"مثل برگ آوارہ"
دوسرا در
بالکل ہی اور طرح کے ماحول میں آ کر طغرل کو لگا تھا جیسے وہ کسی اور آسمان پر آ گیا ہو جس میں حسام فرشتے اور نتاشا حور کے روپ میں دوست تھے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ مقام جنت ہرگز نہیں ہے مگر جنت کے مزے لینے کا چسکا البتہ دل کے کسی نہاں خانے میں کلبلا ضرور رہا تھا۔ تبھی تو جب وہ ان دو دوستوں کے ہمراہ پہلے ہی روز دارالحکومت کی اس معروف سڑک کی سیر کرنے گیا تھا جو زمانہ قدیم میں عرب تاجروں کی منڈی رہنے کی وجہ سے "عربات" کے نام سے مشہور ہے تو اس نے "عربات قدیم" نام کی گلی میں جہاں تماشہ کرنے والے، داستان گو، مصور، موسیقار یعنی وہ سب جو لوگوں کا دل بہلانے کے ساتھ ساتھ کچھ کمانے اور اپنا شوق پورا کرنے میں لگے ہوئے تھے، گٹار بجاتے مرد کے سامنے تھرکتی ہوئی ایک ماہ رخ سے ہیلو ہائی کی تھی مطلب یہ کہ زندگی میں شاید پہلی بار صنف نازک کی کسی رکن سے اپنے طور پر متعارف ہونے کی سعی کی تھی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ان دنوں غیرملکیوں کی بہت قدر تھی اور خاص طور پر ہندوستانی چہرے مہرے والے مرد تو نوجوان لڑکیوں کو بے حد مرغوب تھے۔ لڑکی کو بہت ہی واجبی انگریزی آتی تھی اور طغرل تو ظاہر ہے ان کی زبان سے یکسر نابلد تھا۔ حسام نے حق دوستی نبھاتے ہوئے اس کی زبان میں اس لڑکی سے بات چیت کی تھی۔ لوٹتے ہوئے حسام نے طغرل کو بتایا تھا کہ اسں نے اسے طغرل سے ملنے آنے کی دعوت دی ہے جو اس نے قبول کر لی ہے۔
جب وہ تینوں سیر کرکے لوٹے تھے تب کہیں شام کے چھ ساڑھے چھ کا وقت تھا لیکن یوں لگتا تھا جیسے سورج نصف النہار پر ہے۔ جولائی کا مہینہ تھا۔ قطب کے نزدیک ہونے کی وجہ سے یہاں نام نہاد گرمیوں کے موسم میں سورج ساڑھے دس گیارہ کے قریب غروب ہوتا تھا۔ ابھی وہ شغل مے کر رہے تھے کہ وہ لڑکی اپنے ایک دوست کے ہمراہ آ گئی تھی۔
حسام اور اس کی بیوی ان دونوں کو جینز کی پتلون دکھا رہے تھے۔ دونوں باری باری غسل خانے میں گئے تھے مگر جینز کسی کو فٹ نہیں آئی تھی۔ بالآخر حسام نے اپنی ایک پرانی جینز لڑکے کو دے کر رخصت کیا تھا اور ساتھ ہی ایک قہقہہ چھوڑا تھا۔ طغرل بھی مسکرا دیا تھا۔
شیمپین کی ایک اور بوتل کھل گئی تھی۔ حسام نے ایک دو پیگ پینے کے بعد نتاشا کو کچھ کہا تھا اور طغرل سے رجوع کرکے بولا تھا،"آپ نتاشا کے ساتھ کاریڈور میں چلے جائیں۔ میں اس لڑکی کو تیار کرتا ہوں"۔ آدھے گھنٹے کے بعد وہ کمرے سے باہر آیا تھا اور طغرل کو اندر جانے کو کہا تھا۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ لڑکی صرف جانگیہ پہنے سکڑی سمٹی بیٹھی ہے۔ اوہ جنت کے مزے، اس کے دل میں ہوک اٹھی تھی اور اس نے چٹخنی لگاتے ہی دست درازی شروع کر دی تھی۔ وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کسی "بلغاروی" کا ذکر کر رہی تھی اور ساتھ ہی اپنے ساتھ ہونے والی اس کی کسی زیادتی کا بھی۔ طغرل جیسا کہ آپ جانتے ہیں ایک شریف آدمی تھا۔ ظلم و زیادتی سے گھبراتا تھا۔ اس لڑکی کے ساتھ ملوّث ہونے میں لڑکی کی جانب سے انگیخت کا عمل نہ ہونے کے برابر تھا مگر اس کی شرافت مہم جوئی کا پہلا سبق پڑھتے ہوئے پانی پانی ہو چکی تھی۔ دونوں کپڑے پہن کر عام لوگ بن گئے تھے اور دروازہ کھول دیا تھا۔ حسام نے الٹی سیدھی ہانکتے ہوئے لڑکی کو کوئی چھوٹا سے تحفہ دے کر رخصت کر دیا تھا۔ حسام نہانے کی خاطر غسل خانے میں داخل ہوا تو طغرل یہ سوچ کر کہ اب تو ایک ہی حمام میں ننگا ہونا ہے اس کے ساتھ غسل خانے میں گھس گیا تھا اور ساتھ ہی نہا لیا تھا۔ حسام کے ساتھ اپنی یہ اچانک بے تکلفی اس کی اپنی سمجھ سے بالاتر تھی۔ البتہ اس عمل میں مغرب کی ازاد روی سے متعلق اس کے اپنے ہی کسی احساس کا پرتو ضرور تھا، پھر یہ کہ اسے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ یہاں کے ہوسٹلوں میں مشترکہ غسل خانے ہیں۔ اگرچہ یہ غسل خانہ دو مشترکہ کمروں کے لیے تھا۔ غسل خانے کے دروازے کے روبرو کھلنے والے کمرے میں ایک افریقی لڑکا اور افریقی لڑکی اکٹھے رہتے تھے۔ شاید ایسا کرتے ہوئے طغرل نے خود کو آئندہ کی مہم جوئیوں کے لیے تیار کرنے کا جتن کیا تھا۔
رات کا ملگجا پن شروع ہو چکا تھا۔ اب وادکا کی بوتل کھل گئی تھی۔ یہاں وادکا بغیر کوئی اور مائع ملائے براہ راست پی جاتی ہے۔ حلق سے وادکا نیچے اتار کر منہ کی کڑواہٹ کو کم کرنے کی خاطر کوئی شربت، جوس، پانی یا کچھ بھی اور بعد میں پی لیا جاتا ہے۔ زیادہ شراب پینے والے یعنی اصل شرابی تو کوئی بھی چیز تاحتٰی آستین کا کف یا کوئی حصہ سونگھ کر ہی کام چلا لیتے ہیں۔
اس ملک میں، بالکل ازاد، وہ بھی ایک ہوسٹل میں، اس کا اپنی اہلیہ کے سب و شتم اور اپنے ملک کی گھٹن سے دور ہونے کا یہ پہلا دن تھا۔ ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی گھل چکی تھی۔ طغرل نویں منزل کے مشترکہ کچن کی کھڑکی سے ٹانگیں باہر لٹکا کر بیٹھا ہوا تھا۔ طغرل جو اونچائی سے بے حد خوف کھاتا تھا، بعد میں جب اپنی اس حرکت کو یاد کرتا تھا تو اس کا دل اس کے حلق میں آ اٹکتا تھا۔ رات گئے بالآخر نیند کی دیوی کے ہتھے چڑھ ہی گئے تھے۔
