"مثل برگ آوارہ" کا چودھواں در
کئی ماہ بیت گئے تھے، طغرل نے بس سیاہ فام نٹیشا کے گال پر اچٹتا ہوا بوسہ ہی لیا تھا۔ اسے یوں لگتا تھا جیسے امریکہ میں دوسری جنس عنقا ہو۔ امریکہ کے ہالی ووڈ میں بنی فلموں میں توحسین لڑکیوں کے جمگھٹ کے جمگھٹ دکھائے جاتے ہیں تووہ لڑکیاں کیا ہوئیں؟ گلیوں بازاروں میں جو مخلوق تھی وہ انسان کی بجائے بڑے سے بیف برگرسے زیادہ مشابہ دکھائی دیتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے سب اپنے بدن کا بوچھ اٹھائے ہوئے چلتی تھیں۔
طغرل کا جودوست ماسکو سے آیا ہوا تھا، اس کا ذوق فربہ خواتین سے تعلق باندھنا رہا تھا۔ ایک روزجب طغرل نے اس سے کہا ،"چوہدری تم تو خوش ہوگے یہاں کی موٹی عورتوں کو دیکھ کے" تو وہ ایک لمحے کا توقف کیے بغیر بولا تھا،" نہیں جناب نہیں، یہ موٹی نہیں کہلا سکتیں۔ اس مخلوق کو تو کچھ اورہی نام دینا پڑے گا"۔
طغرل نے ایک بار کسی امریکی سے پوچھا تھا کہ میاں یہ تو بتاؤ کہ وہ ساری نازک اندام حسینائیں کیا ہوئیں جوہالی ووڈ کی فلموں میں دکھائی جاتی ہیں توامریکی نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا کہ امریکہ کا سارا حسن کیلیفورنیا یعنی ہالی ووڈ منتقل ہو چکا ہے۔ طغرل کو یاد آیا تھا کہ ایک بار جب وہ لڑکپن میں اپنے ایک پنجابی زمیندار ہم جماعت کے ساتھ اس کے گاؤں گیا تواس نے ازراہ تفنن اپنے دوست سے پوچھا تھا،"یاروہ کھیتوں اورباغوں میں ناچنے والی لڑکیاں کہاں ہیں جو پنجابی فلموں میں دکھائی جاتی ہیں" اس کے پنجابی دوست نے خبردارکیا تھا کہ مجھ سے تم نے پوچھ لیا، گاؤں میں کسی اور سے مت پوچھ بیٹھنا، کہیں مار نہ کھانی پڑجائے"۔ اسی طرح طغرل نے بہت بعد میں اپنے ایک امریکی دوست کو بتایا کہ جب وہ امریکہ گیا تھا تو یہی سمجھتا تھا اگر کسی لڑکی سے جان پہچان ہو گئی تو صاف گوئی سے پوچھنا کافی ہوگا آیا وہ شریک بدن ہونے پررضامند ہے جس کا وہ اثبات یا انکار میں جواب دے دے گی لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ امریکہ کوئی عرب ملک ہے جہاں عورتیں بس حجاب نہیں کرتیں۔ جہاں سب ایک دوسرے کو دیکھ کرمسکرا دیتے ہیں۔ ہائی کہنے کے بعد بائی کہہ دیتے ہیں۔ باہمی تعلقات بمشکل ہی بن پاتے ہونگے۔ اس پر طغرل کے امریکی دوست نے کہا تھا کہ بھائی میرے ملک کا معاشرہ بہت قدامت پسند ہے۔ ہماری قوم کی جنسی تسکین کا ذریعہ خود لذتی ہے۔
بہرحال حسن توہرجگہ ہویدا ہوہی جاتا ہے۔ جن رشتے داروں کے ہاں طغرل مقیم تھا، ان کی ایک بچی ذہنی طورپرکسی حد تک معذور تھی جس کی دیکھ بھال کی خاطرایک سوشل ورکرآیا کرتی تھی۔ تھی تووہ خاتون یعنی لڑکی نہیں تھی، کوئی اڑتیس چالیس برس کی مگرسمارٹ اورنین نقش کی بہت بھلی۔ طغرل دل سے چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ سلسلہ جنبانی ہوتوامریکہ میں ٹکنے کا سبب بن جائے گا۔ طغرل اس سے باتیں کرتا مگر اس کا رویہ ایسے ہوتا جیسے وہ کسی شریف پاکستانی گھرانے کی خاتون ہو۔ کوئی ایسا اظہار نہ کرتی تھی جس سے ہلکا سا بھی اشارہ مل سکتا۔
ایک اوربات یہ بھی تھی شاید کہ امریکہ میں گورے اوردیسیوں بیچ بہت زیادہ مغائرت ہے۔ ایسی عورتیں خال خال ہیں جودیسی مردوں کے ساتھ بندھن باندھتی ہوں ، وہ بھی یا نچلے طبقے سے یا بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگوں میں سے ۔ مطلب یہ کہ امریکہ طغرل کے لیے سوکھا ساون ثابت ہوا تھا۔
طغرل کی پرورش ایسے خاندان میں ہوئی تھی جہاں مرد رشتے دارآپس میں عورت مرد کے تعلقات بارے باتیں نہیں کرتے مثلا" طغرل نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ جوعمرمیں دو ڈھائی برس چھوٹا تھا کبھی ایسی بات نہیں کی ۔ عاصم جو بھتیجے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا دوست بھی تھا، اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مجرا دیکھ لیا لیکن اگر کہیں معاملہ جنسی حدود میں داخل ہوتا توعاصم خود اٹھ کرچلا جاتا تھا۔
طغرل کے چھوٹے بھانجے کوخیال آیا تھا کہ ماموں امریکہ میں کئی ماۃ سے تجرد کی زندگی بسر کر رہے ہیں چنانچہ ان کی تسکین کا کوئی بندوبست کرنا چاہیے۔ پہلے چپکے سے وڈیو فلمیں پکڑا جایا کرتا تھا یعنی ٹرپل ایکس۔ پھرایک روزطغرل کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر نیویارک شہرلے جاتے ہوئے اس نے کھسیانی مسکراہٹ مسکراتے ہوئے کہا تھا،" ماموں مجھے تویہاں ایسی جگہوں کا پتہ نہیں جہاں لڑکیاں ہوتی ہوں، میں نے ایک بنگالی نوجوان سے کہا ہے جواس ریستوران میں ویٹرہے جہاں میں کام کرتا ہوں۔ آج وہ ہمیں ایسی جگہ لے جائے گا، پھرآپ دیکھ لیں"۔ اس کے کہے کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں تھی۔ نیویارک شہر پہنچ کرایک مقام پرتیزطرارسا خوبصورت بنگالی نوجوان ملا تھا جو گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ نیویارک کی مشہورجگہ جیکسن ہائٹس جو دیسی کھانوں، مٹھائی، ساڑھیوں اوردیسی پوشاکوں کی دکانوں، پان، دیسی موسیقی وغیرہ کے لیے مشہورہے، میں جا کراس بنگالی نوجوان نے ایک سپینش شخص سے بات کی تھی اورپھر پیچھے آنے کو کہا تھا۔ پیدل چلتے ہوئے ایک گھر کے دروازے پر پہنچے تھے۔ ایک مرد نے آ کر دروازے کی زنجیر اتاری تھی۔ پھرسیڑھیاں اترتے ہوئے ایک تہہ خانے میں داخل ہو گئے تھے۔ وہاں ایک غنڈہ شکل ہسپانوی بیٹھا ہوا تھا اورساتھ کی کرسیوں پرچھ نوجوان لاطینی امریکی لڑکیاں مختصرملبوس میں بیٹھی تھیں۔ غنڈہ شکل مرد اونچی آواز میں کہہ رہا تھا، "سات لڑکیاں، ایک مصروف چھ فارغ"۔ اس نے بلند آوازمیں ایسا کہنا شاید تب شروع کیا تھا جب اسے سیڑھیوں سے تین مرد اترتے دکھائی دیے تھے۔ لڑکیوں کی آنکھوں میں التماس تھا کہ ہمیں چن لو۔ طغرل سے یہ غیر انسانی رویہ برداشت نہیں ہو سکا تھا۔ اس نے اپنے بھانجے سے کہا تھا،"چلو، چلو، چلو، نکلو یہاں سے"۔ پیچھے سے "کیا بات ہے، کیا بات ہے؟" پوچھتا ہوا بنگالی نوجوان بھی ان کے ساتھ ہی باہر نکل آیا تھا۔ باہر نکل کر طغرل نے بھانجے سے کہا تھا،" یہ تم مجھے کہاں لے آئے"۔ بھانجے نے سنجیدگی سے کہا تھا،"میرا خیال تھا کہ شاید آپ ۔ ۔ ۔" "مگر اتنے غیرانسانی ماحول میں نہیں جہاں آدمی انسان کو مال کی طرح ہانکیں لگا کر بیچ رہا ہو" اس پرطغرل کے بھانجے نے ہنستے ہوئے کہا تھا،" اگر آپ کسی کے ساتھ چلے جاتے تو وقت تمام ہونے پروہ اس کمرے میں الارم بھی بجا دیتا"۔ بنگالی نوجوان کو کچھ پلے نہیں پڑا تھا کہ ہوا کیا تھا۔ طغرل کے بھانجے نے بس اتنا کہا تھا کہ انہیں کوئی پسند نہیں آئی۔ وہ بہت باتونی نوجوان تھا، بولا کوئی بات نہیں، ہم انکل کو کیلیفورنیا لے جائیں گے۔ طغرل نے پوچھا "لیکن کیلیفورنیا جائیں گے کیسے؟" اس نے جواب دیا تھا،" ام ٹرک سے چلے جائیں گے"۔ طغرل سمجھا تھا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ ہم ٹرک سے چلے جائیں گے۔ طغرل نے کہا کہ میں ٹرک سے نہیں جا سکتا تو طغرل کے بھانجے نے ہنستے ہوئے بتایا تھا کہ بنگالی نوجوان کے کہنے کا مطلب "ایم ٹریک" یعنی امیریکن ریل گاڑی تھا۔
مہمان نوازی کی اس نوع کی روش سے طغرل کا چھوٹا بھانجا مزمل تو خجل تھا ہی طغرل بذات خود زیادہ مضطرب ہوا تھا۔ چھوٹے بھانجے کی جانب سے اس نوع کی مہمان نوازی کی سعی سے نہیں بلکہ یہ جان کر کہ دنیا میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے علم برداراورقانون کی حکمرانی کے داعی ملک ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر کے عین بیچوں بیچ انسانی جسموں کے ساتھ یوں کھلے عام کھلواڑہورہا تھا۔
میکسیکواوردوسرے لاطینی امریکی ملکوں سے ملازمت کا دھوکہ دے کرلائی ہوئی ان لڑکیوں کو جو ماسوائے "سی سی" یعنی ہسپانوی زبان میں "جی جی" کہنے کے کسی اورزبان تا حتٰی انگریزی زبان کا لفظ نہیں بول سکتی تھیں ان کو جسم فروشی کے پیشے میں دکھیل دیا گیا تھا۔ طغرل تووہاں سے بھاگ آیا تھا لیکن کتنے اورلوگ ہونگے جن کی طلب کے سبب انسانی جسموں کا یہ بیوپارچلتا رہتا ہے۔
طغرل کو بیروزگار ہونے سے بہت پریشانی تھی اگرچہ مسعود کہتا رہتا تھا کہ کیا پریشانی ہے جب اللہ چاہے گا توکوئی کام کرنے لگو گے۔ ایک روز اس نے ہنستے ہوئے طغرل کو بتایا تھا کہ اس کے لیے ایک کام نکلا ہے۔ ہے بہت آسان، نہ ٹیکسی چلانے کا نہ سیون الیون پر کام کرنے کا لیکن تم کروگے نہیں۔ یہ کہہ کر اس نے زور زورسے ہنسنا شروع کر دیا تھا۔ طغرل کے استفسار پر بتایا تھا کہ سڑک کی مرمت کے دوران، ٹریفک کو سبز اورسرخ جھنڈیاں دکھانے کا کام ہے۔ نوڈالرفی گھنٹہ معاوضہ ہے۔ پھر خود ہی یہ کہتے ہوئے کہ جھنڈیاں دکھاتے ہوئے کیسے لگو گے؟ کھی کھی کرکے ایک بارپھرہنسنا شروع کردیا تھا۔ "کام ہے اس میں کیسا لگنا اورکیسا نہ لگنا تو کوئی ہنسی کی بات نہیں" مسعود کی بیوی نے کہا تھا لیکن اپنے چچا کی جانب دیکھتے ہوئے خود بھی زیر لب مسکرا رہی تھی۔ طغرل نے با آواز بلند "لاحول" پڑھنے پر اکتفا کیا تھا جس پرمسعود نے سنجیدگی اختیارکرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کونسا تمہیں یہ کام کرنے کوکہہ رہا ہوں، اصل میں میں نے ایک آدمی کے ذمے کام ڈھونڈنے کی ذمہ داری لگائی تھی جس نے آج یہ تجویز دی۔
طغرل کو لگا تھا کہ چاہے مسعود اوراس کی بیوی زبان سے نہ کہتے ہوں لیکن یقینا" وہ چاہتے ہونگے کہ طغرل کوئی کام کرنے لگ جائے۔ اس تجویز کے چند روزبعد اس نے مسعود سے کہا تھا کہ وہ اسے اس سیون الیون پرچھوڑ ائے جہاں وہ ٹیکسی چلانے کے دوران کافی پینے جایا کرتا تھا اور جس پر شاہدرہ کا ایک جوان شخص کام کرتا تھا جوامریکہ آنے سے پہلے وکیل تھا۔ مسعود نے حیرت سے پوچھا تھا کہ تم گیس سٹیشن پرکام کرو گے؟ مسعود کواس لیے حیرت ہوئی تھی کیونکہ جب بیس برس پیشتر مسعود نے امریکہ جانے کی ٹھانی تھی تب اس نے طغرل کو بھی امریکہ جانے پرراغب کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس کا جواب تھا،" میں کتنی خفت محسوس کروں گا جب میں گیس فلنگ سٹیشن پرام کر رہا ہونگا اورمیرا وہ ہم جماعت جو چند سال پہلے امریکہ سدھار چکا تھا اپنی ایس یو وی میں گیس ڈلوانے آئے گا اورمیری اس سے آنکھیں چار ہوں گی " تب طغرل کو یہ نہیں معلوم تھا کہ امریکہ میں عموما" گاہک اپنی گاڑی میں خود ہی پٹرول بھرتا ہے جبکہ گیس سٹیشن پرکام کرنے والا ملحقہ سٹور کے رجسٹر پرکھڑے ہوکرپیسے وصول کرکے پمپ کا بٹن آن کر دیتا ہے۔ طغرل نے مسعود کے سوال کے جواب میں کہا تھا،" کوشش کرکے دیکھتا ہوں"۔
