قدیر مہر کے گھر کے وسیع صحن کی گھاس میں، جس کی تراش خراش نہیں کی گئی تھی کبھی ہرن چرنے پہنچ جاتے تھے تو کبھی مرغابیاں اور قاز اتر کر اپنی ہنسا دینے والی چال چلتے دکھائی دیتے تھے۔ قدیر مہر نے کچھ عمر گذار کر بیاہ کیا تھا، اس کے بیٹا اور بیٹی ابھی چھوٹے تھے دس اور بارہ برسوں کے جو ماں کی طرح سنجیدہ تھے۔ یہ بات نہیں کہ قدیر مہر سنجیدہ نہیں تھے مگر وہ ہنسنا جانتے تھے۔ یہ ان کی اہلیہ کا سبھاؤ تھا یا طغرل کی موجودگی کا اثرکہ وہ مسکرانے میں بھی کفایت کرتی تھیں۔ ویسے بھی وہ خال خال ہی سامنے آئی تھیں۔ ان کی دنیا اپنے کمرے اور باورچی خانے تک محدود لگتی تھی۔ مزیدار کھانوں سے ان کے سگھڑ پن اور مہمان نوازی کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ بس یوں سمجھیں کہ واقعی مکمل گھر تھا، جہاں سے طغرل کا خود بھی رخصت ہونے کو جی نہیں چاہا تھا۔
رات کو امریکہ کے معمولات کے برعکس طغرل اور قدیر دیر تک باتیں کرتے رہے تھے۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات میں یادوں کے علاوہ ادب اور شاعری اہم تھے۔ بہر حال ڈاکٹر صاحب نے صبح کام پر تو جانا ہی تھا اس لیے بارہ بجے کے بعد خوابگاہ میں جانے پر معذرت کرتے ہوئے یہ بتاتے گئے تھے کہ "بابر بھی یہیں پر ہے"۔ بابر ان دونوں کا مشترکہ دوست تھا اور وہ بھی ڈاکٹر تھا۔ "مل سکیں گے اس سے؟" طغرل نے تجسس چھپائے بغیر پوچھا تھا۔ "کیوں نہیں، ضرور ملیں گے" یہ کہہ کر ڈاکٹر قدیر رخصت ہو گئے تھے۔
طغرل نیند سے اپنے طور پر بیدار ہوا تھا۔ نو بجے سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے تھے اور پوچھا تھا، "چائے پیو گے؟" طغرل نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے استفسار کیا تھا،"کام پر نہیں گئے؟" " کیا تمیں اکیلا بور ہونے کے لیے چھوڑ جاتا، اکٹھے چلیں گے" انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔ پھر خود ہی چائے کے دو مگ لے کر آئے تھے، چائے پینے کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو بھی کرتے رہے تھے۔ چائے ختم کرنے کے بات ڈاکٹر قدیر نے کہا تھا "تیار ہو جاؤ، پھر ناشتہ کرکے نکلتے ہیں"۔
ڈاکٹر قدیر مہر طغرل کو ہسپتال کی بجائے اپنے پرائیویٹ کلینک لے گئے تھے۔ اس آفس کمپلیکس میں دو دو ڈاکٹروں کی ایک مشترکہ ریسیپشنسٹ تھی۔ ڈاکٹر قدیر نے ایک ریسیپشنسٹ سے طغرل کا تعارف کروایا تھا، "یہ میرے دوست ہیں اور ماسکو سے تشریف لائے ہیں"۔ پھر طغرل سے کہا تھا " میں کوئی ایک گھنٹے بعد آتا ہوں، ہسپتال سے ہو کر۔ دفتر کے کمرے میں بند ہو کر بیٹھنے سے بہتر ہے کہ تم گوریوں کے ساتھ گپ شپ لگاؤ"۔ " ہاں ہاں، ٹھیک ہے تم جاؤ، میں یہیں بیٹھتا ہوں" طغرل نے کہا تھا اور ہائی کہہ کر گوری کے ساتھ ہی پڑی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ ایلس نام کی لڑکی ماسکو میں بہت دلچسپی لے رہی تھی اور مختلف سوال پوچھ رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد ایک اور گوری نے آ کر ایلس سے بات چیت شروع کر دی تھی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بار بار "شوہان" کہا تھا۔ اس کے جانے کے بعد ایلس نے پوچھا تھا "ڈونٹ یو نو ڈوکٹر شوہان؟" طغرل نے کہا تھا کہ "نہیں، میں نہیں جانتا" پھر ایلس اپنے لکھنے کے کام میں لگ گئی تھی، اتنے میں ایک طویل قامت شخص داخل ہوا تھا اور کھڑا ہو کر بے نیاز انداز میں ایلس سے گفتگو کرنے لگا تھا۔
