" مثل برگ آوارہ" کا تیرہواں در (دوسرا حصہ)
چھوڑیں ماضی کی باتوں کو، حال کے انفاس میں لوٹتے ہیں۔ طغرل نیویارک شہر کے مرکز سے گرے ہاؤنڈ بس میں سوارہوا تھا۔ سفر کے دوران شہرفلاڈلفیا راستے میں پڑا تھا جہاں بس چند منٹوں کے لیے رکی تھی۔ یہ شہر طغرل کی آنکھوں میں بس گیا تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی کچھ معلوم نہیں شہرکا جومنظرنامہ اس کے سامنے تھا جس میں چلتے پھرتے لوگ بھی شامل تھے، نے یہ تاثر قائم کیا تھا۔ وہ تو بہت دیر بعد جب طغرل نے فلم "سکستھ سنس" دیکھی تواس پرشہر فلاڈلفیا کا روپ مزید کھلا تھا۔ محبت کے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں، پل بھر میں ہوجاتی ہے اورعمربھراس سے شناسائی نہیں ہو پاتی جس سے محبت محسوس ہوئی تھی۔ پانچ گھنٹے کے بعد وہ پینسلوانیہ کے اس شہر میں پہنچا تھا جہاں ظہیر چوہدری نے اسے لینے آنا تھا۔
ظہیرچوہدری طغرل کو لینے پہنچا ہوا تھا۔ لمبا تڑنگا، ایک ٹانگ سے ہلکا سا لنگ مارتا ہوا، سیاہ پلاسٹک سے بنے سستے فریم کی موٹی عینک لگائے، کبھی کبھار کرائے کی سائیکل کے ایک ہینڈل کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے کبھی انتہائی سنجیدہ توکبھی یک لخت فلک شگاف قہقہے لگانے والا ظہیر چوہدری اب مہنگا ملبوس زیب تن کیے، سنہری فریم والی قیمتی عینک لگائے، ایک سیاہ رنگ کی بڑی سی ایس یووی یعنی سپورٹ یوٹیلیٹی وہیکل پر آیا تھا، جسے ہمارے ہاں لینڈ کروزر، پراڈو وغیرہ کہا جاتا ہے۔ جب وہ طغرل سے بغل گیر ہونے کے لیے اترا تھا توطغرل نے دیکھا کہ اس کے جوتے بھی کپڑوں سے میچ کرتے ہوئے مہنگے جوتے تھے۔ طغرل کی آنکھوں کے سامنے ایک لمحے کے لیے اس کے اس دورکے مٹی میں اٹے بوٹ آ گئے تھے، جو بوسیدہ اور کہنہ ہوتے تھے۔ طغرل کو خوشی ہوئی تھی کہ اب اس کا دوست آسودہ ہال تھا۔ گاڑی میں سوارہونے کے بعد طغرل نے سگریٹ سلگانا چاہی تھی تو ظہیر چوہدری نے اسے یہ کہہ کرروک دیا تھا کہ اسے کچھ عرصہ پیشتر "ایمفائسیما" ہو گیا تھا اس لیے اب وہ سگریٹ کے دھوئیں سے بچتا ہے۔ یہ بھی اچھی بات تھی کیونکہ ظہیر چوہدری ریل کے انجن کی مانند مسلسل دھواں چھوڑا کرتا تھا یعنی وہ اس سے پہلے چین سموکر تھا۔
تھوڑی دیرکے بعد ظہیرچوہدری نے اپنی گاڑی ایک سٹور کے سامنے روکی تھی۔ یہ ظہیرچوہدری کا ہی سیون الیون سٹور تھا۔ امریکہ میں سیون الیون ایسے جنرل سٹورز کو کہا جاتا ہے جو ایک زمانے میں صبح سات بجے سے رات گیارہ بجے تک کام کیا کرتے تھے لیکن اب چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے سامنے پٹرول پمپ ہوتے ہیں لیکن ظہیرکے سٹور کے سامنے پٹرول پمپ نہیں تھا۔ ایسے بیشتر سٹورپاکستانیوں اورہندوستانیوں کی ملکیت ہیں۔ طغرل اورظہیرچوہدری سٹور کے عقب میں موجود دفتر میں جا بیٹھے تھے۔ سٹورپراس وقت دونوجوان کام کررہے تھے۔ ان میں ایک کے بارے میں ظہیرچوہدری نے بتایا تھا کہ وہ اس کا بیٹا تھا جو پاکستان میں اس کی پہلی بیوی سے تھا جس کے ساتھ اس کی طالبعلمی کے زمانے میں شادی ہو گئی تھی لیکن نبھ نہ سکی تھی۔ ظہیر چوہدری نے طغرل سے کہا تھا کہ اگر تم سرمایہ داری نطام کی چالاکیاں گرفت میں لے لو جو تمہارے جیسے ذہین شخص کے لیے بالکل بھی مشکل نہیں تو تم امریکہ میں سربرآوردہ ہو سکتے ہو۔ پھر ظہیرچوہدری اپنے پہلے بیٹے کے جنسی ہیجانات اوراس کی جانب سے پیدا کردہ مسائل سے متعلق بتاتا رہا تھا۔ یہ بھی بتایا تھا کہ اس نے اپنے اس بیٹے کو دوسرے کام کرنے والوں کے ساتھ ایک علیحدہ گھر کرائے پر لے کردیا ہوا تھا۔ پھر اس نے اپنا فلسفہ بگھارنا شروع کر دیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں آجر مالک ہوتا ہے اورکام کرنے والا اس کا غلام۔ "یہ جو کام کر رہے ہیں یہ سب میرے غلام ہیں"۔ "تمہارا بیٹا بھی؟" طغرل نے طنزا" پوچھا تھا جس پر ظہیرچوہدری نے سنجیدگی کے ساتھ کہا تھا،" ہاں وہ بھی"۔ طغرل نے بات کا رخ موڑنے کی خاطر پوچھا تھا " الیاس شاہد بھی تو یہاں امریکہ میں تھا؟" الیاس شاہد ان کا مشترکہ دوست تھا، جس زمانے میں ظہیرچوہدری نے طغرل کو بائیں بازو کے طلباء کی تنظیم کھولنے کی جانب راغب کیا تھا تب وہ اس تنظیم کا کنوینرہوا کرتا تھا۔ ان دنوں وہ پاکستان میں ایک بین الاقوامی تنظیم کے ایک شعبے کا ڈائریکٹر تھا۔ ظہیرچوہدری نے منہ بنا کر کہا تھا،" ہاں الیاس شاہد کو بھی میں نے یہاں نوکری دی تھی، وہ بھی میرا غلام رہا تھا"۔ اس کے لہجے میں تفنن کی بجائے تضحیک کا زیادہ عنصر تھا۔ طغرل کی امید پرپانی پھرگیا تھا۔ وہ تویہ سوچ کرآیا تھا کہ چلو دوست ہے، اتنے اصرار پر بلایا ہے، کچھ عرصہ ایڈجسٹ کر لے گا۔ تاہم ظہیرچوہدری نے اسے ایک مشورہ دیا تھا کہ وہ کسی اچھی یونیورسٹی سے مارکیٹنگ میں ماسٹرزکرلے تو اس کے لیے کام کے امکانات زیادہ ہونگے۔
شام کو ظہیرچوہدری طغرل کو اپنے گھر لے گیا تھا اگرچہ شام ہونے تک طغرل کو کھٹکا لگا ہوا تھا کہ وہ اسے اپنے بیٹے کے ہاں نہ ٹھہرا دے۔ ظہیرچوہدری 1970 کی دہائی کے اواخر میں کسی طرح جرمنی چلا گیا تھا۔ اس کی موجودہ بیوی مشرقی جرمنی سے ایک نہایت مناسب خاتون تھیں۔ ان کے دو بیٹے تھے، دونوں بیٹوں کے نام مغربی طرز کے تھے مارک اور مارٹن البتہ ان کے ساتھ فرید شکر گنج کے حوالے سے فرید کا سابقہ لگایا گیا تھا۔ ظہیرچوہدری نے اپنے چھوٹے بیٹے کے بارے میں ہنستے ہوئے بتایا تھا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو وہ پاکستان کے معروف سیاستدان اوربیرسٹرسے اپنے بوٹ کے تسمے ضد کرکے بندھویا کرتا تھا جو ظہیرچوہدری کے ہاں بطور مہمان آتے تھے۔
