ڈاکٹر قدیر مہر ایک اچھے مسلمان تھے۔ ان میں عادات قبیہہ تھیں ہی نہیں جبکہ طغرل زندیق تھا۔ قدیر جانتے تھے کہ طغرل پینے سے شغف رکھتا تھا۔ وہ طغرل سے کہنے لگے "یار میں تیرے شغل کا بندوبست نہیں کر سکتا" پھر ہنس پڑے تھے۔ طغرل نے کہا تھا " میں بھی پیاس سے نہین مرا جا رہا، مولانا" اور یہ کہہ کر زور سے ہنس دیا تھا۔
شام کو بابر کے ہاں جانا تھا۔ جب بابر کے ہاں پہنچے تو وہاں اس کے دو تین اور رفقائے کار بھی پہنچے ہوئے تھے جن میں سے ایک کو دیکھ کر طغرل نے کہا تھا " مجھے آپ کا نام یاد نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں آپ کو جانتا ہوں"۔ موصوف مسکراتے ہوئے گویا ہوئے تھے، " مجھے بابر نے آپ کے آنے کے بارے میں بتایا تھا۔ میں خاص طور پر ان کے ہاں پہنچا ہوں تاکہ دیکھ سکوں کہ جناب مجھے پہچانتے ہیں یا نہیں، میں الف الرحمٰن ہوں" یہ جانتے ہی طغرل کو یاد آ گیا تھا کہ الف الرحمان جی سی لاہور میں اس سے ایک سال سینیر تھا۔ اقبال ہوسٹل میں رہتا تھا اور اس کے ساتھ اچھی گپ شپ تھی۔ بعد میں معلوم ہوا تھا کہ وہ لیاقت میڈیکل کالج حیدرآباد میں داخل ہو گیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگے تھے۔ پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
بابر ماہر نظام انہضام تھا۔ اس نوع کے ماہرین کی امریکہ میں اچھی خاصی آمدنی پوتی ہے۔ بابر کے چہرے کی جلد تب بھی جب وہ جوان تھا کچھ ڈھیلی لگا کرتی تھی ۔ اب اس کے چہرے کی جلد بہت ڈھلک گئی تھی۔ وہ طغرل، قدیر اور ایلفی سے زیادہ بوڑھا لگ رہا تھا جبکہ جوانی میں وہ باقیوں کے سامنے بچہ لگا کرتا تھا۔ قدیر بابر سے ایک آدھ سال بڑا تھا لیکن اس کے بال سلامت تھے، چہرے پر جوانوں کی سی ملاحت تھی اور آنکھوں میں زندگی کی چمک۔ اس کے برعکس بابر میں وہ برجستگی باقی نہ بچی تھی۔ اس کے چہرے کی بڑھتی ہوئی شکنوں کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھوں میں ڈیپریشن کی جھلک بھی تھی تاہم وہ کوشش کر رہا تھا کہ طغرل کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرے۔ طغرل سوچ رہا تھا کہ قدیر کی قناعت نے اسے تازگی عنایت کی تھی جبکہ بابر کی پیسہ کمانے کی دوڑ نے اسے پژمژدگی کا شکار کر دیا۔
یہ شام بہت اچھی رہی تھی۔ ایسے لگا تھا جیسے دوست کالج کے زمانے میں لوٹ گئے ہوں۔ بابر کے باقی دو کولیگ بھی آپس میں شناسا ان افراد کی گفتگو میں ویسے ہی شریک تھے جیسے وہ باقی سبھوں بشمول طغرل کے بھی شناسا ہوں۔ شام تمام کرنے سے پیشتر بابر گھر کے اندر سے دو پیکٹ لے کر آیا تھا جن میں طغرل کے لیے پتلون قمیص اور دو ٹائیوں کے تحفے تھے۔
