" مثل برگ آوارہ " کا بارہواں در
ان دنوں طغرل کے مقام رہائش کے نزدیک تر ایک بہت بڑی کھلی مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ اسی مارکیٹ میں اظفر نے بھی ایک کنٹینر کرائے پرلے کروہی کام شروع کردیا تھا جو اسی مارکیٹ میں کچھ پاکستانی پہلے سے کررہے تھے یعنی ہندوستانی فرموں سے سویٹر اورٹی شرٹس ادھار پرلے کر تھوک میں بیچنے کا کام۔ اب طغرل کا جب بھی گھر بیٹھے دل اوبھتا وہ کوئی فرلانگ دوفرلانگ دور ویگنوں کے سٹاپ پرپہنچتا جہاں سے ایک ویگن پندرہ بیس منٹ میں طغرل کواس کھلی مارکیٹ تک پہنچا دیتی تھی۔ اظفر کے توسط سے وہاں طغرل کی کئی پاکستانیوں سے شناسائی ہوگئی تھی۔ یا پھر طغرل اس پاکستانی شخص کے پاس چلا جاتا تھا جس نے طغرل کا تقریبا" سارا مال اٹھا لیا تھا۔ وہاں بھی مزید پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی تھی۔ یہ جگہ شہر کے دوسرے کنارے پرواقع تھی۔ ایک باروہ شخص کہیں نکلا ہوا تھا، کہ گیٹ سے فون آیا تھا۔ یہ دفتر چونکہ ایک انسٹیٹیوٹ کے اندرواقع تھا اس لیے اگر باہرسے کوئی ملاقاتی یا گاہک آتا تو دربان فون کرکے معلوم کر لیتا تھا کہ کیا اسے آنے دینا چاہیے۔ فون پردربان نے کسی شخص سے بات کروائی تھی، جس نے اپنا نام چوہدری شفقت بتایا تھا، طغرل نے دربان سے کہا تھا کہ انہیں آنے دو۔ چوہدری شفقت اسے دیکھا بھالا سا لگا تھا۔ چوہدری شفقت نے خود ہی یاد دلایا تھا کہ کئی سال پہلے وہ ایک کام کے سلسلے میں طغرل سے ملا تھا۔ انسان مناسب تھا چنانچہ اس سے دوستی ہو گئی تھی۔ اس کے توسط سے ایک نسبتا" جوان چھوٹے قد کے وقارنامی شخص سے بھی ملاقات ہوئی تھی، جس کی خوش خلقی اورحاضر جوابی کے باعث طغرل اس سے بے تکلف ہو گیا تھا۔
جس شخص نے مال لیا ہوا تھا، پہلے اس نے ایک اورشخص کی دیکھا دیکھی ایک ہوٹل کا فلور کرائے پرلے کر ‘سب رینٹ‘ کرنے کا کام کیا تھا۔ بعد میں وقار نے بھی یہ کام شروع کر دیا تھا اور طغرل کو برابر کی بنیاد پراس کام میں شامل ہونے کی پیشکش کی تھی جو طغرل نے قبول کر لی تھی۔ کمرے کرائے پر لینے والے ایران سے آئے مسافر ہوتے تھے جو کنبوں سمیت ہوٹلوں میں رہتے تھے۔ طغرل کو ماضی میں ایران میں کچھ عرصہ بتانے کے سبب فارسی زبان کی شد بد تھی اوروقار نے اسی وجہ سے طغرل کا کام میں شریک ہونا بہتر خیال کیا تھا۔
ان ایرانیوں کے پاس کاریں ہوتی تھیں۔ یہ دن کے دس گیارہ بجے ہوٹل سے نکل جاتے تھے اور پانچ چھ بجے شام کو لوٹتے تھے۔ سبھی کمروں میں غیر قانونی طور پر کھانے پکاتے تھے اور بیشتر ایرانیوں کا مرغوب نشہ "تریاک کشیدن" یعنی افیون کا دھواں سینے میں اتارنے کا نشہ کرتے تھے۔ افیون یا تو وہ ایران سے ہی ساتھ لے کرآتے تھے یا ہوٹل میں ضروری اشیاء لا کردینے کی آڑمیں کچھ مشکوک مقامی لوگ انہیں فراہم کر دیتے تھے۔
آہستہ آہستہ طغرل کو ان کے بارے میں بہت کچھ پتہ چل گیا تھا اگرچہ وقارجانتے بوچھتے ان کی اصلیت طغرل سے چھپانے کی کوشش کیا کرتا تھا کیونکہ وہ طغرل کو جانتا تھا کہ وہ دیانتداری اور شفافیت کا پرچارک ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مسئلہ کھڑا کر دے۔ طغرل کو پتہ چلا تھا کہ یہ سارے لوگ جن کی تعداد پچاسیوں سینکڑوں تھی، چند قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے، ہر قبیلے کا اپنا ایک سردارتھا۔ سبھی کسی نہ کسی طرح سے ایک دوسرے کے رشتے دار تھے۔ ان کے مردعورتیں، جوان لڑکے لڑکیاں سب دن دہاڑے سرعام لوگوں کو ٹھگنے میں طاق تھے۔ اس کام کے لیے نکلنے کووہ "گشت پر جانا" یعنی گشت رفتن کہتے تھے۔ ایران میں یہ سارے لوگ تہران کے نواحی شہرکرج کے باسی تھے، جہاں سنا تھا اس طرح کمائے گئی دولت سے بنائی گئی ان کی بڑی بڑی حویلیاں تھیں۔
طغرل کو اس بارے میں یوں معلوم ہوا تھا کہ ایک باران کے قبیلے کے عباس نامی ایک سردار نے جوتن وتوش والا کرخت شکل شخص تھا طغرل کوساتھ چلنے کو کہا تھا کہ اسے روسیوں سے کوئی کام ہے شاید اسے مترجم کی ضرورت پڑے۔ طغرل اس کے ہمراہ چلا گیا تھا۔ عباس کے ساتھ اس کا ایک ساتھی تھا جو کار کی پچھلی نشست پر بیٹھا تھا جبکہ طغرل عباس کے ساتھ والی نشست پر۔ عباس شہرمیں کارگھماتا رہا پھراس نے ایک بڑے ایرپورٹ کوجانے والی سڑک پر کار ڈال دی تھی۔ وہ عقابی نگاہوں سے ادھرادھر دیکھے جا رہا تھا۔ سڑک سے ذرا اترکرکھڑی ہوئی دو کاروں پراس کی نظر پڑی تھی، جن میں سے نکل کرروسی پکنک منا رہے تھے۔ شراب پی رہے تھے اورتربوزکھا رہے تھے۔ عباس نے اچانک گاڑی سائیڈ پرروکی تھی اورطغرل سے کہا تھا کہ " آپ کو میں ایک تماشہ دکھاتا ہوں" اس نے اپنی جراب میں سے ڈالروں کی ایک رول کی ہوئی گٹھی نکالی تھی اورطغرل سے کہا تھا کہ میرے ساتھ آئیں۔ وہ ان روسیوں کے نزدیک پہنچا تھا۔ ان کو ڈالر دکھا کر کہا تھا۔ دلارروبل، دلارروبل، تورست۔ چونکہ اس نے کوئی تماشہ دکھانے کا کہا تھا اس لیے طغرل نہیں بولا تھا ورنہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ عباس کو بتا دے کہ ڈالر منی ایکسچینج والوں سے تبدیل کروائے۔ روسیوں نے بھی نو، نو ،نو کہا تھا اورمسکرا رہے تھے۔ پھر عباس نے اپنے دائیں کی مٹھی بند کرکے درمیانی انگلی اور انگشت شہادت سے اپنی دونوں آنکھوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے معصوم اور احمق سی شکل بنا کر کہا تھا "روبل، پکازات، پکازات"۔ روسیوں نے استفسارانہ نظروں سے طغرل کی جانب دیکھا تھا۔ طغرل نے بتایا تھا کہ غالبا" یہ روسی کرنسی نوٹ دیکھنا چاہتا ہے۔ ان میں سے دو افراد نے یک لخت اپنی جیبوں سے ہزار ہزار پانچ پانچ سو روبل کے کئی نوٹ نکال کر اس کی جانب کر دیے تھے۔ عباس نے پکازات،پکازات کرتے ہوئے پہلے ایک سے نوٹ پکڑ کرچند ثانیوں میں اسے لوٹا دیے تھے اور یہی عمل دوسرے کے ساتھ دہرایا تھا۔ روسیوں نے نوٹ واپس جیب میں ڈال لیے تھے۔ عباس ان کا شکریہ ادا کرکے گاڑی کی طرف چل دیا تھا۔ طغرل بھی اس کے ساتھ جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ طغرل نے پوچھا تھا،" آغا عباس آپ نے تو کوئی تماشا نہیں دکھایا"۔ " آپ نے ان کی احمق شکلیں نہیں دیکھی، میں نے انہیں کیسے بیوقوف بنایا۔ خیر چھوڑیں، آپ کو تماشا پسند نہیں آیا" یہ کہہ کرقہقہہ لگا دیا تھا۔ طغرل جھینپ کر خاموش ہو گیا تھا۔ آگے واپسی موڑ آنے سے پہلے عباس نے پوچھا تھا کہ آج کیا دن ہے۔ جب طغرل نے اسے دن بتایا تو اس نے کہا تھا،" اوہو، میں تو سمجھا تھا، آج منگل ہے۔ وہ شخص تو ہوگا ہی نہیں جس سے کام تھا، چلیں واپس چلتے ہیں۔ مجھے معاف کیجیے گا، آپ کو تکلیف دی"۔ "کوئی بات نہیں" طغرل نے کہا تھا لیکن اسے یہ سب کچھ عجیب وغریب سا لگا تھا۔ لوٹنے پر جب اس نے وقارسے اس کا تذکرہ کیا تھا تو وقار نے کہا تھا کہ اگر آپ کو یہ آئندہ کبھی ساتھ چلنے کو کہیں توان کے ہمراہ مت جائیے گا۔ پھر اس نے بتایا تھا کہ یہ کس طرح لوگوں کواپنی ٹوٹی پھوٹی روسی اورانگریزی سے بیوقوف بنا کر ان کی جیبوں سے کرنسی نوٹ نکلواتے ہیں اورپھرپلک جھپکتے ہی ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے نوٹوں سے کچھ ہاتھ کی پچھلی جانب چھپا لیتے ہیں۔ اگر دس نوٹ ہوں تو یہ تین سے زیادہ نہیں نکالتے۔ اسی تناسب سے جتنے نوٹ کوئی دکھائے اسی حساب سے غائب کیے جاتے ہیں۔ پھر اس نے وہ کرتب کرکے دکھانے کی کوشش کی تھی جس میں ظاہر ہے وہ ماہر نہیں تھا لیکن طغرل کو پتہ چل گیا تھا کہ آج وہ نہ جانتے بوجھتے ایک مجرمانہ عمل کا حصہ رہا تھا۔
بعض اوقات ان کی شوخ لڑکیاں مذاق کرنے کے موڈ میں ان کے دفتر میں آتی تھیں اور بڑے سبھاؤ سے پچاس ڈالر کا نوٹ دے کر اس کے بدلے میں روبل دینے کا کہتی تھیں۔ مثال کے طورپراگر اس کے پندرہ سو روبل بنتے تھے اوروقاریا طغرل نے انہیں پانچ پانچ سو کے تین نوٹ دے دیے تو وہ چٹکی بجاتے دکھاتی تھیں کہ آپ نے دو نوٹ دیے ہیں یعنی پندرہ سو کی بجائے ایک ہزاراور اگرانہیں سوسوروبل کے پندرہ نوٹ دیے جاتے تو وہ اسی طرح چشم زدن میں دکھاتی تھیں کہ آپ نے پندرہ کی بجائے دس نوٹ دیے ہیں۔ جونہی وہ ششدرہوتے تھے وہ ہنس کر اپنے ہاتھ کی پشت دکھاتی تھیں جہاں انگلیوں کے انتہائی نچلے حصے میں دبے چوری کردہ نوٹ لٹکے ہوتے تھے۔ ایسا ایک تووہ مذاق میں کیا کرتی تھیں، دوسرے اس لیے نہیں چراتی تھیں کہ ان ٹھگوں کے اصول تھے جن میں ایک اصول یہ تھا کہ جہاں وہ رہتے ہوں،وہاں سے چند کلومیٹرکے دائرے میں وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرتے۔
وہ کہتے تھے کہ ان کے کام کے تین انجام ہو سکتے ہیں پہلا یہ کہ مال ہاتھ آ جائے، دوسرا یہ کہ پٹائی ہو جائے، تیسرا یہ کہ گرفتار ہو جائیں۔ پٹائی سے بچنے کے لیے وہ گاڑیاں بھگانے میں مشاق تھے اورگرفتاری سے بچنے کی خاطر جی کھول کررشوت دینے پررضامند۔ وہ ہمہ وقت چاق و چوبند اور تیار ہوتے تھے۔ بنیادی طور پر وہ خانہ بدوش لوگ تھے جو شہروں کی زندگیوں میں رچ بس گئے ہیں لیکن ان کا ذوق آوارگی انہیں کمانے اور گھمانے کے لیے ملک ملک لے جاتا ہے۔ انہوں نے بقول ان کے اطالویوں کو اتنا لوٹا ہے جتنا اطالوی مافیا نے بھی نہیں لوٹا ہوگا۔ زیادہ کمائی والا دوسرا ملک وہ روس کو سمجھتے تھے۔
وقاران ایرانیوں کی سرگرمیوں سے متاثر تھا اورمسلسل پیسے مارنے کی مشق کیے جاتا تھا۔ ویسے بھی وہ پنجاب کے اس علاقے سے تھا جہاں زمینداریاں چند ایکڑوں کی ہوتی ہیں اس لیے دشمنیاں کرنا، دھوکہ، فریب دینا، کمائی کی خاطر کوئی حربہ اختیار کر لینا یہ سب عام زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ طغرل اسے تنبیہہ توکرتا رہتا تھا لیکن جانتا تھا کہ وقار اس کی تعظیم کرتا ہے اس لیے ہاں ہاں تو کہے گا مگرنتیجہ ڈھاک کے تین پات کی مانند ہوگا۔ بہرحال طغرل کوبھی وقار پسند تھا خاص طورپراپنی حاضر جوابی اورجگت بازی کے باعث مثلا" ایک روزاس نے کہا تھا "طغرل صاحب دیکھیں لڑکی کتنی اچھی ہے"۔ طغرل نے کہا تھا،" ہاں اچھی توہے مگر دانت اچھے نہیں"۔ وقار نے پنجابی زبان میں ترنت جواب دیا تھا،" آپ نے دانتوں سے چنے چبانے ہیں کیا؟" ایسے ہی ایک روزطغرل نے کسی بات پر کہا تھا،" شیر بھوکا مرے پرگھاس نہ چرے" اس پر بھی وقار نے فوری فقرہ کسا تھا "مگر آپ نے تو گھاس چر لی" ۔ طغرل نے پوچھا تھا کیسے؟ تو اس نے کہا تھا اس لیے کہ آپ ہماری سطح کے لوگوں کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ وقارطغرل کی فکرودانش کا قدردان تھا۔
