" مثل برگ آوارہ" کا دسواں در
کاروبارمیں ناکامی کی وجوہات میں اہم ترین وجہ آمدنی و اخراجات میں تفاوت کا ہونا تھی۔ اخراجات تو بہرطورکرنے ہوتے تھے مگرمال جوموجود تھا بکتا نہیں تھا یا پرچون میں بکتا تھا۔ عاصم کی جانب سے ایک فاش غلطی ہو گئی تھی۔ اس نے سفید اورسیاہ جیکارڈ کپڑے کا ایک کنٹینر بھیجا تھا۔ طغرل نے اسے دورکے شہروں کی دو پارٹیوں کو بھجوا دیا تھا۔ دونوں طرف سے شکایت موصول ہوئی تھی کہ کپڑے میں نقص ہے۔ طغرل نے کہا تھا، کوئی بات نہیں، میرے اخراجات پر تمام کپڑا ماسکو واپس بھجوا دو۔ ایک کنٹینر کپڑا تقریبا" ایک لاکھ ڈالرکے مساوی رقم کا بنتا تھا۔ طغرل نے عاصم سے بات کی کہ ڈیمانڈ تو موجود ہے لیکن کپڑے کا ایک ایک میٹر جانچ پڑتال کے بعد بھجوایا جائے۔ دو ماہ کے بعد عاصنم نے اس یقین دہانی کے ساتھ کہ تمام کپڑے کی پوری طرح سے پڑتال کی گئی ہے، اکٹھے دوکنٹینربھجوا دیے تھے۔ پارٹیوں سے پہلے ہی طے تھا کہ نیا پڑتال شدہ کپڑا ملنے کے بعد کسٹم سے فراغت کے بعد فورا" انہیں بھجوا دیا جائے گا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا تھا۔ تین روز بعد پارٹیوں کی جانب سے دہائی دی گئی کہ یہ کپڑا بھی ناقص ہے۔ جب طغرل نے عاصم سے بات کی تو وہ بضد تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس نے طغرل کو تجویز دی تھی کہ وہ کپڑے کے تھانوں میں سے کہیں کہیں سے دو دو میٹر کے ٹکڑے کاٹ کرکراچی بھجوائے تاکہ چیک کرنے والوں اورسپلائی کرنے والوں سے پوچھ گچھ کی جا سکے۔ اس نے ایسا ہی کیا تھا۔ دو ہفتے تک عاصم کی جانب سے کوئی خبرنہیں ملی تھی۔ جب طغرل نے خود اس سے رابطہ کیا تھا تو اس نے بتایا تھا کہ دونوں فریق نہیں مان رہے کہ سارا کپڑا ناقص ہو سکتا ہے اورساتھ ہی کہا یارکچھ کرو، ظاہر ہے کپڑا واپس منگوانا مشکل ہے۔ ہوا یہ تھا کہ عاصم نے اپنے ایک شریف النفس میمن صنعتکار دوست سے درخواست کی تھی کہ اپنے ملبوسات سازی کے کارخانے سے کپڑے کی پڑتال کرنے والے کچھ ماہرین فراہم کرے جو اس نے کردیے تھے۔ کپڑا چیک کرنے کے دوران غالبا" کپڑا سپلائی کرنے والے چنیوٹی بروکر نے ان اہل کاروں کو عاصم کی جانب سے دیے گئے معاوضے کے برابر یا زیادہ اجرت دے دی ہوگی اورانہوں نے پڑتال کیے بغیر کپڑے کے معیاری ہونے کی تصدیق کر دی تھی۔ طغرل کو اپنے خرچ پرایک تہائی کپڑا واپس لینا پڑا تھا اوردوتہائی کوایک تہائی قیمت پربیچنا پڑا تھا۔ بہت بڑا نقصان تھا لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ کاروبارگھٹنوں کے بل زمین پرآ رہتا اگرکراچی سے مال کی فراہمی جاری رہتی مگر ایسا نہیں ہو سکا تھا۔ اس کی بھی ایک وجہ تھی۔
کوئی دو سال پیشتر جب طغرل کراچی گیا تھا تو عاصم کا ڈرائیوراسے ہوائی اڈے سے لے کرسیدھا عاصم کے دفتر پہنچا تھا۔ عاصم کے ساتھ اس کا ایک دوست جو کراچی کسٹمز کا ایک اعلٰی افسرتھا محو گفتگو تھا۔ عاصم نے ضرب تقسیم کا ایک سوال طغرل کے ذمے لگا دیا تھا کہ جواب نکال لو گے تو باقی بات بھی تمہیں بتا دیتے ہیں۔ جب طغرل نے لاکھوں کے ہندسے میں جواب پیش کیا توکسٹم افسر شاہ صاحب گویا ہوئے،" عاصم صاحب اتنا جیکارڈ تو پورے سال میں پورے پاکستان میں بھی نہیں بنتا ہوگا"۔
طغرل نے جب استعجاب سے ان دونوں کی جانب دیکھا تو عاصم نے بتایا کہ ایک پارٹی نے گوادر کی بندرگاہ سے ایک مہینے میں جتنا تم نے حساب لگایا ہے اتنے میٹرکپڑا ایکسپورٹ کیا ہے۔ یاد رہے اس زمانے میں گوادرنام کی بندرگاہ سے صرف لانچیں چلتی تھیں۔ لانچ میں مال چڑھانے کے لیے حمالوں (بوجھ اٹھانے والے مزدوروں) کومال کندھوں پراٹھا کرگھٹنوں گھٹنوں پانی میں چلتے ہوئے جا کر لانچ میں چڑھانا ہوتا تھا جبکہ جیکارڈ کی ایک بیل (گانٹھ) کا وزن ستراسی کلوگرام ہوتا ہے۔ یعنی یہ ساری ایکسپورٹ فراڈ تھی جس کی مد میں کروڑوں روپے ریبیٹ لیا جانا مقصود تھا۔ اس کام میں عاصم کے ایک شناسا نوجوان کے ساتھ بلوچستان اورکراچی کے کسٹمزکلکٹربھی ملوث تھے۔ عاصم اس معاملے میں حد سے زیادہ دلچسپی لے رہا تھا۔ اتنے میں وہ نوجوان بھی اتفاق سے پہنچ گیا تھا جو مبینہ طورپراس جرم میں ملوث تھا۔ وہ مان ہی نہیں رہا تھا۔ عاصم نے اس سے کہا تھا کہ تم شاہ صاحب یعنی وہاں موجود کسٹم افسر کو ایک نئی کار لے دوتومعاملہ دب جائے گا ورنہ بہت دھول اٹھے گی۔ بات طے نہیں ہو سکی تھی۔ شام کو طغرل نے عاصم کو سمجھایا تھا کہ اس معاملے میں نہ پڑے کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں مگر اس نے اس کی نصیحت کو ہنس کر ٹال دیا تھا۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ دو سال بعد اس جرم میں ملوث فریقین نے پولیس کے ساتھ مل کر عاصم کو ناک چنے چبوا دیے تھے۔ ان کا توجونقصان ہونا تھا ہوا یعنی انکوائری کمیٹی بیٹھ گئی تھی مگروہ عاصم کوزمین پر لے آئے تھے۔ عاصم باہمت شخص تھا، اس نے رفتہ رفتہ اپنے کراچی کے کاروبار کو تو سنبھالا دے لیا تھا لیکن ماسکو کے کاروبارسےعہدہ برآء نہیں ہوسکتا تھا اس لیے ہاتھ یکسرکھینچ لیا تھا۔ طغرل عاصم کو مسلسل رقوم بھیجتا رہا تھا۔ اس کا نقصان تو ہوا تھا لیکن اتنا نہیں۔ کچھ نقصان بے ایمان چنیوٹی بروکر کا ہوا تھا لیکن سب سے بڑا نقصان طغرل کو پہنچا تھا جو چارسال سے کام کررہا تھا اورسمجھوتے کے مطابق حساب ہونے پراسے اس کا حصہ ملنا تھا۔ عاصم نے اس سے کہا تھا دینے والوں سے جو تم وصول کرلو وہ تمہارا۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ طغرل نے ایک پارٹی کو الماآتا میں ادھارپرمال دیا ہوا تھا۔ ایک بیلاروس والا ساشا تھا جو گم ہو گیا تھا۔ ایک سپارتاک والا سرگئی تھا جو ٹرک لے کرآ گیا تھا اوربچے کھچے ملبوسات جن کی مالیت کوئی پچیس ہزارڈالربنتی تھی، لے کرچلا گیا تھا۔ طغرل نے اسے مال اس لیے ادھارپردے دیا تھا کہ ویسے بھی مال پڑا ہوا ہے، کچھ تو رقم ملے۔ مافیا ہرماہ وصولی کے لیے آ دھمکتی تھی۔ دفتر کا کرایہ بڑھ چکا تھا اوربڑھتا رہتا تھا۔ عملہ موجود تھا، تنخواہیں دینی پڑتی تھیں۔ چنانچہ طغرل نے سوچا کہ عملہ کم کر دیا جائے۔ احسن اپنی والدہ کی ناگہانی موت کی وجہ سے پاکستان واپس جا چکا تھا۔ سہیل بھی چلا گیا تھا۔ طغرل نے دونوں روسی مینیجروں کو فارغ کردیا اوراکاؤنٹنٹ کو پارٹ ٹائم ۔ اظفراورمینیجر تاجک کو سارا کام سونپ دیا اور خود وصولی کرنے کی خاطرٹرین میں سوارتین دنوں اورچارراتوں کا سفرکرکے الما آتا کزاخستان پہنچ گیا تھا۔
طغرل اس سے پہلے بھی الماآتا آیا تھا۔ اس کی رہائش کا انتظام رؤف تاتارنے کیا تھا۔ رؤف تاتار، نینا کی ایک سہیلی کے ساشا نام کے بیٹے کا دوست تھا، دونوں ماسکو آئے تھے جہاں طغرل اور حسام انہیں ایک ریستوران میں ملے تھے اوراسے مال دینا طے پایا تھا۔ پہلا دورہ گفتگو اورسیرپرمشتمل تھا۔ سیر کرانے میں رؤف کی بجائے ساشا اور اس کے دو دوست شامل رہے تھے۔ البتہ اس بارطغرل اپنے طور پر آیا تھا تاکہ رؤف سے وصولی کرسکے۔ طغرل نے الما آتا میں کراچی کے ایک جوان تاجر حافظ رحیم کے ہاں قیام کیا تھا۔ حافظ رحیم چند سال پیشتر ماسکو میں تھا تب اس نے اس اپارٹمنٹ میں قیام کیا تھا جس میں عاصم مقیم تھا۔ طغرل تب ماسکو کے مرکزوالے اپارٹمنٹ میں اکیلا رہا کرتا تھا۔
حافظ صاحب تھے توحافظ ہی لیکن حافظ کہلاتے نہیں تھے بس رحیم کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ بڑی دلچسپ شخصیت تھے۔ سفارت خانے میں تراویح پڑھا دیتے تھے اورواپسی پراپنی گاڑی میں گونگی بہری لڑکیوں کو بٹھا کرلے آتے تھے۔ جب کوئی بولنے والی مل جاتی تووظیفہ عمل سرانجام دینے سے پہلے اسے اسلام پرایک لیکچر دیتے تھے۔ پنجابی سوداگران دہلی کا یہ فرزند خوبصورت بھی تھا اورلطیفہ باز بھی۔
رؤف سے ملاقات ہوگئی تھی۔ رؤف نے ان دنوں چین مارکیٹنگ کا چکرچلایا ہوا تھا جس میں امریکہ کے ہربل لائف نامی کسی مواد کی چین مارکیٹنگ کی جاتی تھی۔ اس عمل میں سینکڑوں لڑکے لڑکیاں شامل تھے۔ ہال کرائے پر لیے جاتے۔ موٹیویٹنگ گیت گائے جاتے وغیرہ وغیرہ یعنی ایک مکمل ڈرامہ تھا۔ رؤف نے پہلے ہی روز طغرل کو گذارے کے لیے اس زمانے کے مطابق اچھی بھلی رقم دے کر کہا تھا کہ اسے خرچ کردیں توپھراورلے لیں۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کے ہوتے ہوئے آپ کو جتنی ممکن ہو رقم دے دوں لیکن آپ کو بتا دوں کی میری اپنی ادائگیاں ابھی پھنسی ہوئی ہیں۔ چند روزبعد طغرل کے قیام کو بڑھایا جانا تھا جس کے لیے سرکاری دفاترسے رجوع کرنا تھا۔ چونکہ طغرل اس شہر سے یکسر ناواقف تھا اس لیے رؤف نے ایک لڑکی کو اس کے ہمراہ کر دیا تھا جو انگریزی زبان بول لیتی تھی تاکہ وہ اس سلسلے میں اس کی مدد کرے۔ کازخ لڑکیاں عام طورپر پستہ قد ہوتی ہیں لیکن یہ لڑکی طویل القامت تھی۔ واجبی سے بلکہ سادہ کپڑے پہنتی تھی۔ بال اول جلول ہوتے تھے۔ چہرے پر کیل مہاسوں کے بچے ہوئے نشانات تھے۔ اپنے انداز گفتگوسے بچوں کی طرح معصوم لگتی تھی۔ کسی حد تک ہونق اوراڑی اڑی سی دکھائی دیا کرتی تھی۔ بہرحال تھی تولڑکی اوروہ بھی اچھے اطواروالی۔ طغرل نے اس کی طرف پیشرفت کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ اس سے اگر طغرل پوچھتا بھی کہ کچھ چاہیے یا کہیں کچھ کھا لیتے ہیں تو وہ انکار کر دیا کرتی تھی۔ جس روز قیام کو بڑھانے کا معاملہ حل ہو گیا تو طغرل نے اسے اپنے ہاں شیمپین پینے کی دعوت دی تھی۔ اس لڑکی کا نام ایمان تھا۔ شیمپین کا طغرل نے پہلے سے انتظام کیا تھا۔ جب وہ اسے لینے کے لیے گیا تو پیچھے سے رحیم نے فریج میں رکھی ہوئی شیمپین اپنی کسی سہیلی کو پلا دی تھی۔ جب وہ ایمان کے نہ ملنے پر بے نیل و مرام گھر پہنچا اور منہ ترکرنے کی خاطر کچھ پینے کے لیے فریج کھولا تواس پر یہ بھید کھلا تھا۔ اب اس کے لیے بڑا کٹھن تھا کہ وہ ایمان کی جانب سے کسی اطلاع ملنے کا انتظار کرے یا شیمپین کی نئی بوتل لے کر آئے۔ وہ شش و پنج میں تھا کہ فون کی گھنٹی بجی تھی۔ ایمان نزدیک کے ہی کسی ریستوران کے فون سے بول رہی تھی۔ طغرل نے اسے بتایا تھا کہ ساتھ والی گلی میں آؤمیں تمہیں دیکھ رہا ہوں۔ وہ بالکونی میں کھڑا ہو گیا تھا جس کے آگے انگور کی بیلیں تھیں۔ اسے گرمی سے بوکھلائی ہوئی، رومال سے چہرے کا پسینہ پونچھتے ہوئے ایمان آتی دکھائی دی تھی۔ اس نے اس کی جانب ہاتھ ہلایا تھا اور اسے لینے کے لیے نیچے پہنچ گیا تھا۔ رحیم کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا۔ اسے فلیٹ میں بٹھا کر، جوس وٍغیرہ پیش کرکے، اس نے معذرت کی تھی اور بھاگ کر شیمپین کی نئی بوتل لے آیا تھا اور لا کرفریزرمیں رکھ دی تھی۔
جب وہ کمرے میں دیوان پر بیٹھے ہوئے تھے تو طغرل نے احتیاط کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامنے کے علاوہ کوئی پیش رفت نہیں کی تھی۔ بس ادھر ادھرکی باتیں کرتے رہے تھے۔ طغرل نے اسے رؤف پر چڑھے ادھار سے متعلق بتایا تھا اوراس نے رؤف کے وطیرے پر محتاط انداز میں تنقید کی تھی۔ طغرل نے سوچا تھا کہ شیمپین کسی حد تک ٹھنڈی ہو گئی ہوگی۔ اس کے جی میں نجانے کیا آئی کہ اس نے انگریزی زبان میں ایمان سے کہا تھا " ول یو لائک ٹو سلیپ ود می" اوریہ کہہ کرکچن میں چلا گیا تھا۔ فریج سے بوتل نکالی تھی اوراسے کھولنے لگا تھا۔ ساتھ ہی سوچ رہا تھا کہ نجانے ایمان کا ردعمل کیا ہوگا۔ اتنے میں ایمان نے کچن میں داخل ہو کر پوچھا تھا،" آپ کے ہاں کوئی " بیدنگ گاؤن" ہوگا"۔ طغرل بوتل کھول چکا تھا۔ پہلے اس نے ایک جام بنایا تھا۔ ان دونوں نے وہیں کھڑے کھڑے دوچارمنٹ میں اسے نوش جان کیا تھا۔ طغرل نے ڈھونڈ ڈھانڈ کرنہانے کے بعد پہننے والا گاؤن اسے پکڑایا تھا اوروہ بغیر کسی تاثر کے غسل خانے میں داخل ہو کرنہانے لگی تھی۔ یعنی ایمان پٹ سے پٹ گئی تھی۔ جب وہ نکلی تو تازہ لگ رہی تھی۔ شیمپین کے جام سے اس کا مزاج بھی اچھا ہو گیا تھا۔ اس نے کہا تھا لاؤ شیمپین پیتے ہیں۔ شیمپین کے دودو پیگ لیے تھے۔ طغرل نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا تھا اور اس کے ساتھ بغل گیرہو گیا تھا۔ سفید گاؤن تلے اس کا زردی مائل سفید بدن بالکل آزاد تھا، اسے بغل گیر ہو کراحساس ہوا تھا۔ اس نے گاؤن کی تنی بڑے آرام سے کھول دی تھی اور اپنے ملبوس بدن کو اس کے یکسربے داغ ملائم بدن کے ساتھ پیوست کر لیا تھا۔ پھر اسی حالت میں آہستہ آہستہ قدم کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے دونوں بڑے کمرے میں بچھے ڈبل بیڈ تک پہنچے تھے۔ طغرل نے اسے بستر پر لٹا کر اس کے سراپا پر نگاہیں دوڑائی تھیں ساتھ ہی خود کو بے لباس کرتا رہا تھا۔ حافظ رحیم کے بیڈ پر دو ملحد بدن خلط ملط ہو گئے تھے۔