ویک اینڈ آ گیا تھا۔ ڈاکٹر قدیر مہر نے طغرل کو بتایا تھا کہ کل کا دن وہ گھر پر گذاریں گے اور اتوار کے روز اسے آبشار نیاگرا دکھانے لے جایا جائے گا۔ ہفتے کا روز گھر میں بھی اچھا بسر ہوا تھا۔ بچوں کی کلکاریاں، مسز قدیر کے ہاتھ کے تیار کردہ پکوان، دسمبر کی بہت کم اترنے والی دھوپ میں، گرم کپڑے اچھی طرح پہن کر، لان کی روش پر چہل قدمی اور چائے کے ادوار کے دوران دنیا جہان کی باتیں۔ رات کو جلدی سو گئے تھے تاکہ بروقت جاگ کر نیاگرا آبشار دیکھنے کے لیے جا سکیں۔
پھر بھی کوئی دس بجے کے قریب گھر سے نکلے تھے۔ بچوں نے ماں کے ساتھ گھر پر رہنا مناسب سمجھا تھا۔ ڈاکٹر قدیر، ان کا بھائی اور طغرل تینوں روانہ ہوئے تھے۔ آبشار نیاگرا زیادہ دور نہیں تھی۔ باوجود اس کے کہ ڈاکٹر قدیر اپنی سبھاؤ والی طبیعت کے زیر اثر گاڑی بہت احتیاط کے ساتھ سرعت اختیار کیے بنا چلاتے تھے، ایک گھنٹے بعد آبشار کے نزدیک پہنچ گئے تھے۔ گاڑی پارک کر کے گاڑی سے باہر نکلے تھے۔ یخ ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے جو منہ پر پڑتے تھے۔ رات ہی اس علاقے میں برفباری ہوئی تھی۔ ہر جانب ڈھیروں برف تھی۔ شکر ہے کہ ڈاکٹر قدیر نے اپنی ایک گرم جیکٹ طغرل کو پہنا دی تھی ورنہ طغرل کا اوورکوٹ اس سردی سے اسے محفوظ نہ رکھ پاتا، پھر جیکٹ کے ساتھ ہڈ بھی تھا جس نے ٹوپی کی کمی پوری کر دی تھی۔
اس ریلنگ کے نزدیک پہنچے تھے جہاں سے ٹنوں پانی ایک نیم قوس کی شکل میں پچاسیوں میٹر کی گہرائی میں گر کر ایک سر شور دریا کا حصہ بن رہا تھا۔ سرد موسم کے باعث وہ فیری سروس نہیں تھی جو آبشار کے گرتے ہوئے پانیوں کے نزدیک تر لے جاتی تھی اس لیے اوپر سے ہی دیکھنے پر اکتفا کیا تھا۔ پانی گرنے کی آواز اپنے مہیب شور کے باوجود کیف آگیں تھی۔ آبشار کے دوسری جانب ٹورنٹو کا ٹی وی ٹاور دکھائی دے رہا تھا۔ اگرچہ وہ خاصا دور تھا لیکن اس سے پہلے زیادہ نزدیک بھی کینیڈا میں واقع کچھ عمارتیں دے رہی تھیں۔ ڈاکٹر قدیر نے بتایا تھا کہ وہ حلال گوشت خریدنے کی خاطر ٹورنٹو ہی جاتے تھے کیونکہ یہ نیویارک سٹیٹ کے کسی بھی اس شہر سے نزدیک پڑتا تھا جہاں سے حلال گوشت دستیاب ہو سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا ویسے بھی کینیڈا میں حلال گوشت کا نرخ امریکہ میں نرخ سے کم تھا۔ قدیر اور ان کا بھائی دونوں امریکی شہری تھے، اگر طغرل ساتھ نہ ہوتا تو وہ شاید گوشت لینے نکل جاتے۔
