ظہیر چوہدری نے طغرل کو اصرار کرکے بلایا تھا اور رشتے کے ایک بھائی نے جب طغرل کے تقاضے پر دعوت نامہ اور اپنے ٹیکس کے کاغذات کی نقول ارسال کی تھیں تو لکھا تھا "تم ایک بار آ جاؤ، پھر ہم تمہیں جانے نہیں دیں گے"۔ ظہیر سے بددل ہونے کے ایک ڈیڑھ ہفتے بعد طغرل نے رشتے کے بھائی سے ملنے کا قصد کیا تھا۔
دوسرے شہر جانا ہو یا نیویارک کی کسی اور بورو (علاقے) میں، جانا نیویارک شہر کے کسی ایک ریلوے سٹیشن سے ہی ہوتا ہے۔ اس بار طغرل جس ریل گاڑی پر سوار ہوا تھا اس کے ڈبے دو منزلہ تھے۔ ایسی ریل گاڑی طغرل نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ وہ خاص طور پر زینہ چڑھ کے دوسری منزل پر جا بیٹھا تھا۔ ایک گھنٹے کے بے آواز سفر کے بعد ریل گاڑی اس ریلوے سٹیشن پر جا رکی تھی، جہاں طغرل کے رشتے کے بھائی نے اسے اتر جانے کو کہا تھا، جہاں سے انہوں نے آ کر لینا تھا۔ یہ سٹیشن کھلا تھا اور زمین سے کچھ اونچا۔ دونوں اطراف میں ڈیڑھ فٹ اونچی دیوار تھی، جس سے باہر کا علاقہ آرام سے دیکھا جا سکتا تھا۔ طغرل کو ابھی کوئی لینے نہیں پہنچا تھا۔ سٹیشن پر طغرل کے علاوہ ایک سیاہ فام نوجوان لڑکی تھی جو خاصی بنی ٹھنی ہوئی تھی۔ طغرل نے اس سے بات چیت شروع کر دی تھی۔ طغرل امریکہ میں صنف نازک سے اختلاط کے مواقع نہ ہونے سے اکتایا ہوا تھا۔ کہاں ماسکو جہاں جس سے چاہے بات کرو، جتنی کرو اور جیسے کرو، کہاں نیویارک، سب جھوٹ موٹ مسکراتے ہوئے مگر لیے دیے، کام سے کام رکھے ہوئے۔ سیاہ فام لڑکی بھی اپنی ٹرین کے انتظار میں شاید بور ہو رہی تھی۔ اس نے بھی خوش اخلاقی کے ساتھ باتیں کرنا شروع کر دی تھیں۔ اس نے اپنا نام نیٹیشا ( نتاشا) بتایا تھا۔ "میرے اللہ، یہاں بھی نتاشا" طغرل نے سوچا تھا۔ خیر روس می نتاشا نام نہیں کنیت ہے اصل نام نتالیا ہوتا ہے مگر امریکہ میں نیٹیشا ہی پورا نام تھا۔ نیٹیشا طالبعلم تھی۔ طغرل وقت گذاری کے لیے بات کر رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ نہ تو وہ نیویارک شہر بار بار پہنچ سکتا تھا اور نہ ہی نیٹیشا نام کی یہ لڑکی اس کی عمر میں دلچسپی لے گی اور نہ اس کے ساتھ تعلق بنانے میں کیونکہ کسی بھی مادی سماج کے باسیوں کے معیارات مادی ہوتے ہیں جبکہ طغرل ابھی تقریبا" قلاش تھا۔ طغرل نے باہر کی جانب دیکھا تو اسے ایک رکی ہوئی کار کی کھلی کھڑکی سے اپنے رشتے کے بھائی دکھائی دیے تھے۔ طغرل نے جھٹ سے کالی نیٹیشا کے گال پر چٹ سے ایک بوسہ دیا تھا اور ششدر ہوئی، آنکھیں کچھ زیادہ کھول کر دیکھتی ہوئی اس مسکراتی لڑکی کا ہاتھ دبا کر "گوڈ بائی!" کہتا ہوا سٹیشن سے باہر نکل گیا تھا۔
گاڑی میں سوار ہوتے ہی بھائی صاحب نے پوچھا تھا "یہ لڑکی کون تھی؟" طغرل نے کہا تھا "معلوم نہیں کوئی انجان تھی"۔ بھائی نے اپنی عینک کے شیشوں کے پیچھے مسکراتی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہا تھا "تم تو اس کے ساتھ بہت شیر و شکر دکھائی دے رہے تھے" طغرل یہ سوچ کر جھینپ سا گیا تھا کہ اس کے بھائی نجانے کب سے ان دونوں کی بے آواز چہکار کو سننے کی کوشش کر رہے تھے۔