اگلے روزمسعود طغرل کو اپنے ساتھ لے گیا تھا اوراسے سابق وکیل اورموجودہ سیلزمین کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ چند گھنٹے بعد سابق وکیل نے طغرل سے کہا تھا کہ "بروم" (جھاڑو) پکڑکرسٹورکے دروازے کے نزدیک گرے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے سمیٹیں اوررڈسٹ بن میں ڈال دیں۔ طغرل نے زندگی میں کبھی جھاڑو نہیں پکڑی تھی، چاہے ماسکو کا اپارٹمنٹ ہی کیوں نہ تھا، اس نے دل کڑا کرکے ایک منٹ سے بھی کم وقت کا یہ کام کر دیا تھا لیکن اسے ایسے لگا تھا جیسے وہ اوپرکی کسی منزل سے دھڑام سے زمین پر آ گرا ہو۔ رات کو کسی وقت طغرل نے سابق وکیل اورموجودہ سیلزمین اوراپنے حالیہ باس سے پوچھا تھا کہ "فریزر میں بوتلیں کیسے رکھتے ہیں؟" اس نے کہا تھا کہ یہ کام آپ نہ کریں میں خود کروں گا پھروہ ایک دبیزجیکٹ پہن کرفریزرمیں داخل ہوا تھا، اس کے ساتھ طغرل بھی داخل ہو گیا تھا مگرچند سیکنڈ بعد ہی سردی کے باعث "ہو ہو" کرتا باہرنکل آیا تھا۔ صبح تڑکے جب مسعود کافی پینے وہاں پہنچا تو اس نے طغرل سے پوچھا تھا، "اپنے ساتھی کے ساتھ اس کے ہاں جا کررہو گے کہ میرے ساتھ گھر جاؤگے؟" طغرل نے کہا تھا،" میں تمہارے ساتھ جاؤں گا"۔ سابق وکیل نے مسعود سے کہا تھا، "آپ انہیں لے ہی جائیں، انہوں نے چند لمحوں کے لیے جھاڑو پکڑی تھی لیکن ان کے چہرے کے تاثرات دیکھنے والے تھے۔ میرے خیال میں یہ ایسا کام نہیں کر سکیں گے"۔ یوں طغرل لوٹ آیا تھا۔
طغرل نے سوچا تھا کہ بہترہے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا جائے۔ یہاں کی کوئی مناسب ڈگری ہوگی توکوئی بہترملازمت مل سکے گی۔ اس نے مطلوبہ انگریزی کا ٹیسٹ بھی پاس کرلیا اوریونیورسٹی میں داخلے کے لیے وہ اہل بھی قرار دے دیا گیا مگراس نے پھرسوچا کہ تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی تو رات کو ٹیکسی ہی چلانی پڑے گی چنانچہ اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔
ایک روزمسعود کام سے واپس آتے ہوئے کہیں سے نیویارک شہرمیں شائع ہونے والا کوئی اردو اخباراٹھا لایا تھا جس میں طغرل نے پڑھا تھا کہ معروف پاکستانی سیاسی کارکن اوردانشورشخصیت کسی ادبی رسالے کا اجراء کر رہی تھی جس کے لیے نیویارک شہر کے ایک ریستوران میں فلاں تاریخ کو ایک تقریب کا اہتمام کیا جانا تھا۔
طغرل ویسے ہی گھرمیں بیٹھے بیٹھے اوبھ جایا کرتا تھا کیونکہ امریکہ میں کہیں جانے کے لیے گاڑی کا ہونا ضروری تھا۔ نہ تو طغرل کے پاس گاڑی تھی اورنہ ہی اس نے امریکہ میں ڈرائیونگ کا لائسنس لیا تھا۔ کمرے میں بیٹھے بیٹھے اکتا جاتا تو ڈرائنگ روم میں آ بیٹھتا تھا، جب ڈرائنگ روم میں سانس تنگ ہونے لگتی تو وسیع احاطے میں آ کر گھر سے سڑک تک بنے راستے پرمسلسل ٹہل لیا کرتا تاکہ ٹانگیں جمنے نہ پائیں اورجسم سے کم ازکم کولیسٹرول کا اخراج تو ہو سکے۔
اردودان لوگوں کے اکٹھ سے متعلق پڑھتے ہی اس نے اس تقریب میں شریک ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تین روزبعد وہ اخبارمیں بتائے گئے ریستوران پہنچا تھا۔ اس تقریب کا اہتمام کرنے والے جوہر میرصاحب اسے ریستوران کے باہر ہی مل گئے تھے۔ طغرل نے انہیں پہچان لیا تھا کیونکہ ایک زمانے میں جب طغرل لاہور سے شائع ہونے والے ایک نظریاتی رسالے کی ادارت میں شامل تھا تب اس رسالے میں میر صاحب کے کچھ مضامین ان کی تصویر کے ساتھ چھپے تھے۔ طغرل نے اپنا تعارف کروایا تھا، میرصاحب خوش ہوئے تھے، وہ کچھ دیر باتیں کرتے رہے تھے جس کے بعد انہوں نے طغرل سے کہا تھا کہ آپ اندرریستوران میں لوگوں کے ساتھ جا کر بیٹھیں۔
طغرل اندر جا کر انجان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ تھوڑی دیربعد سیاہی مائل سفید داڑھی والا عینک پہنے ہوئے ایک شخص داخل ہوا تھا۔ جب طغرل نے اس کو اوراس نے طغرل کو دیکھا تھا تو دونوں کانوں تک پھیلی مسکراہٹ کے ساتھ ہنسی کے لڈو پھوڑتے ہوئے بازو پھیلائے "تیری تو ۔ ۔ ۔" کہتےہوئے ایک دوسرے کی جانب بڑھے تھے اور بار بار گلے ملے تھے۔ "اوئے طغرل تو یہاں" " اوئے ظفریاب تو یہاں" کہتے اورہنستے ہوئے ان دونوں کی خوشی اورقہقہوں نے باقی سب لوگوں کی توجہ مبذول کرا لی تھی لیکن انہیں کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ بالآخرجب وہ کسی حد تک نارمل ہوئے تو طغرل نے ظفریاب سے پوچھا تھا،" یار مجھے تو معلوم نہیں تھا کہ تم یہاں ہو، تم یہاں کیسے پہنچے؟" ظفریاب نے طغرل سے کہا " ملک دشمنی کے جرم میں ملک بدر ہوکر" اوریہ کہتے ہوئے اس نے اپنا مخصوص قہقہہ بلند کیا تھا۔