طغرل کو سونے کی جگہ تہہ خانے میں دی گئی تھی جو بہت آراستہ تھا۔ طغرل اورمیزبان وہسکی پیتے رہے تھے۔ میزبان خاتون خانہ نے گھر کے دروازے کے باہرایک ایش ٹرے رکھ چھوڑی تھی تاکہ طغرل باہرجا کرسگریٹ پی سکے۔ طغرل دوایک بارسگریٹ پینے باہرگیا تھا مگرشدید سردی کے باعث ہربار چند کش لگا کر لوٹ آیا تھا۔ طغرل کی جانب سے شراب کی مزید طلب کی خواہش اورفون کارڈ کے معاملے پرظہیر چوہدری نے کچھ تلخ فقرے کہے تھے۔ طغرل خاموش رہا تھا۔ اگلے روز دوپہرمیں ظہیرچوہدری کی اہلیہ نے طغرل سے پوچھا تھا،" کیا آپ سپاگیٹی کھاتے ہیں"۔ " نہیں مجھے پسند نہیں ہے" طغرل نے جواب میں کہا تھا۔ خاتون نے کہا تھا،" اوہو، میں نے تو سپاگیٹی ہی بنائی ہے" اس پر طغرل بولا تھا،" کوئی بات نہیں، میں کھا لوں گا"۔ سپاگیٹی کا ظہرانہ کھانے کے بعد جب وہ دونوں سٹور کے لیے روانہ ہوئے تو ظہیرچوہدری نے کہا تھا،" طغرل تم ملک سے باہررہ کربھی فیوڈل ہی رہے"۔ "کیوں، تمہیں ایسا کس لیے محسوس ہوا؟" طغرل نے پوچھا تھا۔ اس کے جواب میں ظہیرچوہدری نے اپنی اہلیہ کا نام لے کر کہا کہ اس نے پوچھا تھا آیا تم سپاگیٹی کھاؤ گے اورتم نے انکار کر دیا، مغرب میں عورتوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جانا معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ اب معاملہ طغرل کی برداشت سے باہر ہو چکا تھا، وہ پھٹ پڑا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ تمہاری بیگم نے پہلے یہ نہیں بتایا تھا کہ اس نے سپاگیٹی بنائی ہے بلکہ ایک عمومی سوال کیا تھا جس کا جو جواب بنتا تھا وہ اس نے دے دیا تھا۔ اگر وہ پہلے کہتی کہ میں نے سپاگیٹی تیار کی ہے، کیا آپ کھائیں گے؟ تو لامحالہ اس کا جواب اثبات میں دیا جاتا۔ طغرل نے الٹا اسے سنا ڈالی تھیں کہ یہاں آ کرتمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تم نے کل سے کوئی ڈھنگ کی بات کی ہی نہیں۔ جب وہ سٹور پراترکر دفتر میں گئے تو وہاں ظہیر چوہدری کے دو پاکستانی دوست پہلے سے آئے ہوئے تھے۔ عمومی گپ شپ شروع ہو گئی تھی۔ جب جذبات کی جھاگ بیٹھ گئی تو طغرل نے کہا تھا، "یارظہیربس کے ٹکٹ بارے پتہ کرو، میں آج واپس جانا چاہتا ہوں"۔ آئے ہوئے مہمانوں نے کہا تھا کہ شام کوآپ ہمارے ساتھ کھانا کھائیں کل چلے جانا لیکن ظہیرنے کوئی بات نہیں کی تھی بس اتنا کہا تھا کہ یہاں ٹکٹ آسانی سے مل جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ نیویارک کے لیے روانہ ہونے والی بس کا وقت معلوم کرو۔ گاڑی کو ایک گھنٹے بعد روانہ ہونا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد ظہیرچوہدری اوراس کے دونوں دوست مل کرطغرل کو چھوڑنے گئے تھے۔ طغرل ظہیر چوہدری سے ناطہ توڑ کر نیویارک کے لیے روانہ ہو گیا تھا۔
ظہیرچوہدری نے طغرل کو اصرار کرکے بلایا تھا اوررشتے کے ایک بھائی نے جب طغرل کے تقاضے پردعوت نامہ اوراپنے ٹیکس کے کاغذات کی نقول ارسال کی تھیں تو لکھا تھا "تم ایک بار آ جاؤ، پھر ہم تمہیں جانے نہیں دیں گے"۔ ظہیر سے بددل ہونے کے ایک ڈیڑھ ہفتے بعد طغرل نے رشتے کے بھائی سے ملنے کا قصد کیا تھا۔