ایمان اورطغرل کی جسمانی کیمیا کوئی اتنی ہم آہنگ نہیں تھی جتنی کہ ذہنی کیمیا۔ رؤف تاتارکی طفل تسلیاں الما آتا میں طغرل کے قیام کو طویل کیے جا رہی تھیں مگراب اسے ایمان کا ساتھ مل گیا تھا، پھر ماسکو میں ویسے بھی کام نہیں چل پا رہا تھا، اسے گمان تھا اگر رؤف تاتارسے پوری نہ سہی آدھی وصولی بھی ہو گئی تو ماسکو میں کام کی نہج کو درست کرنے کی تگ ودوکیا جانا ممکن ہو پائے گا۔ اگرچہ ایسا ہونا مشکوک لگتا تھا۔
ایمان اپنے بکھیڑوں سے فراغت پا کر شام ڈھلنے سے پیشتر طغرل کے پاس پہنچ جایا کرتی تھی۔ پھر وہ د ونوں ٹیکسی یا بس کے ذریعے شہر کے ایک جانب پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے میں ایک مقام پر پہنچتے اوروہاں سے سودوسو میٹراوپرچڑھ کرایمان کے والدین کے کنٹری ہاؤس پہنچ جاتے تھے جو خالی پڑا ہوا تھا، البتہ کبھی کبھار اس کی والدہ دن میں آ کر پودوں کی دیکھ بھال کر جایا کرتی تھی۔ طغرل اپنے ساتھ چین میں تیار کردہ بیئر کی لٹروالی دوچاربوتلیں لے آتا تھا۔ ایمان صرف جوس پیتی تھی۔ کنٹری ہاؤس کے باغ میں گلاب اور دوسرے پھول کھلے ہوتے جہاں بیٹھ کرطغرل آب جو سے شغل کرتا اورایمان جوس کی چسکیاں لیتے ہوئے، اس کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کیے جاتی یا کوئی گیت سنا دیتی۔ گھر کے باہرسے گذرتے ہوئے لوگ کبھی کبھار کنکھیوں سے ان کی جانب دیکھ لیتے تھے وگرنہ صرف پالتو کتوں کی اوازسناٹے کو توڑا کرتی تھی۔ کھانا عموما" کھا کرآتے یا کھانے کی کوئی چیزساتھ لے آتے تھے۔ کنٹری ہاؤس کا ایک ڈیڑھ کمرہ اندرسے کسی قدیم مزار کی مانند تھا جس میں ایمان زمین پربستربچھا دیتی تھی اوروہ دونوں جانداراپنے جسموں کے مرقد میں اٹکھیلیاں کرتے ہوئے رات گئے صبح تک کے لیے مردہ ہو جاتے تھے۔
ایمان نے بتایا تھا کہ اس کے والدین کے تین کنٹری ہاؤس ہیں۔ ایک دورکے پہاڑ پرواقع ہے۔ ایک رات وہاں بھی بسر کریں گے۔ جب ایک رات وہاں جانے کے لیے روانہ ہوئے تواندھیرا ہوچکا تھا۔ اس تک جانے کے لیے کچھ زیادہ ہی اونچائی پرجانا پڑا تھا۔ راستے میں لوگوں کے گھر تھے جن میں سے ایک گھر کے دروازے سے بھونکتے ہوئے چھوٹے سے کتے نے آ کر چلتے ہوئے طغرل کی پنڈلی میں دانت گاڑنے کی کوشش کی تھی۔ ایمان نے کتے کو بھگا دیا تھا لیکن خود ترس کھا کر اتنی بار طغرل سے " آئی ایم سوری، آئی ایم سوری" کہا تھا کہ طغرل کو لگنے لگا تھا جیسے اسے کتے کی بجائے خود ایمان نے کاٹا ہو جس پروہ معذرت کررہی ہو۔ وہ یہ سوچ کر ہنس پڑا تھا۔ ایمان نے اس سے ہنسنے کا جواز پوچھا تواس نے بتا دیا تھا۔ اس پر ایمان نے کہا تھا کہ ظاہر ہے اسی کا قصور تھا جو اسے لے کر آئی تھے۔ جب کنٹری ہاؤس پہنچے تو ایمان نے کتے کے دانتوں سے لگے معمولی زخموں کو صابن لگا کر دھو دیا تھا۔ یہ کنٹری ہاؤس کوئی اتنا اچھا نہیں لگا تھا کیونکہ یہاں باقی گھر بہت دور دور تھے اوررات کو یہ جگہ بھوت بنگلہ لگی تھی۔ وہ وہاں پھر کبھی نہیں گئے تھے۔
اس کی شکل و صورت واجبی تھی لیکن اپنی ہنس مکھ طبیعت اورسادگی کے باعث وہ سبھی کو اچھی لگتی تھی۔ حافظ رحیم کی تو اس سے بہت بن گئی تھی مگر اسے حافظ رحیم اپنی مذہبی گفتگو اور غیر مذہبی اعمال کے باعث اچھا نہیں لگتا تھا۔ حافظ چونکہ دینی مدرسے میں پڑھتا رہا تھا اس لیے اس کے رویے زیادہ متمدن نہیں ہو سکے تھے۔ وہ اکثر ٹوائلٹ کے استعمال کے بعد فلش کرنا بھول جاتا تھا۔ اس غلاظت کا نطارہ ایمان کو بھی ایک دو بارکرنا پڑا تھا۔ تاہم وہ دونوں جب آپس میں گفتگو کرتے تو خوب ہنسا کرتے تھے۔
ایک روز ایمان نے دن کے وقت طغرل سے کہا تھا کہ آج اس کے والدین گھر پر نہیں ہیں اس لیے وہ علیحدگی میں وقت بتانے کی خاطر اس کے گھر جائیں گے۔ وہ وہاں چلے گئے تھے۔ اس کی چھوٹی بہن بھی والدین کے ساتھ کنٹری ہاؤس چلی گئی تھی اورچھوٹا بھائی جو رات کوکسینومیں کام کرتا تھا، ایک اور کمرے میں پڑا سو رہا تھا۔ جس کمرے میں کروہ ملتفت ہونے کی خاطر داخل ہوئے تھے وہاں بچھے پلنگ کے ساتھ والی دیوار پرقرآنی آیات کے طغرے آویزاں تھے۔ طغرل کی ان پر نگاہ پڑی تو اس نے ضد کی تھی کہ انہیں یہاں سے اتارو۔ ایمان اس کے خیالات سے واقف تھی اورخود بھی اس کی ہم خیال تھی اس لیے پوچھا تھا، "کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر لگے رہیں"۔ طغرل کو لگا تھا کہ وہ بن بیاہ کے جسمانی تعلقات میں شریک ہو کر قرآن کی حرمت سے کھلواڑ نہیں کرسکتا۔ اس نے سختی کے ساتھ کہا تھا کہ کہا ہے تو اتار دو یا الٹا دو۔ ایمان نے طغرے الٹا دیے تھے، تب ان دونوں نے مل کر ایمان کے باپ کے گھر کی حرمت پامال کی تھی۔