باقی پاکستانیوں کی طرح طغرل کے اس بھائی نے "سیون الیون" نہیں کھولا تھا۔ انہوں نے خود بتایا تھا کہ بہت سوں نے انہیں یہی مشورہ دیا تھا کہ سیون الیون کھول لو لیکن انہوں نے کہا تھا "لاحول ولا قوۃ، یعنی میں پنساری بن جاؤں"۔ انہوں نے وہی کام شروع کر دیا تھا جو وہ پاکستان میں کرتے تھے۔ انہوں نے ایک پریس لگا لیا تھا اور پرنٹنگ کرنے لگے تھے۔ وہ طغرل کو لے کر سیدھے اپنے پرنٹنگ پریش پہنچے تھے۔ خود ہی شٹر کھولا تھا اور بتایا تھا "آج اتوار ہے اس لیے کوئی کام کرنے والا نہیں، اس روز کچھ ایسے گاہکوں سے وعدے کیے ہوتے ہیں جو اپنا تیار شدہ کام لینے ورکنگ ڈے پر نہیں پہنچ سکتے"۔ وہ یہیں سے اٹھ کر طغرل کو لینے پہنچے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ صرف ایک اور پارٹی کو مواد لینے پہنچنا تھا، اس سے فارغ ہو کر کھانا گھر جا کر کھائیں گے۔
طغرل کے یہ بھائی بہت پرمغز تھے۔ علم و ادب سے وابستگی کی ان کی تاریخ خاندانی تھی لیکن باوجود بہت پڑھا لکھا ہونے کے وہ ابھی تک کچھ لکھ نہیں پائے تھے۔ طغرل نے اسی روز انہیں وہیں پر مشورہ دیا تھا کہ اب آپ اپنے بچوں کی تعلیم سے بھی تقریبا" فارغ ہیں چنانچہ آپ لکھنا شروع کیجیے۔ دوسرا کام طغرل نے یہ کیا کہ ان کے پریس میں کمپیوٹر بھی تھا اور انٹرنیٹ کنکشن بھی لیکن وہ اس سے استفادہ نہیں کرتے تھے، طغرل نے انہیں ای میل اکاؤنٹ بنا کر دیا ٹھا اور چیٹ کرنا سکھایا تھا۔ اس اثناء میں تین خوبرو لڑکیاں پہنچ گئی تھیں جو کہ "پارٹی" تھیں۔ طغرل کے بھائی نے انہیں جو پرنٹڈ مواد دیا تھا وہ "ڈائمنڈ کلب" کا مواد تھا۔ طغرل نے جب ان لڑکیوں کو دیکھا تھا جن میں سے ایک نے فصیح امریکن لہجے میں انگریزی میں بات کی تھی، تو اسے تب ہی شک گذرا تھا کہ یہ لڑکیاں "گوری" نہیں ہیں، اگرچہ وہ دودھ سے زیادہ سفید تھیں مگر جب انہیں طغرل کے بھائی نے مواد کا پیکٹ پکڑانے سے پہلے اسے کھول کر مواد دکھایا تھا تو طغرل کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ ڈائمنڈ کلب میں رقص کرنے والی روسی لڑکیاں تھیں کیونکہ طغرل کو معلوم تھا کہ نیویارک کی کلب چین ڈائمنڈ میں بیشتر رقاصائیں روسی حسینائیں تھیں۔ طغرل نے روسی زبان میں گفتگو کی تھی ، ان میں سے دو نے جھٹ سے روسی زبان میں جواب دینا شروع کیا تھا مگر فصیح امریکی لہجے والی نے انہیں نظر بھر کے دیکھا تو وہ چپ ہو کر جھٹ سے انگریزی میں "بائی" کہہ کر رخصت ہو گئی تھیں، روسی زبان میں "پاکا" یا " دوسوی دانیا" نہیں کہا تھا۔ لگتا تھا کہ ان کی سینیر نہیں چاہتی تھی کہ وہ روسی زبان بول کر اپنی اہمیت گنوائیں۔ احمق تھی، طغرل یا اس کے بھائی نے کونسا ڈائمنڈ کلب میں جانا تھا۔
