" مثل برگ آوارہ" کا تیرہواں در(پہلا حصہ)
طغرل کو امریکہ جانے کا کوئی اتنا شوق نہیں تھا مگر اول توماسکومیں اب زندگی کاٹنا دشوار ہوتا جا رہا تھا، دوسرے جب سے اس کا مینیجر تاجک اسے غچہ دے کر امریکہ گیا تھا، طغرل سمجھتا تھا کہ امریکہ جا کروہ اسے شاید پکڑ سکے مگر اس خام خیالی پراسے کئی بارشک ہوا تھا پھربھی دو سال پیشتر اس نے امریکہ کے ویزے کی درخواست دے ہی دی تھی۔ انٹرویو کے دوران متعلقہ کونسلر سے تب طغرل نے سچ ہی بولا تھا جب اس نے پوچھا تھا کہ آپ امریکہ کیوں جانا چاہتے ہیں، اس کے جواب میں اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا کہ وہ امریکہ جانے کے لیے مرا نہیں جا رہا مگر چونکہ اس کا مینیجر اسے لوٹ کر بھاگ گیا ہے، چنانچہ وہ چاہتا تھا کہ اسے وہاں جا لے۔ ابھی طغرل سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ایسا بیباک جواب کیوں دیا کہ امریکی کونسلر نے تڑسے کہا تھا "اوراگر آپ وہاں جا کراس کو قتل کردیں تو؟" طغرل اس کی اس بات پر بھنا گیا تھا اور اس نے کونسلر سے پوچھا تھا،" کیا میں آپ کو شکل سے قاتل لگتا ہوں؟" کونسلر نے اس کی جانب دیکھے بغیر اس کے پاسپورٹ پر ریجیکٹ کا ٹھپہ لگا کر اسے تھما دیا تھا۔
لیکن اب اس کے پاس روس کا پاسپورٹ تھا۔ ایک پرانے ہم خیال دوست نے طغرل کو تلاش کر لیا تھا اورای میل کے ذریعے اصرارکررہا تھا کہ وہ امریکہ آئے۔ یہ دوست بہت عرصہ پہلے جرمنی چلا گیا تھا اور وہاں سے امریکہ منتقل ہو گیا تھا۔ طغرل کے رشتے کے ایک بھائی بھی امریکہ میں تھے، جن سے اس نے دعوت نامہ اوران کے ٹیکس ریٹرنزکی نقول منگوا لی تھیں تاکہ ویزا کی درخواست کا کیس کمزورنہ ہو۔ اس باروہ پوری فائل تیار کرکے امریکی سفارت خانے میں اپنے ساتھ لے گیا تھا مگر کونسلر نے وہی ایک سوال پوچھا تھا، "آپ امریکہ کیوں جانا چاہتے ہیں" اس بار بھی اس نے سچ بولا تھا کہ میلینیم کے جشن میں شامل ہونے کی خاطر جس پرکونسلر نے کہا تھا کہ دو بجے آ کرپاسپورٹ لے جائیں۔ طغرل کو خود کہنا پڑا تھا "کیا آپ کو کیس فائل نہیں دیکھنی؟" کونسلرمسکرا دیا تھا۔ دو بجے طغرل کو ویزا لگا ہوا پاسپورٹ واپس مل گیا تھا۔
طغرل ماسکو سے نیویارک کی پرواز پرروانہ ہو گیا تھا۔ ساڑھے گیارہ گھنٹے کے بعد وہ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایرپورٹ پراترا تھا۔ امیگریشن لاؤنج میں داخل ہوکراسے مایوسی ہوئی تھی۔ باوجود ماہ دسمبر کے امیگریشن کی لائن میں کھڑے بہت سے لوگوں کو نجانے کیوں گرمی لگ رہی تھی۔ جب اس کی باری آئی تھی توامیگریشن انسپکٹر نے اس کی جانب دیکھا تھا، طغرل نے کہا تھا "یہاں بہت گرمی ہے" انسپکٹر نے اس کی کہی بات نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا تھا،"جناب کیا پہلی بارریاستہائے متحدہ امریکہ آئے ہیں؟" طغرل کے اثبات میں جواب دینے پراس نے چھ ماہ کے دخول کی مہر لگائی تھی اورپاسپورٹ واپس کرتے ہوئے کہا تھا " ریاستہائے متحدہ امریکہ میں خوش آمدید جناب"۔ طغرل سامان وصول کرنے کے بعد باہر نکل گیا تھا لیکن اس کو اپنا بھانجا کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس زمانے میں موبائل فون تو ہوتے نہیں تھے چنانچہ طغرل نے انتظار کرنا مناسب سمجھا تھا۔ اس کا بھانجا کوئی ایک گھنٹے بعد پہنچا تھا کیوں کہ وہ پہلے ٹریفک جام میں پھنس گیا تھا، پھر اسے پارکنگ فل ہونے کی وجہ سے گاڑی دورلے جا کرکھڑی کرنی پڑی تھا۔ وہ دونوں سامان کے ساتھ کوئی سات منٹ پیدل چل کر گاڑی تک پہنچے تھے۔ اس کے بھانجے نے گاڑی سٹارٹ کرنے کے فورا" بعد بتا دیا تھا کہ انہیں نیویارک شہرسے باہرکوئی سواسو کلومیٹر دور کے ایک شہر جانا ہے جہاں وہ رہتا تھا۔
گاڑی چلتی جا رہی تھی۔ طغرل اپنے بھانجے مسعود سے باتیں بھی کر رہا تھا اور گاڑی کی کھڑکی سے باہر بھی دیکھ رہا تھا۔ اس کےذہن میں تو فلک بوس عمارتوں والا نیویارک بسا ہوا تھا جو اس نے فلموں اور تصویروں میں دیکھا تھا۔ جس شہر کو وہ دیکھ رہا تھا وہ تو اسے صاف ستھرے گوجرانوالہ یا اوکاڑہ کی طرح کا شہر لگ رہا تھا۔ اس نے جب یہی بات مسعود سے کہی تھی تو اس نے زور کا قہقہہ بلند کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اونچی عمارتوں والا تو نیویارک کا صرف ایک حصہ ہے جو مین ہیٹن کہلاتا ہے، باقی نیویارک میں زیادہ اونچی عمارتیں نہیں ہیں۔
پہاڑی راستے پر، جس کے ارد گرد خوش کن مناظر تھے، سفرکرتے ہوئے وہ ڈیڑھ گھنٹے بعد ایک گھر کے گیٹ میں داخل ہوئے تھے، سڑک گھر کی عمارت تک جاتی تھی جو گیٹ سے پینتالس پچاس میٹر اندر تھی۔ گھنٹی بجانے پر طغرل کی بھتیجی صولت نے دروازہ کھولا تھا جو مسعود کی اہلیہ تھی۔ وہ اپنے چچا کے آنے پر بہت خوش تھی۔ طغرل ان کے قریبی عزیزوں میں سے ان کے گھر آنے والا پہلا مہمان تھا۔ طغرل کو جو کمرہ دیا گیا تھا، اس کی کھڑکی سے صحن کے بیچ کھڑا بلوط کا ایک قدیم درخت دکھائی دیتا تھا اور صحن کی بغل سے بہتی ہوئی ایک چھوٹی سی آبجو بھی دکھائی دیتی تھی۔
واپنجرفال نام کا یہ علاقہ پرسکون تھا اور مسعود کا قدیم گھر تو کچھ زیادہ ہی پرسکون جسے سنسان کہنا زیادہ مناسب لگتا تھا۔ یہاں نہ تو کسی انسان کی اواز آتی تھی اور نہ ہی کسی گاڑی کا شور۔ یا ٹیلیویژن کی آواز تھی یا ویکیوم کلینر کا شورکیونکہ صولت کو ویکیوم کلین کرنے کا جنون تھا۔ صولت کا ایک اور جنون بلاوجہ خریداری کرنا تھا۔ اس کے گھر کی الماریاں ٹنڈ فوڈ اور الا بلا سے اٹی پڑی تھیں۔
ایک روز آرام کرنے کے بعد طغرل نے مسعود سے کہا تھا کہ وہ اسے بھی ساتھ لے جائے تاکہ وہ شہر دیکھ سکے۔ مسعود نیویارک شہر کے ایک حصے میں ریڈیو ٹیکسی چلاتا تھا۔ وہ اسے ساتھ لیتا گیا تھا۔ ابھی شام کے آٹھ بجے تھے۔ اندھیرا چھانے لگا تھا لیکن شہر کے گھروں کی شاید ہی کسی کھڑکی سے گھر میں روشن بلبوں کی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ طغرل نے استفسار کیا تھا کہ لوگ کہاں ہیں؟ مسعود نے بتایا تھا کہ لوگ سو رہے ہیں۔ کیوں اتنی جلدی سونے کی کیا وجہ ہے؟ طغرل نے حیران ہو کر پوچھا تھا جس کے جواب میں مسعود نے پرسکون انداز میں کہا تھا اس لیے کہ صبح سب کو کام پر جانا ہوتا ہے۔ طغرل نے مزید کچھ نہیں کہا تھا۔