ایک روز طغرل کی وقار کے ساتھ اسی ہوٹل کی لابی میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک پیاری سی دھان پان بوٹا سے قد کی لڑکی تھی جو تھی تو انیس بیس برس کی مگر لگتی پندرہ سولہ سال کی تھی۔ وقار نے کہا تھا،" آئیں جناب کچھ پیتے ہیں" وہ لابی کے دائیں جانب واقع کیفے میں جا بیٹھے تھے اور چائے کا آرڈردیا تھا۔ چائے پیتے ہوئے آپس میں باتیں کرنے لگے تھے۔ اس لڑکی کا نام یولیا تھا۔ یولیا ہنس مکھ لڑکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں جنسی ہوس ٹھاٹھیں مارتی دکھائی دیتی تھی۔ وہ اس پوری ملاقات کے دوران وقارکی بجائے طغرل میں زیادہ دلچسپی لیتی دکھائی دی تھی۔ باربارطغرل کی آنکھوں میں جنس سے گاڑھی ہوتی اپنی آنکھیں گاڑ دیتی تھی۔ باقاعدہ ایسے لگتا تھا جیسے دعوت گناہ دے رہی ہو۔ طغرل آنکھیں چرا لیتا تھا کیونکہ اس کا وتیرہ نہیں تھا کہ کسی شناسا کے معاملات میں دخیل ہو۔
بات آئی گئی ہو گئی تھی۔ طغرل کو معلوم تک نہیں تھا کہ وہ لڑکی وقار کے ساتھ شب بتا کر گئی تھی۔ وہ اکثر ایسے اوقات میں فون کرتی تھی جب دفترمیں طغرل تنہا ہوتا تھا۔ ان دونوں کی شناسائی ہو گئی تھی۔ طغرل ہوٹل سے باہراس کے ساتھ کئی بار مل چکا تھا اوروہ اکٹھے گھومے پھرے تھے۔ جب وہ بہت دن وقار کے ساتھ دکھائی نہیں دی تھی تو ایک روز طغرل نے باقاعدہ وقار سے اجازت مانگی تھی کہ اگروہ اس لڑکی کو بلا لے تو کیا اسے برا تو نہیں لگے گا؟ وقار نے کھلے دل سے کہا تھا،" خوشی سے بلا لیں، مجھے بھلا کیوں برا لگے گا"۔ طغرل نے ایک رات اسے بلا لیا تھا۔ طغرل کی وہ رات اتنی اچھی گذری تھی کہ اس نے یولیا کو "ماستر" یععنی ماسٹرمطلب یہ کہ ماہرکا لقب دے دیا تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس عمل میں ماسٹر ہونے کا جس کی خاطر اس نے طغرل کے ساتھ رات بتائی تھی۔ یولیا کو بھی طغرل شاید بہت پسند آیا تھا۔ طغرل نے اسے بتایا تھا کہ وہ متاہل ہے، اس پر اس نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں، ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لو، میں کبھی کبھار وہاں آ جایا کروں گی، اس سے زیادہ میرا اورکوئی تقاضہ نہیں ہوگا۔ طغرل نے اس کی اس تجویز پرکان نہیں دھرے تھے۔ جس روز یولیا آئی تھی، اس روز وقار شام ڈھلے پہنچا تھا۔ اس کو شاید ریسیپشن والی نے بتا دیا تھا کہ یولیا کے نام پرکمرہ بک ہوا تھا۔ وقار نے بڑے سپاٹ انداز میں طغرل سے پوچھا تھا،"طغرل صاحب، یولیا کو آپ نے بلایا ہے؟"۔ طغرل نے کھسیانا سا ہو کرکہا تھا کہ تم نے ہی کہا تھا کہ چاہیں تو بلا لیں۔ اس پر وقار بولا تھا "میں نے کوئی اور بات کی ہی نہیں"۔ یہ کہتے ہوئے وقارغیرمعمولی طورپرسنجیدہ تھا۔ جب طغرل نے یولیا کو اس بارے میں بتایا تھا تو وہ بولی تھی کہ میری اپنی مرضی ہے، جب اورجس سے جیسا تعلق چاہے بناؤں۔
جب طغرل اگلے روز گھر پہنچا تھا تو نینا کا مزاج بگڑا ہوا تھا۔ اس نے طغرل سے کہا تھا کہ تم کل رات ایک لڑکی کے ساتھ تھے۔ چخ چخ کے بعد نینا نے کہا تھا کہ اسے کسی نے بتایا تھا۔ ظاہر ہے اس بارے صرف وقار کو پتہ تھا اوروقار کے پاس طغرل کے گھر کے فون کا نمبر بھی تھا۔ وہ نینا سے بھی متعارف تھا۔ طغرل نے عام مردوں کی طرح اپنی بیوی کی بات کودروغ پرمبنی قراردے دیا تھا۔ البتہ اس نے جب وقار سے استفسار کیا تووقار نے بہانہ گھڑا تھا کہ اس نے پی لی تھی جو اسے چڑھ گئی تھی اس لیے اسں نے بتا دیا تھا۔ طغرل نے اس سے کہا تھا "میں نے توآج تک نشے میں تمہاری بیوی کو فون کرکے تمہارے کرتوتوں سے مطلع نہیں کیا" اس پروقار نے سرجھکا لیا تھا چنانچہ طغرل نے بھی مزید ناراحتی ظاہر نہیں کی تھی۔
ان ہی دنوں ریسیپشن سے کوئی لڑکی کمرے کی چابی لے کر گذری توطغرل کووہ بہت اچھی لگی ۔ طغرل نے ریسیپشنسٹ سے پوچھا تھا کہ ابھی جو لڑکی چابی لے کر گئی ہے وہ کس نمبر کے کمرے میں ہے تو اس نے بتانے سے انکار کردیا تھا۔ طغرل کو ٹوہ لگ گئی تھی۔ بالآخردوروز کے بعد طغرل نے کسی طرح معلوم کر لیا تھا کہ وہ کونسے کمرے میں مقیم تھی ۔ طغرل بئیرکی چاربوتلیں لے کر اس کے کمرے کے باہرپہنچا تھا اوردروازے پردستک دی تھی۔ ماہ جبیں نے دروازہ کھولا تو طغرل نے معذرت کرتے ہوئے اجازت چاہی تھی کہ کیا وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر بیئر پی سکتا ہے ۔ لڑکی نے دروازے کے پٹ سے ہاتھ اٹھا لیا تھا یعنی اذن مل گیا تھا۔ طغرل نے ایک بوتل پینے کے بعد جب بیلاروس کے درالحکومت سے آئی مارینا نام کی اس لڑکی کا ہاتھ پکڑا تھا تواس نے ہاتھ چھڑائے بغیر کہا تھا کہ وہ اس قسم کی لڑکی نہیں اورطغرل نے "آئی ایم سوری" کہتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ مارینا نے کسی کو فون کرنا شروع کر دیا تھا۔ گفتگو میں اس نے کہا تھا کہ اس کے پاس فون کا بل دینے ادا کرنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ طغرل نے یہ سن کر جیب سے دو تین سو روبل نکال کر میز پر رکھ دیے تھے۔ مارینا نے فون پر گفتگو ختم کرنے کے بعد پیسوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا،"یہ کیا ہے؟" طغرل نے مسکرا کر کہا تھا "فون کا بل ادا کر دینا"۔ وہ ایک ادا کے ساتھ اٹھی تھی اور جھک کرطغرل کے گلے میں بانہیں ڈال کراپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں میں پیوست کردیے تھے۔ طویل بوسے کے بعد مارینا نے طغرل کا ہاتھ پکڑکراسے کرسی سے اٹھایا اورپلنگ پرلے گئی تھی۔ طویل القامت، ہالی ووڈ کی اداکاراؤں کی سی حسین مارینا سپردگی اورشراکت عمل میں بھی باکمال تھی۔ طغرل خود حیران تھا کہ تین سو روبل سے دگنا تو اس کے کمرے کا کرایہ ہوگا پھر اتنی مہربانی کیوں۔ مگر انسان بھی عجیب مخلوق ہے کبھی چھوٹی سی بات پر بے حد خوش ہو کر اپنا آپ پیش کر دیتا ہے اور کبھی بیش بہا پیشکش پر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اب طغرل کی تینوں گھی میں تھیں یعنی نینا، یولیا اور مارینا، چوتھی انگلی کو ابھی گھی میں جانا تھا اور پھر پانچویں کو بھی، مگربہت عارضی مدت کے لیے۔
فلورمینٹیننس کے لیے عموما" ادھیڑ عمرخواتین متعین ہوتی تھیں مگرایک نئی خاتون کو یہ جاب دیا گیا تھا جوستائیس اٹھائیس برس کی تھی۔ دبلی پتلی تاحتٰی اس کے سرین بھی لڑکوں کے سے تھے لیکن جنسی کشش پوری پوری تھی۔ طغرل نے اس کے ساتھ نظریں چارکی تھیں وہ بھی بلاوجہ مسکرانے لگی تھی بلکہ ایک بار تو جب وہ طغرل کے آفس کی ویکیوم کلیننگ کررہی تھی تو طغرل کی بیوی نینا دفتر پہنچی تھی۔ اسے طغرل اورآلسو کا ایک دوسرے کو خاص انداز میں دیکھنا مشکوک کرگیا تھا۔ اس نے آلسو کے جانے کے بعد طغرل سے پوچھا تھا کہ اس خاتون کے ساتھ تمہارا کیا سلسلہ ہے؟ چونکہ ابھی کوئی سلسلہ تھا ہی نہیں، تو اس نے کہا تھا کہ کوئی سلسلہ نہیں۔ نینا نے تنبیہا" کہا تھا "دیکھنا"۔
فلوروومن کے پاس جو کمرہ ہوتا تھا، اس میں بس ایک کرسی اورایک میز ہوتی تھی۔ ایک روز طغرل نے اس کے دفتر میں گھس کر دروازہ بند کیا تھا اور کرسی پر بیٹھ کر کہا تھا "کم آن"۔ آلسو نے کہا تھا " پتہ نہیں کیوں لیکن میں آپ کو انکار نہیں کرسکتی" یوں کرسی ان کے لیے سیج بن گئی تھی۔ آلسوروس میں طغرل کی واحد دوست خاتون تھی جو طغرل کے لیے "آپ" کا صیغہ استعمال کرتی تھی کیونکہ وہ بنیادی طورپرکازان کی تاتار تھی وگرنہ روس میں تو "آپ" کہہ کرغیرکومخاطب کیا جاتا ہے۔ والدین تک کو تم سے پکارا جاتا ہے۔ آلسو پھرایسی کھلی تھی کہ رات کو فلورکا کوئی بھی کمرہ کھول دیتی تھی بلکہ ایک بارتوجم میں ایکسرسائزسائیکل کی گدی اور ہینڈل نے ہی سیج کا کام دیا تھا۔ جم میں چاروں طرف اوپرسے نیچے تک آئینے تھے۔ نیم شب کو جم شیش محل ثابت ہوا تھا۔ آلسو کا گھر بھی فرلانگ سے زیادہ دورنہیں تھا۔ گھر میں دوکمرے تھے اوراس کا دس سال کا بیٹا۔ خاوند شرابی تھا جوگھر پھٹکتا تک نہیں تھا۔
مارینا سے ملاقات گاہے بگاہے ہوتی تھی۔ ایک بار طغرل ریسپشن میں مارینا سے روبروہواتو اس نے اسے ہائی بولا تھا لیکن وہ بیگانہ بنی کھڑی رہی تھی۔ طغرل کی ریسپشنسٹ کے سامنے ہیٹی ہو گئی تھی اس لیے وہ وہاں سے کھسک لیا تھا۔ کوئی پانچ چھ گھنٹے بعد مارینا نے اپنے کمرے سے فون کیا تھا اورطغرل کو یہ کہہ کر بلایا تھا کہ مجھے تم سے اہم بات کرنی ہے۔ طغرل کو غصہ تو بہت تھا مگروہ گیا تھا۔ مارینا نے وضاحت کی تھی کہ اس وقت جو لڑکی ریسپشنسٹ کے سامنے کھڑی تھی وہ اس کی ہم جنس پرست دوست تھی جو ماسکو میں اس کے قیام کا سارا خرچ برداشت کر رہی تھی۔ وہ بہت حاسد ہے، میں اس کے سامنے کسی مرد سے اپنا تعلق ظاہر نہیں کر سکتی۔ یہ کہنے کے بعد وہ طغرل کے ساتھ لپٹ گئی تھی، جب تک طغرل کے ست کا آخری قطرہ اپنے حلق سے نیچے نہیں اتار لیا تھا، اس نے طغرل کو نہیں چھوڑا تھا۔ طغرل خود کو آزاد کرانے کی خاطراس کو دوسری جانب دھکیل رہا تھا مگر اس نے کسی آکٹوپس کی طرح طغرل کو جکڑا ہوا تھا اورسب کچھ چوس لینے کے بعد ہی اس نے اپنی گرفت ڈھیلی کی تھی۔ طغرل کو زندگی بھر نہ تو اس سے پہلے اور نہ کبھی بعد میں ایسی سسکاریاں بھری سرشاری کا احساس نہیں ہوا تھا جس سے اس روز مارینا نے اپنی ہم جنسی کے معاوضے کے طور پر متعارف کرایا تھا۔
جب یولیا دوسری بار آئی تھی تو سیدھی دفترمیں پہنچی تھی۔ اس وقت وہاں وقارموجود نہیں تھا البتہ اس کے گاؤں سے کچھ عرصہ پہلے آیا ہوا اس کا کوئی عزیزیا دوست شاہد نامی موجود تھا، جس کے ذمے کرایہ داروں سے کرایہ وصول کرنے کا کام تھا۔ ایک اورنوجوان بھی بیٹھا تھا جوالٹے سیدھے کاموں میں وقار کا شریک کار تھا اور بنیادی طورپرموٹر مکینک۔ وہ روسیوں کی مانند روسی بولتا تھا، مگر گلی والی روسی زبان۔ روسیوں کی طرح ہی دھمکا کر کسی کے پاؤں سے زمین کھینچ سکتا تھا۔ خوبرو تھا مگریکسر ان پڑھ البتہ اس نے اپنے اطوار سے یہ احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ اس کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔
طغرل نے یولیا کے نام کمرہ بک کروا کے اسے کمرے میں انتظار کرنے کو کہا تھا اورروزانہ کرائے کی وصولی اور حساب کتاب کے معاملات نمٹانے کے لیے دفتر لوٹ آیا تھا۔ ایک اورلڑکی آئی بیٹھی تھی۔ یہ لڑکی ہوٹل کے سامنے والی سڑک کے اس پارایک دکان میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ سیلز گرل تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری کی خاطر جب طغرل کا اس دکان میں چند بارجانا ہوا تھا تو اسے یہ لڑکی اچھی لگی تھی۔ طغرل نے اسے دفترمیں دیکھ کر پوچھا تھا کہ یہ یہاں کیسے آئی ہے؟ شاہد خاموش رہا تھا، دوسرے شخص نے بتایا تھا کہ اسے شاہد نے مدعو کیا تھا۔ شاہد کو روسی زبان نہ آنے کے برابرآتی تھی چنانچہ لڑکی طغرل کے ساتھ باتیں کرنے لگی تھی۔ گفتگو کے دوران اس کی عشوہ طرازیوں کو نمایاں ہوتے دیکھ کر دوسرے نوجوان نے پنجابی میں کہا تھا،"طغرل صاحب، کس بات کا انتظار کر رہے ہیں، لڑکی رضامند ہے، لے جائیں غسل خانے میں"۔ طغرل نے ویسے ہی لڑکی سے کہا تھا،"اٹھو، میری بات سنو" وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ طغرل اسے لے کرغسل خانے میں گھس گیا تھا۔ جب وہ خاصی دیر باہرنہیں نکلے تھے تو باہرسے شاہد نے پوچھا تھا،" آپ لوگ اندر کیا کررہے ہیں؟" طغرل نے جس کی سانس اکھڑی ہوئی تھی، یہی کہا تھا،" کیا کر رہے ہیں، وہی جو کیا جاتا ہے"۔ تھوڑی دیر میں دونوں باہر نکل آئے تھے۔ شاہد کی شکل میں تشنج تھا اوردوسرا نوجوان شرارتی مسکراہٹ مسکرا رہا تھا۔ یوں اس روزہو گئی تھیں ناں پانچوں گھی میں ۔ البتہ اس لڑکی کے بدن سے اٹھتی ہمک نے طغرل کو لطف نہیں لینے دیا تھا۔
یولیا کے پاس کمرے میں جانے سے پہلے طغرل نے جا کرریسیپشن پرہدایت کی تھی کہ اگراس کی بیوی نینا کا فون آئے تو یہی کہنا ہے کہ طغرل سوچکا ہے، فون بالکل تھرو نہیں کرنا۔ ریسپشن پر موجود لڑکی نے حامی بھر لی تھی۔ رات کے پچھلے پہر طغرل جس کمرے میں تھا، اس کے دروازے پر دستک ہوئی تھی، پہلے ہلکے ہلکے اورپھر بہت زورسے۔ یولیا نے مضطرب ہوکرپوچھا تھا، کون ہو سکتا ہے۔ طغرل کو کیا معلوم تھا کہ کون ہے۔ شروع میں اس نے سوچا تھا جو بھی ہوگا جواب نہ پا کر چلا جائے گا۔ مگر جب دروازہ بہت زور سے بجایا جانے لگا تھا تو اس نے اٹھے بغیر پوچھا تھا کہ کون ہے؟ باہر سے ہوٹل کے محافظ نے جواب دیا تھا کہ میں ہوں۔ طغرل نے قمیص پہن کر بٹن بند کیے بغیر دروازہ کھولا تھا تومحافظ نے بتایا تھا کہ نیچے آپ کی بیوی آئی ہے ۔ طغرل پریشان ہو کر اس کے ہمراہ لفٹ کی جانب چل دیا تھا۔ اس نے راستے میں بتایا تھا کہ آپ کی بیوی پولیس کی گاڑی میں آئی ہے اورساتھ دو پولیس والے بھی ہیں۔ وہ بیچارہ سمجھ رہا تھا کہ شاید طغرل کی بیوی طغرل کے خلاف شکایت درج کرا کے پولیس والوں کو ساتھ لائی ہے۔ جاتے جاتے طغرل نے قمیص کے بٹن بند کیے تو وہ اوپر نیچے لگ گئے تھے جیسے بہت جلدی میں بند کیے گئے ہوں۔ طغرل جانتا تھا کہ پولیس والے اس کی بیوی کے رفقائے کار ہیں اورپولیس کی گاڑی ان کے دفتر کی گاڑی۔ طغرل جب گاڑی کی پچھلی کھلی ہوئی کھڑکی میں جھانکنے کے لیے جھکا تو نینا نے پوچھا تھا، "تم کس کے ساتھ ہو؟" طغرل نینا پرچڑھ دوڑا تھا کہ وہ کیوں آئی تھی۔ کیا اسے بدنام کرنے کی خاطر، ہوٹل کے عملے نے کسقدر برا تاثر لیا ہوگا، کیا یہ وہ جانتی تھی" نینا نے بس اتنا کہا تھا،" اگر تم اکیلے ہو تو اتنا گھبرانے کی کیا ضرورت ہے، اپنی قمیص کے بٹن تو ٹھیک سے بند کر لو" یہ کہہ کر اس نے اپنے کولیگ ڈرائیور سے کہا تھا "چلو"۔
طغرل محافظ کے ساتھ نکلتے ہوئے یولیا کو بتا گیا تھا کہ اس کی بیوی نے چھاپہ مارا ہے۔ جب وہ کمرے میں لوٹا تو یولیا ڈر کے مارے تقریبا" کانپ رہی تھی۔ طغرل اسے پہلے بتا چکا تھا کہ اس کی بیوی بہت حاسد تھی اورمارشل آرٹس بھی جانتی تھی۔ طغرل نے اسے تسلی دی تھی تاہم ان دونوں کی یہ رات تو برباد ہو چکی تھی۔ یولیا الجھن اوراضطراب میں کوئی چھ بجے ہی ہوٹل سے نکل گئی تھی۔
ایک روز پہلے طغرل آلسو سے بھی وعدہ کر چکا تھا کہ وہ گھرجانے سے پہلے اس کے ہاں آئے گا تاکہ وصال کا لطف لیا جا سکے۔ اسے وعدہ نبھانا تھا چنانچہ اس کے ہاں چلا گیا تھا۔ آلسو کے ساتھ یگانگت نے اسے کل شام والی لڑکی کے بدن کی ناگوار ہمک اور بیوی کے رات گئے چلے آنے سے پیدا ہونے والی ناخوشگواری بھلا دی تھی، پھر آلسو کا اندام ایسا تھا کہ جیسے کھلتا ہوا پھول۔ کون نہیں جانتا کہ اندام نسواں کوئی خوشنما انگ نہیں مگر آلسواس معاملے میں شاید یکتا تھی۔ کم ازکم طغرل کو تو یہی لگا تھا اوراب تک لگتا ہے۔ بہر حال جب وہ تلذذ سے عہدہ برآء ہوکرگھرجا رہا تھا تو شکرکر رہا تھا کہ نینا کے ساتھ رات کو رنجش ہو گئی تھی وگرنہ اب اس میں مزید ملوث ہونے کی سکت باقی نہیں رہی تھی۔