دوسرے شہرجانا ہو یا نیویارک کی کسی اوربورو (علاقے) میں، جانا نیویارک شہر کے کسی ایک ریلوے سٹیشن سے ہی ہوتا ہے۔ اس بار طغرل جس ریل گاڑی پر سوار ہوا تھا اس کے ڈبے دو منزلہ تھے۔ ایسی ریل گاڑی طغرل نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ وہ خاص طورپرزینہ چڑھ کے دوسری منزل پر جا بیٹھا تھا۔ ایک گھنٹے کے بے آوازسفر کے بعد ریل گاڑی اس ریلوے سٹیشن پرجا رکی تھی، جہاں طغرل کے رشتے کے بھائی نے اسے اتر جانے کو کہا تھا، جہاں سے انہوں نے آ کر لینا تھا۔ یہ سٹیشن کھلا تھا اورزمین سے کچھ اونچا۔ دونوں اطراف میں ڈیڑھ فٹ اونچی دیوار تھی، جس سے باہرکا علاقہ آرام سے دیکھا جا سکتا تھا۔ طغرل کو ابھی کوئی لینے نہیں پہنچا تھا۔ سٹیشن پر طغرل کے علاوہ ایک سیاہ فام نوجوان لڑکی تھی جو خاصی بنی ٹھنی ہوئی تھی۔ طغرل نے اس سے بات چیت شروع کر دی تھی۔ طغرل امریکہ میں صنف نازک سے اختلاط کے مواقع نہ ہونے سے اکتایا ہوا تھا۔ کہاں ماسکو جہاں جس سے چاہے بات کرو، جتنی کرواورجیسے کرو، کہاں نیویارک، سب جھوٹ موٹ مسکراتے ہوئے مگرلیے دیے، کام سے کام رکھے ہوئے۔ سیاہ فام لڑکی بھی اپنی ٹرین کے انتظار میں شاید بورہو رہی تھی۔ اس نے بھی خوش اخلاقی کے ساتھ باتیں کرنا شروع کر دی تھیں۔ اس نے اپنا نام نیٹیشا ( نتاشا) بتایا تھا۔ "میرے اللہ، یہاں بھی نتاشا" طغرل نے سوچا تھا۔ خیرروس میں نتاشا نام نہیں کنیت ہے اصل نام نتالیا ہوتا ہے مگرامریکہ میں نیٹیشا ہی پورا نام تھا۔ نیٹیشا طالبعلم تھی۔ طغرل وقت گذاری کے لیے بات کر رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ نہ تووہ نیویارک شہرباربارپہنچ سکتا تھا اورنہ ہی نیٹیشا نام کی یہ لڑکی اس کی عمرمیں دلچسپی لے گی اورنہ اس کے ساتھ تعلق بنانے میں کیونکہ کسی بھی مادی سماج کے باسیوں کے معیارات مادی ہوتے ہیں جبکہ طغرل ابھی تقریبا" قلاش تھا۔ طغرل نے باہرکی جانب دیکھا تواسے ایک رکی ہوئی کار کی کھلی کھڑکی سے اپنے رشتے کے بھائی دکھائی دیے تھے۔ طغرل نے جھٹ سے کالی نیٹیشا کے گال پرچٹ سے ایک بوسہ دیا تھا اورششدرہوئی، آنکھیں کچھ زیادہ کھول کردیکھتی ہوئی اس مسکراتی لڑکی کا ہاتھ دبا کر"گوڈ بائی!" کہتا ہوا سٹیشن سے باہر نکل گیا تھا۔
گاڑی میں سوار ہوتے ہی بھائی صاحب نے پوچھا تھا "یہ لڑکی کون تھی؟" طغرل نے کہا تھا "معلوم نہیں کوئی انجان تھی"۔ بھائی نے اپنی عینک کے شیشوں کے پیچھے مسکراتی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہا تھا "تم تو اس کے ساتھ بہت شیروشکردکھائی دے رہے تھے" طغرل یہ سوچ کر جھینپ سا گیا تھا کہ اس کے بھائی نجانے کب سے ان دونوں کی بے آوازچہکار کو سننے کی کوشش کر رہے تھے۔