بیدار ہونے کے کچھ دیر بعد نتاشا نے ہنستے ہوئے بتایا تھا کہ رات آنے والی دھان پان لڑکی نے کہا تھا کہ طغرل اس کی زندگی میں چونتیسواں مرد تھا۔ وہ اپنے خاوند حسام کو حذف کر گئی تھی۔ یہ صداقت بھی بہت دیر بعد کھلی تھی کہ حسام اپنی بیوی کے سامنے اس کی زبان میں کسی لڑکی کو طغرل کے لیے تیار کرنے کا کہہ کر بیوی کو غچہ دیتے ہوئے اپنا کام پہلے دکھا دیا کرتا تھا۔ جب طغرل پر اس لڑکی کی "مردم آشامی" عیاں ہوئی تو اس کے چھکے چھوٹ گئے تھے۔ وہ سدا کا وہمی تھا۔ اسے لگا تھا جیسے اسے ایڈز ہو جائے گی۔ وہ حسام کے سر ہو گیا تھا کہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جائے۔ بیچا را کسی طرح اسے یونیورسٹی کے پولی کلینک میں ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا اور مترجم کے فرائض بھی سرانجام دیے تھے۔ ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا کہ ارتباط کے بعد کم از کم پانچ سال کے بعد اگر ہونی ہو تو ایڈز ہوتی ہے وہ ابھی سے اس کی بھلا کیا مدد کر سکتا تھا؟ ڈاکٹر نے یہ بھی کہا تھا کہ پیشگی احتیاط کرنا اس کا اپنا کام تھا ۔ طغرل بیچار اپنا سا منہ لے کر آ گیا تھا اور بہت خفیف ہوا تھا۔
حسام یونیورسٹی سدھار گیا تھا۔ نتاشا طغرل کے ہمراہ تھی۔ بیئر کی کھلی بوتلیں ان کے ہاتھوں میں تھیں اور وہ اسے قریب کے جنگل کی سیر کرا رہی تھی۔ طغرل تو پیاس کے مارے ہوئے ملک سے آیا تھا چنانچہ اس کی بوتل جلد خالی ہو گئی تھی۔ نتاشا نے اسے اپنی آدھی بھری یا آدھی خالی بوتل پینے کے لیے پیش کی تھی۔ طغرل نے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ نتاشا نے پوچھا تھا،" کیوں نہیں پیتے، کیا مزید بیئر پینے کو دل نہیں کر رہا"۔ اس نے سچ بولتے ہوئے کہا تھا،" دل تو کر رہا ہے لیکن اس بوتل کو تم نے منہ لگایا تھا"۔ جواب میں اس نے خاص انداز میں اپنی گردن تھوڑی سی ٹیڑھی کرکے، طنزیہ مسکراہٹ مسکراتے ہوئے پوچھا تھا،" طغرل، کیا تم مجھے لب بہ لب، دہن بہ دہن چوم سکتے ہو؟" طغرل تو بھوکا غیرملکی تھا جو محض اخلاقیات کی فرغل میں زبردستی گھسا ہوا تھا ، جسے اتار پھینکنے کے بس بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ فورا" بولا تھا، "کیوں نہیں" جیسے وہ ابھی اپنے ہونٹ اپنی جھوٹی بوتل کی طرح اسے پیش کرنے کو تھی لیکن وہ جواب میں قہقہہ بلند کر کے بولی تھی،" تو پھر میری جھوٹی بوتل کو منہ کیوں نہیں لگا سکتے؟" طغرل نے لاجواب ہو کر اس کے ہاتھ سے بوتل لے کر منہ کو لگا لی تھی۔ اس روز سے اس نے نتاشا کو "منطقی لڑکی" کے نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا۔ یہ رات ایک بار پھر شغل مے کشی اور گپ بازی میں کٹی تھی۔ رات اگرچہ خنک تھی مگر کمرہ اتنا گرم ہو گیا تھا کہ چھوٹی سی کھڑکی کھولنی پڑی تھی۔ تیسرے روز وہ تینوں، کہیں سے سیر کرکے لوٹ رہے تھے جب حسام کی کوئی شناسا لڑکی مل گئی تھی جس کے ہمراہ ایک اور لڑکی تھی۔ دونوں صحت مند تھیں اور خوبصورت بھی۔ حسام نے اپنی چرب زبانی اورمستعدی سے ان دونوں کو اپنے کمرے میں جانے پر راضی کر لیا تھا۔ شام ڈھلنے کو آئی تو شراب کا دور چلنے لگا تھا۔ حسام اپنی شناسا لڑکی کے ساتھ کبھی برآمدے میں چلا جاتا تھا کبھی دونوں کمرے میں لوٹ آتے تھے۔ یوں رات کے بارہ ایک بج گئے تھے۔ پھر شاید حسام اپنا "تینتیسواں" مرد ہونے کا عمل پورا کرکے برآمدے میں آیا تھا جہاں طغرل ، نتاشا اور اولگا کھڑے ہوئے تھے۔ اولگا اس لڑکی کا نام تھا جو حسام کی شناسا لڑکی کے ہمراہ آئی تھی۔ اس کا چہرہ مہرہ کلاسیکی تصویروں اور فلموں میں دکھائی جانے والی روسی لڑکیوں کا سا تھا۔ بھری بھری، روشن روشن، درازقد، گھنے سنہرے بالوں والی صحت مند لڑکی۔ حسام طغرل کو ایک جانب لے گیا تھا اور کہا تھا " آپ اندر جائیں۔ لڑکی تیار ہے" پھر ہنستے ہوئے کہا تھا اسے دو چار تھپڑ بھی لگا دینا۔ طغرل سمجھا تھا کہ شاید موصوفہ کو اذیت پسندی کا لپکا ہوگا مگر درحقیقت یہ کہنے کے پیچھے حسام کی کوئی ذاتی پرخاش تھی۔
وہ بالکل برہنہ تھی۔ اس نے طغرل کے ساتھ ملوث ہونے میں سردمہری کا اظہار بھی نہیں کیا تھا طغرل نے زبردستی کی جانے والی اس محبت کے عمل کے کسی لمحے میں نہ صرف اس کے چہرے پر چند طماچے رسید کیے تھے بلکہ اس کے بالوں کو پکڑ کر جھنجھوڑا بھی تھا۔ لڑکی نے اس رویے پر نہ تو احتجاج کیا تھا اور نہ ہی دکھی دکھائی دی تھی۔
پھر وہ سب کمرے میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ باتیں ہوتی رہی تھیں اور جام چلتے رہے تھے۔ ان دونوں لڑکیوں کو کوئی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک انسٹیٹیوٹ کے ہوسٹل جانا تھا۔ صبح کی سفیدی چھا رہی تھی۔ ہوا شفاف تھی اورطغرل مستی میں تھا۔ "اخلاق کا تقاضا تو یہی ہے کہ کوئی انہیں ہوسٹل تک چھوڑ کر آئے، بہتر یہی ہے آپ چلے جائیں" حسام نے طغرل سے کہا تھا۔ حسام یقینا" تھوڑی دیر نتاشا کے ساتھ تنہا رہنا چاہتا تھا پھر طغرل کو بھی دو پریاں دائیں بائیں بازووں کے ساتھ لٹکائے صبحدم چہل خرامی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ طغرل کو جس قدر آزادی اور ہلکے پن کا احساس اس روز ہو رہا تھا، اسے لگتا تھا کہ وہ اس احساس کو شاید ہی کبھی بھلا پائے۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بلکہ انگریزی زبان کے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے سہارے تعلق اور نزدیکی کا ایک دھارا تھا جو بہے چلا جا رہا تھا۔ طغرل سبک خرامی کرتے ہوئے کبھی اس بازو والی تو کبھی اس بازو والی کے چہرے یا ہونٹوں پر بوسہ جڑ دیتا تھا اور وہ کھلکھلا کر قہقہہ بار ہو جاتی تھیں۔ فضا میں گھنٹیاں بجنے کی آواز گھل جاتی تھی.
