تھی۔ ایلا نے فرکوٹ پہنا ہوا تھا۔ طغرل امریکہ میں ایک برس کا جنسی روزہ بھگت کے لوٹا تھا چنانچہ وہ معاملے کو لمبا نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے جھٹ سے اس کے فرکوٹ میں ہاتھ ڈال کراس کے سینے کی اٹھان کو گرفت میں لے کر سہلانا شروع کر دیا تھا۔ ایلا نے ہکا بکا رہ جانے کی اداکاری کی تھی مگرہاتھ نہیں جھٹکا تھا۔ بات بن گئی تھی۔ طغرل نے اسے کہا تھا کہ وہ کل شام کسی وقت فون کرے گا اورپرسوں کہیں چلیں گے جہاں تنہائی میسر ہوگی۔ موبائل فون متعارف ہو چکے تھے لیکن ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔ لینڈ فون پرہی گذارا کرنا پڑتا تھا۔
طغرل نے عقلمندی کا ایک کام کیا تھا کہ نینا کواردو نہیں سکھائی تھی۔ یوں اس کے لیے آسان تھا کہ اس کی موجودگی میں بھی وہ اردوزبان میں جوبات کرنا چاہتا ، کر لیتا تھا۔ اس نے ایک پاکستانی کو فون کیا تھا جو طغرل کی تعظیم کرتا تھا اورکہا تھا کہ پرسوں جس وقت وہ سب کام پرہونگے اسے ان کے گھر کی چابی چاہیے ہوگی۔ اس نے ظاہر ہے یہی کہا تھا کہ اپ کا گھر ہے، جب چاہیں چابی لے لیں۔ اب اسے انتظار تھا کہ نینا کہیں جائے تووہ ایلا کو فون کرے۔ بہت انتظار کے بعد نینا کسی کام کی غرض سے گھر سے باہر نکلی توطغرل نے ایلا کو فون کرکے اگلے روزدو بجے ایک میٹرو سٹیشن پرملنے کے بارے میں طے کر لیا تھا۔
ایلا اورطغرل ایک ویگن میں سوارہوکراس مارکیٹ گئے تھے جہاں اس پاکستانی کا کاروبارتھا۔ طغرل نے ایلا کوکچھ دور کھڑے ہونے کا کہا تھا اورجا کر چابی لے لی تھی۔ گھر چونکہ مارکیٹ سے زیادہ دور نہیں تھا اس لیے دونوں چلتے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔
نینا چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی کیا کرتی تھی اورتین دن آرام۔ وہ اس روزکام پرتھی۔ ایسا امکان تھا ہی نہیں کہ وہ کہیں اوردیکھنے میں آ جاتی لیکن طغرل پھر بھی ادھرادھر دیکھتے ہوئے چل رہا تھا کہ کہیں وہ کچھ خریدنے مارکیٹ نہ پہنچ گئی ہو حالانکہ نینا اس مارکیٹ سے بمشکل ہی کچھ خریدا کرتی تھی۔
ایلا طویل قامت اورمتناسب بدن والی عورت تھی۔ اس کا چار پانچ سال کا ایک بچہ تھا۔ قبول صورت بلکہ خوبصورت تھی۔ عمر کوئی چونتیس پینتیس سال۔ مگراس میں وہ حدت نہیں تھی جو ہونی چاہیے تھی۔ اس کے ساتھ بتایا گیا انتہائی قریبی وقت کوئی اتنا کیف آگیں نہیں تھا، بس یونہی سا تھا۔