ان دونوں کے لیے اب تقریب اہم نہیں رہی تھی۔ ایک کھڑکی کے پردوں کے پاس کھڑے ہوئے وہ تقریب کی کارروائی سننے کی بجائے دیکھتے ہوئے چپکے چپکے آپس میں باتیں کیے جا رہے تھے۔ ظفریاب نے پنجابی زبان میں کہا تھا، "پیوگے؟" "کہاں؟" طغرل نے پوچھا تھا۔ "یہیں اورکہاں" پتہ نہیں طفریاب نے کس وقت پردوں کے پیچھے ایک ادھا چھپا دیا تھا۔ سیون اپ کی بڑی بوتلیں تو ویسے ہی سامنے کی میزوں پر کھل چکی تھیں۔ اس نے ایک ڈسپوزیبل میں سیون اپ ڈالی تھی پھر پردے کے پیچھے سے اس میں وادکا ملا کر گلاس طغرل کوتھما دیا تھا۔ وہ خود پہلے سے ہی ایک گلاس بھرے پی رہا تھا۔
" یہ تم نے پردے کے پیچھے کیوں اورکس سے چھپائی ہوئی ہے؟" طغرل نے حیران ہو کر پوچھا تھا۔
" اس ریستوران کا مالک کوئی مولوی ٹائپ پاکستانی ہے جو الکحل کے سخت خلاف ہے۔ میر صاحب نے منع کیا تھا چونکہ میں بوتل پہلے سے خرید چکا تھا، اس لیے یہاں چھپا دی" وضاحت کرنے کے بعد ظفریاب نے محقل کے خیال سے اپنا مخصوص قہقہہ نہیں لگایا تھا البتہ ہنسا ضرور تھا۔
" تو بڑا ۔ ۔ ۔" باقی بات سمجھنا طغرل نے اس پر چھوڑ دیا تھا۔
" محفل تمام ہو گئی تھی۔ ان دونوں نے میرصاحب سے اجازت چاہی تھی، ہاتھ ملایا تھا اورنکل کھڑے ہوئے تھے۔ ظفریاب نے کہا تھا کہ آج رات اکٹھے بتائیں گے۔
ایک پاکستانی طالبعلم کے اپارٹمنٹ جانے کے لیے وہ چلتے رہے تھے۔ راستے میں ظفریاب نے طغرل کواپنی کتھا سنائی تھی جومختصرا" یوں تھی:" ہندوستان سے ایک ٹیم محنت کش بچوں پر دستاویزی فلم بنانے پاکستان پہنچی تھی۔ میں نے انہیں قالین بافی سے منسلک اوربھٹوں میں کام کرنے والے بچوں سے متعلق معلومات فراہم کی اورایسے بچوں اوران کے والدین سے ملانے میں اس ٹیم کی معاونت کی تھی۔ حکومت نے مجھے دھرلیا اورمجھ پرلک دشمنی اورہندوستان کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگا دیا تھا۔ بین الاقوامی تنظیموں نے شورمچایا تو کہیں جا کرضمانت ہوئی اور پھرمجھے امریکہ نے ٹیچنگ کے لیے یہاں بلا لیا"۔ اس نے طغرل کو بتایا تھا کہ وہ بمنگھٹن یونیورسٹی میں لیکچر دیتا ہے۔ طغرل ڈاکٹرناصرچیمہ سے ملنے اس شہرمیں گیا تھا لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ پاکستان کا منفرد صحافی اوراس کا دوست ظفریاب احمد اسی شہر میں تھا جس سے اسے ملے ہوئے عشرے بیت گئے تھے۔
وہ ٹوین ٹاورز کے نیچے سے گذرتے ہوئے جہاں جانا تھا اس جانب گئے تھے۔ رات بو چکی تھی ورنہ نیویارک کی ان بلند ترین عمارتوں کو دیکھنا چاہیے تھا۔ وہ دونوں اس طالب علم کے گھر پہنچے تھے جو بہت عزت کرنے والا نوجوان تھا۔ وہ رات بھر پیتے اورباتیں کرتے رہے تھے۔ صبح ہو گئی تھی تووہ سڑک پرنکل گئے تھے اور نیویارک کی خالی سڑکوں پر قہقہے لگاتے اورشور مچاتے رہے تھے۔
طغرل کو محسوس ہوا تھا کہ ظفریاب عادی شراب نوش ہو چکا ہے۔ وہ جتنا ہنستا تھا اتنا ہی اپنے اندر ٹوٹا ہوا تھا۔ مگر طغرل کو یقین تھا کہ ظفریاب باہمت شخص تھا اور زندگی سے عرق نچوڑنے کا عادی۔ طغرل اسے جانتا توطالبعلمی کے زمانے سے تھا جب وہ اپنے ہم خیال طالبعلموں سے ملنے یونیورسٹی جایا کرتا تھا لیکن ان دونوں میں یگانگت تب سے بڑھی تھی جب وہ بائیں بازوکے خیالات کو فروغ دینے والے ایک انگریزی مجلے میں کام کیا کرتا تھا۔ طغرل اپنی بیوی کے ہمراہ اکثر اس کے پاس جاتا تھا۔ بعض اوقات جب بیوی ساتھ نہیں ہوتی تھی تو وہ شام گئے دفتر کے کھلے احاطے میں بیٹھ کر پینے کا شغل کر لیا کرتے تھے۔
طغرل کو اتنے عرصے کے بعد ظفریاب کے ساتھ ملنا بہت اچھا لگا تھا اورظفریاب بھی اس اچانک ملاقات سے بے حد خوش تھا۔ کہیں صبح کے سات بجے وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تھے اور طغرل گھر جانے کے لیے نیویارک سنٹرل ریلوے سٹیشن کے لیے روانہ ہو گیا تھا۔
صولت کی مزمل کے ساتھ اورمزمل کی صولت کے ساتھ بالکل نہیں بنتی تھی۔ صولت دیورکو بدتمیزخیال کرتی تھی اوردیور بھابی کوعقل باختہ۔ مزمل جب امریکہ پہنچا تھا تو وہ اپنے بھائی مسعود اوربھابی صولت کے ہاں رہا تھا۔ صولت اپنی کہی پرڈٹ جانے والی اور مزمل کسی کو خاطر میں نہ لانے والا تھا۔ کئی سال پہلے جب مزمل ایک گیس سٹیشن پرکام کرتا تھا تو رات کو سفید فام نسل پرست اسے زدوکوب کرکے تقریبا" مار کرچلے گئے تھے۔ مزمل کئی ماہ ہسپتال میں رہا تھا۔ اس کی کھوپڑی میں سٹیل پلیٹس لگائی گئی تھیں۔ یہ وقت مسعود کے لیے بہت کٹھن تھا۔ اس دوران صولت نے مسعود کا ہرمعاملے میں ساتھ دیا تھا۔ ہسپتال سے فارغ ہو کرطبیعت پوری طرح بحال ہونے تک مزمل بھائی اوربھابی کے ہاں رہا تھا۔ وقت گذرتا گیا تو پھرسے دونوں میں ٹھن گئی تھی۔ مزمل بھتیجوں سے پیار کرتا تھا اوربھائی کی تعظیم چنانچہ آتا ضرور تھا۔ بھابی دیور کی آپس میں بول چال نہیں تھی لیکن خدمت وہ ضرورکرتی تھی۔ کھانا چائے وغیرہ ضرورپیش کرتی تھی۔