ان کا ہوسٹل آ گیا تھا۔ طغرل ان کے ہمراہ ان کے کمرے میں گیا تھا اور رٹ لگا دی تھی کہ وہ ان کے ساتھ ان کے کمرے میں ہی سوئے گا۔ ان ماہ وشوں نے بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر اسے وہاں سے چلتا کیا تھا۔ وہ واپس اتے ہوئے راستے بھر ان کی ہمرہی کے نشے میں مخمور ٹہلتا ہوا حسام کے کمرے میں پہنچا تھا۔ میاں بیوی دونوں محو خواب تھے۔ طغرل بھی ڈھے کر سو گیا تھا۔۔
آنکھ دیرمیں کھلی تھی۔ حسام نے ناشتہ تیار کیا ہوا تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ دونوں پڑھائی کرنے نکل گئے تھے۔ اس رات انہوں نے پینے سے گریز کیا تھا بس گپ شپ لگاتے رہے تھے۔
اگلے روز حسام اور نتاشا حسب معمول نکلے ہوئے تھے۔ طغرل دسویں منزل پر حسام کے ایک واقف کار کو ڈھونڈنے گیا تھا تاکہ باتیں کر کے بوریت کم کرے۔ اس کا کمرہ بھی مقفل تھا۔ وہ نیچے آیا تو دیکھا کہ حسام کھڑا ہے, چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور وہ جھنجھلایا ہوا لگتا تھا۔ وہ طغرل کا بازو پکڑ کر اسے کھینچتے ہوئے ایک دوسرے کمرے میں لے گیا تھا جو حمید نام کے ایک شامی لڑکے کا کمرہ تھا۔ طغرل کا سوٹ کیس پہلے ہی وہاں رکھا تھا۔ اس نے طغرل کو سختی کے ساتھ کہا تھا، جب تک وہ نہ کہے تب تک وہ اس کمرے سے باہر نہ نکلے۔ طغرل اس کے اس رویے پر بہت جزبز ہوا تھا۔ استفسار پر حسام نے اسے کوئی ایسی بات کہی تھی جو اس کے خیال میں اس سے متعلق وہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ طغرل سن کرطیش میں آ گیا تھا۔ حسام نے یک لخت نرم رویہ اختیار کرکے بتایا تھا کہ کل والی لڑکی نے پولیس کو شکایت کر دی ہے کہ ہم لوگوں نے اسے جنسی اورعمومی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ پھر اس نے طغرل سے پوچھا تھا کہ اس نے امپورٹڈ ڈن ہل سگریٹ کے پیکٹ کہاں رکھے ہیں۔ حسام سوٹ ووٹ پہن کر ڈن ہل کی دو تین ڈبیاں لے کر یونیورسٹی کے ہوسٹلوں کی حدود میں واقع پولیس سٹیشن گیا تھا۔ ادھر طغرل، حمید شامی کے کمرے میں خوفزدہ بیٹھا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس ملک میں زنا بالجبر کی سزا سات سال قید ہے۔ دوسری جانب یوں بھی پریشان تھا کہ اس نوع کی تو بات تھی ہی نہیں اور اس لڑکی کو چھتیس گھنٹوں کے بعد کیا خیال آیا کہ اس نے ایسی شکایت کی۔
حسام کوئی ایک گھنٹے بعد لوٹا تھا۔ خاصا مطمئن تھا مگر کھنچا کھنچا سا۔ جب اس کے اعصاب کا تناؤ کم ہوا تو اس نے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا کہ ایک تو اس نے تھانے والوں کو سگریٹ کی ڈبیوں اور وادکا کی بوتل تحفے میں دی تھیں، دوسرے اس نے اس لڑکی کے ساتھ پولیس والوں کے سامنے وکیلوں کی طرح بحث کی تھی۔ پھر پولیس والے نے بھی اس لڑکی سے کچھ سوال کیے تھے۔ اس کے جوابات سے ثابت ہو گیا تھا کہ وہ تہمت لگانا چاہتی تھی چنانچہ پولیس والے نے اس کی شکایت درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حسام کی مستعدی اور دلیل بازی کام دکھا گئی تھی ورنہ شکایت درج کروانا ہر شخص کا بنیادی حق ہوتا ہے چاہے بعد میں اسے واپس ہی کیوں نہ لے لے۔ یہ واقعہ طغرل کے لیے بہت پریشان کن تھا لیکن پریشانی بھی خوشی کی طرح سدا رہنے والی چیز نہیں۔ یہ ضرور ہوا تھا کہ اب طغرل اور حسام دونوں ہی جذبات کی شدت کو لگام دینے کی کوشش کرنے لگے تھے۔
نتاشا اپنی نانی سے ملنے ہارکوو(خارکوف) چلی گئی تھی۔ تاحال ملکوں کی یونین موجود تھی اس لیے سرحدوں کا کوئی بکھیڑا نہیں تھا۔ نتاشا کے جانے کے بعد حسام خود کو آزاد محسوس کر رہا تھا کیونکہ اب بلانوشی پر قدغن لگانے والا کوئی نہیں تھا۔ ایک رات پینے کے بعد ساتھ والے ہوسٹل میں جانا تھا جہاں حسام کو نیا کمرہ الاٹ ہوا تھا جسے وہ دیکھنا چاہتا تھا۔ رات کا اندھیرا چھا چکا تھا اس لیے طغرل نے شلوار قمیص پہن کر اس کے ساتھ جانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی تھی۔ ہوسٹل کے اندر چونکہ حسام کو ہی جانا تھا اس لیے طغرل ہوسٹل سے کچھ پہلے پودوں سے بنی باڑوں کے بیچ رک گیا تھا تاکہ رات کی کوکھ میں گھلی باس کا لطف لے سکے۔ حسام کو گئے خاصی دیر ہو چکی تھی۔ طغرل کو تھوڑی تشویش ہونے لگی تھی۔ جب وہ حسام کو دیکھنے ہوسٹل کے نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ حسام نے ہوسٹل کے دروازے میں ایک ہٹے کٹے افریقی طالبعلم کو کندھے سے دھکیلتے ہوئے نکلتے کی کوشش کی تھی۔ افریقی بپھر گیا تھا اوراس نے "کم آن" "کم آن" کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کے اشاروں سے حسام کو دعوت مبارزت دینا شروع کر دی تھی۔ پھر اس نے لڑنے کی خاطر ہٹتے ہوئے کھلے حصے کی جانب نکلنا شروع کر دیا تھا۔ حسام ایک تو لڑاکا قوم سے تھا اوپر سے پیے ہوئے تھا یعنی ایک کریلا اوپر سے نیم چڑھا والا معاملہ تھا۔ طغرل ابھی دور تھا کہ افریقی نے باکسر کے سے انداز میں حسام کے چہرے پر ایک مکا جڑ دیا تھا اور حسام لڑکھڑاتا ہوا دورجا گرا تھا۔ وہ فورا" اٹھ کھڑا ہوا تھا اتنے میں افریقی نے ایک اور وار کر دیا تھا۔ حسام نے قمیص اتار دی تھی اور خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا تھا پر نہ تو وہ افریقی جوان کی طرح پیشہ ور مکے باز تھا اور نہ ہی اس کی طرح الکحل کے اثر سے پاک۔ طغرل دوڑتا ہوا ان دونوں کے بیچ میں آ گیا تھا، افریقی کا اگلا مکہ اس کے شانے پر پڑا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ افریقی حسام کے چہرے کا نشانہ باندھ کرمکہ مارنے کی کوشش کر رہا تھا اورحسام قد میں طغرل سے چھوٹا تھا۔ اس کے مکے میں رکاوٹ آ جانے سے حسام کو بھی افریقی پر ایک کاری وار کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ طغرل کے بیچ میں پڑنے سے ایک دو افریقی لڑکے بھی بیچ بچاؤ کرانے لگے تھے۔ سب مل کر انہیں شانت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
حسام طغرل سے ناراض ہو گیا تھا۔ اسے شکوہ تھا کہ طغرل نے اس کے شانہ بہ شانہ لڑائی میں حصہ کیوں نہیں لیا تھا۔ طغرل کی صلح جوئی اور امن پسندی اس کے نزدیک دوستی اور بھائی چارے کی نفی تھی جبکہ طغرل ایک تو ویسے ہی امن و آشتی کا قائل تھا دوسرے اسے لڑنا بھی نہیں آتا تھا تیسرے اگر وہ کسی نہ کسی طرح اس کے ہمراہ لڑائی میں شریک ہو بھی جاتا تو باقی افریقی لڑکے اپنے افریقی دوست کے ساتھ بھائی چارہ کرتے ہوئے ان دونوں کا بھرکس نکال دیتے۔ مگر حسام کا دل طغرل کی دلیل مان کر دینے کو تیار نہیں تھا چنانچہ اس کا دل دو ایک روز طغرل سے کھٹا رہا تھا۔ دیار غیر میں مہمان ہونا بھی کتنی بے بسی ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کا سا معاملہ ہوتا ہے۔
حسام کو اپنا سامان دوسرے ہوسٹل کے کمرے میں منتقل کرنا تھا۔ حسام کوتاہ قد اور گٹھے ہوئے بدن والا جوان تھا جو تب مضبوط ارادے والا شخص لگتا تھا۔ اس نے بھاری بھر سامان اکٹھا کرکے اٹھانا شروع کیا تھا۔ طغرل اور وہ مل کر اس سامان کو لفٹ میں رکھتے اور نکالتے تھے۔ اس عمل میں طغرل کے ذمے صرف اتنا کام تھا کہ لفٹ میں سامان رکھے جانے اور لفٹ سے نکالے جانے کے دوران لفٹ کا "توقف" کا بٹن دبائے کھڑا رہے تاکہ لفٹ کا دروازہ کھلا رکھا جا سکے۔ جب حسام سامان نکال لیتا تھا تو طغرل سامان کو اس کے سرپرلادنے میں مدد کرتا تھا پھر اس کے پیچھے پیچھے چلتا تھا تاکہ پھسل کر گر جانے والی ایک دو چھوٹی چھوٹی چیزوں کو سمیٹ لے۔ دوسرے ہوسٹل میں پہنچ کر حسام سیڑھیوں کے راستے سامان کو شاید پانچویں یا ساتویں منزل تک لے جاتا تھا جہاں اس کا نیا کمرہ تھا۔ جب حسام تیسری باریہ پرمشقت کام کر رہا تھا تو طغرل کو ندامت ہونے لگی تھی اور اس نے بھی حسب توفیق سامان ڈھونے میں اس کی مدد کرنا شروع کر دی تھی۔ اس نے حسام کے ساتھ مل کر جب دوبارسامان ڈھویا توحسام نے خوش ہو کر آشکار کیا تھا کہ نتاشا نے وادکا کی چند بوتلیں ذخیرہ کی ہوئی تھیں جنہیں وہ خاص موقع پر استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اس زمانے میں شراب راشن پرملنے لگی تھی اورچند بوتلیں نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں تھیں۔ چونکہ طغرل نے باربرداری میں اس کا ہاتھ بٹایا تھا پھر حسام خود بھی تھک چکا تھا چنانچہ اس نے تجویز کیا تھا کہ تازہ دم ہونے کی خاطر ایک بوتل کھول لینے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ انہوں نے بوتل کھول لی تھی ۔ سامان ڈھوتے ڈھوتے ، انہوں نے یکے بعد دیگرے تین بوتلیں کھول کر کچھ کھائے پیے بغیر معدوں میں انڈیل لی تھیں۔ سامان ڈھونے کا کام تمام ہو چکا تھا مگر وہ الکحل کے زیر اثرکچھ زیادہ ہی تازہ دم تھے۔ طغرل نے حسام سے کہا تھا کہ چوتھی اورآخری بوتل جنگل میں جا کرپیتے ہیں۔ یہ جنگل ہوسٹلوں کے عقب میں واقع تھا۔ طغرل نے شلوار قمیص پہن لی تھی اور نعمت غیر مترقبہ کی آخری بوتل نیفے میں اڑس لی تھی۔ وہ دونوں بازووں میں بازو ڈالے، قہقہے لگاتے، نعرے مارتے جنگل میں چلتے جا رہے تھے۔ ساتھ ساتھ بوتل کے دہانے سے منہ لگا کرباری باری جرعہ شراب بھی حلق سے اتار لیتے تھے۔ ایک جگہ وہ دونوں زمین پر بیٹھ گئے تھے۔ ان پر یک لخت بے تحاشا تکان اور نیند کا غلبہ طاری ہو چکا تھا۔ طغرل جنگل کی دوب پر ہی دراز ہو گیا تھا اور اس کو نیند نے آ لیا تھا۔ اندھیرا اتر رہا تھا۔ حسام نے طغرل کو چلنے کا کہا تھا مگر اس نے جواب میں کہا تھا،"مجھے سونے دو یار، تنگ نہ کرو"۔ حسام نے دوچار بار اسے جھنجھوڑا تھا مگر طغرل ٹس سے مس نہ ہوا تھا۔