آٹھ مارچ 1999 کی رات طغرل نے آلسوکے گھربسرکی تھی۔ 9 مارچ کو کوئی دس بجے وہ ہوٹل کے دفتر پہنچا تھا۔ گیارہ بجے کے قریب گھر جانے کونکلنے کی سوچ رہا تھا کہ وقاردفترمیں داخل ہوا تھا۔ وقار نے پوچھا تھا،"آپ نکل تو نہیں رہے؟" "بس نکلا ہی چاہتا ہوں" طغرل نے جواب دیا تھا۔ اس نے کہا تھا،" آدھ پون گھنٹہ مزید انتظار کر لیجیے، مجھے آپ کی ٹوپی چایے، مجھے کہیں جانا ہے، بس گیا اورآیا سمجھیں"۔ طغرل نے ٹوپی وقار کو دے کر ٹانگیں سیدھی کرلی تھیں۔ وقارکوئی ایک گھنٹے بعد لوٹا تھا۔ طغرل نے گلہ کیا تھاکہ بہت دیر لگا دی جس پروقار نے معذرت کی تھی۔ وقارسے ٹوپی لے کر طغرل نکل گیا تھا۔ باہر نکل کرسڑک سے ٹیکسی پکڑی تھی اورزیرزمین ریلوے کے قریبی سٹیشن پہنچ کرسیڑھیاں اترکرسٹیشن میں داخل ہو گیا تھا۔ ٹرین کا انتظارکرنے کی خاطر طغرل جس ننچ پر بیٹھا تھا اس پرایک جوان اورخوبصورت لڑکی ملول سی بیٹھی تھی۔ طغرل نے اس سے پوچھا تھا،"اتنی اداس کیوں ہیں آپ؟" یہ کہہ کر اس کی نگاہ اٹھی تو اس نے دیکھا تھا کہ تھوڑی دورکھڑا ایک مضبوط تن و توش والا نوجوان ان دونوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ طغرل نے یہ سوچ کرکہ کہیں یہ لڑکی اس نوجوان کی گرل فرینڈ نہ ہو مزید کوئی بات نہیں کی تھی۔ اتنے میں ٹرین آ پہنچی تھی۔ طغرل ایک دروازے سے کمپارٹمنٹ میں داخل ہو گیا تھا۔ اس روسی نوجوان نے جو کمپارٹمنٹ کے دوسرے دروازے سے داخل ہوا تھا، طغرل پر نظریں گاڑی ہوئی تھیں۔ طغرل نے اس کے اس عمل کو درخور اعتناء نہیں جانا تھا۔ طغرل نے کچھ سٹیشنوں کے بعد ٹرین تبدیل کی تھی، وہ نوجوان اس ٹرین کے اسی کمپارٹمنٹ میں موجود تھا جس میں طغرل سوارہوا تھا۔ طغرل کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ مگرجب آخری اور تیسری ٹرین تبدیل کی تو یہ نوجوان طغرل کے بالکل سامنے آ کر بیٹھ گیا تھا اورطغرل کو گھورنے لگا تھا۔ طغرل عموما" گھورنے والے کو خود بھی گھورنے لگ جاتا تھا مگر اس روز نجانے کیوں طغرل ڈرگیا تھا، اس نے نظریں نہیں اٹھائی تھیں۔ جب طغرل کا سٹیشن آیا تووہ نکل آیا تھا پراس نے اس نوجوان کو اترتے نہیں دیکھا تھا۔ سٹیشن سے باہر نکل کرطغرل نے راہ چلتے ہوئے دوبارمڑکردیکھا تھا مگر وہ نوجوان دکھائی نہیں دیا تھا۔ کوئی ایک سو میٹر چلنے کے بعد طغرل نے سڑک پار کی تھی اور ایک پارک میں سے گذرنے والے ترچھے راستے پرہولیا تھا تاکہ شارٹ کٹ لے جو اس کا روزانہ کا عموم تھا۔ ترچھی راہ کے آخر پر پہنچ کر طغرل نے ایک بار پھر گھوم کر دیکھا تھا۔ راستے کے وسط میں ایک ادھیڑعمرکا شرابی لڑکھڑاتا ہوا آ رہا تھا، اس کے علاوہ کوئی اورنہیں تھا۔ دن کے کوئی اڑھائی بجے تھے۔ اگرچہ ہر طرف برف کی بڑی بڑی ڈھیریاں تھیں مگردھوپ چمک رہی تھی۔ دن پر رونق تھا۔ ترچھی راہ سے نکل کر چند قدم چلنے کے بعد جب وہ ایک بلند رہائشئ عمارت کی اوٹ میں پہنچا تھا تو چراغوں میں روشنی نہ رہی تھی۔ پھر جب طغرل کے ہوش بجا ہوئے تواس کے ناک ، کان اورسرسے خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ اس نے دونوں ہتھیلیوں سے پھوٹنے خون کو ڈھانپا تھا اور پیدل چلتا ہوا گھر پہنچا تھا۔ روس میں خون میں لت پت شخص کو دیکھ کر لوگ کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا شخص نشے میں دھت ہو کرکسی کے ساتھ لڑائی کرکے، مارکھا کرجا رہا ہوتا ہے۔ طغرل کو بھی گھرتک کی راہ میں چند ایک افراد ملے تھے جنہوں نے کنکھیوں سے دیکھا تھا اوربس۔ طغرل نے اپنے اپارٹمںٹ کے دروازے پر پہنچ کر بیل بجائی تھی۔ اندر سے نینا کی آواز آئی تھی "کون" ۔ طغرل نے کہا تھا "دروازہ کھولو"۔ نینا نے کہا تھا،"چابی تمہارے پاس ہے کھول لو"۔ طغرل نے چیخ کر کہا تھا، "کھولودروازہ"۔ نینا نے دروازہ کھولا تھا تو طغرل کی حالت دیکھ کر بیہوش ہوتے ہوتے بچی تھی۔ طغرل نے کہا تھا،"جلدی سے میڈیکل ایمرجنسی کوفون کرو"۔
ایمرجنسی روم میں پہنچنے کے کوئی دس منٹ بعد ایک ڈاکٹرنے طغرل کے دائیں کان کے اوپر والے حصے پر افقا" تین ٹانکے لگائے تھے کیونکہ یہ کان چرا ہوا تھا۔ غالبا" حملہ آورنے سرپروار کرنے کے بعد جب طغرل گر گیا تھا تو اس کے سرکو ٹھوکروں پررکھ لیا تھا۔ سراور ناک سے خون بہنا سمجھ آتا تھا لیکن کان کیسے چرا اسی سے اندازہ ہوا تھا کہ ٹھوکریں ماری ہونگی۔ طغرل کی جیکٹ کی جیب میں رکھی ہوئی ہوٹل کی خاصی کمائی میں سے ایک کرنسی نوٹ تک غائب نہیں ہوا تھا۔ کان سی دیے جانے کے بعد ایک دوسرے ڈاکٹر نے طغرل کی ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے حرام مغز سے تجزیہ کرنے کی خاطر مائع نکالا تھا۔ سرنج میں بھرا خون آلود مائع دکھا کرڈاکٹر نے طغرل سے کہا تھا،" لگتا ہے نتیجہ کچھ اچھا نہیں ہوگا" اس کی اس بات پر طغرل خاموش رہا تھا۔ پھر اسے ہسپتال کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ تھوڑی دیربعد نینا روتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ طغرل نے اسے کہا تھا کہ کیا تمہیں ڈاکٹرنے کہا ہے کہ میں مر جاؤں گا، تسلی رکھو میں نہیں مروں گا۔ نینا روتی رہی تھی۔ اس نے بہت دنوں کے بعد بتایا تھا کہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگلے چوبیس گھنٹے انتہائی نازک ثابت ہو سکتے تھے۔ طغرل کو اتنی معلومات تو تھیں ہی کہ اگر خون دماغ کی جھلی سے گذرکرحرام مغز میں داخل ہو جائے تو ایسے میں بچنا مشکل ہوتا ہے لیکن طغرل کو جو سدا کا وہمی تھا بے حد یقین تھا کہ وہ نہیں مرے گا۔ اس نے اس دوران جب وہ باہوش دنیا میں نہیں تھا کچھ دیکھا تھا۔ جو دیکھا تھا وہ ابھی کسی کو نہیں بتانا چاہتا تھا کیونکہ اسے بذات خود بہت سے شکوک تھے جیسے کہیں یہ اس کی اپنی سوچ تو نہیں تھی؟ کہیں اس کے زندہ رہنے کی خواہش کا نتیجہ تو نہیں تھا؟ کہیں اس نے یہ گمان تو نہیں کرلیا تھا؟ ان سب کے باوجود وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیا تھا؟