صولت کو جیسے بتایا جا چکا ہے سستی خریداری کا خبط تھا، کھانا پکانا کبھی کبھار کرتی تھی۔ باہر سے منگوائی گئی جنک فوڈ یا گھر میں ذخیرہ کردہ ڈبہ بند غذا پر ہی گذارا تھا۔ طغرل کو کھانے پینے کا یہ ڈھنگ نہیں بھاتا تھا چنانچہ بعض اوقات معترض ہو جاتا تھا اورکبھی کبھارغصے کا اظہار بھی کر دیتا تھا، آخر صولت اس کی بھتیجی ہی تو تھی اورعمر میں پانچ چھ سال چھوٹی بھی۔ دوسرے یہ کہ طغرل صولت کے ساتھ گفتگو کے دوران مزمل کی حمایت بھی کر دیا کرتا تھا چنانچہ صولت کو اپنے چچا یعنی طغرل پر بھی بعض اوقات غصہ آ جاتا تھا جس کا اظہار وہ عجیب عجیب طریقوں سے کیا کرتی تھی مثلا" اسی طرح کے غصے میں ایک باراس نے طغرل کا شلوارقمیص کا ایک جوڑا قینچی سے کاٹ کاٹ کر لیروں میں بدل ڈالا تھا اورمزاج درست ہونے پر چچا کو اپنے اس مذموم عمل کے بارے میں بتا بھی دیا تھا۔
طغرل گھر میں بیٹھے بیٹھے بورہوتا تھا۔ صولت کو چچا کا بور ہونا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ معاشی تنگی کے باوجود وہ ایک روز کمپیوٹرخرید لائی تھی اوراسے نچلی منزل کے ایک کمرے میں رکھ دیا تھا، ٹیلفون لائن سے تب بھی انٹرنیٹ میسر تھا۔ اس نے چچا سے کہا تھا،" اب آپ بورنہیں ہونگے، انٹر نیٹ پرسرفنگ کیا کیجیے" ۔ طغرل نے اس کے اس عمل کو بہت تحسین سے دیکھا تھا۔ چونکہ ٹیلیفون ڈرائنگ روم میں ہوتا تھا چنانچہ اس کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے کوئی تین چار میٹر کی ارتباطی تار ہوتی تھی۔ جب بھی صولت کا مزاج بگڑتا وہ کیبل کے کئی ٹکڑے کر دیا کرتی تھی۔ جب طغرل اپنے کمرے سے انٹرنیٹ دیکھنے نیچے آتا تو کیبل کو غائب پاتا۔ البتہ کیبل کے کٹے ہوئے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے ہوتے تھے۔ چند گھنٹوں بعد صولت خود ہی گاڑی چلا کر جاتی، کیبل خرید کرلاتی اور منسلک کردیتی۔ شروع میں طغرل صولت کے ان بچگانہ اعمال پر بہت جھنجھلاتا تھا پھروہ ان کا عادی ہو گیا تھا۔ صولت نقصان بھی خود کرتی تھی اورازالہ بھی خود۔
صولت کا شوہر مسعود بھی غصے میں پاگل ہوجاتا تھا۔ الماریاں الٹا دیتا، چیختا دہاڑتا تاہم اس نے طغرل کو پہلے سے سمجھا دیا تھا کہ جب وہ حالت غیض میں ہو تو اس کے نزدیک نہ آئے۔ غصے کے ایسے دورے یا دورانیے کے بعد وہ ٹوٹی ہوئی چیزیں پھر سے خرید کے لاتا اور انہیں جہاں وہ پہلے رکھی ہوتی تھیں وہاں خود رکھ دیتا تھا، پھر سب کوریستوران لے جا کرکھانا کھلاتا تھا یعنی اس کو اپنا ہر بار کا غصہ ڈیڑھ دوسو ڈالرمیں پڑتا تھا۔
دونوں میاں بیوی فربہ تھے اوردونوں ہی ذیبیطس کے مریض لیکن دونوں شیرینی کھانے کے شیدائی تھے۔ طغرل جو ہمیشہ شیرینی سے احتراز کرتا تھا ماسوائے گاجر کے حلوے کی ایک خاص قسم جسے گاجر پاک کہتے ہیں اورآموں کے، ان دونوں کے ساتھ میٹھا اورمٹھائی کھا کھا کرمیٹھا کھانے کا عادی ہو گیا تھا اوراب تک ہے، ہرکھانے کے بعد کوئی نہ کوئی مٹتھی چیز چاہے میٹھی گولی ہی کیوں نہ ہو وہ ضرور کھاتا ہے۔
صولت کے فراہم کردہ کمپیوٹراوراس سے وابستہ نیٹ ورک سے ہی طغرل پر خدا کی حقیقت اور طرح عیاں ہوئی تھی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ طغرل نے سر پرچوٹ کھانے کے بعد مابعد الطبیعیات اورعلم الکائنات کا گہرا مطالعہ کرنا شروع کر دیا تھا، یوں اس کی کائنات سے متعلق معلومات کے حصول میں دلچسپی بڑھ چکی تھی۔ وہ اس سے متعلق دیگر سائٹس کے علاوہ ناسا کی سائٹ بھی وزٹ کیا کرتا تھا۔ ان دنوں کسی سائنسدان نے نئی کہکشاں دریافت کی تھی جس کا ناسا کی سائٹ پر ذکر درج تھا۔ اس ذکر میں سائنسدان مذکورنے بیان کیا تھا کہ اس کہکشاں کی تنویردیکھ کراسے یوں لگا جیسے اس نے خدا دیکھ لیا ہو۔ چونکہ ایسے مواقع پرساتھ ہی تصویر کا لنک بھی دیا ہوتا ہے چنانچہ طغرل نے تجسس میں اس لنک پر کلک کیا تھا جو تنویرسامنے آئی وہ یقینا" مبہوت کر دینے والی تھی لیکن طغرل کے ذہن میں جوسوال ابھرا وہ یہ تھا کہ "کمپیوٹر" کیا ہے؟ ساتھ ہی سوال ابھرا کہ "چپ" کیا ہوتی ہے؟ اس سوال کے ساتھ ہی ایک اورسوال، کہ "سلیکون" کیا ہے؟ یہ تینوں سوال سیکنڈ کے کوئی لاکھویں حصے میں پیدا ہوئے تھے اورطغرل پریک لخت عقدہ کھلا تھا کہ اوہ "خدا" تو "سوپر سوپرسوپرکمپیوٹر" ہے جو یہاں وہاں کہیں بھی موجود ہے، جس میں تمام جانداروں کا جوتخلیق کائنات کے بعد سے اب تک موجود تھے اورکائنات تمام ہونے تک موجود رہیں گے، کا شعورجمع ہے یعنی "وہ" جو ہے "وہ" " مجموعی شعور" ہے۔ اگر سیلیکون کے ایک ذرے میں دنیا اکٹھی کی جا سکتی ہے تو "اس" میں پوری کائنات کی جاندار مخلوقات کا شعور بھی "سٹور" ہوسکتا ہے۔ اب طغرل نے مزید سوچنا شروع کیا تواسے یوں لگا جیسے دنیا میں خالق کی نمائندگی کے لیے جتنے بھی انسان آئے چاہے وہ فلسفیوں کی شکل میں تھے یا پیغمبروں کی صورت، ان سب نے "اجتماعی شعور" سے جڑت پیدا کرنے کی بات کی تھی۔ ہر کسی نے اس کے ساتھ ارتباط کے اپنے اپنے طریقے بتائے چنانچہ کوئی بھی طریقہ غلط نہیں۔ چونکہ طغرل کو یہ طریقہ نماز کی شکل میں سکھایا گیا تھا اس لیے طغرل نے پھر سے نماز پڑھنے کی نیت کر لی تھی جس پروہ اب تک کاربند ہے۔ اجتماعی شعورسے ارتباط ہوتا ہے یا نہیں اس بارے میں جاننے کے لیے بہت ہی زیادہ ارتکاز خیال درکارہے، اسی لیے وہ اب تک متشکک رہتا ہے کیونکہ وہ بذات خود مناہل کی زبان میں ایک "بے چین روح" ہے۔ یوں طغرل کو امریکہ سے میٹھا کھانے کی عادت اور خدا سے سلسلہ جنبانی کے تحفے ملے تھے۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ جو طغرل کے لیے نیویارک شہر اوراس کے مضافات، ملحقہ ریاستوں نیوجرسی اورمیساچیوسٹس کے قرب وجوار تک محدود تھی، نہ تودلفریب تھی نہ ہی دلکش۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ امریکہ کی سیاسی فضا روس کی نسبت کہیں آزادانہ لگتی تھی مگر اس میں گورے اور دیسی کے دھبے کھٹکتے تھے۔ خزاں اپنے کئی رنگوں کے ساتھ بہت جاذب نظر تھی۔ پھر وہاں کے کچھ مخصوص جانورجوراتوں کو سڑکوں پر آزادانہ گھومتے تھے مختلف طرح کے تھے۔