مسعود نے طغرل کو بلا جھجھک بتا دیا تھا کہ وہ رات کو ٹیکسی چلاتا تھا اس لیے اسے گھما پھرا نہیں سکے گا۔ وہ صرف اتوار کے روز چھٹی کرتا تھا اور اس روز بھی زیادہ سوتا تھا مگر وہ پریشان نہ ہو کیونکہ مزمل ہفتہ اتوار کے روز نیویارک سے آیا کرے گا اور سیر کروا دیا کرے گا، مقامی علاقے میں کسی شاپنگ مال پر جانا ہو توعلی لے جایا کرے گا، گھر میں ایک گاڑی کھڑی ہوتی تھی۔ مزمل مسعود کا چھوٹا بھائی تھا جو نیویارک شہر میں ایک ریستوران میں مینیجر تھا اورعلی مسعود کا بڑا بیٹا جو فی الحال بیروزگار تھا۔
مزمل نیویارک شہر دکھانے تو لے جاتا تھا مگر اس کا مسئلہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے بے توجہی تھا۔ ایسا کئی بار ہوا تھا کہ جو راستہ دخول شہر میں لے جاتا تھا وہ اس سے آگے نکل گیا۔ زیادہ ٹریفک والے ملکوں میں مڑنے کی راہ کئی کئی کلومیٹر کے بعد ہی مل پاتی ہے۔ طغرل اس کے ساتھ سفر کرتے ہوئے اس سے اکثر پوچھتا تھا، "مزمل دیکھو کہیں آگے تو نہیں نکل گئے؟" اس پر مزمل جھنجھلا کے کہا کرتا تھا ،"آپ مجھے کنفیوزکررہے ہیں" اس کے باوجود وہ آگے نکل جایا کرتا تھا۔
علی نے اپنی امریکہ زدہ اردو میں جب پہلی بار پوچھا تھا،" آپ مال میں گئے ہیں" تو طغرل کو یہی لگا تھا کہ وہ کسی سڑک کی بات کر رہا تھا اورحرف جارکے سلسلے میں غلطی۔ وجہ یہ تھی کہ روس میں تب "شاپنگ مال" نہیں ہوتے تھے۔ جو دو ایک تھے بھی انہیں وہاں "ترگووے سنتر" یعنی کمرشل سنٹر کہتے تھے۔ طغرل نے جواب میں کہا تھا کہ نہیں ، وہ نہیں گیا۔ "اوہ! ٹین منٹس، میں آپ کو لے کے جاٹا ہوں"۔ دس منٹ بعد وہ خاصی دیر گاڑی چلانے کے بعد جہاں پہنچے تھے وہ یہی "کمرشل یا ٹریڈ سنٹر" تھا، تب طغرل کو معلوم ہوا تھا کہ امریکہ میں ایسے مقامات کو "شاپنگ مال" کہا جاتا ہے۔
ایک روز ایسے ہی ایک ٹرپ پرعمر بھی ساتھ تھا۔ عمرمسعود کا منجھلا بیٹا تھا، جس کی اٹھک بیٹھک افریقی امریکی لڑکوں لڑکیوں کے ساتھ تھی۔ اس لیے اس نے انداز بھی انہیں جیسے اختیار کر لیے تھے۔ اسے اردو بہت واجبی سی آتی تھی۔ اس نے مال سے اپنا ایک کان چھدوایا تھا اور طغرل کے پیچھے پڑ گیا تھا کہ "انکل آپ بھی گیٹ دا پیرسنگ ڈن، یو ول لوک سوکول"۔ طغرل بمشکل اس کی اس بیجا ضد سے خود کو مرخصی کروا پایا تھا۔ عمر جھوٹوں کا پٹا تھا۔ کھڑے کھڑے آپ کے سامنے آپ کے بارے میں اس اعتماد سے جھوٹ بول دیا کرتا تھا کہ ایک لمحے کو تو آپ کو اپنے بارے میں ہی کہی گئی جھوٹی بات سچی لگنے لگتی تھی۔