باقی پاکستانیوں کی طرح طغرل کے اس بھائی نے "سیون الیون" نہیں کھولا تھا۔ انہوں نے خود بتایا تھا کہ بہت سوں نے انہیں یہی مشورہ دیا تھا کہ سیون الیون کھول لو لیکن انہوں نے کہا تھا "لاحول ولا قوۃ، یعنی میں پنساری بن جاؤں"۔ انہوں نے وہی کام شروع کردیا تھا جو وہ پاکستان میں کرتے تھے۔ انہوں نے ایک پریس لگا لیا تھا اور پرنٹنگ کرنے لگے تھے۔ وہ طغرل کو لے کر سیدھے اپنے پرنٹنگ پریس پہنچے تھے۔ خود ہی شٹر کھولا تھا اور بتایا تھا "آج اتوار ہے اس لیے کوئی کام کرنے والا نہیں، اس روز کچھ ایسے گاہکوں سے وعدے کیے ہوتے ہیں جواپنا تیارشدہ کام لینے ورکنگ ڈے پرنہیں پہنچ سکتے"۔ وہ یہیں سے اٹھ کر طغرل کو لینے پہنچے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ صرف ایک اور پارٹی کو مواد لینے پہنچنا تھا، اس سے فارغ ہو کر کھانا گھر جا کر کھائیں گے۔
طغرل کے یہ بھائی بہت پرمغز تھے۔ علم و ادب سے وابستگی کی ان کی تاریخ خاندانی تھی لیکن باوجود بہت پڑھا لکھا ہونے کے وہ ابھی تک کچھ لکھ نہیں پائے تھے۔ طغرل نے اسی روز انہیں وہیں پر مشورہ دیا تھا کہ اب آپ اپنے بچوں کی تعلیم سے بھی تقریبا" فارغ ہیں چنانچہ آپ لکھنا شروع کیجیے۔ دوسرا کام طغرل نے یہ کیا کہ ان کے پریس میں کمپیوٹر بھی تھا اورانٹرنیٹ کنکشن بھی لیکن وہ اس سے استفادہ نہیں کرتے تھے، طغرل نے انہیں ای میل اکاؤنٹ بنا کر دیا اورچیٹ کرنا سکھایا تھا۔ اس اثناء میں تین خوبرو لڑکیاں پہنچ گئی تھیں جو کہ "پارٹی" تھیں۔ طغرل کے بھائی نے انہیں جو پرنٹڈ مواد دیا تھا وہ "ڈائمنڈ کلب" کا مواد تھا۔ طغرل نے جب ان لڑکیوں کو دیکھا جن میں سے ایک نے فصیح امریکن لہجے میں انگریزی میں بات کی تھی، تو اسے تب ہی شک گذرا تھا کہ یہ لڑکیاں "گوری" نہیں ہیں، اگرچہ وہ دودھ سے زیادہ سفید تھیں مگر جب انہیں طغرل کے بھائی نے مواد کا پیکٹ پکڑانے سے پہلے اسے کھول کر مواد دکھایا تھا تو طغرل کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ ڈائمنڈ کلب میں رقص کرنے والی روسی لڑکیاں تھیں کیونکہ طغرل کو معلوم تھا کہ نیویارک کی کلب چین ڈائمنڈ میں بیشتررقاصائیں روسی حسینائیں تھیں۔ طغرل نے روسی زبان میں گفتگو کی تھی ، ان میں سے دو نے جھٹ سے روسی زبان میں جواب دینا شروع کیا تھا مگر فصیح امریکی لہجے والی نے انہیں نظربھرکے دیکھا تو وہ چپ ہو کر جھٹ سے انگریزی میں "بائی" کہہ کر رخصت ہو گئی تھیں، روسی زبان میں "پاکا" یا " دوسوی دانیا" نہیں کہا تھا۔ لگتا تھا کہ ان کی سینیر نہیں چاہتی تھی کہ وہ روسی زبان بول کر اپنی اہمیت گنوائیں۔ احمق تھی، طغرل یا اس کے بھائی نے کونسا ڈائمنڈ کلب میں جانا تھا۔