رات گئے اس نے کروٹ بدلی تو کوئی تنکا اس کے پہلو میں چبھا تھا۔ اس نے آنکھ کھولی تو ہو کا عالم تھا۔ اونچے اونچے درخت ، دیووں کا روپ دھارے اس کے اوپر سایہ فگن تھے۔ کبھی کبھار کسی پرندے کے پھڑپھڑانے کی اوازسنائی دے جاتی تھی۔ باوجود اس قدرنشے کے طغرل مارے خوف کے تیزی سے پاؤں پر کھڑا ہو گیا تھا۔ ٹانگیں بری طرح لرز رہی تھیں۔ سمت کا تعین کرنا طغرل کے لیے ویسے بھی مشکل ہوتا تھا اوپرسے رات کا سمے، انجانا مقام اورجنگل۔ وہ بغیر اندازے کے ٹامک ٹوئیاں مارتا، لڑکھڑاتا، درختوں کے تنوں کے سہارے لیتا خاصی دیر کے بعد سڑک پر آیا تھا۔ پھراور بھی دیر کے بعد اسے کچھ ذی نفس دکھائی دیے تھے۔ ہوسٹل کا نمبراسے یاد تھا۔ پوچھنے پرمعلوم ہوا تھا کہ وہ اس عمارت سے پانچ چھ عمارتیں ادھرآ نکلا تھا۔ ہردو ہوسٹلوں کے درمیان بڑی سی خالی جگہ بھی تھی۔ بالآخر کوئی چار بجے صبح وہ حسام کے ہوسٹل پہنچا تھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے میں قدم رکھتے ہی اس نے حسام کا نام لے لے کر اونچی آواز میں صلوٰتیں سنانا شروع کردی تھیں اور ساتھ ہی گلہ کرنا بھی کہ وہ جان بوجھ کر اسے جنگل میں تن تنہا چھوڑ آیا تھا۔ دو چار دروازے کھلے تھے۔ اقامت گاہ کے مقیموں نے اپنے ہونٹوں پرانگلی رکھ کر"شش" کی آواز کے ساتھ اسے باور کرانے کی سعی کی تھی کہ وہ بے وقت لوگوں کی نیند میں مخل ہو رہا تھا ۔ پھر ایک کمرے سے حسام برآمد ہوا تھا جس نے طغرل کو بازو سے کھینچتے ہوئے کمرے میں لے جا کر چٹخنی چڑھا دی تھی۔ طغرل اول فول بکتا رہا تھا مگر حسام کان دھرے بنا بستر پر دراز ہو کر ساکت ہو گیا تھا۔ آخر کار طغرل بھی ڈھیر ہو گیا تھا۔
سہ پہر کے وقت حسام کے منہ سے لرزتے لہجے میں نقاہت آمیز "طغرل صاحب، طغرل صاحب " کی صدا سن کر طغرل بیدار ہوا تھا۔ اس نے لیٹے لیٹے پوچھا تھا،" کیا بات ہے حسام؟" حسام نے جواب میں کہا تھا کہ وہ مررہا ہے۔ اگرچہ طغرل میں بھی اٹھنے کی سکت نہیں تھی لیکن حسام نے جس طرح یہ بات کہی تھی وہ اسے سچ جان کر ہڑبڑا کر اٹھا اوراس کے پاس پہنچا تھا۔ حسام کا چہرہ اترا ہوا تھا، رنگ زرد تھا، آنکھوں میں از حد نقاہت کا جن رقصاں تھا۔ طغرل نے پوچھا تھا،"حسام میں تمہارے لیے کیا کروں؟"۔ اس نے کہا تھا کہ شکردان میں پڑی شکر میں پانی گھول کر اسے پینے کو دے۔ وہ تیزی سے باتھ روم میں جا کر شکر دان میں پانی ڈال لایا تھا جس میں پہلے سے چند چمچ شکر موجود تھی پھر چمچے سے حل کرکے اسے پینے کے لیے دیا تھا جسے پی کر اس کے چہرے پر طمانیت کا ایک سایہ سا جھلملایا تھا۔ طغرل مطمئن ہو کر اپنے بستر پردراز ہو گیا تھا۔ اب حسام بہتر آواز میں اسے پکار رہا تھا لیکن قوت گویائی جیسے اس سے روٹھ گئی تھی تاحتٰی وہ جسم کو حرکت دینے سے بھی خود کو قاصر محسوس کر رہا تھا۔ حسام کی امداد کرنے کا جتن کرتے ہوئے اس کی قوت سلب ہو چکی تھی۔ حسام نے اپنی گردن قدرے بلند کر کے اس کی جانب دیکھا تھا مگر طغرل نے اشارے سے بتایا تھا کہ اس میں بولنے کی ہمت نہیں۔ اس بارحسام کو اس کی مدد کرنے کی خاطر کمر بستہ ہونا پڑا تھا۔ اس نے اٹھ کر کمرے میں پڑے دو ایک کچے پکے چھوٹے چھوٹے سیب اسے چبانے کو دیے تھے۔ پھر ان دونوں نے تقریبا" پاؤں گھسیٹتے ہوئے منہ ہاتھ دھویا تھا اور زندہ لاشوں کی مانند آہستہ آہستہ سیڑھیاں اتر کر، سرسراتے ہوئے یونیورسٹی کے مطعم پہنچے تھے جہاں انہوں نے سوپ لیا تھا اور کریم یعنی کھٹی بالائی کھائی تھی۔ اس طرح ان دونوں میں تھوڑی سی جان آئی تھی۔ پھر انہوں نے دو روز مسلسل دودھ دہی کا استعمال کیا تھا تب کہیں جا کر ان کی قوت بحال ہوئی تھی۔ بعد میں انہوں نے سوچا تھا کہ چار بوتلیں دو لٹربنتی ہیں۔ چالیس فیصد کے حساب سے ان میں ایک لٹر کے قریب خالص الکحل تھی مگر جب انہوں نے خالی بوتلیں گنی تھیں تو وہ چار کی بجائے چھ تھیں یعنی وہ دونوں سوا لٹر خالص الکحل سڑپ گئے تھے۔ ان کا جاں بر ہونا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔
نتاشا دو چار روز بعد لوٹ آئی تھی۔ جب اس نے اپنی محفوظ کردہ بوتلیں غائب پائیں تو بہت سیخ پا ہوئی تھی مگر جب اس نے ان کی بلانوشی اوراس کے اثرات بارے داستان سنی تو شکر ادا کیا تھا کہ دونوں زندہ تھے۔ نتاشا کی ایک سہیلی تھی جو اس کے ساتھ مچھلیوں کی پراسیسنگ کرنے والے کارخانے میں کام کرتی تھی۔ اس کا طولیا نام کا خاوند تھا۔ وہ نسل سے ازبک تھا مگر اس ملک میں رہنے والے وسط ایشیا کے لوگ اپنی سہولت کی خاطر اپنے ناموں کے اختصار کو مقامی رنگ دے لیتے ہیں۔ میاں بیوی نے انہیں دعوت پر بلایا تھا جو اصل میں طغرل کے اعزاز میں تھی۔
ان دنوں اس شہر میں ٹیکسی کے کرائے بہت کم تھے بلکہ ٹیکسی کا کرایہ کیا سب ہی کچھ بہت سستا تھا اگرچہ چیز مشکل سے ملتی تھی۔ طغرل حسام کی ہدایت پر اپنے ساتھ چمڑے کی چند جیکٹیں لے کر آیا تھا۔ ان میں سے ایک دو بک چکی تھیں، اس لیے وہ "امیر" تھے اور اکثر ٹیکسیوں میں سفر کیا کرتے تھے۔ ٹیکسی کے ذریعے ہی وہ طولیا کے ہاں پہنچے تھے۔وہاں شراب پی اور دعوت اڑائی تھی۔