تعلق ہوتواختلاف بھی ہوتا ہے اورجھگڑا بھی۔ کسی بات پر ان دونوں کا جھگڑا ہو گیا تھا۔ انہوں نے آپس میں ملنا چھوڑ دیا تھا۔ اس سے پہلے ایک بار طغرل اوررحیم بازارمیں گھوم رہے تھے کہ انہیں دو لڑکیاں جاتی دکھائی دی تھیں۔ ایک 23، 24 برس کی تھی اور ایک 19،20 برس کی۔ بڑی بہت خوبصورت تھی اورچھوٹی بہت ملیح۔ ان سے متعارف ہونے کے بعد معلوم ہوا تھا کہ بڑی کا نام قرلیغش ہے اور چھوٹی کا نام قرلیغا۔ انہیں گھرمدعو کر لیا تھا وہ ساتھ چلی آئی تھیں اورکچھ دیربیٹھ کرپھر آنے کا وعدہ کرکے چلی گئی تھیں۔ قرلیغا تو آتی رہی تھی جورحیم سے شناسا اورشاید شناسائی کی حد پار بھی کر گئی ہو لیکن حافظ صاحب نے کبھی تسلیم نہیں کیا تھا، ویسے وہ عموما" تسلیم نہیں کرتے تھے۔ مگر قرلیغش نے کہا تھا، وہ ایک بڑی عمر کے وکیل کے ساتھ رہتی ہے جو پہلے سے شادی شدہ ہے اور بہت زیادہ حاسد ہے۔ چنانچہ طغرل نے بھی زور نہیں دیا تھا۔ یہ دونوں لڑکیاں فلم انسٹیٹیوٹ میں اداکاری کا درس لے رہی تھیں۔
اب جب ایمان کے ساتھ میل ملاقات بند ہوئی توطغرل نے قرلیغش پرزیادہ ڈورے ڈالنے شروع کر دیے تھے۔ پھر وہ ایک روزآ ہی گئی تھی۔ حافظ رحیم کام پر گیا ہوا تھا۔ لگتا تھا قرلغش گھرسے ارادہ کرکے چلی تھی کہ آج وکیل کی امانت میں خیانت ضرورکرنی ہے۔ جابداروں کے لائق اس عمل کے دوران جب طغرل نیچے کی جانب دیکھ رہا تھا تو قرلیغش نے پوچھا تھا،" آپ وہاں کیا دیکھ رہے ہیں" جی ہاں وسط ایشیا میں ہمارے ہاں کی طرح آپ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ روسیوں کی طرح چھوٹتے ہی تم کا۔ یہ سوال سنتے ہی طغرل کا قہقہہ چھوٹ گیا تھا۔ طغرل اورقرلیغش کا یہ باہمی عمل جتنا قہقہہ بارتھا ویسا اتفاق طغرل کو نہ تو اس سے پہلے کبھی ہوا تھا اورنہ ہی بعد میں کبھی۔ چند روز بعد ایمان کے ساتھ صلح ہو گئی تھی اورمستقبل کی حسین اداکارہ قرلیغش بھی قصہ پارینہ بن گئی تھی، ہمیشہ کے لیے۔
الماآتا معانی کی رو سے تو "سیب کا باپ" سہی لیکن حقیقی طور پر گلابوں کا شہر تھا۔ ہرطرف گلاب تھے، خاص طور پرایک باغ میں تو ہرنوع کے گلاب کے پھول تھے اوردلچسپ بات یہ کہ تھے بھی مہکدار۔ بالعموم قلمی گلاب مہک نہیں دیتے لیکن یہاں کی فضا کا اثر تھا یا آب و ہوا کی تاثیر کہ گلاب کے ہرپھول میں سے اگر کافی نہ سہی تو بھینی بھینی مہک ضرورآتی تھی۔ یہاں کی لڑکیوں کو طغرل نے روسی زبان میں "کروگلے دیووشکی" کا نام دیا تھا یعنی "مدوّرلڑکیاں"۔ چین کی نزدیکی کے باعث یا نسلیات کی کسی خصوصیت کے سبب یہاں کے لوگوں کے چہرے گول، آنکھیں ترچھی مگر چھوٹی نہیں، جسم کچھ بھرے بھرے اورٹانگیں دھڑکی نسبت چھوٹی ہیں۔ گول گول چہروں اورگلابی گالوں والی زردی مائل سفید جلد کی حامل جوان لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔ البتہ ایمان کی ٹانگیں اس کے دھڑ کی مناسبت سے خاصی لمبی تھیں۔ اس کے والد آغا موعود بھی خوبصورت اور شفیق شخص تھے جو ایک طویل عرصہ سوویت بحریہ میں انجنیر رہے تھے۔ باتیں روس کے صدریلسن کی طرح زور دے کر کرتے تھے مگر تھے خاصے شفیق۔ ایمان کی ماں سااولیا تیزتیزلہجے میں بات کرنے والی خالصتا" کزاخ شکل و صورت کی خاتون تھیں جن کی آنکھوں سے دوسرے کے لیے ہروقت شک مترشح ہوتا تھا۔ وہ کھانے پینے میں بھی صفائی کا کوئی خاص دھیان نہیں رکھتی تھیں چنانچہ طغرل محتاط رہا تھا کہ ان کے ہاتھ کا بنا کچھ نہ کھائے۔ ایمان کی چھوٹی بہن شولپان مصورہ تھی۔ ڈری ڈری، چینی گڑیا کی سی نازک سی جس کے چہرے پرمہاسے تھے۔