عمر کچھ زیادہ ہی بدتمیزواقع ہوا تھا۔ اپنی ماں کے ساتھ اس کا رویہ امریکہ کے بگڑے ہوئے بچوں کا سا ہوتا تھا۔ اس کی ماں صولت بھی اس کے ساتھ وہی رویہ روا رکھتی تھی جو امریکی ماؤں کا ہوتا ہے یعنی براہ راست مبنی برمبارزہ آرائی۔ ایک روز دوسری منزل پر ماں بیٹے کے درمیان توتکار ہوئی تھی اور خاموشی چھا گئی۔ طغرل جو گراؤنڈ فلور پر لاؤنج میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا، یہی سمجھا تھا کہ معمول کی جھڑپ تھی۔ چند منٹ کے بعد باہر کے دروازے کی گھنٹی بجی تھی جس پر طغرل نے جا کر دروازہ کھول دیا تھا۔ باہرموجود منظرکو دیکھ کر لمحے بھر کے لیے تو طغرل کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے کیونکہ دو پولیس والوں نے پستول تانے ہوئے تھے اور ٹانگٰیں پھیلائے، گھٹنے جھکائے عمل کے لیے تیار کھڑے تھے۔ طغرل کو پٹ کی اوٹ میں دیکھ کرایک پولیس والے نے چیخ کر کہا تھا،" سامنے آ جاؤ، ہاتھ پیچھے کر لو" طغرل نے ایسے ہی کیا تھا۔ ان میں ایک شست باندھے ہوئے اوردوسرا پستول کو ہولسٹر میں ڈال کر اپنی پیٹی سے بندھی ہتھکڑی ہاتھ میں لیے آگے بڑھے تھے۔ جب وہ طغرل کے نزدیک پہنچے تھے تو طغرل نے کہا تھا،" وہ میں نہیں ہوں بلکہ وہ کم عمر لڑکا ہے"۔ اتنے میں صولت بھی انتباہ سن کر زینے پرآ چکی تھی۔ اس نے پولیس والوں سے کہا تھا،" وہ اوپر ہے اورغیر مسلح ہے، میں اسے لے کر آتی ہوں"۔ صولت عمرکو لے آئی تھی جو کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے ہوئے تھا۔ پولیس والا اس کو ہتھکڑی لگانے تک چوکس اورپستول برداررہا تھا۔ طغرل سے پولیس والے نے معذرت کی تھی اورعمر کو ساتھ لے کر چلے گئے تھے۔ عمرکے انداز سے لگا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں جب اسے پولیس لینے پہنچی تھی۔ تھوڑی دیر بعد صولت بھی معاملہ نمٹانے کی خاطر اپنی گاڑی میں سوار ہو کرنکل گئی تھی۔
طغرل کو قانون کی اس قدرپاسداری کچھ عجیب لگی تھی۔ یہ قانون کی پاسداری کم اور خاندانی معاملات میں مداخلت کرنا زیادہ لگتا تھا لیکن اس طرح پولیس گھروں میں ہونے والے تشدد کے خلاف کمر بستہ رہتی تھی۔ قانون کی بے جا اگر اسے بے جا کہا جا سکتا ہے، پابندی بعض اوقات معاملات سنوارنے کی بجائے بگاڑنے کا موجب بنتی تھی۔
طغرل چونکہ کہیں کام نہیں کرتا تھا۔ گھر میں بیٹھا ٹی وی دیکھتا رہتا تھا یا وسیع وعریض صحن میں چہل قدمی تاکہ ٹانگیں جم کرنہ رہ جائیں۔ اس نے ایک چینل پر ایک البانوی ماں باپ کی المناک کہانی دیکھی تھی۔ البانوی اپنی بیوی اوردو بچوں کولے کرامریکہ پہنچا تھا تاکہ اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکے۔ بیٹا بڑا تھا کوئی چھ سال کا اور بیٹی چھوٹی کوئی چارسال کی۔ بیٹے کوکنگ فو سیکھنے کا شوق تھا۔ باپ نے اسے کنگ فو سکھانے کے سکول میں داخل کرا دیا تھا۔ البانوی مرد اورخاتون نے محنت کرکے ایک پتسیریا سے دو پتسیریا بنا لیے تھے۔ ایک روز بچی نے کہا تھا کہ وہ بھائی کو کنگ فو کھیلتے دیکھنا چاہتی ہے۔ اس روزاس سکول میں اظہاریے کی کوئی تقریب تھی۔ باپ اپنی بچی کو لے کرپہنچا تھا۔ کھیل کے دوران وہ اپنی بچی کو پچکارتے ہوئے لاڈ پیار بھی کرتا رہا تھا۔ ایک خاتون سب لوگوں کی وڈیو بنا رہی تھی۔ بچی بھائی کوکھیلتا دیکھ کر خوش تھی۔ دو روزبعد پولیس اورسوشل سیکیورٹی والے آئے تھے۔ بچی اور بچے کو والدین سے جدا کر کے لے گئے تھے اور باپ کو گرفتار کر لیا تھا۔ الزام اس وڈیو کو دیکھ کر لگایا گیا تھا کہ باپ بچی سے جنسی زیادتی کا مرتکب ہوا تھا۔ بچوں کی ماں نے ایک مستشرق خاتون پروفیسر کی خدمات حاصل کی تھیں۔ باپ کی ضمانت تو ہو گئی تھی لیکن لوگ اس پر شک کرنے لگے تھے۔ اس کی آمدنی گھٹنے لگی تھی۔ انہیں ایک پتسیریا بند کرنا پڑا تھا۔
باپ کو تو بچوں سے ملنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ ماں ایک بار جب بچوں سے ملنے گئی تو بچوں نے شکایت کی تھی کہ رضائی والدین نے انہیں لحم خنزیر کھلایا ہے۔ ان کے گلوں میں بھی زنجیروں میں ٹکی آرائشی صلیبیں آویزاں تھیں۔ عدالت میں شکایت کی گئی تو بچوں کو دوسرے رضائی والدین کے حوالے کر دیا گیا تھا لیکن ماں کی بچوں کے ساتھ ملاقات کا وقفہ بھی بڑھا دیا گیا تھا۔ جب تک پروفیسر نے عدالت میں ثابت کیا کہ باپ کا بچی کو پچکارنا ان کے ملک کی روایات کے عین مطابق تھا کیونکہ وہاں بچوں سے تعلق کا اظہار اسی طرح کیا جاتا ہے تب تک بچوں کی اپنی ماں سے بھی مغائرت بڑھ چکی تھی۔ اس پروگرام میں البانوی باپ نے بتایا تھا کہ میرا خواب تو کیا پورا ہونا تھا الٹا یہاں آ کرمیرا گھراجڑ گیا۔ بچے رضائی والدین کے پاس رہنے میں خوش تھے اوربیوی بچوں کی دوری کے سبب شوہرسے نالاں ہوکرطلاق لینے کا مطالبہ کرنے لگی تھی۔ یہ تھی کچھ لوگوں کے لیے خوابوں کی تکمیل کی سرزمین ریاستہائے متحدہ امریکہ۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ کی وفاقی اورمقامی ریاستیں اپنے ملک اور اپنی ریاستوں میں بسنے والوں کے لیے بلا شبہ بہت اچھی ہیں۔ دنیا میں امریکہ انسانوں کے ساتھ جو بھی زیادتیاں کرے لیکن اپنے ہاں لوگوں کو پرسکون رکھنے کے سارے جتن کیے جاتے ہیں۔ طغرل چونکہ ادھیڑعمری میں وہاں پہنچا تھا، اس لیے اس کی وہاں رائج بہت سے معمولات کے ساتھ ہم آہنگی ہونا مشکل تھی۔ ایسا مخمصہ صرف طغرل کا ہی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اس سے ہراس شخص کو واسطہ پڑتا ہے جو کسی دوسرے ملک، خاص طورپرایسے ملک سے وہاں گیا ہو جہاں سرمایہ دارانہ مادہ پرستی پرمبنی نظام اپنی خالص شکل میں موجود نہیں اورجہاں کی روایات میں زرعی نظام اور اخلاقیات کی باقیات ابھی زندہ ہیں۔ کم عمری اور نوجوانی کے عہد میں امریکہ منتقل ہونے والے لوگ تو وہاں کی معاشرتی اقدارکوخود میں آسانی سے جذب کر لیتے ہیں لیکن عمر کے ایک خاص حصے کے گذر جانے کے بعد وہاں پہنچنے والا شخص لوگوں کی حد سے بڑھی ہوئی شخصی آزادی، قانون کی صد درصد پابندی اوربناوٹی خوش اخلاقی کو قبول نہیں کر سکتا۔
