مثل برگ آوارہ
5 مئی 2006:
عمّاد وعدہ کرنے کے باوجود نماز جمعہ پڑھنے نہیں پہنچا تھا۔ فون کیا تو اس کی بیگم نے بتایا کہ وہ بین الاقوامی فون لائن پر بات کر رہا ہے۔ آپ آ جائیں۔ دل تو نہ چاہا مگر میں وعدہ نبھانے کا عادی ہوں۔
پرانے دفاتر کی کس طرح سے تزئین کر دی گئی ہے یہ نظام سرمایہ داری کا کمال ہے۔ نیچے کی منزل پر جواد کے کیوسک میں ایک حسینہ فروزاں تھی۔ اس نے مجھے عمارت کا اندرونی نمبر ڈائل کرنے کو کہا۔ جواد نے کہا، اسی لڑکی کو ساتھ لے کر آ جائیں۔ ٹرن سٹیلیٹ کو اس نے اپنے کارڈ سے آن کیا اور لفٹ میں میرے استفسار پر بتلایا کہ وہ منگرلکا ہے یعنی منگرل قوم کی دختر۔ عمّاد لفٹ کے باہر کھڑا انتظار کر رہا تھا۔ سوٹ میں ملبوس ، بال بکھرے ہوئے۔
ماشاءاللہ خاصا خوشگوار اور منظم دفتر مرتب کر لیا ہے موصوف نے۔ کہتا ہے تین سال جان ماری ہے، اب تھک گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے پاس بنیادی سرمایہ کہاں سے آیا؟ البتہ یہ بات مانتا ہے کہ کاروبار کی اساس بددیانتی ہوتی ہے۔ واپسی میں ٹرام وے پر آنے کا ارادہ تھا۔ سبھی میں ٹرن سٹیلیٹ لگ گئی ہیں، ڈرائیوروں کے پاس ہزار روبل کے نوٹ کا بقایا نہیں تھا۔ دو ٹرام ویگنوں سے اترنا پڑا، بالآخر میترو پہ جاتے بنی۔ گھر آ کر نئی کتاب کو خاصی دیر تک لکھا۔
دروازہ بجا۔ نینا کے ساتھ چھوٹو بوٹو بھی تھی۔ جی خوش ہو گیا۔ جب سے پاکستان سے لوٹا ہوں میں نے اسے ایک بار ہی دیکھا تھا البتہ فون پر ایک دو بار بات ضرور ہوئی تھی۔ ویسی کی ویسی ہے چھوٹی سی۔ کہتی ہے،"میں آخر چھ سال کی ہو گئی ہوں ناں"۔
6 مئی 2006:
آئندہ ہونے والی تین چھٹیوں کے سبب آج ہفتے کا روز کام کا دن تھا۔ نینا نے ایرا کو چھوٹو بوٹو کے ساتھ بیٹھنے کو کہا تھا مگر رانی پونے گیارہ بجے تک سوتی رہی اور اٹھی بھی تو ہماری آوازوں کی وجہ سے اور اٹھتے ہی پوچھتی ہے " لینکا، کوشت بودش" ( لینکا، کھانا کھاؤ گی )۔ آٹھ بجے سے اٹھی ہوئی بچی بھلا بھوکی رہ سکتی ہے کیا؟ اسے کہتے ہیں شلغموں پر سے مٹی جھاڑنا۔
میں نے کچھ دیر بچی کو کمپنی دی۔ ماہین کو کال کی۔ وہ نو بجے سوئی تھی۔ کچی نیند جگا دیا۔ ریڈیو پر وہی کل کل۔ جب میں جاتا ہوں تو لگتا ہے نادیہ اور ریتا کو اردو کے سارے لفظ بھول جاتے ہیں۔
آج حسینہ (لینا) سات جون تک چھٹی پر چلی گئی ہے۔
اب نتاشا کو دیکھ کر ہوک تک نہیں اٹھتی۔ میں نے مذہب اوڑھ لیا ہے یا لاجواب ہونے کا شاخسانہ ہے؟۔ ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ عمر کے ساتھ ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ موسم خوب گرم ہو گیا ہے۔ لڑکیوں کے سرینوں پر ہی نظر کیوں ٹھہرتی ہے؟ کیا وہاں ملاؤں کے مطابق شیطان نے بسیرا کیا ہوا ہے یا تقابل کا شاخسانہ ہے۔
گھر آنے پر دونوں لڑکیوں کو "کاراؤکے" میں مصروف پایا۔ لینکا خاصا اچھا گا لیتی ہے۔ دیکھو اس لڑکی نے میری ایک پلیٹ تک نہیں دھوئی۔ میں واقعی بوڑھی عورتوں کی سی جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگ گیا ہوں۔ ذاتی زندگی تو صحیح بات ہے اتھل پتھل ہو گئی ہوئی ہے۔