ایمان کو بڑی خواہش تھی کہ طغرل سے بچہ پیدا کرے۔ طغرل کو ایمان سے پیار نہیں تھا البتہ وہ اسے اچھے انسان اوردوست کی حیثیت سے اچھی ضرور لگتی تھی۔ اس کی کمر کا خم عام خواتین کے خم کی نسبت کم تھا اوراس کے سرین لڑکے کے سرینوں سے مماثل تھے یعنی عورتوں کی طرح بھرے بھرے نہیں تھے اسی لیے طغرل اسے "او مائی بوائے" کہتا تھا۔ مگر لگتا یہی تھا کہ ایمان کو طغرل سے پیار ہو گیا تھا۔ اس کی مسلسل کوشش ہوتی تھی کہ اس کی خدمت کرے اگر وہ کوئی زیادتی بھی کرے جو اس نے ایک دو بار کی بھی تھی تو چپ کرکے سہہ لے۔ طغرل گھبرانے لگا تھا کیونکہ یہ وطیرہ ان لڑکیوں کا ہوتا ہے جو بیویاں بننے پر تل جائیں۔ ایک بار ایمان نے اس سے کہا تھا کہ وہ اس سے اس قدر پیار کرتی ہے کہ اس کے جوتوں کو زبان سے چاٹ کر صاف کر سکتی ہے۔ طغرل نے اس بات کو مذاق خیال کیا تھا چنانچہ کہا تھا کہ کرکے دکھاؤ اور ایمان نے واقعی زمین پربیٹھ کرطغرل کا جوتا ہاتھ میں اٹھا کر زبان نکال کر چاٹ لیا تھا، طغرل نے گھبرا کرفوری طور پرجوتا اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا تھا جبکہ ایمان نے بچوں کی طرح ٹھنٹھنا کر ہنستے ہوئے کہا تھا کہ مجھے جوتا پورا صاف کر لینے دو۔ طغرل نے اسے ڈانٹا تھا کہ کیا تم پاگل ہو گئی ہو، یہ کیا فیٹیشزم ہے؟
طغرل اپنی سرشت میں محبت کا جواب محبت سے دینے کا سزاوار تھا۔ اس نے ایمان سے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ لوٹ کراس کے پاس آئے گا۔ ایمان کو معلوم تھا کہ ماسکو میں طغرل ایک عرصے سے نینا کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ نینا کے ساتھ اپنی ہمہ نوع ہم آہنگی بلکہ تعلق خاطرکا کھل کراس کے سامنے اظہار بھی کر چکا تھا۔ پھر ایمان کو یہ بھی معلوم تھا کہ الماآتی میں طغرل کا کوئی معاشی یا کاروباری سلسلہ تاحال نہیں ماسوائے رؤف تاتار سے وصولی کرنے کے جومخدوش ہے مگر پھر بھی طغرل کو لگتا تھا کہ وہ امید باندھے ہوئے ہے تبھی تو اس نے طغرل کو اپنے ماں باپ سے ملا دیا تھا۔لڑکیاں عموما" اپنے یاروں (بوائے فرینڈز) کو اپنے والدین سے نہیں ملاتیں۔
رؤف تاتار مسلسل سبز باغ دکھائے جا رہا تھا۔ اتنے پیسے ضرور دے دیتا تھا کہ طغرل کا خرچ چلتا رہے لیکن پوری رقم یا کم از کم قرض کا کچھ بڑا حصہ دینے سے نہ تو معذرت کرتا تھا اور نہ ہی دیتا تھا۔ طغرل کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ حافظ کے ہاں یا ایمان کے کنٹری ہاؤس میں یا کبھی کبھاراس کے والدین کے ہاں مسلسل قیام کرنا جاری رکھے، پھراسے ماسکو میں جا کر کام کے معاملات بھی دیکھنے تھے۔ ایک روزدن کا دوسرا پہرتھا، وہ دونوں ایمان کے کنٹری ہاؤس میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ طغرل نے بیئر پیتے ہوئے ترنگ میں آکر ایمان کو قرلیغش کے ساتھ بیتے لمحات بارے اسے بتا دیا تھا۔ ایمان بھی اکثرلڑکیوں کی طرح دعویدار تھی کہ وہ حاسد نہیں ہے مگر فطری طورپرلڑکیاں حاسد ہوتی ہیں۔ وہ پہلے تو خاموش بیٹھی رہی تھی پھر یک لخت اپنا بیگ اٹھا کر چلتی بنی تھی اور اترائی اترتی دکھائی دی تھی۔ طغرل بیٹھا رہا تھا، اس کا خیال تھا کہ لوٹ آئے گی۔ اسے کنٹری ہاوس میں تنہا چھوڑ کر بھلا وہ کیوں جائے گی۔
وہ کافی دیر تک جب نہ لوٹی تو طغرل کو تشویش ہوئی تھی اوروہ کنٹری ہاؤس کا دروازہ بند کرکے اترائی اترا تھا۔ اترائی کے نصف پرایک موڑ تھا جہاں پگڈنڈی پر ایمان ادھر ادھر چلتے ہوئے، زمین پر نظریں گاڑے کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔ طغرل کے استفسار پراس نے منہ بنا کربتایا تھا کہ اس کے بیگ میں طغرل کا سونے کا جو بریسلٹ تھا وہ بیگ گرنے سے کھو گیا ہے۔ یہ بریسلٹ طغرل نے کچھ عرصہ پہلے ماسکو سے ڈھاکہ جاتے ہوئے، طیارے میں پی شراب کے سرورمیں ، شارجہ ایرپورٹ کے ڈیوٹی فری زون میں ایک دوکان پرکام کرنے والی فلپائنی لڑکی کو پسند کرکے اسے خوش کرنے کی خاطر اپنے بنگلہ دیشی دوست کے روکنے کے باوجود خریدا تھا کیونکہ فلپائنی سیلز گرل نے اسے اپنا فون نمبر دے دیا تھا۔ ایمان تو ویسے ہی بے پروا تھی۔ بیگ پوری طرح بند نہیں کیا تھا۔ ہاتھ میں یونہی تھاما ہوا تھا بلکہ طغرل کو یقین تھا کہ جھلاتے ہوئے جا رہی ہوگی، جو ہاتھ سے چھوٹ کرگر پڑا تھا۔ باقی چیزین تو پگڈنڈی پر بکھر گئی تھیں، مگر سب سے قیمتی شے جو رات کو سونے سے پہلے طغرل نے اسے سنبھالنے کے لیے دی تھی، پھسل کرڈھلان سے کہیں دورنیچے، جہاں تک رسائی محال تھی، جھاڑیوں میں گر کرگم ہو گئی تھی۔ اس نقصان پر ایمان کی حاسدانہ رنجش توتمام ہو گئی تھی مگر طغرل کوبریسلٹ گم ہو جانے کا دکھ تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ اس بار جب پاکستان جائے تو یہ بریسلٹ اپنی بیٹی کو دے دے۔