اس ملک میں زندگی کے لیے شراب اتنی ہی اہم ہے جتنی روٹی۔ مہمان کو شراب پیش نہ کرنا انتہائی بد اخلاقی شمار ہوتی ہے اور مہمان کا شراب پینے سے انکار کرنا اس سے بھی زیادہ معیوب۔ یہ اور بات ہے کہ مہمان شروع میں ہی مذہب یا خرابی صحت کا جواز پیش کر دے۔ اس کے باوجود ایک دو بار اصرار کیا جاتا ہے اور مزاحیہ انداز میں شراب کی جانب راغب کرنے کی سعی کی جاتی ہے مثلا" یہ کہہ کر کہ "رات کو اللہ نہیں دیکھتا" یا یہ کہہ کر کہ تھوڑی سی کونیاک پی لینے سے صحت بحال رہتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ طغرل مست ہو گیا تو طولیا اور اسی کی بیوی نے غالبا" مذاق میں کہا تھا کہ وہاں موجود ایک اورخاتون طغرل کی رفاقت میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ایک تو طغرل نشے میں تھا دوسرے وہ ابھی اس ملک کے لوگوں کے ذوق لطافت سے پوری طرح بہرہ ور نہیں ہوا تھا چنانچہ ایک بستر پر پسر گیا تھا۔ پھر عقدہ کھلا تھا کہ یہ تو ایک مذاق تھا البتہ دونوں میزبان اصرار کرنے لگے تھے ، اگر وہ بہتر محسوس نہیں کر رہا تو شب بسری کی خاطر ان کے ہاں رہ جائے۔ مگر طغرل کا تو مقصد ہی کچھ اور تھا بلا وجہ انجان لوگوں کے ہاں شب بسری کی تک نہیں تھی چنانچہ تینوں ان سے اجازت لے کر ایک ٹیکسی میں بیٹھ گئے تھے۔ حسام طغرل کے ہوس کار وطیرے پر اسے سخت سست کہہ رہا تھا۔ اس پر طغرل طیش میں آ گیا تھا اور گاڑی کے اندر ہی اس کے ساتھ الجھنے لگا تھا۔ ڈرائیور نے گھبرا کر گاڑی روک دی تھی اور وہ دونوں باہر نکل گئے تھے۔ حسام نے طغرل کو زبردستی گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کی تھی جس کے باعث ان دونوں کے درمیان دھینگا مشتی شروع ہو گئی تھی۔ نتاشا نے بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کرایا تھا۔ طغرل کی ایک انگشت میں شادی میں ملی تولہ بھر کی سونے کی انگشتری تھی جو ان کے داؤ پیچ کے دوران اتر کر گر گئی تھی اور باوجود کوشش کے نہ مل پائی تھی۔ وہ ہوسٹل کے کمرے میں لوٹ آئے تھے۔ وہ دونوں ہی چونکہ الکحل کے زیر اثر تھے اور حسام ابھی تک اپنی زبان پر قابو پانے میں ناکام رہا تھا جس پر طغرل نے جھنجھلا کر کہا تھا کہ وہ جا رہا ہے۔ پھر اپنا سب کچھ سمیٹ سمٹا کر اپنے بھاری بھر کم سوٹ کیس میں ڈال کر سوٹ کیس کھینچتا ہوا لفٹ تک جا پہنچا تھا۔ مگر لفٹ تو اتفاق سے کام کر ہی نہیں رہی تھی اور وہ اتنا بھاری سوٹ کیس اٹھا کر سیڑھیوں کے راستے اترنے کے قابل نہیں تھا۔ پھر جاتا بھی تو کہاں جاتا۔ حسام کے علاوہ اس شہر میں کوئی اور واقف کار بھی تو نہیں تھا۔ زبان سے نابلد تھا اورجیب میں اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ کسی ایسے ہوٹل میں چلا جاتا جہاں انگریزی بولی جاتی ہو۔ آخر شرمندہ ہو کر سوٹ کیس گھسیٹا ہوا واپس کمرے میں آ گیا تھا۔ حسام کو بھی معلوم تھا کہ طغرل لوٹ آئے گا اس لیے اس نے کمرے کی چٹخنی نہیں چڑھائی تھی، دروازہ کھلا رکھا تھا۔ طغرل کا بستر خالی تھا، وہ اس پر لیٹ کر سو گیا تھا۔
صبح اٹھے تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہے تھے۔ نتاشا ان کی نشے میں ہوئی مخاصمت پر مخصوص انداز میں مسکرائے جا رہی تھی۔ اس دھینگا مشتی کے بعد حسام اور طغرل آپس میں جسمانی لڑائی کے سلسلے میں شاید کچھ کھل گئے تھے۔
لڑکیاں پھانس کر لانے اور شراب نوشی سے اب دونوں کچھ گریز کرنے لگے تھے۔ یہ ایک عارضی حفاظتی لائحہ عمل تھا۔ نتاشا جب نانی کے ہاں سے لوٹی تھی تو اس نے آتے ہی کہا تھا کہ ہم سب اکٹھے ہارکوو چلیں گے۔ ان دنوں وہ وہاں جانے کا پروگرام بنانے لگے تھے۔
اس ملک کے بارے میں بہت مشہور تھا کہ یہاں جنسی رفاقت نہ صرف آسانی سے دستیاب ہے بلکہ بہت فراواں بھی۔ بعض اوقات تو وہاں سے لوٹنے والے اپنی "سیاحتی رومان پروری" کے قصے سناتے ہوئے بہت مبالغہ آرائی سے کام لیا کرتے تھے۔ بہت پہلے غالبا" 1988 کے موسم خزاں میں ایک انگریزی زبان کے جریدے کے دفتر کے باہر صحن میں شغل مے نوشی کرتے ہوئے، آج کے ایک معروف کالم نگار نے جو اپنے کالم میں بھی مے نوشی کا کچھ زیادہ ہی تذکرہ کرتے ہیں، طغرل کے سامنے کہا تھا کہ اس نے وہاں کے دارالحکومت میں ڈن ہل کی ایک سگریٹ کے عوض ایک لڑکی کے ساتھ اختلاط کیا تھا۔ اس غیر منطقی بات پر طغرل کو تھوڑا سا غصہ بھی آیا تھا اور اس نے ان سے کہا تھا،"جناب اس سگریٹ کے ساتھ آپ بھی تھے جس نے وہ سگریٹ اس لڑکی کو پیش کی تھی۔ ممکن ہے آپ اسے پسند آ گئے ہوں"۔ ڈن ہل اور وہاں کی لڑکیوں کا قصہ کہیں دماغ میں چپکا رہ گیا تھا اسی لیے طغرل آتے ہوئے ڈن ہل کے دو بلاک لیتا آیا تھا اور بیسوں ڈبیاں یونیورسٹی کی لڑکیوں میں بانٹ دی تھیں۔ بدلے میں ماسوائے "شکریہ" سننے کے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوا تھا۔
اس ملک میں کچھ عرصہ گذارنے کے بعد طغرل کو معلوم ہوا تھا کہ اس کے ملک کے لوگوں کی طرح "جنسی عمل" ان لوگوں کے ایجنڈے پر نہیں تھا جس کے بارے میں سوچتے ہوئے، خواب بنتے ہوئے، تخئیل باندھتے ہوئے اورمنصوبہ بندی کرتے ہوئے وہ وقت ضائع کریں۔ سیکس ان کے لیے باقی ضروریات زندگی کی طرح ہے، جس سے ملتفت ہونے کی خاطر تگ و دو اور تلاش بسیار کرنا لازمی نہیں۔ بس ایک فریق اگر دوسرے فریق کو پسند کرتا ہے اور دوسرا فریق بھی اس کے لیے مثبت جذبات کا حامل ہے تو جسمانی تعلقات قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا۔ یہ بات نہیں کہ لڑکیاں سب کے آگے بچھی جاتی ہوں اور لڑکے سب لڑکیوں پر ریجھ رہے ہوں۔ وہاں بھی ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی جاتی ہے لیکن محبت کے بارے میں رویہ کسی حد تک عملیت پسندانہ ہوتا ہے جس کا اظہار وہاں کے ایک محاورے سے ہوتا ہے کہ "محبت آتی جاتی رہتی ہے لیکن کھانے کی احتیاج ہمیشہ ہوتی ہے"۔