8 مئی 2006:
گھر سے سب داچے چلے گئے۔ اکیلا گھر اور تنہا میں۔ ایک عرصہ ہو گیا، اس قسم کا سکون میسّر نہیں آ سکا تھا۔ میں نے باقاعدہ منصوبہ بنایا کہ پہلے کتاب کا کچھ حصہ لکھوں گا پھر لائیبریری کی رکنیت لینے جاؤں گا۔
پھر لکھنے میں اس قدر مصروف ہو گیا کہ جانے کی خواہش دم توڑنے لگی۔ مسلسل بند کمرے میں بیٹھے رہنا بھی تو عذاب ہے۔ بالآخر لائبریری کو روانہ ہو گیا۔ چلتے چلتے سوچ آ رہی تھی چونکہ آج سرکاری چھٹی ہے کہیں لائیبریری بند ہی نہ ہو۔ میترو تگانسکایا کا وہ دروازہ بند کر دیا گیا جہاں سے راستہ سیدھا لائیبریری کو جاتا ہے۔ دوسرا دروازہ کھلا تھا۔ پہلے تو باہر نکل کر جغرافیہ ہی خراب ہو گیا۔ ایک لمبا چکر کاٹ کر لائیبریری پہنچا۔ وہاں رجسٹڑیشن کاؤنٹر پہلے ہی بند ہو چکا تھا، لائبریری کو بھی چھ بجے بند ہو جانا تھا۔
خدشہ تو پہلے سے تھا مگر پھر بھی کوفت ہوئی۔ واپسی کا راستہ چڑھائی والا ہے اور "تھڈے" ( بیکار چکر )کے بعد تو ویسے ہی واپسی کا پیدل سفر جانکاہ ہوتا ہے۔ لشتم پشتم میترو پہنچا پھر لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔
ایک بار پھر وہی میں، میرا کمپیوٹر، کاپی اور قلم
زندگی کی یکسانیت کاٹنے کو دوڑتی ہے،
لیکن کیا کیا جائے؟
مزے تو پیسے اور طبیعت سے ہوتے ہیں۔
مجھے تو ویسے ہی اکتائے ہوئے ہونے کی عادت ہو چکی ہے بلکہ لت پڑ گئی ہے۔
12 مئی 2006:
جب ایک عام شہری آپ کے پاس کھڑا ہو تو آپ کو کوئی خاص احساس نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی پولیس والا کھڑا ہو تو اقتدار و اختیار کا ہراس پیدا ہونے لگتا ہے۔ شاید ایسا دوسری رنگت اور دوسرے ملک کا شہری ہونے سے ہوتا ہو، مگر میں تو اسی ملک کا شہری ہوں۔ ممکن ہے یہ غیریت کا احساس ہو۔
آج نماز جمعہ کے بعد میترو میں سفر کے دوران مجھے اسی قسم کا احساس ہوا۔ وردی اور ہتھیار ویسے ہی ریاست کی رعونت کا اظہار ہوتے ہیں، میں ٹھہرا ریاست سے متنفر۔ ویسے بھی یہاں کے پولیس والے ہمیں کونسی اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ریڈیو پر چونکہ تین افراد چھٹی پر ہیں اس لیے آج بھی جانا پڑا۔ ہمکار خواتین کا بس چلے تو وہ نچوڑ کر رکھ دیں مگر میں بھی اڑیل ہوں۔ پھر بھی اتنا زیادہ کام تھا اور ساتھ ہی شاید ہوا لگنے کی وجہ سے کمر کے پٹھوں کا درد پھر سے شروع ہو گیا۔
جب گھر لوٹا تو تھکاوٹ اور بھوک سے جان نکلی ہوئی تھی۔ بھوک کا بکھیڑا پہلے نمٹانا ہوتا ہے۔ بس پانچ منٹ ہی کمر سیدھی کی اور پھر سے انٹرنیٹ پر۔ کتاب لکھنے کے سلسلے میں جتن کرنے ہی ہونگے۔
پھر گھر والی خریداری کرکے لوٹی۔ جھلّائی ہوئی تھی۔ بیچاری کرے تو کیا کرے۔ کوئی بھی تو اس کی مدد کا دم نہیں بھرتا۔ آلا آ گئی۔ اس سے ہوئی رنجش کو فوری بھلا بیٹھی اور داچے جانے کا ارادہ کر لیا۔ میں نے جھنجھلا کر اس کی خرابی طبیعت کا ذکر کیا۔
