کئی ماہ بیت گئے تھے، طغرل نے بس سیاہ فام نٹیشا کے گال پر اچٹتا ہوا بوسہ ہی لیا تھا۔ اسے یوں لگتا تھا جیسے امریکہ میں دوسری جنس عنقا ہو۔ امریکہ کے ہالی ووڈ میں بنی فلموں میں تو حسین لڑکیوں کے جمگھٹ کے جمگھٹ دکھائے جاتے ہیں تو وہ لڑکیاں کیا ہوئیں؟ گلیوں بازاروں میں جو مخلوق تھی وہ انسان کی بجائے بڑے سے بیف برگر سے زیادہ مشابہ دکھائی دیتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے سب اپنے بدن کا بوچھ اٹھائے ہوئے چلتی تھیں۔
طغرل کا جو دوست ماسکو سے آیا ہوا تھا، اس کا ذوق فربہ خواتین سے تعلق باندھنا رہا تھا۔ ایک روز جب طغرل نے اس سے کہا تھا،"چوہدری تم تو خوش ہوگے یہاں کی موٹی عورتوں کو دیکھ کے" تو وہ ایک لمحے کا توقف کیے بغیر بولا تھا،" نہیں جناب نہیں، یہ موٹی نہیں کہلا سکتیں۔ اس مخلوق کو تو کچھ اور ہی نام دینا پڑے گا"۔
طغرل نے ایک بار کسی امریکی سے پوچھا تھا کہ میاں یہ تو بتاؤ کہ وہ ساری نازک اندام حسینائیں کیا ہوئیں جو ہالی ووڈ کی فلموں میں دکھائی جاتی ہیں تو امریکی نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا کہ امریکہ کا سارا حسن کیلیفورنیا یعنی ہالی ووڈ منتقل ہو چکا ہے۔ طغرل کو یاد آیا تھا کہ ایک بار جب وہ لڑکپن میں اپنے ایک پنجابی زمیندار ہم جماعت کے ساتھ اس کے گاؤں گیا تھا تو اس نے ازراہ تفنن اپنے دوست سے پوچھا تھا،"یار وہ کھیتوں اور باغوں میں ناچنے والی لڑکیاں کہاں ہیں جو پنجابی فلموں میں دکھائی جاتی ہیں" اس کے پنجابی دوست نے خبردار کیا تھا کہ مجھ سے تم نے پوچھ لیا، گاؤں میں کسی اور سے مت پوچھ بیٹھنا، کہیں مار نہ کھانی پڑ جائے"۔ اسی طرح طغرل نے جب بہت بعد میں اپنے ایک امریکی دوست کو بتایا تھا کہ جب وہ امریکہ گیا تھا تو یہی سمجھتا تھا اگر کسی لڑکی سے جان پہچان ہو گئی تو صاف گوئی سے یہ پوچھنا ہی کافی ہوگا آیا وہ شریک بدن ہونے پر رضامند ہے جس کا وہ اثبات یا انکار میں جواب دے دے گی لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ امریکہ کوئی عرب ملک ہے جہاں عورتیں بس حجاب نہیں کرتیں۔ جہاں سب ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں۔ ہائی کہنے کے بعد بائی کہہ دیتے ہیں۔ باہمی تعلقات بمشکل ہی بن پاتے ہونگے۔ اس پر طغرل کے امریکی دوست نے کہا تھا کہ بھائی میرے ملک کا معاشرہ بہت قدامت پسند ہے۔ ہماری قوم کی جنسی تسکین کا ذریعہ خود لذتی ہے۔
بہرحال حسن تو ہر جگہ ہویدا ہو ہی جاتا ہے۔ جن رشتے داروں کے ہاں طغرل مقیم تھا، ان کی ایک بچی ذہنی طور پر کسی حد تک معذور تھی جس کی دیکھ بھال کی خاطر ایک سوشل ورکر آیا کرتی تھی۔ تھی تو وہ خاتون یعنی لڑکی نہیں تھی، کوئی اڑتیس چالیس برس کی تھی مگر سمارٹ اور نین نقش کی بہت بھلی۔ طغرل دل سے چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ سلسلہ جنبانی ہو تو امریکہ میں ٹکنے کا سبب بن جائے گا۔ طغرل اس سے باتیں کرتا تھا مگر اس کا رویہ ایسے ہوتا تھا جیسے وہ کسی شریف پاکستانی گھرانے کی خاتون ہو۔ کوئی ایسا اظہار نہ کرتی تھی جس سے کوئی ہلکا سا بھی اشارہ مل سکتا۔
ایک اور بات یہ بھی تھی شاید کہ امریکہ میں گورے اور دیسیوں بیچ بہت زیادہ مغائرت ہے۔ ایسی وریاں خال خال ہوتی ہیں، وہ بھی یا تو نچلے طبقے سے یا بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگوں میں سے جو دیسی مردوں کے ساتھ بندھن باندھتی ہوں۔ مطلب یہ کہ امریکہ طغرل کے لیے سوکھا ساون ثابت ہوا تھا۔
