نرگس کا قصہ یہیں چھوڑتے ہیں اور ذرا پیچھے چلتے ہیں۔ طغرل کم و بیش ہر سال پاکستان جاتا تھا۔ ہمیشہ نومبر تا جنوری کیونکہ گرمی کے موسم میں ایک بار جا کر بھر پایا تھا۔ کہیں تیئیس برس پیشتر جب وہ موسم گرما میں پہلی اور آخری بار پاکستان گیا تھا تو کراچی کے ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہی اسے اپنا دل، پہنی ہوئی قمیص کی جیب کو باقاعدہ ابھارتا گراتا دکھائی دیا تھا چنانچہ اس نے گرمیوں میں وطن عزیز کبھی نہ آنے کا عزم صمیم کر لیا تھا۔ بہرحال وہ جب بھی آتا، لاہور ضرور جاتا تھا۔ لاہور شہر میں نفیسہ سے اور لاہور سے باہر نادر چودھری سے ملاقات اس کے غیر ملکی سفر کا لازمی حصہ ہوا کرتی تھی۔ غیر ملکی اس لیے کہ طغرل کو روسی شہریت مل چکی تھی۔ روس اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ شہریت باہمی معاہدہ نہ ہونے کے سبب، طغرل کو پاکستانی شہریت تج دینی پڑی تھی، یوں وہ اپنی جنم بھومی میں غیر ملکی ہو چکا تھا اور وطن اس کے لیے غیر ملک۔ پاکستان آتا اور نفیسہ کو نہ ملتا تو اسے معلوم تھا کہ ایک تو وہ ناراض ہوگی دوسرے جونہی کبھی آمنا سامنا ہوگا تو وہ اس بے مہری پر طغرل کو بے نقط سنائے گی۔ نادر چوہدری تو ویسے ہی یار غار تھا۔ ان دونوں سے جب بھی ملاقات ہوتی ان کا یہی تقاضا رہتا کہ یار کم از کم بچوں کی خاطر تم اور مناہل پھر سے اکٹھے ہو جاؤ۔ طغرل لاکھ کہتا کہ وہ اب کسی اور کی بیوی ہے، ان کا کہنا یہی ہوتا کہ کیا ہوا اس سے طلاق بھی لی جا سکتی ہے۔ طغرل ہر بار ان کے کہے کو کسی نہ کسی طرح ٹال دیا کرتا۔
ایک بار جب وہ نادر چودھری سے ملنے پہنچا تھا تو وہ عروق النساء کے مرض کا شکار تھا۔ اسے چلنے اور بیٹھنے میں دقت ہوتی تھی۔ اگلے روز اس نے طغرل سے کہا تھا کہ لاہور چلنا ہے۔ اس روز شاید کوئی ڈرائیور دستیاب نہیں تھا یا غالبا" نادر نے جان بوجھ کر ڈرائیور لینا نہیں چاہا تھا بلکہ اس نے طغرل سے کہا تھا کہ آج گاڑی تم چلاؤ گے۔ طغرل کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد اس نے پوچھا تھا،" یار یہ مناہل کہاں ہو سکتی ہے؟" طغرل کو یہ سوال بے تکا لگا تھا اس لیے اس نے کہا تھا مجھے کیا پتہ اور یہ مناہل تمہیں کیوں یاد آ گئی بھائی؟ نہیں یار آج مناہل کو لاہور پہنچنا تھا، تمہارے خیال میں وہ کہاں پہنچ سکتی ہے؟ طغرل نے بتایا کہ مناہل کا بھائی یونیورسٹی میں استاد ہے، وہیں رہتا ہے یا تو اس کے ہاں ہوگی یا اس کی ایک سہیلی کی کلینیکل لیبارٹری ہے، اس کے پاس ہوگی۔ ساتھ ہی پوچھا تھا کہ اسے کیا دلچسپی ہے۔ نادر بولا تھا، یار اس نے فون کرکے مجھے ملنے کو کہا تھا۔