جب رؤف تاتار سے کچھ نہ ملنے کا یقین ہو گیا تو بالآخر طغرل ایمان سے دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے ماسکو لوٹ گیا تھا۔
دفترکی روش حسب سابق تھی۔ اظفر اورتاجک مال بیچ کر لشتم پشتم دفتر کے اخراچات پورے کر رہے تھے۔ کراچی سے نیا مال آنے کی امید دم توڑ چکی تھی۔ اخراجات کم کرنے کی خاطر ایک نیا قدم لیا گیا تھا۔ اس کا مشورہ اظفر نے دیا تھا۔ ڈیوڑھی کے دوسری جانب کا کمرہ صاف کروا کرباتھ روم میں شاور لگوا لیا گیا تھا۔ طغرل نے فلیٹ چھوڑدیا تھا اوراس کمرے میں منتقل ہو گیا تھا۔ اظفر نے کہیں سے سیکنڈ ہینڈ ریفریجریٹرکا بندوبست بھی کردیا تھا۔
اظفر کے چند نوجوان کزن ملتان سے آ ئے تھے جو کچھ روزدفتر میں رہے، پھراپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے گئے تھے البتہ ان میں سے ایک طغرل کے ہمراہ دفتر میں رہنے لگا تھا۔ دن بھروہ سڑک پر اپنا کام کرتا تھا، شام کوآ جاتا تھا اورکپڑے تبدیل کرنے کے بعد بڑے "غوروخوض" کے ساتھ کھانا بنانے میں مصروف ہو جایا کرتا تھا۔ کھانا اچھا بناتا تھا، کم گو تھا لیکن تھا کائیاں۔ ایک روزکہنے لگا،"سر میں نے ایک لڑکی سے آپ کے لیے دوستی لگائی ہے، کل رات کو اس نے آنے کا وعدہ کیا ہے"۔ طغرل نے سمجھا مذاق کررہا ہے چنانچہ محض مسکرا دیا تھا۔ اگلی رات کو وہ دونوں کھانا کھا کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ بیل بجی تھی۔ طغرل کا ماتھا ٹھنکا تھا چونکہ وہ گذشتہ دو ماہ سے غنڈوں کا بھتہ نہیں دے سکا تھا۔ اس نے ان سے منت کی تھی کہ ایک ہزار ڈالرکی بجائے پانچ سوماہانہ لیا کریں جس کی غنڈوں کے باس نے اس شرط پراجازت دے دی تھی کہ کام چل پڑنے کے بعد پھرسے ایک ہزار ڈالر ماہانہ دینے ہونگے۔ طغرل کو چونکتے ہوئے دیکھ کر اظفر کے کزن نے کہا تھا،"سر فکر نہ کریں یہ وہی لڑکی ہے جس کے بارے میں کل میں نے آپ کو بتایا تھا"۔ لڑکی اندرآ گئی تھی جو بیئر پیے ہوئے تھی۔ لڑکی خوش شکل تھی لیکن "مائنر" لگ رہی تھی۔ جس نے اس کو بلایا تھا اس کو روسی زبان واجبی سی آتی تھی چنانچہ طغرل نے مناسب سمجھا کہ اس کی عمردریافت کرلے۔ لڑکی نے بدک کر کہا تھا "میں بالغ ہوں"۔ تاہم طغرل کے مزید اصرار پر اس نے اپنا پاسپورٹ ( یہاں شناختی کارڈ پاسپورٹ کی شکل میں ہوتا ہے) آگے کر دیا تھا جسے دیکھ کر طغرل مطمئن ہو گیا تھا۔ وہ روسی ماں کے بطن سے کسی افغان باپ کی بیٹی تھی جواپنی بئیرنوشی اورآوارگی کے سبب "ڈسٹربڈ چائلڈ" لگ رہی تھی۔ اس نے بیئر کے دو مزید کین پیے تھے جس کے بعد اظفر کے کزن نے کہا تھا، "سراسے اپنے کمرے میں لے جائیں"۔ طغرل کے ساتھ وہ اس کے کمرے میں چلی گئی تھی اورجاتے ہی بسترپرایسے درازہو گئی تھی جیسے وہ اس کا اپنا بستر ہو۔ اس میں نہ تو گرمی تھی نہ سرگرمی۔ البتہ طغرل جس کے پہلو میں وہ پیٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی، محسوس کررہا تھا جیسے اس لڑکی کا بدن تپ رہا ہو۔ اس نے اسے چھو کر دیکھا تھا کہ کہیں اسے بخار تو نہیں تھا۔ وہ مخمور تھی اور اپنے بارے میں بتائے چلی جا رہی تھی۔ ماں باپ کی برائیاں کر رہی تھی۔ تعلیم سے گریزاں ہونے کا قصہ سنا رہی تھی۔ طغرل نے اسے شب خوابی کے لیے ٹریک سوٹ دیا تھا۔ اس نے چشم زدن میں اپنے جسم کے ساتھ لگی آخری دھجی بھی خود سے علیحدہ کر دی تھی اور طغرل کی طرف پشت کرکے رضائی اوڑھے ہوئے ٹی وی دیکھنے لگی تھی۔ ایک طرح سے یہ اشارہ تھا کہ اس نے سپردگی دے دی تھی۔ اتنی جوان لڑکی، اتنا سڈول بدن لیکن اتنی سرد مہراوربے کیف۔ جونہی طغرل نے اپنے اتارے ہوئے کپڑے پھرسے پہنے وہ ہلکے ہلکے خراٹے لیتے ہوئے نیند کی وادی میں اترچکی تھی۔ طغرل نے اظفر کے کزن کو بلایا تھا کہ یہ خراٹے لیتی ہے، اسے جگا کر لے جاؤ اوراپنے پاس سلا لو۔ اسے جگانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن وہ تو خواب خرگوش میں تھی۔ اظفر کا دھان پان کزن اسے اٹھا نہیں سکتا تھا چنانچہ طغرل اوروہ دونوں اسے سکول نہ جانے والے بچے کی طرح ٹانگوں بازووں سے اٹھا کر دوسرے کمرے میں لے گئے تھے۔