اس سے دوسری ملاقات بھی کچھ زیادہ دیربعد نہیں ہوئی تھی۔ اسی گھرمیں لیکن تب گھرمیں گھر والے موجود تھے۔ غسل خانہ ہی تنہائی دے سکتا تھا۔ غسل خانے کی تنہائی کے بعد دوسرے کمرے میں بھی جانے کو جی نہیں چاہا تھا جوگھروالوں نے ان کے لیے خالی کردیا تھا۔ پھربھی وہ دونوں اس کمرے میں گئے تھے۔ ایلا نے ادھار کے نام پرمحبت کے معاوضے کا تقاضا شروع کیا تھا، مگرطغرل نے اس کی سرشت جانتے ہوئے کچھ بھی دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ وہ امریکہ سے خالی ہاتھ آیا ہے۔ پھر طغرل محبت کا معاوضہ ادا کرنے کو اس انسانی عمل کی توہین خیال کرتا تھا۔ ایلا بھی لالچی پن میں اپنی مثال آپ تھی۔ اس نے لفٹ میں بیٹے کے لیے چاکلیٹ لینے کے لیے طغرل سے سو روبل لے ہی لیے تھے۔ اس کے بعد طغرل نے اس سے کچھ دیرتک بس ٹیلیفون پربات چیت کرنے تک تعلق رکھا تھا جو زیادہ دیربرقرارنہیں رہا تھا۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
یہ شعر طغرل کی مرحومہ والدہ اکثر پڑھا کرتی تھیں اورپھرعموما" رودیا کرتی تھیں۔ طغرل کو امریکہ سے لوٹ آنا اس شعر کے مصداق لگنے لگا تھا۔ امریکہ سے دل اوبھ گیا تھا تو روس لوٹنے کو مناسب جان کراس پرعمل کر دیا تھا اورروس آ کربھی چین محسوس نہیں ہورہا تھا۔ نہ کوئی کام ملنے کی آس تھی اورنہ نینا کا رویہ پہلے جیسا رہا تھا۔ ممکن تھا کہ طغرل کو ایسا لگتا ہوکیونکہ وہ اب اپنی نواسی اینگیلینا کی دیکھ بھال میں زیادہ وقت صرف کرنے لگی تھی۔ چوبیس گھنٹے مسلسل کام کرنے کے بعد آتی توایک روزکسلمندی تمام کرنے میں گذار دیتی، اس کی استراحت کا طریقہ بھی ذرا انوکھا تھا۔ وہ بجائے دراز ہونے کے کچن میں سٹول پر بیٹھی یا تو کراس ورڈ مکمل کرتی یا کچھ پڑھتی، ساتھ ساتھ موسیقی سنتی رہتی تھی۔ بیچ بیچ میں گھرکے کام کرلیا کرتی تھی۔ سوتی رات کو اپنے وقت پر ہی تھی۔ اگلے روز طغرل کو ناشتہ کھلانے کے بعد وہ بیٹی کے ہاں چلی جاتی تھی اور بالعموم اگلے روز لوٹتی تھی۔
بقرعید نزدیک آ رہی تھی۔ طغرل نے پاکستان جانے کا پروگرام بنا لیا تھا۔ وہ کراچی پہنچ گیا تھا۔ عید کی وجہ سے نہ تو جہاز کی ٹکٹ مل رہی تھی اورنہ ریل گاڑی کی۔ اسے عید پر گھرلازمی پہنچنا تھا چونکہ سب انتظار کر رہے تھے۔ اس نے چھوٹے بھائی کے مشورے پر بالآخربس سے جانا قبول کر لیا تھا۔ بس پورا سندھ عبور کرکے خان پور کے باہر سے گذرتی ہوئی ہیڈ پنجند پارکرکے نہ صرف یہ کہ طغرل کے قصبے میں پہنچتی تھی بلکہ اس سے آگے ایک چھوٹے قصبے میں اپنی منزل پر پہنچنے کی خاطر طغرل کے والدین کے گھر کے سامنے گلی پارسڑک سے گذرتی تھی یوں مطلب یہ کہ وہ سیدھا گھر پہنچ سکتا تھا۔
بس لگتا تھا کہ بس نہیں راکٹ تھی جو بریک لگائے بغیرسڑک کے اطراف میں اترتی، لہرا لہرا کرسڑک پرجاتی، دوسری ٹریفک سے نکلتی بھاگے چلی جا رہی تھی۔ پھرڈرائیورنے پتہ نہیں کہاں جا کر بریک لگائی تھی۔ وہاں موجود ٹوائلٹ نہ صرف متعفن تھے بلکہ ان دو کھڈوں کے امیدوارپوری بس کے مرد تھے چنانچہ طغرل نے ڈھابے کے عقب میں واقع کھیتوں میں جا کرمثانہ ہلکا کیا تھا اور چائے کی ایک پیالی پینے میں عافیت جانی تھی تاکہ باقی عمل گھرجا کر ہی پورا کیا جا سکے۔