طغرل کے بھائی کا گھر دو منزلہ خوبصورت ولا تھا۔ طغرل کے بھائی کی بیگم اور والدہ طغرل کو ایک عرصے کے بعد دیکھ کر نہال ہوئی تھیں اور والدہ نے طغرل کو پیار کیا تھا۔ طغرل کے بھائی نے جب خوش ہو کر اپنی اہلیہ کو بتایا تھا "آج طغرل نے مجھے کمپیوٹر کا استعمال سکھا دیا" تو انہون نے معصومیت سے خالص لاہوری لہجے میں پوچھا تھا،" ہن تسیں وی چٹ چیٹ کڑو گے؟" اس سوال پر دونوں مرد ہنس دیے تھے اور خاتون بیچاری شرمسار ہو گئی تھیں۔ چیٹ تو طغرل کے بھائی صاحب نے شاید کی ہو لیکن وہ آج طغرل کے دیے مشورے کے سبب فلسفے پر لکھی چار دقیق اور مقبول انگریزی کتابوں کے مصنف ضرور ہیں۔
طغرل کو اپنے رشتے کے بھائی کی گفتگو سے لگا تھا کہ کام وام کے معاملے میں وہ بھی اس کی مدد کرنے سے قاصر تھے۔ ان کا لکھا فقرہ " تم ایک بار آ جاؤ پھر ہم تمہیں جانے نہیں دیں گے" شاید محبت میں کہا فقرہ تھا تاہم انہوں نے کہا تھا "کل میں تمہیں اپنے وکیل کے پاس لے جاؤں گا۔ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا مشورہ دیتا ہے۔"
وہ کوئی دن کے گیارہ بجے وکیل کے دفتر پہنچے تھے۔ وکیل نے کچھ مایوس کن باتیں کی تھیں۔ پریس کی جانب جاتے ہوئے طغرل کے رشتے کے بھائی نے کہا تھا کہ میں مزید کچھ لوگوں سے پوچھتا ہوں، انشاءاللہ کچھ ہو جائے گا۔ طغرل کو معلوم تھا کہ ہم لوگ انشاءاللہ تب بولتے ہیں جب ہم جانتے ہوں کہ خود اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ پریس پہنچنے کے بعد چونکہ گاہک آنے لگے تھے، طغرل کے بھائی مصروف ہو گئے تھے۔ طغرل نیٹ سرفنگ کرتا رہا تھا۔ جب گاہک چھٹ گئے تو طغرل نے بھائی سے کہا تھا کہ اسے سٹیشن چھوڑ آئیں۔ انہوں نے کام اپنے اہلکار کے ذمے لگائے تھے اور اسے سٹیشن چھوڑ ائے تھے۔ طغرل واپس واپنجر فالز پہنچ گیا تھا۔
مسعود طغرل کو تسلی دیتا رہتا تھا کہ پریشان مت ہوو، تمہارا اپنا گھر ہے۔ اللہ کرے گا کوئی مناسب کام مل جائے گا ویسے شروع میں یہاں کرنے کے لیے دو ہی کام ہیں جو نسبتا" آسانی سے مل جاتے ہیں، سیون الیون پر کام کرنا یا ٹیکسی چلانا۔ سیون الیون میں فریزر بھرنا پڑتا ہے اور ٹیکسی جلانا ویسے ہی جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ دونوں کام شاید تم سے نہیں ہو سکیں گے۔ طغرل نے طے کیا ہوا تھا کہ یہ دونوں کام وہ ویسے بھی نہیں کرے گا۔ اصل بات یہ تھی کہ طغرل حالات دیکھنے آیا تھا مگر رشتے دار اور دوست زور دے رہے تھے کہ چھوڑو روس کو امریکہ میں ٹک جاؤ۔
طغرل نے سوچا تھا کہ ابھی وہ کام کرنے کے جھنجھٹ میں نہ پڑے گا بلکہ پہلے ان دوستوں سے ملے گا جن کے فون نمبر اس کے پاس تھے اور جو ارد گرد کے شہروں میں مقیم تھے، جن سے طغرل نے آنے کے بعد رابطہ کیا تھا۔ وہ اس سے ملنے کے خواہاں تھے اور طغرل ان سے ملنے کو بے قرار۔ طغرل نے سوچا تھا پہلے وہ اپنے دوست عظمت عباس رضوی سے ملے گا، پھر ناصر چیمہ سے اور پھر قدیر مہر سے۔ یہ تینوں دوست ڈاکٹر تھے۔ ایک نیو جرسی کے کسی ٹاؤن میں تھا اور باقی نیویارک سٹیٹ کے دور کے شہروں میں۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1419359581423481
“