وقت بیت رہا تھا۔ کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی تھی۔ دن دفتر میں اونگھتے ہوئے اورراتیں بیئر لنڈھاتے ہوئے کٹ رہی تھیں۔ اسی اثناء میں نیا سال آ پہنچا تھا یعنی 1995 کا اختتام اور1996 کا آغاز۔ طغرل کے بھتیجے شہرزاد کی دوست اور ہم جماعت ثمینہ تارڑ نے طغرل سے کہا تھا، "چچا، اس بار نیا سال ہمارے ساتھ منائیے گا"۔ طغرل پرانے سال کی آخری شام کو اظفر کے چھوٹے بھائی اور اپنے ساتھ رہنے والے اظفر کے کزن کو ہمراہ لے کر شہرزاد اورثمینہ تارڑ کے ہوسٹل پہنچ گیا تھا۔ اس انسٹیٹیوٹ کے ہوسٹل مخلوط تھے۔ نوجوانوں کے ساتھ مل کرسال نوکی تقریب منائی تھی۔ اگرطغرل اکیلا ہوتا تو شہرزاد کے کمرے میں سو رہتا لیکن تین افراد کے لیے وہ طالبعلموں کو امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا اوریہ بھی سوچا تھا کہ نوجوانوں کا اپنا شغل بھی ہے وہ شاید ایک "انکل" کی موجودگی میں اپنی بے ساختگی کا مظاہرہ کرنے سے ہچکچا رہے ہوں چنانچہ رہ جانے کے لیے ثمینہ کے اسرار کے باوجود وہ نکل لیے تھے۔ دوردورتک ٹیکسی کا نام و نشان نہیں تھا۔ رات کا ایک سے زیادہ بج چکا تھا۔ ان ادوارکے ایسے اوقات میں زیرزمین ریل گاڑی میں سفرکرنا خطرناک ہو سکتا تھا۔ اگرسوارہو بھی جاتے تب بھی انہیں کہیں راستے میں اترنا پڑتا۔ طغرل کے ماسکو میں قیام کی شاید وہ سرد ترین رات تھی۔ درجہ حرارت منفی پچیس تیس کے درمیان تھا۔ وہ بہت دور تک چلتے رہے تھے۔ جو اکا دکا ٹیکسی دکھائی بھی دی اس کے ڈرائیور نے جانے سے انکار کر دیا تھا ۔ سفر جاری رکھنے کے سوا چارہ نہیں تھا۔ دونوں نوجوان آرام کرنے کے لیے رکنا چاہتے تھے لیکن چونکہ طغرل ایک زمانے میں بلند و بالا پہاڑوں میں زندگی بسر کر چکا تھا اسے معلوم تھا کہ رک جانے کا نام جم جانا ہوگا۔ اس نے اپنے پرانے تجربے کی بنا پر نوجوانوں کو مسلسل سفر جاری رکھنے پر مجبورکیے رکھا تھا۔ دو تہائی فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک پولیس پٹرول ملی تھی۔ طغرل نے ان سے بھی درخواست کی کہ انہیں چھوڑ آئیں اوراگرایسا نہیں کرسکتے تو انہیں حراست میں ہی لے لیں تاکہ وہ پولیس کار کے گرم ماحول میں گرم حوالات پہنچ جائیں۔ پولیس والوں نے اسے نئے سال کی رات کا لطیفہ سمجھتے ہوئے ان سے معذرت کر لی تھی۔ وہ چلتے رہے تھے۔ ابھی دفتر کی عمارت سے کوئی ایک کلو میٹر دورتھے کہ انہیں اپنی ہی طرح کی بے خانماں 32۔33 سال کی ایک عورت روتی ہوئی ملی تھی۔ اس وقت صبح کے تین بجنے والے تھے، طغرل اور اس کے ساتھی کوئی چودہ کلومیٹرراستہ طے کرچکے تھے۔ اس عورت کی شاید پینے کے بعد اپنے بوائے فرینڈ یا خاوند سے لڑائی ہو گئی تھی جو وہ گھر سے نکل کھڑی ہوئی تھی۔ طغرل نے اسے دلاسہ دے کر اپنے ساتھ چلنے کو کہا تھا۔ اتنی سردی میں تو کوئی بھی پناہ کا متمنی ہوتا ہے وہ چوتھی ساتھی بن گئی تھی۔ پندرہ بیس منٹ بعد وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے تھے۔ لڑکے اپنے اپنے بستروں میں اور طغرل بے خانماں خوش شکل خاتون کے ساتھ اپنے کمرے میں اپنے بستر میں گھس گیا تھا۔ خاتون نے اس رات جس گرمجوشی کی خواہش اپنے دوست یا خاوند کے لیے پالی ہوئی تھی اس نے اس سے بھی کچھ زیادہ گرمجوشی طغرل کے نام کر دی تھی۔ صبح کی ملگجی روشنی اور رضائی کے دبیزپن میں اس عورت کے جسم کی نرمی سے بہت متضاد اس کی رانوں کی اندرونی سمت کا غیر ہموارپن تھا۔ طغرل نے باتھ روم جانے کا بہانہ کرتے ہوئے رضائی کا کونا کچھ زیادہ اٹھا کر دیکھا تو وہ دہل کررہ گیا تھا، خاتون کی رانوں کا یہ حصہ جلا ہوا تھا۔ طغرل نے اسے اس بارے میں ایک لفظ نہیں کہا تھا اور باتھ روم سے آنے کے بعد کروٹ لے کرسو گیا تھا۔ کوئی نو بجے کے قریب اس خاتون نے طغرل کوجگایا تھا۔ وہ گرم کوٹ پہن کرجانے کے لیے تیار کھڑی تھی، اس نے دروازہ کھولنے کو کہا تھا۔ طغرل نے دروازہ کھولا تھا۔ وہ طغرل کے گال پر بوسہ دے کر "پکا" یعنی بائی کہہ کر چلی گئی تھی۔ طغرل دروازہ بند کرکے ایک بار پھر سو گیا تھا۔ جب سب جاگے تو طغرل کو یاد آیا کہ اس نے تو اس کا نام تک نہیں پوچھا تھا۔ اس نے جو خود چاہا تھا بتا دیا تھا اوربس۔ اتنی سردی میں اتنا سفر کرنے کے بعد جسم کو گرمانے کے علاوہ کسی کو کیا پڑی تھی کہ معارفت کرتا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“