طغرل کو وہاں شروع شروع میں کئی بار شائبہ ہوا تھا کہ وہ ان مردوخواتین سے شاید شناسا ہے جواس کی جانب دیکھ کر دل کھول کر مسکراتے تھے اورکبھی کبھارسرکو ہلکے سے جھکاؤ کی جنبش بھی دیتے تھے مگر لمحے بھر کے بعد اسے احساس ہوتا تھا کہ بھلا یہاں کے "گورے" اسے کیسے جان سکتے تھے۔ کسی کو دیکھ کر مسکرانا امریکیوں کی "اخلاقیات" کا حصہ ہے۔ ناشناسا شخص ایسی مسکراہٹ سے شش و پنج میں پڑ جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو نالاں بھی ہوتا ہے۔ جب طغرل نے ایسی بناوٹی مسکراہٹوں کا مسعود سے ذکر کیا تھا تو وہ کھلکھلا کر ہنسا تھا اور بتایا تھا کہ بعض اوقات وہ بلا وجہ مسکرانے والے شخص کو ڈانٹ کر پوچھ لیتا تھا،" تمہارا کوئی مسئلہ ہے کیا؟ کیا میں تمہیں کوئی بندر وندر دکھائی پڑتا ہوں"۔
پڑھنے والے کو یہ بات غالبا" کھٹکی ہوگی کہ حد سے بڑھی ہوئی ذاتی آزادی کیا شے ہوتی ہے اور اسے کیونکر قبول نہیں کیا جا سکتا؟ تو سنیے ایک بار ایسا ہوا کہ طغرل نے کسی امریکی چینل پر ایک معلوماتی پروگرام دیکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ بہت سی امریکی خواتین کو بلاوجہ خریداری کا جو لپکا تھا وہ درحقیقت ایک نفسیاتی عارضہ تھا جسے " کمپلسیو بائنگ سنڈروم" نام دیا گیا تھا۔ جب اس نے یہی بات مسعود کی موجودگی میں صولت کے سامنے کی تھی تووہ بھڑک اٹھی تھی اورطغرل کو غلط قراردینے کے درپے ہو گئی تھی۔ جب وہ طغرل اور مسعود دونوں کو قائل کرنے میں ناکام رہی تو اس نے جھنجھلا کرحرف ایف سے شروع ہونے والا وہ مختصرفقرہ طغرل کی جانب اچھال دیا تھا جس کا امریکی ماحول کے حساب سے ترجمہ "بھاڑ میں جاؤ" بنتا ہے لیکن اس کا لغوی مطلب فحش ہے۔ جب ایسا فقرہ اپنے سے بڑے، مہمان اور چچا کو کہا جائے تو کہیں زیادہ معیوب ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے طغرل اپنی سگی بھتیجی کو جواب میں وہی فقرہ تو کہہ نہیں سکتا تھا، جس کا شمارامریکی تعزیرات میں نہیں ہوتا چنانچہ اس نے چیخ کر"بدتمیز"کہا تھا اور اس کا ہاتھ فضا میں بلند ہو گیا تھا جسے مسعود نے ہوا میں ہی اچک کر کہا تھا،" نہ نہ تھپڑ مت مارنا، یہ تو بہت مشکل قانونی معاملہ بن سکتا ہے"۔ جی ہاں امریکہ میں گالی کے جواب میں گالی دینا، چیخنے کے جواب میں چیخنا کوئی بری یا بڑی بات نہیں مگر ہاتھ کا استعمال منع ہے۔ خیرجب صولت کا جنون ٹھنڈا ہوا تواس نے طغرل سے معذرت کر لی تھی البتہ طغرل کو کان ہو گئے تھے کہ یہاں کسی کو بھی مشتعل نہیں کرنا چاہیے۔ مسعود خود غصے کا تیز تھا، اس نے اتنا عرصہ امریکہ میں رپتے ہوئے یہ طریقہ نکالا تھا کہ غصے کی حالت میں الماریاں الٹ دیتا تھا، چیزیں پٹخ دیتا تھا مگر بیوی یا بچوں کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔ اس نے ایسا ہی ایک دورہ پڑنے کے بعد جس میں اسے پرسکون کرنے کی خاطر طغرل نےمداخلت کرنا چاہی تھی، تنبیہہ کر دی تھی کہ ایسے موقع پردورہی رہنا۔ مسعود بیچارے کو ایسی جھنجھلاہٹ مہنگی پڑا کرتی تھی۔ ایسا کرنے کے بعد وہ اپنے گھر والوں کو کھانا کھلانے ریستوران لے جاتا تھا اور جو چیزیں ٹوٹ پھوٹ جاتی تھیں وہ نقصان علیحدہ ہوتا تھا۔