عجیب اتفاق تھا، جس روز طغرل نادر سے ملا اس سے اگلے ہی روز مناہل کو بھی لاہور آنا تھا۔ لاہوریا کسی بھی شہر میں ہزاروں لوگ روزانہ آتے جاتے ہیں، اس میں کوئی خاص بات نہیں مگر طغرل کو یاد آیا تھا کہ اس نے دو تین روز پہلے نادر کو فون کرکے مطلع کیا تھا کہ وہ اس سے ملنے کب پہنچے گا۔ طغرل نے طنزیہ مسکراہٹ مسکرا کر نادر سے کہا تھا، عجیب بات ہے وہ تمہیں ملنا چاہتی ہے اور جگہ تک نہیں بتائی۔ نادر بات ٹال گیا تھا۔
مینار پاکستان کراس کرتے ہی لیڈی ولنگٹن ہسپتال کے سامنے اس خاتون کی لیبارٹری تھی۔ نادر چودھری نے طغرل کو اس کے سامنے کار روکنے کو کہا تھا۔ کار سے نکلتے ہوئے اس نے طغرل سے کہا تھا، "چلو"۔ طغرل نے ڈھٹائی سے کہا تھا،" ملنا تمہیں ہے، جاؤ اور مل آؤ"۔ نادر اپنا بیگ پکڑے لنگڑاتا ہوا لیبارٹری تک گیا تھا، اندر داخل ہونے کے ایک منٹ بعد ہی وہ دروازے سے باہر آ کر طغرل کو بلانے کی خاطر ہاتھ سے اشارے کرنے لگا تھا لیکن طغرل نے گردن ہلا کر انکار کا اشارہ دیا تھا، بیچارہ نادر پھر بمشکل کار تک پہنچا تھا اور باہر کھڑے کھڑے طغرل سے کہا تھا،" شی ہیز گاٹ آ کڈ"۔ جس تحیر سے نادر نے یہ فقرہ کہا تھا، اسے دیکھ کر طغرل کو ہنسی آ گئی تھی۔ اس نے کہا تھا،" یار اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے؟ بچے تو ہو ہی جایا کرتے ہیں"۔ " نہیں ناں یار۔ اچھا چلو نکلو کار سے۔ میرے ساتھ چلو"۔ " اوہ بھائی کتنی بار بتاؤں کہ مجھے نہیں ملنا مناہل سے" طغرل نے اکتا کر کہا تھا۔ " میں تمہیں مناہل سے ملنے کو نہیں کہہ رہا۔ ماہین بھی ساتھ ہے۔ اپنی بیٹی سے تو مل لو"۔ اب طغرل بھلا کیسے انکار کر سکتا تھا۔
سکڑی سمٹی، مولونوں کی طرح اوڑھنی اوڑھے ماہین اپنے پاپا سے ملی تھی۔ اس کے پیچھے ، کلبلاتی کمزور اور کالی بچی کو سنبھالتی ہوئی کرسی پر بیٹھی مناہل نے اپنی کھرجدار اواز میں "السلام علیکم" کہا تھا، جس کا طغرل نے رسمی جواب دے دیا تھا۔ نادر نے مناہل سے کہا تھا،" چلو بھئی چلیں"۔ " آپ چلیں، ہم آتے ہیں" مناہل نے بچی کو کمبل میں لپیٹتے ہوئے کہا تھا۔ باہر نکل کر نادر چودھری نے طغرل سے کہا تھا، "یار انہیں کم از کم کھانا تو کھلا دیں"۔ وہ گلبرگ میں ایک ٹیک اوے چائنیز ریستوران گئے تھے اور انہوں نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے برنچ لیا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر نادر نے طغرل سے پوچھا تھا، " کہاں چلیں یار؟" طغرل نے جھلاہٹ کے سے انداز میں کہا تھا،" مجھے کیا پتہ یار" پھر تجویز دی تھی کہ نفیسہ کے ہاں جایا جا سکتا ہے۔ راستے میں مناہل طغرل پر طنز کرتی رہی تھی مگر نادر بات سنبھالتا رہا تھا۔ طغرل سبھاؤ سے گاڑی چلاتے ہوئے چپ رہا تھا۔ جنوری کا مہینہ تھا۔ شام ہو چکی تھی۔ مناہل نے نادر سے بچی کے لیے دودھ لینے کو کہا تھا۔ نادر نے ایک سپر سٹور کے سامنے گاڑی رکوائی تھی اور کار سے اتر کر دودھ لینے چلا گیا تھا۔ ان پانچ دس منٹ کے دوران جب نادر موجود نہیں تھا، مناہل نے طعنے دے دے کر طغرل کی جان ضیق کر دی تھی۔ ظاہر ہے طغرل اب چپ نہیں رہ سکتا تھا۔ ان دونوں کی لڑائی ہو گئی تھی۔ جونہی نادر دودھ لے کر پہنچا، طغرل نے گاڑی سے نکل کر نادر سے کہا تھا، "ذلیل کروانے کے لیے ساتھ لائے تھے۔ اب خود جاؤ جہاں جانا ہے۔ میں اس عورت کی بدزبانی مزید برداشت نہیں کر سکتا"۔ نادر چوہدری نے مناہل کو چپ رہنے کو کہا تھا اور طغرل کو منا کر گاڑی چلانے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ پندرہ منٹ بعد نفیسہ کے ہاں تھے۔ ملازم نے دروازہ کھولا تھا۔ گھر کے اندر پہلے طغرل داخل ہوا تھا جسے دیکھ کر نفیسہ از حد خوش ہوئی تھی مگر اس کے پیچھے بچی تھامے مناہل کو دیکھ کر وہ ایک لمحے کو ٹھٹھٹک گئی تھی پھر اپنی کراری آواز میں پیار اور غصے کے ملے جلے انداز میں کہا تھا، " یہ کس کا پلا اٹھا لائی ہو"۔ آخر میں داخل ہونے والے نادر چوہدری نے طغرل کی جانب دیکھا تھا اور طغرل نے آنکھ مار دی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس اثنا میں مناہل اور نفیسہ ایک دوسرے سے الجھ پڑی تھیں لیکن دو ہی منٹ بعد نفیسہ نے بچی لے لی تھی اور دونوں جھٹ سے شیر و شکر ہو گئی تھیں۔ ابتدائی گفتگو سے فارغ ہو کر نفیسہ نے کھانے کا پوچھا تھا۔ وہ کھانا کھا کر آئے تھے مگر نفیسہ نے پھر بھی چائے کے ساتھ لوازمات پیش کر دیے تھے۔ باتیں ہوتی رہی تھیں۔ نفیسہ اور نادر نے پھر سے طغرل اور مناہل کو باہم کرنے کی "طوطا کہانی" شروع کی تھی۔ طغرل نے ان دونوں سے کہا تھا کہ سنو تم دونوں میرے اچھے دوست ہو، میں گردن زمین پر رکھ دیتا ہوں، چھری چلا دو اگر سی بھی کر جاؤں تو کہنا دوست نہیں لیکن پلیز مجھے یہ بات دوبارہ نہ کہنا۔ ایسا نہیں ہو سکتا اور اب تو بالکل نہیں ہو سکتا" اس سے پہلے کہ مناہل کوئی بس گھولتی طغرل سگریٹ پینے کی خاطر گھر کے لان میں چلا گیا تھا۔ چاندنی پھیل چکی تھی۔ کسی پودے سے کوئی مہک اٹھ رہی تھی۔ سکوت کا عالم تھا۔ طغرل سگریٹ پھونکنے کے بعد بھی چاند کو دیکھا کیا۔ نجانے کیوں اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئی تھیں۔ اس نے رومال سے آنکھوں کو صاف کیا اور ڈرائنگ روم میں لوٹ آیا تھا۔ بعد میں مناہل اور ماہین کو مناہل کے بھائی کے گھر چھوڑا تھا اور دونوں دوست لاہور شہر سے باہر نکل گئے تھے۔ نادر چوہدری کی کوٹھی پہنچنے تک وہ دونوں تقریبا" خاموش بیٹھے رہے تھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“