طغرل کے بھائی کا گھردومنزلہ خوبصورت ولا تھا۔ طغرل کے بھائی کی بیگم اوروالدہ طغرل کو ایک عرصے کے بعد دیکھ کر نہال ہوئی تھیں اوروالدہ نے طغرل کو پیار کیا تھا۔ طغرل کے بھائی نے جب خوش ہو کر اپنی اہلیہ کو بتایا "آج طغرل نے مجھے کمپیوٹر کا استعمال سکھا دیا" تو انہوں نے معصومیت سے خالص لاہوری لہجے میں پوچھا تھا،" ہن تسیں وی چٹ چیٹ کڑو گے؟" اس سوال پر دونوں مرد ہنس دیے تھے اورخاتون بیچاری شرمسار ہوگئی تھیں۔ چیٹ تو طغرل کے بھائی صاحب نے شاید کی ہو لیکن وہ طغرل کے دیے مشورے کے سبب آج فلسفے پرلکھی چاردقیق اورمقبول انگریزی کتابوں کے مصنف ضرورہیں۔
طغرل کو اپنے رشتے کے بھائی کی گفتگو سے لگا تھا کہ کام وام کے معاملے میں وہ بھی اس کی مدد کرنے سے قاصر تھے۔ ان کا لکھا فقرہ " تم ایک بار آ جاؤ پھر ہم تمہیں جانے نہیں دیں گے" شاید محبت میں کہا فقرہ تھا تاہم انہوں نے کہا تھا "کل میں تمہیں اپنے وکیل کے پاس لے جاؤں گا۔ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا مشورہ دیتا ہے۔"
وہ کوئی دن کے گیارہ بجے وکیل کے دفتر پہنچے تھے۔ وکیل نے کچھ مایوس کن باتیں کی تھیں۔ پریس کی جانب جاتے ہوئے طغرل کے رشتے کے بھائی نے کہا تھا کہ میں مزید کچھ لوگوں سے پوچھتا ہوں، انشاءاللہ کچھ ہوجائے گا۔ طغرل کو معلوم تھا کہ ہم لوگ انشاءاللہ تب بولتے ہیں جب ہم جانتے ہوں کہ خود اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ پریس پہنچنے کے بعد چونکہ گاہک آنے لگے تھے، طغرل کے بھائی مصروف ہو گئے تھے۔ طغرل نیٹ سرفنگ کرتا رہا تھا۔ جب گاہک چھٹ گئے تو طغرل نے بھائی سے کہا تھا کہ اسے سٹیشن چھوڑ آئیں۔ انہوں نے کام اپنے اہلکار کے ذمے لگائے تھے اوراسے سٹیشن چھوڑائے تھے۔ طغرل واپس واپنجرفالزپہنچ گیا تھا۔
طغرل کو مسعود تسلی دیتا رہتا تھا کہ پریشان مت ہوو، تمہارا اپنا گھرہے۔ اللہ کرے گا کوئی مناسب کام مل جائے گا ویسے شروع میں یہاں کرنے کے لیے دوہی کام ہیں جو نسبتا" آسانی سے مل جاتے ہیں، سیون الیون پرکام کرنا یا ٹیکسی چلانا۔ سیون الیون میں فریزر بھرنا پڑتا ہے اورٹیکسی جلانا ویسے ہی جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ دونوں کام شاید تم سے نہیں ہوسکیں گے۔ طغرل نے طے کیا ہوا تھا کہ یہ دونوں کام وہ ویسے بھی نہیں کرے گا۔ اصل بات یہ تھی کہ طغرل حالات دیکھنے آیا تھا مگر رشتے داراوردوست زوردے رہے تھے کہ چھوڑو روس کو امریکہ میں ٹک جاؤ۔
طغرل نے سوچا تھا کہ ابھی وہ کام کرنے کے جھنجھٹ میں نہ پڑے گا بلکہ پہلے ان دوستوں سے ملے گا جن کے فون نمبراس کے پاس تھے اور جو ارد گرد کے شہروں میں مقیم تھے، جن سے طغرل نے آنے کے بعد رابطہ کیا تھا۔ وہ اس سے ملنے کے خواہاں تھے اورطغرل ان سے ملنے کو بے قرار۔ طغرل نے سوچا تھا پہلے وہ اپنے دوست عظمت عباس رضوی سے ملے گا، پھر ناصرچیمہ سے اور پھر قدیرمہر سے۔ یہ تینوں دوست ڈاکٹر تھے۔ ایک نیو جرسی کے کسی ٹاؤن میں تھا اورباقی نیویارک سٹیٹ کے دورکے شہروں میں۔