آبشار دیکھنے کا زیادہ مزہ اس لیے نہیں آیا تھا کیونکہ سردی بہت تھی چنانچہ زیادہ گھوما پھرا نہیں جا سکتا تھا۔ ڈاکتر صاحب نے بتایا تھا کہ امریکہ میں زیادہ لوگ ملبوسات کی سیل کے دوران ہی کپڑے خریدتے ہیں کیونکہ بہت مناسب قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں۔ اپنی جو پرانی جیکٹ انہوں نے طغرل کو پہنائی تھی وہ بھی انہوں نے سیل میں ہی خریدی تھی۔ یہ بات اس لیے بتائی تھی کہ پارکنگ کی جانب لوٹتے ہوئے ایک بڑا سٹور دکھائی دیا تھا جہاں سیل لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر موصوف چاہتے تھے کہ طغرل کے لیے نئی جیکٹ خرید لی جائے۔ مگر نئی جیکٹ ملنا طغرل کے نصیب میں نہیں تھا۔ اتفاق سے وہاں جتنی بھی اچھی جیکٹیں تھیں، ان کے سائز یا تو طغرل کے لیے بڑے تھے یا چھوٹے۔
ایک اور دن گذر گیا تھا۔ ڈاکٹر قدیر کوئی بارہ بجے کے قریب ہسپتال سے گھر لوٹے تو انہوں نے طغرل سے کہا تھا،" یار میں سوچتا رہا کہ دختر رز سے تمہاری تواضع کیونکر کی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے میں تو اس کار بد میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا تھا مگر ایک فارماسیوٹیکل کمپنی نے اتفاق سے ایک دوا لانچ کرنے کا اہتمام کیا ہے، میں نے مدعوئین میں تمہارا نام بھی لکھوا دیا ہے۔ تم میرے ساتھ چلے چلنا۔ وہاں شراب ناب کا بندوبست ہوگا، تم بھی پی لینا لیکن احتیاط کرنا کہ پی کر ہنگامہ نہ کر بیٹھو" طغرل نے ان کی بات سن کر ایک زور دار قہقہہ لگایا تھا اور سوچنے لگا تھا کہ ڈاکٹر قدیر مہر کو طغرل کی تواضع کرنے کا کتنا خیال تھا۔ انہوں نے اس کو پلانے کی راہ بھی نکال لی تھی اور اپنا دامن بھی آب عصیاں سے تر ہونے سے پاک رکھا تھا۔
طغرل ان کے ہمراہ اس سیمینار میں چلا گیا تھا۔ طغرل کے لیے کسی امریکی سیمینار میں شرکت کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ سیمیناروں میں عموما" پہلے گفتگو ہوتی ہے، مضامین پڑھے جاتے ہیں، اظہاریہ دیا جاتا ہے اور اس کے بعد کھانے پینے کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔ یہاں گنگا اور طرح سے بہہ رہی تھی کہ کھانے پینے کے ساتھ ساتھ مقررین بات چیت بھی کرتے جا رہے تھے۔ طغرل بھی پی رہا تھا۔ ڈاکٹر قدیر اپنی عینک کے موٹے موٹے شیشوں کے پیچھے سے طغرل کو کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا کہ کہیں وہ زیادہ نہ پی جائے۔ تاہم نہ صرف یہ کہ طغرل نے احتیاط برتی تھی بلکہ ماحول ہی ایسا تھا کہ کوئی سنجیدہ رہے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ یوں طغرل ڈاکٹر صاحب کے خدشے کے برخلاف بغیر بہکے حالت سرور میں ان کے ہمراہ ان کے گھر لوٹا تھا۔ لگتا تھا کہ طغرل کے حصے کی کچھ پیے بنا ڈاکٹر صاحب کوچڑھ گئی تھی کیونکہ وہ بہت خوش تھے کہ طغرل کی خصوصی تواضع بھی ہو گئی اور وہ نہ بہکا نہ لڑکھرایا۔ یہ ذات شریف جانتے ہی نہیں تھے کہ طغرل کو لڑکھڑانے کے لیے مقدار اور ماحول دونوں زیادہ اور گمبھیر ہونے چاہییں تھے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1423877017638404