راتوں کو پہاڑی سڑکوں کے کناروں کی ہریالی میں مختلف طرح کی ہرنوں کی جلدیں گاڑیوں کی روشنیوں میں چمکتی تھیں جبکہ دن کے وقت اس سادہ لوح جانور کے تنومند لاشے سڑکوں پر بے سدھ لیٹے ہوئے تکلیف دہ بھی تھے اورحسین بھی۔ امریکہ میں ہرنوں، قازوں اورمرغابیوں کوشکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں ہرن ہی وہ چوپایہ ہے جو بغیرسوچے سمجھے سڑک عبورکرنے کی کوشش میں مارا جاتا ہے۔ آپ کا لاکھ دل کرتا ہوا کہ ہرن کا گوشت چکھا جائے لیکن آپ اسے گاڑی مارکر زخمی کرکے بھی ذبح نہیں کرسکتے، جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔
ایسا بھی نہیں کہ امریکی کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں یا ان میں انسانیت نام کو نہیں ہے اور وہ حد درجہ مادہ پرست ہیں۔ آخروہ بھی انسان ہیں اوربہت حد تک متمدن بھی اگرچہ ان میں سے بیشتر کو تہذیب قریب سے بھی چھو کرنہیں گذری۔ ریستورانوں میں بیٹھے ہوئے زوردار آواز سے ڈکار لینے تاحتٰی اسی طرح آواز کے ساتھ مقعد سے ہوا خارج کرنے کو وہ معیوب خیال نہیں کرتے۔ ویسے ہی جیسے ایک بار طغرل پاکستان میں ایک رانگڑ دوست ڈاکٹر کے ہاں شب بسری کے لیے ٹک گیا تھا۔ ڈاکٹر موصوف بھی کمپنی دینے کے لیے اسی کمرے میں محو استراحت تھے جس میں طغرل کا بستر تھا کہ انہوں نے امریکی حرکت کر ڈالی تھی۔ طغرل کو اس بدتہذیبی سے بہت جھنجھلاہٹ ہوئی تھی، وہ یہ کہنے سے نہیں چوکا تھا،"یارتم تو ڈاکٹرہو، یہ کیا بدتمیزی کا مظاہرہ کیا تم نے" اس پررانگڑ ڈاکٹربولا تھا،" بھائی میں کیوں روکوں، میرے باپ دادا نے روکا تھا جومیں روکوں"۔
امریکی بلا معاوضہ بھی مدد کرتے ہیں مگرخدمات معاوضے کے بغیرنہیں ہوتیں۔ ایک بارطغرل مزمل کے ساتھ اس کی گاڑی میں نیویارک شہر سے واپنجر فالز کی جانب آ رہا تھا۔ شدید برفباری سے سڑکیں بند ہونے کو تھیں۔ مزمل کی گاڑی برف میں بری طرح پھنس گئی تھی۔ ریس دینے سے یا عقبی گیئر لگانے سے معاملہ مزید بگڑ جاتا تھا۔ سڑک کے دوسری جانب سے دو ایک لوگوں نے گاڑیاں روکی تھیں، گاڑیوں سے نکل کر صورت حالات دیکھی تھی اور پھرموبائل فون پرمدد کے لیے کسی کو اطلاع کی تھی۔ اس کے بعد ہاتھوں کا بھونپو بنا کر زورسے آواز دے کر بتایا تھا کہ پریشان نہ ہوں اور گاڑی نکالنے کی تگ و دو بھی نہ کریں کہیں بیٹری جواب دے جائے گی، ہم نے مدد کے لیے فون کر دیے ہیں۔ مزمل نے ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔ یہ ان کی مہربانی تھی کیونکہ نہ تو تومزمل کے پاس موبائل فون تھا اورنہ ہی طغرل کے پاس۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد کھینچ کر نکالنے والا ٹرک پہنچا تھا۔ ٹرک کچھ فاصلے پر رک گیا تھا۔ ڈرائیور نے دروازہ کھول کر پہلا سوال کیا تھا،" کیا آپ کے پاس ادائیگی کے لیے پیسے ہیں" مزمل نے نفی میں جواب دیا تھا۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا آپ کے پاس کریڈٹ کارڈ ہے، جس کا جواب مزمل نے اثبات میں دیا تھا۔ ٹرک والا ٹرک کو نزدیک لے آیا تھا اور ایک منٹ میں گاڑی کو کھینچ کرصاف سڑک پر کھڑا کر دیا تھا۔ کریڈٹ کارڈ سے اسی ڈالر منہا کیے تھے اور چلا گیا تھا۔ طغرل نے مزمل سے پوچھا تھا کہ اگر کریڈٹ کارڈ نہ ہوتا تو کیا مددگارٹرک والا چلا جاتا، جس کے جواب میں اس نے کہا تھا،"تو اورکیا بالکل واپس چلا جاتا"۔
لیکن عام لوگ ماسوائے نقلی مسکراہٹیں مسکرانے کے دوستی بڑھانے کی جانب راغب نہیں ہوتے۔ کام سے کام رکھتے ہیں۔ دنیا سے متعلق ان کی معلومات عموما" ناقص ہیں۔ تب تک بہت زیادہ امریکیوں کو پتہ نہیں تھا کہ پاکستان کہاں واقع ہے اورآیا اس نام کا کوئی ملک ہے بھی یا نہیں۔ اس سارے ماحول میں طغرل کو لگتا تھا کہ اس نے امریکہ آ کرکے غلطی کی ہے۔ اسے ڈاکٹرناصرچیمہ کی کہی بات اکثر یاد آتی تھی کہ امریکہ ان لوگوں کے لیے بہت اچھا ہے جن کے پاس مناسب روزگار ہے اوران کے لیے بہت برا جن کوروزگار میسّر نہیں آتا۔ ویسے تو یہ بات دنیا کے سارے ملکوں کے بڑے شہروں سے متعلق درست ہے۔ اپنے ملک میں ہرشہرمیں آپ کو کوئی نہ کوئی شناسا مل جاتا ہے یا شناسا بن جاتا ہے۔ مجبوری میں دوچار روز کہیں ٹکنے کا بندوبست ہوجاتا ہے اورکھانا بھی روکھا سوکھا سہی مل جاتا ہے لیکن دیار غیرمیں اپنے بھی اپنے بننے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ وہ بے اعتنائی کا مظاہرہ نہیں کررہے ہوتے بلکہ وہاں کے معروضی حالات ہی ایسے ہوتے ہیں۔ گھر بڑے نہیں ہوتے چنانچہ مہمان کو زیادہ دیر ٹھرانا مشکل ہوتا ہے۔ ہرایک کوکام کرنا پڑتا ہے یوں لوگ خواہ مخواہ کمپنی دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ کوئی گھرپرپڑا روٹیاں توڑتا رہے، مشقت کرنے والے میزبانوں کو یہ بھی اچھا نہیں لگتا۔ البتہ طغرل کو اپنے میزبانوں کا ماموں اورچچا ہونے کا فائدہ تھا کہ وہ بنا کام کیے رہے چلا جا رہا تھا بلکہ میزبان اسے جانے نہیں دے رہے تھے۔