ان چند ایام میں وہاں کی نوجوان لڑکیوں کے بارے میں طغرل کا جو فوری یا عارضی تاثر بنا تھا وہ یہ کہ نوجوان لڑکیاں زندگی کا لطف اٹھانے سے گریزاں نہیں ہوتی تھیں۔ ان کو اگر شیمپین پینے یا اچھی موسیقی سننے کی دعوت دے دی جاتی تھی وہ اسے بخوشی قبول کر لیتی تھیں۔ پھر دخت رز کے زیر اثر، موسیقی کے شور میں مجبوری کو رضامندی میں بدلنے میں وہ کچھ زیادہ دیر نہیں لگاتی تھیں۔ مگر ایسی لڑکیاں بھی کچھ کم نہیں تھیں جو مردوں کے ہر طرح کے داؤ پیچ کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو جاتی تھیں۔ اختلاط اور تلذذ کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے دیکھے جانے کا رجحان شاید منافقانہ سماج میں زیادہ ہوتا ہے۔
ایک روز بالآخر طغرل، حسام اور نتاشا کے ہمراہ ہارکوو کے لیے روانہ ہوا تھا۔
اس ملک میں آج بھی ریل گاڑی کا ٹکٹ لینے کے لیے (شناختی) پاسپورٹ دکھانا ضروری ہے پھر جن دنوں کی بات ہو رہی ہے تب تو سوویت یونین بھی زندہ تھی جہاں غیر ملکی کے بین الاقوامی پاسپورٹ کی بجائے چھوٹے چھوٹے دو صفحوں پر مشتمل ویزا علیحدہ ہوا کرتا تھا، جس پر درج مخصوص شہروں میں ہی جانے کی اجازت ہوا کرتی تھی۔ نتاشا کسی طرح سے طغرل کے لیے بھی ٹکٹ خرید لائی تھی۔ رات کو جب وہ ریل گاڑی میں سوار ہو گئے تھے اورریل گاڑی چل دی تھی تو حسام نتاشا کے کچھ کہنے پر طغرل کو ساتھ لے کر سگریٹ نوشی کے لیے مخصوص جگہ پر چلا گیا تھا۔ نتاشا نے خود ہی ڈبے کی انچارج خاتون سے بستروں کی چادریں وغیرہ لی تھیں اور جب "کوپے" سجا لیا تھا تو جا کر انہیں بلا لائی تھی۔ وہ اپنے "بنکر" میں محبوس ہو گئے تھے۔
طغرل پہلی بار سوویت یونین کی کسی ریل گاڑی میں بیٹھا تھا۔ اس زمانے میں بھی دو طرح کی ریل گاڑیاں چلا کرتی تھیں جن میں سے ایک قسم کو "فرمنّے پوئزد" یعنی فرم کی ریل گاڑی کہا جاتا تھا اور اب تک کہا جاتا ہے۔ یہ گاڑیاں علیحدہ کمپنیوں کے زیرانصرام ہوتی ہیں اوران گاڑیوں میں سروس بہتر ہوتی ہے۔ سٹاپ کم ہوتے ہیں مگر کرایہ زیادہ۔ البتہ دوسری قسم کی ریل گاڑیاں بھی اپنی صفائی، کارکردگی اور سہولت میں کچھ کم نہیں ہوتیں۔
گاڑی کی روانگی سے پہلے ہر ڈبے کے باہروردی میں ملبوس مستعد ڈبہ بان خاتون یا مرد کھڑے ہوتے ہیں جو ہر شخص کے ٹکٹ کی پڑتال کرتے ہیں اور انہیں اپنے ڈبے میں آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ عین وقت پر گاڑی کی روانگی سے تیس سیکنڈ پہلے ڈبہ بان دروازہ بند کر لیتے ہیں اور ریل گاڑی چل پڑتی ہے۔ ہر ڈبے میں پانی گرم کرنے کا ایک بڑا سا آلہ لگا ہوتا ہے جس سے مسافر گاڑی کی روانگی کے چند منٹ بعد استفادہ کر سکتے ہیں۔
ڈبے تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک کو "پلس کارت" کہا جاتا ہے جس میں تمام نشستیں لیٹنے کے لیے ہوتی ہیں لیکن پورے ڈبے میں انہیں ایک دوسرے سے ڈھانپنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا یعنی سب سب کو دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے ڈبے کی نشستوں کا کرایہ سب سے کم ہوتا ہے۔ دوسری قسم کے ڈبوں کو "کوپے" والے ڈبے کہا جاتا ہے جن میں ایک جانب کھڑکیوں کے ساتھ تقریبا" ڈیڑھ فٹ چوڑا کاریڈور ہوتا ہے جس میں قالین نما دری بچھی ہوتی ہے۔ ہر تین کھڑکیوں کے بعد ایک فولڈنگ نشست ہوتی ہے جسے باہر کا نظارہ کرنے والا شخص تھک جانے کی صورت میں بیٹھنے کی خاطر استعمال کر سکتا ہے۔ کاریڈور کے دوسری جانب چارچاربرتھوں والے کیبن ہوتے ہیں جن کا دروازہ بند ہو سکتا ہے اور اندر سے مقفل کیا جا سکتا ہے۔ دروازے کے عقب میں قد آدم آئنیہ ہوتا ہے۔ دروازے کے اطراف میں اوپر والی برتھوں سے تھوڑا سا اوپر کرکے ہک لگے ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہر جانب ہینگر آویزاں ہوتے ہیں تاکہ ہر مسافر اپنے اپنے کپڑے ان پر لٹکا سکے۔ کھڑکی کی جانب برتھوں کے درمیان ایک محکم جڑی ہوئی میز ہوتی ہے جس پر کھانے کا سامان، چائے وغیرہ رکھے جا سکتے ہیں۔ اس پر میز پوش بچھا ہوتا ہے اور مصنوعی پھولوں سے سجا ایک گلدان بھی دھرا ہوتا ہے۔ کھڑکی کے آگے ایک مصنوعی چمڑے سے بنا پردہ ہوتا ہے جس کو کھینچ کر نیچے لگے ہک میں اٹکایا جا سکتا ہے یوں باہر سے روشنی نہیں آتی۔ اس روشنی بند شیلڈ کے آگے کپڑے سے سیے دو پردے آویزاں ہوتے ہیں جو ادھر ادھر کیے جا سکتے ہیں۔ ہر برتھ کے سرہانے دیوار میں لیمپ نصب ہوتے ہیں جنہیں چھت پر کی ٹیوب لائٹس بجھائے جانے کے بعد حسب ضرورت روشن کیا جا سکتا ہے۔ نیچے کی برتھوں کو اوپر اٹھائیں تو ان کے نیچے بنے صندوقوں میں اپنا سامان محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ دروازے کے اوپر کاریڈور کی چھت پر کھلنے والا ایک بڑا سا خانہ ہوتا ہے جس میں چار کمبل دھرے ہوتے ہیں، ضرورت پڑنے پر وہاں اضافی سامان بھی رکھا جا سکتا ہے۔