صبح ہو چکی تھی۔ لوگ اب جاگ کر باتیں کرنے لگے تھے۔ طغرل توہموار پرواز کرنے والے جہازتک میں نہیں سو پاتا تھا اس راکٹ رفتار بس میں بھلا کیا سوتا۔ ویسے بھی کراچی سے بس کے ذریعے یہ اس کا پہلا سفر تھا اس لیے اس نے بس کے شیشوں میں سے اندھیرے کھیتوں اورنیم روشن سوئے ہوئے شہروں اورقصبوں کودیکھتا زیادہ دلچسپ جانا تھا۔ لوگ جو باتیں کررہے تھے وہ وہی باتیں تھیں جو کچھ نہ کر سکنے والے لوگ کیا کرتے ہیں یعنی حکومتوں کے بارے میں گلہ، سیاست سے متعلق اپنی حتمی آراء کا اظہار، ایک دوسرے سے بلا وجہ اختلافات، دلیلوں کی بجائے جذبات پر مبنی باتیں۔
طغرل پاکستان میں پرویزمشرف کے ہاتھوں جمہوریت کے ایک اورعارضی ونامکمل دورکی پامالی اورحکومت ایک بار پھر فوجی اشرافیہ کے ہاتھوں غصب ہونے کے بعد پہلی بار پاکستان پہنچا تھا۔ اسے لوگوں کی بے سروپا باتیں کاٹے کھائے جا رہی تھیں چنانچہ اس سے نہ رہا گیا اور اس نے یہ فقرہ کہہ کر کہ "دنیا کی تازہ تاریخ میں کوئی بھی جرنیل آج تک اپنے ملک کے عوام کے لیے کچھ اچھا نہیں کر پایا ماسوائے دوجرنیلوں کے جن میں ایک فرانس کا جنرل دیگال تھا اورایک امریکہ کا ڈوائٹ آئزن ہاورمگریہ دونوں جرنیل فوج سے فراغت کے بعد سیاست میں آئے تھے اورانہوں نے جمہوری عمل سے ہی لوگوں کے دلوں میں جگہ پائی تھی" ان لوگوں کی گفتگو میں کود پڑا تھا۔ اتنی مختلف رائے سے لوگ چونک پڑے تھے، دو ایک ادھیڑعمر داڑھی والے مردوں نے ہلکا سا اختلاف کرنے کی کوشش کی تھی مگرادھرادھربیٹھے ہوئے تین داڑھی والے نوجوانوں نے یہ کہ کر"چاچا جی، ہمیں ان کی باتیں سننے دو" انہیں چپ کرا دیا تھا۔ طغرل نے انہیں بتآیا تھا کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے روس میں مقیم ہے اورحال ہی میں امریکہ میں ایک سال بتا کر وطن لوٹا تھا۔ اس سے نوجوانوں میں مختلف رائے سننے کا تجسس مزید بڑھا تھا۔
طغرل سیاست اورسماج سے متعلق منطقی باتیں کرتا رہا تھا۔ بس تھی کہ بھاگے جا رہی تھی۔ نوجوان ادھرادھرلڑھکتے تھے لیکن ان کا طغرل کی گفتگو سننے میں انہماک دیدنی تھا کہ ان کی نگاہیں طغرل کے چہرے سے نہیں ہٹتی تھیں۔ بیچ بیچ میں وہ کوئی مناسب سوال بھی کر دیتے تھے اورکبھی کبھارجذباتی رائے بھی دے دیتے تھے لیکن طغرل ہنستے ہوئے ان کی ہر بات کوسہتا اوران کومطمئن کرتا رہا تھا۔ وقت اورفاصلے کا پتہ ہی نہیں چلا کہ بس جی ٹی روڈ سے طغرل کے قصبے میں داخل ہونے کے لیے مڑگئی تھی۔ ان نوجوانوں نے اڈے پراترنا تھا۔ اترنے سے پہلے ان میں سے ایک نے کہا،" جناب آپ ہم لوگوں کا ساتھ دیں۔ ہم جہادیوں کوآپ جیسے پڑھے لکھے سمجھدارلوگوں کی ضرورت ہے"۔ طغرل کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ یہ جہادی کیا کرتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ کراچی میں دہلی مسلم برادری کے ایک واقف دکاندار سے بھی، جس کے پاس اس کا آنا جانا رہا تھا، جہادی جہادی سن چکا تھا۔ اس دکاندار کی دکان میں "جہاد" نام کا ایک منحنی سے اخبار بھی آتا تھا۔ طغرل یہی سمجھتا تھا کہ یہ لوگ شاید کشمیرکی تحریک آزادی کی خاطر جہاد کرنے کے متمنی تھے۔ اس لیے وہ اس نوجوان کی درخواست پرمسکرا دیا تھا اورکہا تھا کہ بھائی میں تومسافرہوں۔ آج یہاں ہوں کل پھر ملک سے باہر چلا جاؤں گا۔ وہ لڑکے ہاتھ ملا کراترگئے تھے۔ ان کے سامان سے یہی لگتا تھا جیسے وہ کسی محاذ سے لوٹے ہوں یعنی فوجیوں کی طرح مختصر سامان تھا ان کا۔ تھوڑی دیرمیں بس طغرل کے گھر کے سامنے پہنچ گئی تھی۔ طغرل نے بس رکوا کر سامان اتروایا تھا۔ گھر میں دروازے کی ریخ سے شاید کوئی راہ دیکھ رہا تھا اسی لیے گھر کا دروازہ فورا" کھلا تھا اورطغرل کا نوجوان بھتیجا نکلا تھا جس نے آ کر سامان اٹھا لیا تھا۔ گھر پہنچا تو بہنوں نے ماتھا چوما تھا، گلے لگایا تھا اورخوش ہو گئی تھیں۔ ریخ پرآنکھ رکھ کے طغرل کی راہ دیکھنے والی طغرل کی وہ بڑی بہن تھی جس نے اس کی پرورش کی تھی.
طغرل کے آنے پر تینوں بہنیں، بڑا بھائی اور بھتیجے بھتیجیاں خوش ہوئے تھے۔ طغرل بھی خوش تھا کیونکہ وہ ایک عرصے بعد عید کے موقع پراپنے آبائی گھرپہنچا تھا۔
پرسوں عید تھی۔ اولیں مسئلہ عید کے کپڑے سلوانے کا تھا۔ قصبے کا کوئی درزی ہنگامی طور پر کپڑے سینے کو تیار نہ ہوتا کیونکہ درزیوں کو پہلے سے موجود فرمائشیں پوری کر کے دینی تھیں مگر طغرل کے پاس ایک راستہ تھا۔ ملازم حسین طغرل کا بچپن کا دوست اورہم جماعت تھا۔ وہ پولیس میں تھا، ویسے بھی قصبے میں لوگوں کے ساتھ اس کے اچھے مراسم تھے۔ وہ شہر کے کنارے پر رہتا تھا مگر جونہی طغرل نے پیغام بھیجا وہ آ گیا تھا۔ دونوں بڑے جوش وخروش سے ملے تھے اور طغرل نے مدعا بیان کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں چلو چلتے ہیں بازار۔ عشاء کا وقت ہو چکا تھا۔ کپڑے کی دکان سے دو شلوارقمیص سوٹوں کا کپڑا لیا تھا، ملازم حسین نے طغرل کو قیمت ادا کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ یہاں میرا حساب کتاب ہے۔ پھرایک درزی کواس تنبیہہ کے ساتھ کہ کل شام تک دو نہیں توایک جوڑا لازمی مل جانا چاہیے، کپڑا دے دیا تھا جس پردرزی نے کہا تھا،"فکر نہ کریں خانصاحب، اللہ دے حکم نال دونوں جوڑے سل جائیں گے" ۔ جوتوں کی ایک دکان سے جوتے لیے تھے۔ دسویں پاس کرکے قصبے سے نکل جانے کے بعد طغرل نے پہلی باراپنے قصبے سے جوتے خریدے تھے، ملازم حسین نے طغرل کا ہاتھ روک کر جوتوں کے پیسے بھی خود دیے تھے۔