طغرل کی پرورش ایسے خاندان میں ہوئی تھی جہاں مرد رشتے دار آپس میں عورت مرد کے تعلقات بارے باتیں نہیں کرتے مثلا" طغرل نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ جو عمر میں دو ڈھائی برس چھوٹا تھا کبھی ایسی بات نہیں کی تھی۔ عاصم جو بھتیجے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا دوست بھی تھا، اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مجرا دیکھ لیا لیکن اگر کہیں معاملہ جنسی حدود میں داخل ہوتا تو عاصم خود اٹھ کر چلا جایا کرتا تھا۔
طغرل کے چھوٹے بھانجے کو خیال آیا تھا کہ ماموں امریکہ میں کئی ماۃ سے تجرد کی زندگی بسر کر رہے ہیں چنانچہ ان کی تسکین کا کوئی بندوبست کرنا چاہیے۔ پہلے چپکے سے وڈیو فلمیں پکڑا جایا کرتا تھا یعنی ٹرپل ایکس۔ پھر ایک روز طغرل کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر نیویارک شہر لے جاتے ہوئے اس نے کھسیانی مسکراہٹ مسکراتے ہوئے کہا تھا،" ماموں مجھے تو یہاں ایسی جگہوں کا پتہ نہیں جہاں لڑکیاں ہوتی ہوں، میں نے ایک بنگالی نوجوان سے کہا ہے جو اس ریستوران میں ویٹر ہے جہاں میں کام کرتا ہوں۔ آج وہ ہمیں ایسی جگہ لے جائے گا، پھر آپ دیکھ لیں"۔ اس کے کہے کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں تھی۔ نیویارک شہر پہنچ کر ایک مقام پر تیز طرار سا خوبصورت بنگالی نوجوان ملا تھا جو گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ نیویارک کی مشہور جگہ جیکسن ہائٹس جو دیسی کھانوں، مٹھائی، ساڑھیوں اور دیسی پوشاکوں کی دکانوں، پان، دیسی موسیقی وغیرہ کے لیے مشہور ہے، میں جا کر اس بنگالی نوجوان نے ایک سپینش شخص سے بات کی تھی اور پھر پیچھے آنے کو کہا تھا۔ پیدل چلتے ہوئے ایک گھر کے دروازے پر پہنچے تھے۔ ایک مرد نے آ کر دروازے کی زنجیر اتاری تھی۔ پھر سیڑھیاں اترتے ہوئے ایک تہہ خانے میں داخل ہو گئے تھے۔ وہاں ایک غنڈہ شکل ہسپانوی بیٹھا ہوا تھا اور ساتھ کی کرسیوں پر چھ نوجوان لاطینی امریکی لڑکیاں مختصر ملبوس میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ غنڈہ شکل مرد اونچی آواز میں کہہ رہا تھا، "سات لڑکیاں، ایک مصروف چھ فارغ"۔ اس نے بلند آواز میں ایسا کہنا شاید تب شروع کیا تھا جب اسے سیڑھیوں سے تین مرد اترتے دکھائی دیے تھے۔ لڑکیوں کی آنکھوں میں التماس تھا کہ ہمیں چن لو۔ طغرل سے یہ غیر انسانی رویہ برداشت نہیں ہو سکا تھا۔ اس نے اپنے بھانجے سے کہا تھا،"چلو، چلو، چلو، نکلو یہاں سے"۔ پیچھے سے "کیا بات ہے، کیا بات ہے؟" پوچھتا ہوا بنگالی نوجوان بھی ان کے ساتھ ہی باہر نکل آیا تھا۔ باہر نکل کر طغرل نے بھانجے سے کہا تھا،" یہ تم مجھے کہاں لے آئے"۔ بھانجے نے سنجیدگی سے کہا تھا،"میرا خیال تھا کہ شاید آپ ۔ ۔ ۔" "مگر اتنے غیر انسانی ماحول میں نہیں جہاں آدمی انسان کو مال کی طرح ہانکیں لگا کر بیچ رہا ہو" اس پر طغرل کے بھانجے نے ہنستے ہوئے کہا تھا،" اگر آپ کسی کے ساتھ چلے جاتے تو وقت تمام ہونے پر وہ اس کمرے میں الارم بھی بجا دیتا"۔ بنگالی نوجوان کو کچھ پلے نہیں پڑا تھا کہ کیا ہوا تھا۔ طغرل کے بھانجے نے بس اتنا کہا تھا کہ انہیں کوئی پسند نہیں آئی۔ وہ بہت باتونی نوجوان تھا، بولا کوئی بات نہیں، ہم انکل کو کیلیفورنیا لے جائیں گے۔ طغرل نے پوچھا "لیکن کیلیفورنیا جائیں گے کیسے؟" اس نے جواب دیا تھا،" ام ٹرک سے چلے جائیں گے"۔ طغرل سمجھا تھا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ ہم ٹرک سے چلے جائیں گے۔ طغرل نے کہا کہ میں ٹرک سے نہیں جا سکتا تو طغرل کے بھانجے نے ہنستے ہوئے بتایا تھا کہ بنگالی نوجوان کے کہنے کا مطلب "ایم ٹریک" یعنی امیریکن ریل گاڑی تھا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1439261322766640
“