طغرل اسے غور سے دیکھ رہا تھا، اس نے بھی دو ایک بار کنکھیوں سے طغرل کی جانب دیکھا تھا۔ طغرل کو یاد آ رہا تھا کہ وہ چوہان تھا جسے "گورہاں" شوہان کے نام سے یاد کر رہی تھیں۔ چوہان گورنمنٹ کالج میں طغرل کا ہم جماعت تھا لیکن اسے اس کا نام یادنہیں آ رہا تھا۔ طغرل کو جونہی اس کا نام یاد آیا اس نے کرسی سے اٹھ کر اس شخص سے پوچھا تھا،" تم زاہد ہو؟" اس شخص نے نخوت سے کہا تھا،"ہاں"۔ "کیا تم مجھے پہچان نہیں پا رہے"۔ اس شخص نے ایک بار پھر بے اعتنائی سے کہا تھا،"نہیں"۔ طغرل بولا تھا "پہلے گلے ملو، پھر بتاتا ہوں"۔ وہ شخص ناخواستہ گلے ملا تھا، جس کے بعد طغرل نے اسے اپنا نام بتایا تھا۔ طغرل نام ہی اتنا کم تھا کہ زاہد چوہان کو یاد آ گیا تھا۔ اس بار وہ واقعی مسکریا تھا اور ایک بار پھر طغرل سے ہاتھ ملایا تھا۔ دو چار عمومی باتیں کرنے کے بعد اس نے طغرل سے کہا تھا "اچھا یار ملیں گے، سی یو" اور باہر نکل گیا تھا۔ طغرل نے سوچا تھا کہ عجیب بے نیازی کا مظاہرہ کیا اس نے، گرم جوشی نام کو نہیں تھی مگر دوسرے ہی لمحے سوچا تھا کہ کیا ہے یہ امریکہ ہے۔ ہر شخص مصروف ہے اور زاہد چوہان اس کا کونسا دوست رہا تھا، ایک ہم جماعت ہی تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ایلس نے پوچھا تھا،"آپ تو کہتے تھے کہ آپ ڈاکٹر شوہان کو نہیں جانتے"۔ " میں نے درست کہا تھا، میں ڈاکٹر شوہان کو نہیں جانتا لیکن اپنے کلاس فیلو زاہد چوہان کو پہچانتا ہوں" اس نے کہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر قدیر مہر ہنستے ہوئے داخل ہوئے تھے اور پوچھا تھا، "بور تو نہیں ہوئے بھائی؟" " ایلس کے ساتھ بھی بھلا کوئی بور ہو سکتا ہے" طغرل کے جواب پر ایلس گلنار ہو گئی تھی،" شور، شی از اے گڈ گال" اپنے باس کی جانب سے ستائش پر ایلس پھول کر کپا ہو گئی تھی۔
ڈاکٹر قدیر نے ریسیپشن پر جھک کر کے ایلس کے ساتھ تھوڑی سی گٹ مٹ کی تھی اور پھر طغرل سے کہا تھا،" آؤ چلیں"۔ تھوڑی دیر وہ طغرل کو شہر میں گھماتے رہے تھے۔ ڈاکٹر زاہد چوہان کے ذکر پر انہوں نے بتایا تھا کہ وہ رگ وورید کا جراح ہے اور بہت کامیاب اور مقبول ڈاکٹر ہے۔ اپنے بارے میں بتایا تھا کہ وہ پھیپھڑوں کی امراض کا ماہر ہے اور دس مریضوں سے زیادہ نہیں دیکھتا، ان پر ہی قناعت کرتا ہے" پھر دوپہر کا کھانا کھانے گھر پہنچ گئے تھے۔ کھانا تناول کرنے کے بعد ڈاکٹر قدیر نے بتایا تھا کہ انہیں دوپہر کو سونے کی عادت تھی۔ وہ سونے جانے لگے تو طغرل نے کہا تھا مجھے کوئی اردو کی کتاب بھجوا دو۔ ان کا بیٹا طغرل کو ایک دلچسپ کتاب دے گیا تھا۔
شام ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے طغرل کو آوز دی تھی کہ لاؤنج میں آ جاؤ، چائے پیتے ہیں۔ چائے سے فارغ ہو کر وہ ایک بار پھر باتیں کرنے لگے تھے۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے یک لخت کہا تھا چلو چلیں۔ دونوں اپنے اپنے کمروں میں جا کر تیار ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر قدیر مہر طغرل کو لے کر ہسپتال پہنچے تھے۔ ایک بیک ڈور سے داخل ہو کر چوتھی منزل پر پہنچے تھے۔ وارڈ کے شروع میں ایک کمرہ کھلا تھا، طغرل کو وہاں بٹھا کر وہ راؤنڈ کرنے چلے گئے تھے۔ راؤنڈ کرکے لوٹے تھے۔ باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ ڈاکٹر قدیر نے کار کے اندر کے اندھیرے میں کچھ ڈالر طغرل کی جیب میں اڑس کر کہا،" یہ پاکستان میں بچوں کو بھیج دینا"۔ طغرل نے کہا تھا "یہ کیا کر رہے ہیں آپ" اور بوکھلاہٹ میں جیب کے اندر نوٹوں کو ٹٹولا تھا تو وہ اسے بہت زیادہ لگے تھے، طغرل نے کہا تھا، "اتنے زیادہ"۔ "زیادہ نہیں بس پانچ سو ہیں۔ زیادہ باتیں نہ کرو تمہارے بچے میرے بھی بچے ہیں" طغرل خود کو بہت جز بز ہوا محسوس کر رہا تھا کہ اس نے اپنے حالات کی کشاکش کا تذکرہ قدیر مہر سے کیوں کیا تھا۔ مگر یہ پہلی حیرت نہیں تھی جو ڈاکٹر قدیر مہر نے طغرل کے لیے پیدا کی تھی۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1422170667809039
“