دوسرے روز کی شام کو کپڑے مل گئے تھے۔ طغرل کے عید منانے کا سامان ہو گیا تھا۔ صبح عید کی نماز پڑھنے کے بعد جب گھر کے وسیع و عریض صحن میں محمد علی قصاب گائے گرانے پہنچا ہوا تھا تب طغرل سامنے کے کمرے میں کھڑا فون کررہا تھا، سامنے موجود محمدعلی نے گائے کو سینگوں سے پکڑکراڑنگی مارکرگرانے کی کوشش شروع کردی تھی مگر گائے طاقت ورتھی۔ طغرل گاو کشی کا منظرنہیں دیکھ سکتا تھا اس لیے اس نے پیٹھ کرلی تھی۔ بات کرتے کرتے جب وہ انجانے میں مڑا تو گری ہوئی گائے کی کٹی ہوئی گردن سے خون بہہ رہا تھا اوراس کا مردہ بدن تھرتھرا رہا تھا۔ طغرل کے منہ سے بے اختیار بلند آواز میں نکلا تھا،" ہائے گائے ماردی"۔ طغرل کے بڑے بھائی سیخ پاء ہو گئے تھے اورکہا تھا، " ماری نہیں اللہ کے نام پر ذبح کی گئی ہے"۔ طغرل نے دھیرے سے کہا تھا،" درست ہے لیکن مرتو گئی ناں" بڑے بھائی آنکھیں دکھاتے بڑبڑاتے ہوئے، محمدعلی کا ہاتھ بٹانے چلے گئے تھے۔
یہ عجیب بات ہے کہ گلا کاٹ کرخون بہائے گئے جانوروں کومرا ہوا تصورنہیں کیا جاتا۔ مردہ جانورصرف اسے تصور کیا جاتا ہے جو کسی اوروجہ سے یا طبعی طورمرا ہو حالانکہ وہ مردارہوتا ہے۔ جانور کا چاہے جھٹکا کیا جائے یا اسے ذبح کیا جائے، وہ بہر طورمرجاتا ہے اورہم سب مرے ہوئے جانوروں کا ہی گوشت کھاتے ہیں۔ طغرل کوبھی باقی مسلمانوں کی طرح گوشت مرغوب ہے لیکن وہ جانوروں کے گلے پر چھری پھرتے نہیں دیکھ سکتا۔ جانوروں کے بھی احساسات ہوتے ہیں۔ وہ محض اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بے زنان ہیں اورمزاحمت اس لیے نہیں کر سکتے کہ چوپائے ہیں۔ اگر جانور دو پاؤں پر کھڑے ہو سکتے اوراپنے اگلے پاووں کا ہاتھوں کی مانند استعمال کرسکتے تو ان کا "ذبح" کیا جانا کس قدردشوارہو جاتا۔ طغرل کو کیا معلوم تھا کہ ایک عشرے بعد ہی انسانوں کو بھی جانوروں کی مانند ذبح کیا جانے لگے گا اوروہ بندھے ہوئے ہاتھوں اورتنی ہوئی تیار بندوقوں کے سامنے مزاحمت نہیں کر سکیں گے اور بے دست و پاء ہوکرذبح ہوجایا کریں گے۔
ملازم حسین اپنے قصبے سے کوئی پندرہ کلومیٹر دوردوسرے چھوٹے قصبے میں تھانیدارتھا۔ اس نے طغرل کوعید کے اگلے روزوہاں اپنے ہاں مدعو کیا ہوا تھا۔ عید کے روزملاقات کے دوران وہ طغرل پرزور دیتا رہا تھا کہ پردیس سے وطن لوٹ آئے اورآبائی قصبے میں رہے۔ وہ طغرل کے سارے اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری لے رہا تھا۔ اس نے کہا تھا،" طغرل تم ملک سے باہر اسی لیے ہو کہ وہاں شراب مل جاتی ہے اور لڑکیاں دوست بن جاتی ہیں، ویسے توتم وہاں بیروزگارہواورآج تک کچھ بھی نہیں بنا سکے ہو۔ چلو ان دو چیزوں کی فراہمی کی ذمہ داری بھی میں لیتا ہوں" طغرل نے اسے ہنس کر ٹال دیا تھا۔
قصبے سے خریدے ہوئے جوتوں نے پہلے روزہی کاٹنا شروع کردیا تھا مگرطغرل ان کی چبھن برداشت کرتا رہا تھا۔ نئے کپڑوں کے ساتھ پرانے جوتے کیا پہنتا۔ ایک شخص مقررہ وقت پر طغرل کو لینے پہنچا تھا اورموٹرسائیکل پراپنے پیچھے بٹھا کرملازم حسین خان کے پاس دوسرے قصبے میں لے گیا تھا۔