شام ڈھلنے کے بعد وقاراوراس کا وہ دوست جو اس کے کرتوتوں میں شامل تھا، طغرل کی عیادت کرنے ہسپتال پہنچے تھے۔ اس وقت تک طغرل کا چہرہ اورخاص طور پر دائیں جانب کی آنکھ اورناک کا دایاں حصہ پھول کرکپا ہوچکے تھے۔ چہرے کے اس حصے پرجگہ جگہ چھوٹے چھوٹے زخم تھے۔ طغرل کی شکل دیکھ کروقار ی شکل پرتکلیف کے اثرات ہویدا تھے مگر اس کا دوست مطمئن رہا تھا البتہ اس نے طغرل کے چہرے کی جانب دیکھ کر اپنی مخصوص پنجابی میں کہا تھا "کام کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے"۔ اس کے کہے اس فقرے سے طغرل کو شک ہو گیا تھا کہ کہیں یہ کارستانی وقار کے کہنے پر اس کے دوست نے اپنے کسی روسی شہدے دوست سے نہ کروائی ہو۔ یولیا کا چھن جانا، وقار کے دوست شاہد کی بلائی لڑکی سے طغرل کا وصل اورساتھ ہی طغرل کویاد آیا تھا کہ بہت پہلے جب ایک اورہوٹل میں اپنے کسی دوست کے دفاع کے لیے وقار کا یہ دوست جو تب اس کا شناسا نہیں تھا، وقار سے لڑنے آیا تھا تب طغرل اپنے دو شناسا نوجوانوں کے ہمراہ اس ہوٹل سے باہرنکلا تھا اور ساتھ ہی اس شخص کا وہ دوست بھی جس کے دفاع میں یہ پہنچا تھا۔ طغرل کے یہ دونوں ساتھی اس کے اس دوست پر پل پڑے تھے۔ طغرل نے لڑائی روکنا چاہی تھی۔ اس پران میں سے ایک نے کہا تھا،"آپ ہمارے دوست ہیں، یا اس کے۔ آپ بھی ماریں اسے" طغرل نے بھی چار و ناچار اسے دو ایک تھپڑ جڑ دیے تھے لیکن ساتھ ہی ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ مار کھانے والا بھاگ سکے۔ بظاہر اپنی جانب سے کی گئی ان زیادتیوں کے علاوہ طغرل کوان لوگوں کی سوچ کی سطح اورمنتقمانہ خو نے بھی اس طرح سوچنے پر مجبور کیا تھا۔
ہسپتال میں قیام کے دوران نینا کے علاوہ اظفرنے طغرل کا خیال رکھا تھا۔ ماسکو کے ہسپتالوں میں تیمارداری کرنا توعملے کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن مریض شخص کو اوقات ملاقات کے دوران کسی کا روز ملنے آنا بھی بڑی بات تھی۔ اظفرمزے مزے کے کھانے بنا کر لاتا تھا لیکن چارروز بعد ہی کھانوں کے ذائقے طغرل کے لیے لذت کھو چکے تھے کیونکہ طغرل کو شدید لقوہ ہو گیا تھا۔ اس کے چہرے کا بایاں حصہ دائیں جانب کھنچ گیا تھا۔ بائیں آنکھ بند ہونے سے قاصر تھی۔ طغرل کو یاد آیا تھا کہ اسے جوانی میں بھی ایک بار لقوہ ہوا تھا، چہرے کی کس جانب اس بارے میں اسے یاد نہیں رہا تھا۔
دوسرے روز آلسو ملنے آئی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ آنے سے پہلے مستقبل کا حال بتانے والی کسی بوڑھی کے پاس گئی تھی جس نے بتایا تھا کہ طغرل طویل عمر پائے گا اگرچہ ابھی وہ موت و حیات کی کشمکش سے گذرا تھا۔
تیسرے روزیولیا کوپتہ چلا تھا تووہ بھی آ گئی تھی۔ وہ طغرل کے لیے ہرمن ہیس کی کتاب سدھارتھا خرید کرلائی تھی۔ اتنے مختصرتعلق کے بعد اسے طغرل کے ذوق کا پتہ چل گیا تھا یہ طغرل کے لیے خوش کر دینے والی بات تھی۔ وہ ہسپتال میں بھی اپنی شرارت اورمہارت سے بازنہیں آتی تھی۔ طغرل کا سہارا لے کر ہسپتال کے بیڈ پر بیٹھے، طغرل کے کمبل تلے ہاتھ دے کردست درازی کرتی رہتی تھی اور اپنی خوبصورت مسکراہٹ مسکرائے جاتی تھی، بعض اوقات کھلکھلا کر بھی ہنس دیا کرتی تھی۔ طغرل اظفراوریولیا دونوں کا شکر گذار تھا۔ طغرل کوڈرلگا رہتا تھا کہ کہیں یولیا کے ہوتے ہوئے نینا نہ آ جائے۔ اس نے اس خدشے کا ذکر یولیا سے کیا تھا تواس نے حسب معمول شرارتی انداز میں کہا تھا "میں جھٹ سے کسی اورمریض کے بیڈ پرجا بیٹھوں گی"۔ لیکن اس سے ایسا نہیں ہو سکا تھا کیونکہ نینا نہیں آئی تھی بلکہ اس کا بیٹا ساشا آیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ ہسپتال میں نہانے کا انتظام نہیں تھا۔ طغرل نے نینا سے کہا تھا کہ اگراس کا داماد لیونیا آ کراسے تھوڑی دیر کے لیے اپنی گاڑی پرگھر لے جائے تووہ نہا کر واپس ہسپتال آ جائے گا۔ ایک روز یولیا آئی ہوئی تھی۔ طغرل کو حاجت محسوس ہوئی وہ یولیا کو اپنے بیڈ کے پاس بیٹھی چھوڑکرچلا گیا تھا۔ باہرچونکہ سردی تھی چنانچہ نینا نے اپنے داماد کے ہمراہ ساشا کو طغرل کی جیکٹ دے کر بھیجا تھا۔ ساشا نے جب لڑکی کو بیٹھے دیکھا توماں کی محبت میں اسے کچھ الٹا سیدھا کہہ دیا تھا۔ وہ چلی گئی تھی۔ جب طغرل باتھ روم سے لوٹا تو وہ موجود نہیں تھی البتہ ساشا جیکٹ لیے متشنج چہرے کے ساتھ کھڑا تھا۔ طغرل نے اس سے استفسار کرنا مناسب خیال نہیں کیا تھا اورجیکٹ پہن کراس کے ہمراہ جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ جب لیونیا نے انہیں گھر کے باہر یہ کہتے ہوئے ڈراپ کیا کہ میں ایک گھنٹے بعد آ کرہسپتال پہنچا دوں گا تو ساشا اور طغرل عمارت میں داخل ہو کر لفٹ میں داخل ہوئے تھے۔ لفٹ میں ساشا نے یولیا کے بارے میں پوچھا تھا تو طغرل نے اسے ڈانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ اپنی ماں سے ذکر نہ کرنا۔