طغرل تیزہ دسمبرکو پہنچا تھا، جلد ہی 31 دسمبر کا دن ہوگیا تھا۔ طغرل کوبہت شوق تھا کہ وہ ٹائم سکوائرمیں روشنیوں کا گولہ نیچے آتے دیکھے۔ اس کے لیے وہ چوہدری اقبال کے ہاں نیویارک سٹی پہنچ گیا تھا جہاں اس کے آگے پیچھے کی کسی تاریخ کو ماسکو سے پہنچا ہوا اس کا دوست چوہدری شفقت مقیم تھا۔ طغرل کا خیال تھا کہ عیسوی صدی کا دوسرا ہزارواں سال ختم ہوتے اوراکیسویں صدی میں داخلے کی تقریب میں شرکت کی خاطر شاید وہ سب اکٹھے جائیں گے مگر رات ہوتے تک سب کا جوش ماند پڑ چکا تھا بلکہ میزبان چوہدری اقبال تو سونے کی تیاری کرنے لگے تھے۔ طغرل بہت جز بزتھا جس کو بھانپتے ہوئے میزبان کے جواں سال بھانجے عثمان نے کہا تھا،" چاچا جی میں تہاڈے نال چلنا واں" وہ تقریبا" ساڑھے دس، پونے گیارہ گھرسے نکلے تھے، جب وہ ٹائم سکوائر کے انڈر گراؤنڈ سٹیشن سے باہرنکلے توتقریبا" ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ لوگوں کا ایک اژدہام تھا جس سے ٹائم سکوائر سے وابستہ تمام سڑکیں پٹی پڑی تھیں۔ بہت کوشش کے باوجود جب رسائی کا کوئی راستہ ہاتھ نہ آیا تو طغرل نے اس گمان پرکہ اس نے سنا جاتا تھا امریکہ کی پولیس بہت خلیق ہوتی ہے، پولیس کی ایک ٹکڑی میں شامل پولیس والے سے بڑے سبھاؤ سے پوچھا تھا،" افسر، ہم میلینیم کی تقریب کیسے دیکھ سکتے ہیں؟" اس نے شان بے نیازی سے کہا تھا ،" کسی بھی عمارت کی چھت پرچڑھ کر کے" اورقہقہہ لگا دیا تھا جس میں اس کا دوسرا ساتھی پولیس والا بھی شامل ہو گیا تھا۔ طغرل کو لگا تھا جیسے دنیا بھر کے پولیس والے چاہے جہاں کے بھی کیوں نہ ہوں ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ اس نے یہ بھی سوچا تھا کہ شاید نئے سال کی تقریب کے حوالے سے پولیس والے نے بھی کچھ چڑھا لی ہوگی، تبھی ایسا بیہودہ جواب دیا تھا۔ میلینیم کی یہ آخری رات طغرل کے لیے بورترین رات تھی۔ کچھ بھی دکھائی نہ دے پایا تھا ماسوائے لوگوں کے ہجوم میں کندھے سے کندھا چھلواتے ہوئے نکلنے کی تگ و دو کرنے کے۔ انڈر گراؤنڈ میں واپسی کے سفر کے دوران طغرل نے عثمان سے یونہی پوچھ لیا تھا کہ اس نے امریکہ آنے کے لیے کتنے اخراجات کیے تھے؟ اس نے بتایا تھا "سولہ لاکھ روپے"۔ "اوہ ہو ہو ہو" طغرل نے تاسف سے کہا تھا جس پرعثمان نے کہا تھا،"چاچا جی میں نے پیسے تقریبا" پورے کر لیے ہیں"۔ "وہ کیسے؟" طغرل نے تحیرسے پوچھا تھا۔ عثمان نے بتایا تھا چونکہ وہ ابھی غیرقانونی حیثیت کا حامل ہے اس لیے ہندوستانی ٹھیکیداروں کی نگرانی میں عمارتوں میں پینٹ کرنے کا کام کرتا تھا۔ اگرچہ ہندوستانی ٹھیکیدارقانون کے مطابق معاوضہ نہیں دیتے مگر گیارہ ڈالرفی گھنٹہ پھربھی مل جاتا تھا۔ وہ چونکہ ماموں کے ہاں رہتا تھا، کھانا بھی وہیں کھاتا تھا اس لیے اس کی تقریبا ساری کی ساری کمائی بچت تھی۔ زیادہ پڑھا لکھا ہونا کتنا نقصان دہ ہوتا ہے کہ آپ پینٹ کرنے کا کام بھی نہیں کر سکتے، طغرل نے ایک لمحے کے لیے سوچا تھا۔
جس دوست کے بے حد اصرار پر طغرل امریکہ پہنچا تھا وہ ریاست پنسلوانیا میں رہتا تھا۔ طغرل نے سوچا تھا کہ اس کے پاس ہوآئے۔ مسعود نے اسے بتایا تھا کہ اسے نیویارک سٹی سے "گرے ہاؤنڈ" بس پکڑنی ہوگی یا "پنسلوانیا سٹیشن " سے ریل گاڑی۔ ساتھ ہی بتایا تھا کہ بس کا سفر آسان اورسستا تھا۔ آسان اس لیے کہ ٹکٹ مل جاتا تھا، ٹرین بعض اوقات بھری ہوتی تھی اورٹکٹ ملنے کا امکان کم۔ طغرل چوہدری اقبال کے ہاں سے فون ملانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن فون نہیں مل پا رہا تھا۔ اس نے ماسکو سے آئے ہوئے اپنے دوست سے کہا تھا کہ وہ فون ملانے کی کوشش کرے۔ اس کی کوشش سے فون مل گیا تھا۔ دوست نے سلام دعا کے بعد فون طغرل کو دیا تھا۔ دوسری جانب طغرل کا دوست ظہیراس سے بات کرکے خوش ہوا تھا۔ جب طغرل نے بتایا تھا کہ وہ اسے ملنے پہنچ رہا ہے تو اس نے ایک ایسا فقرہ کہا تھا جس کی طغرل کو اس سے توقع نہیں تھی۔ اس نے کہا تھا،"یار اکیلے ہی آنا، کسی اور دوست کو ساتھ مت لانا"۔ طغرل اپنے ماسکو والے دوست سے پہلے ہی بات کر چکا تھا کہ اکٹھے چلتے ہیں۔ طغرل کو خجل ہو کر اپنے دوست کو اس کی کہی بات بتانی پڑی تھی۔ دوست نے برا منائے بغیر کہا تھا، "آپ جائیں لیکن ایک بات سن لیں کہ آپ کا یہ دوست کوئی اچھا آدمی نہیں"۔
یہ دوست جو دوسرے دوست کے مطابق "اچھا آدمی" نہیں تھا، طغرل کی نوجوانی کے عہد میں اسے ایک ایسی بس میں ملا تھا جو ملتان سے جوشیلے نوجوانوں کو لے کرمنٹو پارک لاہورمیں بھٹو کا جلسہ سنوانے لے جا رہی تھی۔ بس میں نعرے لگائے جا رہے تھے، "انقلاب، انقلاب، سوشلسٹ انقلاب" ۔ جب نعرہ لگانے والے نے انقلاب، انقلاب کہا تھا تو جواب میں طغرل کے منہ سے بے اختیار "اسلامی انقلاب" نکل گیا تھا۔ باقی سب تو ہنسنے لگے تھے لیکن ساتھ بیٹھا ہوا لمبا تڑنگا، سیاہ رنگت والا وہ جوان شخص سنجیدہ رہا تھا جس نے موٹے موٹے شیشوں اور بھدے سیاہ فریم والی عینک لگائی ہوئی تھی۔ اس شخص کا نام ظہیرچوہدری تھا جس نے سفر کے دوران طغرل کو سوشلزم کی الف بے سے آگاہ کیا تھا اور پھر واپسی کے سفر کے دوران چند پوسٹر اورپمفلٹ دیے تھے۔ طغرل نے ہوسٹل لوٹ کر"پاؤں میں ٹوٹی ہوئی زنجیر کے ہیولے والا" پوسٹر اپنے کمرے کے دروازے کے باہرآویزاں کر دیا تھا اورکالج میں بائیں بازو کے طالبعلموں کی ایک متوازی تنظیم کی بنیاد رکھ دی تھی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“