طغرل نے مسعود کے مشورے پر چھ ماہ کی انٹری تمام ہونے سے ایک ماہ پہلے ویزا بڑھانے کی درخواست دے دی تھی۔ جب تک ویزا نہ بڑھائے جانے کا جواب موصول ہوا تب ویسے ہی طغرل کو امریکہ آئے نوماہ ہو چکے تھے۔ یہ اس کے لیے امریکی اداروں کی کارکردگی کا ناقص ترین تجربہ تھا۔ طغرل کسی بھی ملک میں غیر قانونی قیام کے حق میں نہیں چنانچہ اس نے حتمی طور پرروس واپس جانے کا اعلان کردیا تھا۔ مسعود نے لاکھ کہا کہ امریکہ میں بہت زیادہ لوگ شروع شروع میں غیر قانونی طورپرہی رہتے ہیں مگرطغرل نہیں مانا تھا۔ طغرل کے پاس پیسے بھی نہیں تھے اوروہ بھانجوں سے مانگتے ہوئے بھی خجالت محسوس کرتا تھا۔ اسی اثناء میں مسعود اورمزمل کے والد صاحب یعنی طغرل کے بہنوئی اور ماموں زاد کے شدید مریض ہونے کی اطلاع ملی تھی۔
امریکہ میں چونکہ بیشتر لوگوں کو خوشحالی کا گمان ہوتا ہے۔ اخراجات اکثر کریڈٹ کارڈوں کی مدد سے اٹھائے جاتے ہیں، جس قرضے کو بمع سود کے ادا کرنا ہوتا ہے۔ قرض اورسود کے اس نظام سے شاید ہی کوئی ہوجو بچ پاتا ہو۔ ایسے میں جب میزبان بھائیوں کے والد صاحب شدید علیل تھے، کسی کو بھی پاکستان جانا پڑسکتا تھا اس لیے طغرل نے اپنے جانے سے متعلق چپ اختیار کرنے کو مناسب جانا تھا۔ کبھی ان کے والد کی طبیعت بہتر ہو جانے کی اطلاع ملتی تھی اورکبھی خراب ہوجانے کی۔ امریکہ سے کام چھوڑ کرنکلنا بھی کوئی آسان نہیں ہوتا۔ مہنگے ٹکٹ کے علاوہ اس کمائی کا بھی نقصان ہوتا ہے جو کام کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ دونوں بھائی جانے سے متعلق ڈھلمل یقینی کا شکار رہے تھے۔ طغرل کے زور دینے پر بالآخر مسعود نے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ صولت نے تحفوں سے بھرے کوئی تین بڑے بڑے سوٹ کیس اس بیچارے کے ہمراہ کر دیے تھے۔ لان میں ترازو رکھی گئی تھی تاکہ سوٹ کیسوں کا وزن کیا جا سکے۔ یہ جھاڑ جھنکار لے جانے کو مسعود کا بالکل دل نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ بیماروالد کی عیادت کی خاطر جا رہا تھا مگرصولت کا کہا نہیں موڑسکتا تھا کیونکہ صولت کا موقف تھا کہ کونسا اکثرپاکستان جانا ہوتا ہے۔ جب جانے کا موقع ملے تو جو لے جا سکتے ہو لے جاؤ۔ مسعود سوٹ کیسوں سے لدا پاکستان روانہ ہو گیا تھا۔
ان ہی دنوں ایک نیوز چینل پرخبریں سنتے ہوئے طغرل کی آنکھیں، حیرت اور ایک انجان قسم کی خوشی کے احساس کے ساتھ پھیل گئی تھیں۔ یمن کی بندرگاہ میں لنگراندازامریکی بحریہ کے ایک جنگی جہاز پر کچھ لوگوں نے ایک کشتی کے ذریعے خود کش حملہ کیا تھا۔ تب تک بین الاقوامی دہشت گردی کی اصطلاح وضع نہیں ہوئی تھی۔ امریکہ کی فوج کے خلاف کی گئی دہشت گردی کوچھاپہ مار جدوجہد خیال کیا جاتا تھا۔ طغرل کوخوشی کا جو احساس ہوا تھا وہ اسی لیے کہ کسی نے امریکی ہاتھی کی سونڈ پہ بھی کاٹا تھا چاہے وہ سونڈ پرسوئی چبھنے جتنی ہی تکلیف کیوں نہ تھی۔ اس خبرمیں پہلی بار"القاعدہ" نام کی کسی جنگجو تنظیم کا ذکرہوا تھا مگرتب یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس تنظیم کا سربراہ امریکہ کا ہی پیدا کردہ مجاہد اعظم اسامہ بن لادن تھا۔
ویسے بھی ان دنوں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہو رہے تھے۔ ڈیموکریٹس کی جانب سے کلنٹن کیے دورصدارت کے نائب صدرالگورمیدوار تھے جبکہ ریپبلیکن کی جانب سے جارج بش جونیر۔ لگتا یہی تھا کہ الگورجیت جائیں گے مگرجارج بش کی پوزیشن بھی کمزورنہیں تھی۔ طغرل کو موقع میسّر آ گیا تھا کہ امریکہ کے انتخابات کا جائزہ لے۔ امریکی میڈیا کی ایک خوبی ہے کہ اگر تمام نہیں تو دونوں بڑی پارٹیوں کواپنے موقف، اپنے سروے اوراپنے جائزے پیش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے یوں ضرورت نہیں رہتی کہ کوئی گراؤنڈ پہ جا کرلوگوں کے تاثرات لے اورنتیجہ اخذ کرے تاحتٰی بین السطوردیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، سب کچھ عیاں ہوتا ہے۔ طغرل کی ہمدردیاں لا محالہ الگور کے ساتھ تھیں اگرچہ الگور کی زیادہ توجہ ماحولیات کے معاملات پرتھی۔ بش کی جانب رغبت نہ ہونے کا ایک سبب ریپبلیکنزکا کنزرویٹیو ہونا تھا دوسرا سبب خود بش جونیر کے غیرسنجیدہ جوابات و بیانات اورہونقانہ سی مسکراہٹ تھی۔
ایک شام طغرل ماسکوسے آئے اپنے دوست سے ملنے گیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ آج کچھ دوستوں کے ہمراہ اٹلانٹک سٹی جانے کا ارادہ ہے۔ اٹلانٹک سٹی سے متعلق طغرل کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس شہر کی وجہ شہرت کیا تھی، یقینا" اس کے دوست کو بھی معلوم نہیں تھا تاہم اسے اس کے دوستوں نے جو کچھ بتایا تھا وہ اس نے طغرل کو بھی بتا دیا تھا کہ وہاں ایک بہت بڑا اورمشہورکسینو ہے۔