ساشا کے تیوردیکھ کر طغرل کو خود پر ہوئے حملے کے سلسلے میں اس پر بھی شک ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساشا اب بڑا ہو چکا تھا۔ جن بچوں کے ماں باپ کے درمیان طلاقیں ہو جاتی ہیں اور مائیں دوسرے مردوں کی بیویاں بن جاتی ہیں تو بچے بڑے ہوکران مردوں کے مخالف ہوجایا کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان مردوں نے ان کے باپوں کی جگہ لینے کی کوشش کی ہے۔ ایسا ہی ساشا کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ ایک روز جب وہ بہت نشے میں گھر پہنچا تھا تو طغرل دروازے سے باہر برآمدے میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ ساشا نے سرخ سرخ آنکھیں نکال کر دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا، "اگر تم نے کبھی میری ماں کا دل دکھایا تو تمہیں اپنے ہاتھوں سے اپنی قبرکھودنی ہوگی"۔ طغرل کو پتہ تھا کہ وہ نشے میں یہ بکواس کر رہا تھا اس لیے اس نے کہا تھا،" اگر مجھے مرنا ہی ہوگا تو میں کیوں اپنی قبر کھودوں گا، جو مارے گا وہ قبر بھی کھود لے گا "۔ طغرل کو لگا تھا کہ کہیں ساشا نے تو اپنے کسی لفنگے دوست کو اس کے پیچھے نہیں لگا دیا تھا۔
بہت بعد میں پتہ چلا تھا کہ ساشا نے یولیا کے بارے میں اپنی ماں کو بتا دیا تھا۔ وہ درپے ہو گئی تھی کہ طغرل کو چھوڑ دے گی لیکن نینا کے ہی بقول اس کی بیٹی آلا نے سمجھایا تھا کہ جس حالت میں اس وقت طغرل ہے، ایسے میں کوئی ایسا قدم اٹھانا مناسب نہیں۔ وہ صحت یاب ہو جائے تو طے کر لینا۔
یولیا اس واقعے کے بعد بھی آئی تھی مگرتب طغرل کسی کے ساتھ ہسپتال سے باہر بیٹھا ہوا تھا۔ جب وہ کمرے میں لوٹا تھا تو ساتھی مریض نے بتایا تھا، "تمہاری بیٹی تمہیں ملنے آئی تھی" طغرل نے اس کی تصحیح کرنے سے اغماض برتا تھا۔
جوماہراعصاب طغرل کا معالج تھا۔ اس نے طغرل کو سختی سے منع کیا تھا کہ لقوہ کا مکمل علاج کیے جانے کی خاطر الکحل سے یکسر گریز کیا جانا ہوگا مگرجو ڈاکٹررات کی ڈیوٹی پر ہوتا تھا، اس نے طغرل سے کہا تھا کہ تمہارا ڈاکٹر یونہی کہتا ہے، آو بیئر پیتے ہیں۔ اس کے کہنے پرطغرل نے ڈاکٹر کے ساتھ چند بار بیئر پی لی تھی، شاید یہی وجہ تھی کہ طغرل کے لقوے کا صددرصد مداوا نہیں ہو پایا تھا۔
طغرل کو سب سے بڑا صدمہ لقوے سے نہیں ہوا تھا جواس کی شاہد بازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا بلکہ ایک اورمظہر سے ہوا تھا۔ وہ ایسے کہ ایک روز طغرل کے سامنے پیالی پڑی ہوئی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ پیالی کو اردو میں پیالی کہتے ہیں اورروسی زبان میں چیاشکا لیکن انگریزی میں کیا کہتے ہیں اسے بھول چکا تھا تاحتٰی یہ بھی بھول چکا تھا کہ انگریزی کوانگریزی زبان میں انگلش کہتے ہیں۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ توانگریزی کا ایک ایک لفظ بھول چکا تھا۔ وہ تلملا اٹھا تھا اور بہت زیادہ پریشان ہو گیا تھا۔ اگلے دن جب اس کا معالج راؤنڈ پرآیا تھا تو اس نے اس سانحے کے بارے میں اسے بتایا تھا۔ ڈاکٹر مسکرا دیا تھا اوراس نے کہا تھا،" گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اسے طب کی زبان میں "ترانزی یینٹ ایمنیزیا" یعنی عارضی نسیان کہتے ہیں، وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا"۔
کوئی بیس روز کے بعد طغرل کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ وہ اگلے ہی روز ہوٹل پہنچا تھا۔ ہوٹل میں ایک بہت شفیق میٹرن ہوا کرتی تھی جو اسے اتفاق سے لفٹ میں ملی تھی۔ جب اس نے طغرل کے بگڑے چہرے کی جانب دیکھا تھا تو طغرل نے بے اختیار کہا تھا، "دیکھیں میرے چہرے کے ساتھ کیا ہو گیا ہے"۔ شفیق عورت نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں، ہاتھ پیر تو سلامت ہیں ناں۔ اس پر طغرل کو احساس ہوا تھا کہ واقعی درست کہتی ہے۔ اس نے ہسپتال میں ایک ایسے نوجوان کو دیکھا تھا جو سر کی چوٹ سے اس قدر متاثر ہوا تھا کہ اس کو اپنی چال اورہا تھوں کی حرکات پرقابو نہیں رہا تھا، عجیب بے ڈھنگے طریقے سے چلتا تھا۔ طغرل نے اس خدا کا لاکھ شکرادا کیا تھا جس کو وہ اب تک نہیں مانتا تھا۔ البتہ اسے ہوش میں آنے سے پہلے جودکھائی دیا تھا، اس سے وہ سوچنے پر مجبور ضرور ہو گیا تھا۔
طغرل نے جو دیکھا تھا، اس کا جب اس نے تذکرہ کرنا شروع کیا تھا تووہ یہ کہہ کرآغاز کیا کرتا تھا کہ "جب میری آنکھ کھلی" ۔ ۔ ۔ وہ کبھی نہیں کہتا تھا کہ جب مجھے ہوش آیا ۔ ۔ ۔کیونکہ یا تو اسے یاد نہیں رہا تھا یا پھرتھا ہی ایسے کہ اس نے خود کو زمین سے اٹھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اسے ایسے لگا تھا جیسے وہ بس کھڑا تھا پھراس نے دیکھا کہ اس کے ناک ، کان، سرسے خون پھوٹ رہا تھا۔ شکر کی بات یہ تھی کہ طغرل نے سر پراوڑھی اونی ٹوپی کے اوپر موٹی تہہ کی جیکٹ کا "ہوڈ" بھی اوڑھا ہوا تھا،