13 مئی2006:
کام سے لوٹا، پیٹ پوجا کی اور تھوڑی دیر کے لیے لیٹا۔ جس مجلہ میں لکھتا ہوں وہ انٹرنیٹ پر اپ لوڈ ہو جاتا ہے۔ اس کے ایڈیٹر عجیب ہیں، لفظ "موتنا" انہیں معیوب لگا۔ ایسی جگہ سے پیرا اڑا دیتے ہیں کہ اس کے بعد کا پیرا بے جوڑ لگنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس املاء کی غلطیوں پر نگاہ نہیں ڈالتے۔ ضروری نہیں کہ میری ساری املاء درست ہو۔ مجھے اس بار کا اپنا مضمون بنت کے حوالے سے نہیں بھایا البتہ اس کا موضوع درست تھا۔ لکھا بھی تو عجلت میں تھا اور خود سے اصلاح بھی نہیں کی تھی۔
مون کا فون آ گیا۔ اس کی رائے تھی کہ لکھتے وقت قارئین کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ مگر میں لکھتا ہوں ایک تو مشق جاری رکھنے کی خاطر اور دوسرے مخصوص قارئین کے لیے لیکن کیا اس مجلے کے ایسے خاص قارئین ہوتے ہونگے۔ لگتا نہیں ہے۔
مون میری بسیار نویسی کا ٹھٹھا اڑا رہا تھا۔ بس موڈ میں تھا۔ میں بھلا کونسا احمد ندیم قاسمی ہوں۔ ہفتے میں ایک مضمون لکھنا کہاں کی بسیار نویسی ٹھہری۔
کتاب آگے بڑھانے کے سلسلے میں کچھ سست ہوا ہوں کیونکہ اگلا باب ذرا دلچسپ ہونا چاہیے۔ شاید تیسرے باب پر بھی نظر ثانی کرنی پڑے۔
14 مئی 2006:
سارا دن لکھتے لکھتے تھک گیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بور ہو گیا تو کلب جانے کی ٹھانی۔ آج کم عمر لڑکیوں کے چوتڑ چھونے کو بہت دل کر رہا تھا۔ خواہش پر بندھن باندھنا انسان کے لیے بہت مشکل کام ہوتا ہے، تبھی اس عمل کو نفس کشی کہا جاتا ہے۔ اگر انسان کم عمر لڑکیوں کے حصول کے جھنجھٹ میں پڑ جائے تو یہ نشہ جان نہیں لیتا بلکہ جینے کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔ پھر آدمی ہوس پرستی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ ہوس پرستی کے لیے ایک عمر کے بعد یا تو امیر ہونا چاہیے یا بے حیا۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں نے خود کو مذہب کے پٹکے کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔
محبت کے ضمن میں کاتیا نام کی خاتون سے کلب میں بات چیت ہوئی تو اس سے رہا نہیں گیا، کہہ بیٹھی کہ اس کا خاوند بہت حاسد ہے ۔ اس نے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ میں نے اسے محبت کے سلسلے میں اچھی خاصی آگاہی دی یا شاید ناآگاہ کیا کیونکہ یہ تو ایسا جال ہے جس کے رنگ سبھی کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔ متنوع بھی، جاذب نظر بھی اور پر کشش بھی۔
خیر آج کلب میں وقت اچھا کٹ گیا۔
ایک بچی کی ماں آرمینیائی لڑکی کے ساتھ جس طرح ایک روسی بوڑھا شخص آ کر چمٹ کر بیٹھا، مشکوک سا لگ رہا تھا۔ ہر ایک کی ذاتی زندگی ہے۔ مجھے کیا لینا دینا۔ یہ وہی حسد یا رشک تو نہیں؟ ہاں وہی ہوگا ورنہ میں کیوں ان کے بارے میں سوچتا۔
15 مئی 2006:
سارا دن گھر پر ہی بتا دیا۔ باہر جاؤں بھی تو کہاں جاؤں اور کہیں جاؤں بھی تو کیوں جاؤں؟ کالم لکھا، ترجمہ کیا، کتاب کے کچھ صفحے گھسیٹے۔ یہ کتاب لکھنا شروع کرکے میں نے اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال لیا ہے۔ مواد سے میں مطمئن نہیں لیکن لکھنے پر بضد ہوں۔ ایک معیاری کتاب لکھنے کے لیے مواد، وقت، ماحول، سہولت، وسائل سب ہی درکار ہوتے ہیں پر ایک مقبول کتاب لکھنے میں بھلا کیا حرج ہے، سارے "بیسٹ سیلر" کلاسیک کا درجہ تو نہیں رکھتے۔
آج صبح کا آغاز ہی غلط تھا۔ آنکھیں بند کیے نیم غنودگی میں جا کر ٹوائلٹ رم پر بیٹھا تو معلوم ہوا کہ ساشا کے پیشاب سے آلودہ تھا۔ اسے اللہ ہی سمجھائے تو سمجھائے۔ سخت کوفت ہوئی۔ سات بجے، بہانہ سازی کی خاطر اس نے بستر پر لیٹے لیٹے اپنی گدھے کی سی آواز میں فون کرنے شروع کر دیے۔ خود تو فون کرتے ہی فورا" سو جاتا ہے مگر میری نیند چوپٹ کر دیتا ہے۔ جب میرے نہانے کا وقت ہوا تو خود بستر سے بلند ہو گئے۔ ان لوگوں کے ساتھ ایک کمرے میں زندگی گذارنا ایک امتحان ہے مگر ایک تو وہ دن میں گھر نہیں ہوتے، دوسرے مجھے یہاں رہنے کی عادت پڑ گئی ہے، تیسرے کوئی اور ٹھکانہ ہے نہیں۔
آج نینا کی سہیلی لدمیلا کا انتقال ہو گیا۔
16 مئی 2006:
ریڈیو کی تو بات کیا کرنی وہی ٹک ٹک۔ نہ تو مجھے اپنی آواز پسند ہے اور نہ بولتے ہوئے میرا الفاظ کھا لینے کا نقص دور ہو پاتا ہے۔ اگر کوئی بہتر راہ ملتی تو میں ریڈیو کب کا چھوڑ چکا ہوتا۔
اپنی اکتاہٹ دور کرنے کی خاطر شاہباز کے پاس گیا یا انٹرنیٹ جاری رکھنے کو پیسے لینے کی غرض سے، شاید دونوں وجوہ تھیں۔ شاہباز دیر سے گھر آیا۔ سرد ہوا کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیے میں پہلے سے عمارت کے اندر جا کھڑا ہوا تھا۔ شاہباز مایوسی کا شکار ہے۔ کہتا ہے کہ فلسفی ستاروں کو دیکھتے ہوئے چلتے تھے، جب ٹھوکر کھا کر ماتھا زمین پر پڑے پتھر سے ٹکرا کر پھوٹ جاتا تھا تب انہیں پتہ چلتا تھا۔ بہتر ہے ماتھا پھوٹے لیکن میں مسلسل زمین کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔ آج اس نے اپنے " ان فینٹیلزم" کا اعتراف کیا۔ کشتیاں جلانا تو وہ بالکل نہیں چاہتا بلکہ ایک اضافی مضبوط کشتی کنارے پر باندھے رکھنا چاہتا ہے۔ کہتا ہے جب آٹھ آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو پاکستان سے حب الوطنی زیر سوال آ جاتی ہے۔
میں اس کے ہاں بھی بور ہو گیا۔ بس کے انتظار میں ایک تو وقت بہت صرف ہوا دوسرے اتنے لوگ اکٹھے ہو چکے تھے کہ اگر ویگن آتی بھی تو نشست ملنا دشوار تھی۔ چنانچہ میں دوسرے راستے سے پراسپیکت ورناسکوا چلا گیا۔ سفر تو طویل ہو گیا مگر ٹھنڈ اور انتظار سے بچ گیا۔
نینا تعزیت کرنے سینٹ پیٹرزبرگ جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ جھنجھلائی ہوئی لگتی تھی ، شاید تاسف نے اس کا برا حال کیا ہوا تھا، شاید دونوں ہی باتیں ٹھیک ہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