ریل گاڑی چل پڑنے کے پندرہ بیس منٹ بعد ڈبہ بان خاتون یا مرد سب مسافروں سے چائے کی طلب بارے پوچھتے ہیں۔ اثبات میں جواب پانے پر دھات کے بنے ہوئے کنڈے والے منقش گلاس دانوں میں رکھے شیشے کے گلاسوں میں چائے پیش کر دیتے ہیں اور چار چار بسکٹوں کا پیکٹ بھی۔ رات نو بجے کے بعد وہ ہر مسافر کو گدے پر بچھانے کی خاطر دھلی ہوئی استری شدہ چادر، اسی طرح کی دوسری چادر کمبل کے نیچے لگانے کے لیے، تکیے کا غلاف اور ایک چھوٹا تولیہ دیتے ہیں جو پلاسٹک کے تھیلے میں بند ہوتے ہیں۔ چائے اور بسکٹوں کی قیمت تو ٹکٹ کی قیمت میں شامل ہوتی ہے مگر بستر کے کمپلکس کے لیے قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، جس زمانے کی یہ بات ہے تب یہ قیمت پانچ روبل ہوتی تھی۔ آج یہ قیمت سینکڑوں روبلوں میں ہے۔
ہر ڈبے کے آخر میں کے دونوں دروازوں کے بیچ کی جگہ سگریٹ نوش لوگوں کے لیے مخصوص ہوتی تھی (گذشتہ چند سالوں سے بند جگہوں پر سگریٹ نوشی یکسر ممنوع قرار دی جا چکی ہے)۔ درمیان کا دروازہ جو دوسرے ڈبے میں جانے کی خاطر کھولا جا سکتا ہے کے دونوں اطراف میں ایش ٹرے نصب ہوتی تھی۔ اس مقام سے ڈبے کی جانب کے جھولنے والے دروازے کے ساتھ ٹوائلٹ ہوتا ہے اوراسی حصے میں ایک جانب کوڑا پھینکنے کی خاطر بند ڈبہ لگا ہوتا ہے۔ اس کے اوپر 220 وولٹ بجلی کا ایک پلگ ہوتا ہے جس میں مسافر اپنا الیٹرک شیورلگا کراستعمال کر سکتے ہیں۔ گاڑی کے شہر سے نکلنے اور داخل ہونے سے آدھ گھنٹہ پہلے ٹوائلٹ مقفل کر دیے جاتے ہیں۔
تیسری قسم کے ڈبے "ایس وے" والے ہوتے ہیں، جس کا مطلب خصوصی اہمیت کا حامل بنتا ہے۔ ایسے کیبنوں میں صرف دو برتھ ہوتے ہیں۔ اوپر برتھ نہیں ہوتے۔ دو برتھ نسبتا" چوڑے ہوتے ہیں۔ سروس مزید بہترہوتی ہے۔ ایسے کیبن عموما" جوڑے استعمال کرتے ہیں یا کاروباری افراد۔ یہاں سے پورے یورپ کو ریل گاڑیاں جاتی ہیں اوراب تو ایسی ریل گا ڑیاں بھی چلنے لگی ہیں جن کے کرائے ہوائی جہازوں کے کرائے سے زیادہ ہیں۔ ان میں شاندار غسل خانوں کے علاوہ ٹی وی، ویڈیو، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک کی سہولتیں ہیں۔
بات ہو رہی ہے جولائی 1991 میں ہارکوو جانے کی۔ جب نتاشا نے انہیں بلا لیا تو انہوں نے رات کا کھانا نوش جان کیا اور باتیں کرتے ہوئے روشنیاں بجھا کر بستروں پر دراز ہو گئے تھے۔ طغرل کو متحرک حالت میں نیند نہیں آتی اس لیے کروٹیں بدلتا رہا تھا اور صبح پانچ بجے سے کاریڈور میں نکل کر باہر کے مناظر دیکھنے لگا تھا۔ جنگل ہی جنگل، سبزہ ہی سبزہ۔ کاریڈور کی چھوٹی کھڑکیاں کھلی تھیں جن میں داخل ہوتی تازہ ہوا سے روح و جاں مطمئن ہو رہے تھے۔ وہ سات بجے ہی منہ ہاتھ دھو، شیو بنا، کپڑے تبدیل کرکے تیار ہو چکا تھا۔ پھر دوسرے کیبنوں میں موجود لوگوں نے بھی تیار ہونا شروع کر دیا تھا۔ نتاشا اور حسام بھی جاگ کر تیار ہو چکے تھے۔ ڈبہ بان خاتون نے چائے پیش کی تھی جسے پی کر طغرل کی طبیعت کچھ بحال ہوئی تھی۔ وہ صبح آٹھ بجے ہاریکوو کے سٹیشن پر اترے تھے پھر زیر زمین ریل گاڑی پر سوار ہو کر نتاشا کی نانی کے ہاں پہنچے تھے جو بوڑھی، جاندار اور دلچسپ خاتون تھیں۔ انہوں نے ان کے آنے سے پہلے ہی دستر خوان سجایا ہوا تھا۔ جس پر طرح طرح کے سلاد کے علاوہ "ہریلکا" کی بھری بوتل بھی دھری تھی۔ ہریلکا کا تحریری تلفظ گریلکا ہے مگر یوکرینی گاف کو ہ بولتے ہیں۔ گریلکا کا لفظی معنی "گرما دینے والی" بنتا ہے۔ دراصل گھر میں بنائی گئی دیسی وادکا کو ہی ہریلکا کہا جاتا ہے۔
طغرل منہ نہار شراپ کو منہ لگانے کا تصور نہیں کر سکتا تھا لیکن مہمان ہونے کی اخلاقیات کے تحت بوڑھی جاندار نانی کے ساتھ "پیات دیست گرام" یعنی پچاس ملی لیٹر ہریلکا، خوش آمدی کے ضمن میں اسے حلق سے نیچے اتارنا ہی پڑی تھی اور پھر مزید پچاس ملی لٹر اور بھی۔ بھوک تو ویسے ہی لگی ہوئی تھی، ہریلکا ظالم نے مزید بھڑکا دی تھی۔ اسی اثناء میں نتاشا کی والدہ بھی جو سادہ اور دہہاتی قسم کی خاتون تھیں دیہات سے آ گئی تھیں۔ وہ اپنے دوست کے ہمراہ شہر سے باہر دیہات میں رہتی تھیں۔ کھانے کی احتیاج کا ذکر سنتے ہی ہمارے لیے آلو گوشت کے سالن کا بڑا سا ڈونگا لا کر میز پر رکھ دیا گیا تھا۔ گرم گرم سالن سے اٹھتی ہوئی بھاپ بھوک کو چمکا رہی تھی۔
حسام نے نتاشا سے پوچھا تھا کہ اس سالن میں گوشت کونسا ہے، اس کا جواب تھا کہ وہ تو ہمارے ساتھ آئی تھی اسے کیا معلوم۔ نتاشا کی ماں بھی ابھی ابھی دیہات سے آئی تھیں۔ اس لیے بے خبر تھیں۔ نانی ویسے ہی سو گرام کے خمار میں تھیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ گوشت لائی بھی ان کی سہیلی تھی اور پکایا بھی اس ہی نے تھا۔ طغرل نے کہا تھا،"ٹھہرو حسام میں بتاتا ہوں" پھر چمچ سے گوشت کی ایک دو بوٹیاں نکال کر دیکھتے ہوئے کہا تھا،" اللہ کی قسم گائے کا گوشت ہے، چلو