تھانیدار صاحب ایک بڑے سے گھرمیں اکیلے رہتے تھے، جہاں اسے واقف وضرورت مند لوگ اور دوست ملنے آتے رہتے اورجاتے رہتے تھے۔ اس نے طغرل کے لیے شراب کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ یہ پاکستانی لائن وہسکی تھی جسے پیتے ہوئے اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے سپرٹ ملا سرسوں کا تیل پی رہا ہو۔ طغرل غیرملک میں رہنے کی وجہ سے سکاچ کے علاوہ کسی اوروہسکی کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔ خیر دوست کی خوشی کی خاطر منہ بناتے ہوئے پیتا رہا۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ ملازم حسین ترنگ میں آ گیا تھا۔ بولا تھا،"یار کے لیے دوسرا بندوبست بھی کرتے ہیں"۔ طغرل کے روکنے کے باوجود اس نے بے وردی سپاہی سے کہا تھا،" نورمحمد جاؤ اوراس ۔ ۔ ۔ ۔ وسائی کو لے کرآؤ"۔ دس پندرہ منٹ میں وہ وسائی نام کی دلالہ کو لے کرآ گیا تھا۔ ملازم نے اسے حکم دیا تھا کہ اس کے باہرسے آئے ہوئے یار کے لیے چھوئیرکا بندوبست کرے۔ وہ منت کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ سئیں، رات بہت ہوچکی ہے۔ یہ چھوٹا شہر ہے۔ پہلے کہا ہوتا توکوئی انتظام کر لیتی۔ اس وقت آپ کے حکم کی تعمیل کرنا مشکل ہے۔ ملازم حسین نے اسے دو چار گالیاں سنائی تھیں اورکہا تھا مشکل ہے نہ ممکن تونہیں، جاؤ جوکہا ہے کروورنہ ۔ ۔ ۔ اوراسے فحش سی دھمکی دی تھی۔ وہ چلی گئی تھی۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد عام شکل و صورت کی ایک کمزوراورسانولی خاتون کو لے کرآ گئی تھی اور اسے چھوڑ کرخود باہر سے ہی لوٹ گئی تھی۔ یہ عورت دیکھنے میں مجبوراورمضمحل لگتی تھی۔ اگرچہ اس کی عمر 25، 26 سال تھی لیکن وہ پینتیس برس کی لگتی تھی۔ اس کے کپڑے کسی گھرکی ملازمہ جیسے تھے۔ وہ دورکی ایک چارپائی پرٹانگیں لٹکائے نظریں نیچی کیے بیٹھی تھی۔ طغرل نے اس سے اس کی صحت سے متعلق سوال کرنے شروع کر دیے تھے۔ طغرل آگاہ تھا کہ اس علاقے میں غریب لوگوں میں تپ دق ایک عام مرض تھا۔ وہ اس کو بی بی کہہ کرمخاطب کررہا تھا۔ اس علاقے میں بی بی یا بہن کو کہتے ہیں یا شریف خاتون کو۔ طغرل کو وہ عورت غذائی کمی کا شکار دکھائی دیتی تھی اوراسے شک تھا کہ وہ یقینا" کسی مزمن مرض میں بھی مبتلا ہوگی۔ ملازم حسین کو اسے طغرل کی جانب سے بی بی، بی بی کہنا برا لگا تھا۔ اس نے طغرل سے کہا تھا،"کیا بی بی ، بی بی لگا رکھی ہے، اپنا کام کرو"۔ طغرل کوبھی غصہ آیا تھا مگر ایک تو وہ اپنے دوست کا مہمان تھا دوسرے اسے اس کی تھانیدارانہ ترش مزاجی بارے بھی علم تھا، اس نے آسان انگریزی میں تاکہ ملازم حسین کو سمجھ آ جائے، کہا تھا کہ میں اس بیچاری کے ساتھ ملوث نہیں ہوسکتا۔ دراصل وہ کہنا تویہ چاہتا تھا کہ میں اس مجبورعورت پرظلم ڈھانے کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ ملازم حسین نے اکتائی ہوئی آواز میں کہا تھا، " تیزی انسانیت پرستی نے ہمیں بڑا تنگ کیا ہوا ہے"۔ یہ کہہ کر وہ سامنے کے کمرے میں بچھے بسترمیں گھس گیا تھا اوراس نے اس عورت کو کہا تھا، آ جاؤ میرے پاس۔ عورت جا کرانہیں میلے کپڑوں سمیت اس کی رضائی تلے چھپ گئی تھی۔ ابھی وہ تھوڑا سا کسمسائے ہی تھے کہ باہر کوئی گاڑی آ کر رکی تھی اورملازم حسین کا کوئی دوست آ گیا تھا۔ وہ عورت کو بسترمیں اکیلا چھوڑ کر دروازہ بھیڑکردوست سے ملنے باہرآیا تھا۔ ان کے بیٹھنے کے دومنٹ بعد طغرل نے ملازم سے کہا تھا کہ اسے گھر پہنچا دے۔ طغرل کا انکارتووہ پہلے ہی سن چکا تھا اوراس کے بستر میں "شراب" کے بعد "شباب" بھی منتظرتھا چنانچہ اس نے اپنے دوست سے کہا تھا کہ وہ طغرل صاحب کوساتھ کے بڑے قصبے میں ان کے گھر چھوڑ کرآ جائے۔ وہ فورا" ہی نکل کر کارمیں سوارہو کرروانہ ہو گئے تھے۔
اس کے بعد جب طغرل کی ملازم حسین سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے اس کے خوب لتے لیے تھے کہ ایسی شراب اورایسی لڑکیوں کے لیے تم مجھے لوٹ آنے کا کہہ رہے تھے۔ تم انسان ہویا جانور۔ تمہاری اپنی بیوی آج بھی اس عورت سے زیادہ مناسب اور صحت مند لگتی ہے لیکن تم نے مارے ہوس کے اس کو بھی نہ چھوڑا۔ ملازم حسین خجل توتھا لیکن خجالت کا اظہار کرنے سے انکاری۔ طغرل کو ایک لطیفہ یاد آ گیا تھا۔ لطیفہ یوں تھا کہ ایک دوست دوسرے دوست کو فون کرکے کہتا ہے،"یار میں نے تمہارے لیے ایک لڑکی بلائی ہے، آ جاؤ"۔ دوست پہنچتا ہے، دروازہ کھولتا ہے اور جانے لگتا ہے۔ جس دوست نے بلایا تھا وہ لپک کرآتا ہے اورپوچھتا ہے کہ واپس کیوں جا رہے ہو؟ نہیں یاریہ تو بالکل بھی خوبصورت نہیں ہے، وہ جواب دیتا ہے۔ دوست کہتا ہے، کوئی بات نہیں پی لو گے تو خوبصورت لگے گی۔ میں اتنی بھی نہیں پی سکتا، دوست یہ کہہ کر لوٹ جاتا ہے۔
اسی طرح ایک بارجب ماسکو کے معروف تگانسکی تھیٹر کے ڈائریکٹر سے جو خود بھی ایک معروف اداکار تھے اوربدنام تھے کہ تھیٹرکی حدود میں عملے کو پینے کی اجازت نہیں دیتے، سوال کیا گیا کہ کیا وہ خود بھی نہیں پیتے؟ تو انہوں نے کہا تھا،" نہیں میں کسی تقریب میں پی لیتا ہوں، لیکن عورتوں سے معذرت کے ساتھ، پہلا جام اٹھانے سے پیشتر محفل میں موجود سب سے عام صورت کی عورت کو نگاہ میں رکھتا لیتا ہوں، جب وہ مجھے حسین لگنے لگے تو میں پینے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہوں"۔
یہ دخت رز ہے ہی ایسی بلا جو دھوکا دیتی ہے۔ ہر"نہ کی جانے والی" بات کو "کی جانے والی" بنا دیتی ہے اور بالآخر لڑھکا دیتی ہے عملا" ہی نہیں فعلا" بھی۔ برے کاموں میں اعتدال قائم رکھنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد دشوار ضرور ہوتا ہے، شاید اسی لیے ان کاموں کو جن میں اعتدال قائم نہ رکھا جا سکے، مذاہب نے برے کام کہا ہے۔