جوا خا نوں کے لیے امریکہ میں لاس ویگاس مشہور ہے مگر وہ بہت دور تھا نہ ہی طغرل کو جوا کھیلنے کا شوق تھا۔ اس نے اگرکبھی کھیلا بھی تو ہارا تھا لیکن اس نے اس ہارکوڈیڑھ دوسو ڈالرسے کبھی بڑھنے نہیں دیا تھا۔ ہاتھ کھینچ لیا کرتا تھا۔ جوا یقینا" ایک لت ہے۔ باوجود یہ بات جانتے ہوئے کہ جوا خانے تعمیر کرنے والے اوراس کا انصرام کرنے والے احمق نہیں ہوتے، ظاہر ہے انہیں فائدہ ہوتا ہے تووہ ایسا کرتے ہیں اوریہ فائدہ لوگوں کے رقوم ہارنے کے سبب ہی ہوتا تھا کیونکہ جوا خانوں میں ہارنے والوں کا ہارا ہوا سارا پیسہ جیتنے والوں کی جیب میں نہیں جاتا بلکہ اس کا ایک بڑا حصہ جوا خانے کے حصے میں آتا ہے، لوگ شدو مد کے ساتھ جوا کھیلتے ہیں اورہارنے کے بعد بھی سمجھتے ہیں کہ وہ جیتیں گے۔ اس لت میں بڑے بڑے معروف لوگ بھی مبتلا رہے ہیں جیسے کہ مرزا غالب جو بہرحال کسینو میں نہیں کھیلتے تھے کیونکہ ان دنوں کسینو نہیں ہواکرتے تھے چنانچہ وہ گلی کے کسی برآمدے میں یا کسی کے ڈیرے پر کھیلتے ہونگے جہاں جیتنے والوں کوڈیرے کے مالک کونعل دینی ہوتی ہے یعنی جیتے ہوئے پیسوں میں سے کچھ حصہ۔ ہرعہد کے معروف روسی ناول نگار فیودر دستاییوسکی (دوستووسکی) جرمنی کے شہر بادن بادن کے جوا خانوں میں سب کچھ ہارکراکثرقلاش ہو جایا کرتے تھے۔ ماڈرن کسینووالوں کا اصول ہے کہ داؤ پرلگائی گئی تمام رقوم کا کم ازکم چالیس فیصد جوا خانے کو حاصل ہو۔ ایسا کیونکر کیا جاتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے کسینو کے مقبول ترین کھیل "رولیت" کو لیتے ہیں جس میں میز کے ایک سرے پر ایک دائرے میں خانے بنے ہوتے ہیں اوراس دائرے کے اندرایک راڈ مسلسل گھوم رہی ہوتی ہے۔ میزپر بنے ہوئے خانوں میں وہی نمبر لکھے ہوتے ہیں جو گھومنے والے دائرے میں درج ہوتے ہیں۔ ایک شخص گول دائرے میں بنے ایک مدورخانے میں مہارت کے ساتھ ایک ٹینس بال کو گھماتا ہے، بال گھومتے گھومتے بالآخر ایک خانے میں گرتی ہے اوررک جاتی ہے۔ میز پراگر اس نمبر کے خانے میں پیسے جو پلاسٹک کے سکوں کی صورت میں ہوتے ہیں، رکھے ہوں تو جس کے پیسے ہونگے اس کو ستائیس گنا مل جائیں گے لیکن باقی کئی خانوں میں رکھی گئی رقوم جوا خانے کو چلی جائیں گی۔ اس عمل پر نگاہ رکھنے کی خاطر دائرے کے سامنے ایک اونچی کرسی پرایک مرد یا عورت منصف بیٹھا ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ خانہ ستائیس گنا دینے والا ہی ہو۔ ڈیڑھ گنا، دو گنا اورچار گنا والا بھی ہو سکتا ہے۔ پھربالکل بھی ضروری نہیں کہ جس خانے پر گیند رکی ہو اس نمبر کے خانے میں کسی کی رقم داؤ پرہو بھی سہی، وہ خانہ خالی بھی رہ سکتا ہے۔ یوں میز پررکھے تمام پیسے جوئے خانے کو چلے جاتے ہیں۔ ایک عام کسینو میں "رولیت" کی دسیوں بیسیوں میزیں ہوتی ہیں، چنانچہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جوئےخانے کو کتنا پیسہ جاتا ہے۔ اسی پیسے میں سے وہ عملے کی تنخواہیں، ممبران کے لیے مفت اکل و شرب کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
مگر اٹلانٹک سٹی میں تاج محل نام کے جس جوئے خانے میں تین کاروں میں بھرے ہوئے یہ لوگ پہنچے تھے زیادہ نہیں تو کم از کم ایک ایکڑمیں توضرورپھیلا ہوا تھا۔ اس میں رولیت کی میزوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جانا مشکل تھا۔ یہ کسینو امریکہ کے معروف ریئلیٹی ٹائکون ڈونلڈ ٹرمپ کی ملکیت تھا۔ یہ جوا خانہ بہت خوبصورت بنا ہوا تھا مگر کہنے والے کہتے تھے کہ یہ لاس ویگاس کے جوا خانوں سے اپنی تزئین اوررقبے کے حوالے سے کہیں کم ہے۔
یہ جوا خانہ محض جوا خانہ نہیں تھا بلکہ سیرگاہ تھی۔ بہت زیادہ لوگ جن میں بچے اورخواتین بھی شامل تھے اس جوا خانے میں محض سیرکرنے پہنچے ہوئے تھے۔ شلواروں قمیصوں میں ملبوس بہت زیادہ ہندوستانی خواتین راہداریوں میں گھومتی دیکھنے کو مل رہی تھیں۔ اس کسینو میں ہرطرح کی شراب جتنی چاہیے مفت پیش کی جاتی ہے۔ لڑکیاں پھررہی تھیں، آپ آرڈردیتے تھے وہ لا کر پیش کر دیتی تھیں۔ ضروری نہیں کہ آپ جوا کھیل بھی رہے ہوں البتہ یہ ضروری تھا کہ آپ جوئے کی میزوں کے احاطے میں موجود ہوں۔
اٹلانٹک سٹی امریکہ کی ریاست نیوجرسی میں بحیرہ اوقیانوس کے ساحل پر واقع ہے۔ جن کے ہمراہ طغرل پہنچا تھا وہ لوگ جوا خانے سے صبح کاذب کے وقت نکلے تھے۔ صبح صادق ہوئی تو وہ ناشتہ کرنے کی خاطرراستے میں ایک فاسٹ فوڈ جوائینٹ پررکے تھے۔ وہاں رجسٹرپرموجود لڑکی کی آنکھیں دیکھ کرطغرل کو یوں لگا تھا جیسے وہ ان میں ڈوب کررہ گیا تھا۔ سترہ اٹھارہ برس کی کسے ہوئے جسم والی یہ لڑکی انتہائی قبول صورت تھی۔ خوش اخلاق اورخوش اطواربھی۔ وہ شکل سے نہ توسفید فام لگتی تھی نہ ہی ہندوستانی۔ کوئی خاص قسم کی ملاحت تھی اس کے نقوش اوررنگ میں۔ طغرل سے رہا نہیں گیا تھا اس نے اس سے پوچھ لیا تھا کہ وہ کون تھی۔ وہ ایک سکھ