طغرل کو اس تکلیف دہ واقعے سے بددل ہوکرایک بار پھر وطن لوٹ آنے کی خواہش کو دھتکارنا پڑا تھا۔ وہ پھر سے دیار غیرکولوٹ گیا تھا۔ وہی دن رات کا گھن چکر، وہی بیکاری کی اذیت، وہی گھر سے نکل کر شہر کے مرکز میں جانا اورمفت اخبار اٹھا کر واپس گھر آجانا یوں جیسے:
ہر صبح کا آغاز
یکسانیت کے ملگجے
رنگوں میں کلبلاتے
سوچ پھولوں سے پیوستہ
اپنے آپ کو دھونے
اور دروازے
میں بند ہوتے تالے
کی چابی کی آواز کے ساتھ
پھر ایک ہی سڑک پر
تقریبا" بھاگتے ہوئے قدموں سے
برف چرچراتے
پانی چھنگالتے
میں زیرزمین سیڑھیوں میں
اترجاتا ہوں
جیب سے غیرملکی پاسپورٹ نکال کر
کہ اس کے بغیر چلنا اکارت ہے
کارڈ مشین میں ڈال کر
اور نیچے اتر کر
ریل گاڑی کے دوسرے ڈبے میں
سوارہوکر
لوگوں کے چہروں پر
اپنی یاسیت پڑھتے ہوئے
لڑکیوں اورخوش شکل عورتوں
کی شکلوں میں انجانے
جنسی ہیجان میں
اپنی خواب خواہشوں کا
ملغوبہ مل کر
میں نہ خوش ہوتا ہوں
اور نہ پریشان
پھر دوڑتے بھاگتے
چھپتے چھپاتے
اکڑتے اٹھلاتے
ایک اخبار کو
اس طرح اٹھاتا ہوں
جیسے اخبار نویسوں پراحسان
کررہا ہوں
آدھا اخبارپڑھتا ہوں
آدھا لوگوں میں اپنا
خوف تلاش کرتا ہوں
اورزمین کے پیٹ سے
سیڑھیاں چڑھ کراس کی
ناف تک
اوربالآخر
اس کے سینے پر
دندناتے ہوئے
گھر کے قفل کو
چابی سے، آزاد کر دیتا ہوں
پھر گھرمیں خود قید ہوجاتا ہوں
طغرل کے لیے زندگی ایک کرب بن کررہ گئی تھی۔ وہ خود کو آدھا شخص خیال کرنے لگا تھا۔ بعض اوقات تواسے لگتا تھا جیسے وہ ہے ہی نہیں۔ جس شخص کا سماج میں فعال اورپیداواری کردارنہ ہو اس کا ہونا نہ ہونے جیسا ہی تو ہوتا ہے۔
اسی بیخ و بن میں زندگی گذررہی تھی کہ ایک روزاس کے دوست اظہارخان کا فون آیا تھا۔ اس نے طغرل سے کہا تھا کہ ریڈیو میں ایک جگہ خالی ہے۔ میں نے بات کر لی ہے، تم وہاں چلے جاؤ۔
طغرل نے روسی زبان بس یونہی بول بال کر سیکھی تھی۔ اس کی زبان میں نہ الفاظ زیادہ تھے اور نہ ہی گرامردرست تھی۔ الفاظ کی نشست وبرخواست میں بھی وہ فاش غلطیاں کرتا تھا۔ اس نے حیرت کے ساتھ اظہارخان سے کہا تھا،" یا مجھے ت روسی زبان آتی ہی نہیں، میں وہاں کام بھلا کیسے کر سکوں گا؟"۔ اظہار خان نے اس کی بات پرکان نہیں دھرا تھا اورکہا تھا،" مجھے پتہ ہے تم یہ کام کر لو گے، اس لیے چلے جاؤ"۔ طغرل نے اظہارخان کا شکریہ تک ادا نہیں کیا تھا۔
دوسرے روز بادل ناخواستہ وہ بتائی ہوئی جگہ پہنچ گیا تھا۔ ایک معمرخاتون نے اس کا استقبال کیا تھا اوراپنا نام مارگریتا بتایا تھا۔ وہ بہت اچھی اردو بول رہی تھیں۔ انہوں نے انفارمیشن بیورو سے طغرل کو ایک عارضی انٹری کارڈ دلوایا تھا اوراسے ساتھ لے کرلفٹ میں سوارہو کرساتویں فلورپرلے گئی تھیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“