طغرل امریکہ سے نینا کو اکثر فون کیا کرتا تھا۔ وہ اس کی ہمت بندھایا کرتی تھی تاکہ وہ امریکہ میں رہائش اختیار کرکے اپنے بچوں کے لیے کچھ کر سکے۔ تاحتٰی اس نے کہا تھا کہ اگر روسی پاسپورٹ امریکی شہریت کے حصول میں رکاوٹ ہو تو وہ اسے طلاق نامہ بھجوا دے گی جس کی بنیاد پر وہ روس کے سفارت خانے میں جا کر اپنی روسی شہریت سے دستبردار ہو کر پاکستانی پاسپورٹ کی بنیاد پر سیاسی پناہ حاصل کر سکے۔
مگر طغرل منہ اٹھا کر لوٹ آیا تھا۔ نینا اسے دوبارہ اپنے پاس پا کر خوش تو ہوئی تھی لیکن اتنی نہیں،غالبا" اس لیے کہ اسے ایک بار پھر بے روزگار اور بے کار خاوند کو بھگتنا پڑ رہا تھا۔ بیکار اس لیے کہ روس اور تقریبا" تمام مغربی ملکوں میں ایسے مرد کو اچھا شوہر خیال کیا جاتا ہے جو گھر کی ٹونٹیاں اور تالے تبدیل کرنے سے لے کر گھر کی مرمت کرنے اور بجلی ٹھیک کرنے تک کا کام کر سکتا ہو۔ روس میں ایسے مردوں کو "سونے کے ہاتھوں والا" کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس طغرل تنکا تک نہیں توڑتا تھا۔ گھر میں پڑا رہتا تھا، زیادہ سے زیادہ شہر کے مرکز تک جا کر بڑے ہوٹلوں میں پڑا ہوا مفت انگریزی کا اخبار لے ایا کرتا تھا یا کچھ لکھ لیتا تھا۔ وہ کسی کام کے لیے کہتی تو کہہ دیتا تھا ابھی کرتا ہوں اور پھر بھول جاتا تھا یعنی بھلا دیتا تھا۔ خالص پاکستانی شوہر تھا۔
طغرل کے امریکہ سے لوٹنے کے دو روز بعد نینا کی بیٹی آلا آئی تھی تو اس کے ساتھ ایک نومولود بچی تھی جسے نینا نے طغرل کی گود میں ڈال دیا تھا۔ وہ بچی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا کیونکہ اس نے ایک عرصے سے کوئی چھوٹا بچہ نہیں دیکھا تھا۔ طغرل کو پہلے روز سے ہی اس بچی کے ساتھ بے حد انس ہو گیا تھا۔ اس کی شاید یہ بھی وجہ تھی کہ اس کی ایمان سے پیدا ہونے والی بچی بھی کوئی ڈیڑھ پونے دو سال کی ہونے کو آئی تھی جسے وہ اب تک نہیں دیکھ پایا تھا۔
طغرل کا کوئی بینک بیلنس نہیں تھا۔ کچھ پیسے تھے جن سے وہ پاکستان جانے کا ٹکٹ خرید سکتا تھا اور بس۔ ایک طرح سے نینا کی تنخواہ پر گذر بسر ہو رہی تھی۔ عورت کتنی بھی وسیع القلب کیوں نہ ہو لیکن اسے اپنی کمائی پر اینڈتا ہوا مرد اچھا نہیں لگتا۔ وہ تنک مزاج ہوتی جا رہی تھی۔ ہر بات پر طغرل کے ساتھ الجھنے لگی تھی۔
ایسے میں طغرل کو کوئی اور چاہیے تھا جس کے ساتھ اٹھکھیلیاں کی جا سکتیں۔ اس نے پرانی شناسا ایلا کو فون کیا تھا جو تب واقف ہوئی تھی جب امریکہ جانے سے پیشتر طغرل ہوٹل کے کمرے چڑھانے کے کاروبار سے وابستہ تھا اور ایلا اس ہوٹل میں ایر ٹکٹیں بیچا کرتی تھی۔ طغرل سے کھاتی تھی اور وقت افغانیوں کے ساتھ بتاتی تھی۔ خیر کھوٹا سکہ بھی کبھی چل جایا کرتا ہے۔
جنوری کی ایک سرد شام کو اس نے مرکز میں ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ طغرل ایلا کے ندیدے پن کے پارے میں جانتا تھا مگر اس نے اسے کسی طرح صرف کافی کے ایک کپ پر ٹرخا دیا تھا اور پھر دونوں مرکز میں گھومنے لگے تھے۔ زیر زمین تین منزلہ شاپنگ مال کے اوپر بنے ہوئے پارک میں دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ وہاں وہ دونوں ایک بنچ کے نزدیک کھڑے ہو گئے تھے۔ بیٹھا تو جا نہیں سکتا تھا کیونکہ بنچوں تک پر برف پڑی ہوئی تھی۔ ایلا نے فرکوٹ پہنا ہوا تھا۔ طغرل امریکہ میں ایک برس کا جنسی روزہ بھگت کے لوٹا تھا چنانچہ وہ معاملے کو لمبا نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے جھٹ سے اس کے فرکوٹ میں ہاتھ ڈال کر اس کے سینے کی اٹھان کو گرفت میں لے کر سہلانا شروع کر دیا تھا۔ ایلا نے ہکا بکا رہ جانے کی اداکاری کی تھی مگر ہاتھ نہیں جھٹکا تھا۔ بات بن گئی تھی۔ طغرل نے اسے کہا تھا کہ وہ کل شام کسی وقت فون کرے گا اور پرسوں کہیں چلیں گے جہاں تنہائی میسر ہوگی۔ موبائل فون متعارف ہو چکے تھے لیکن ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔ لینڈ فون پر ہی گذارا کرنا پڑتا تھا۔
طغرل نے عقلمندی کا ایک کام کیا تھا کہ نینا کو اردو نہیں سکھائی تھی۔ یوں اس کے لیے آسان تھا کہ اس کی موجودگی میں بھی وہ اردو زبان میں جو بات کرنا چاہتا تھا، کر لیا کرتا تھا۔ اس نے ایک پاکستانی کو فون کیا تھا جو طغرل کی تعظیم کرتا تھا اور کہا تھا کہ پرسوں جس وقت وہ سب کام پر ہونگے تو اسے ان کے گھر کی چابی چاہیے ہوگی۔ اس نے ظاہر ہے یہی کہا تھا کہ اپ کا گھر ہے، جب چاہیں چابی لے لیں۔ اب اسے انتظار تھا کہ نینا کہیں جائے تو وہ ایلا کو فون کرے۔ بہت انتظار کے بعد نینا کسی کام کی غرض سے گھر سے باہر نکلی تو طغرل نے ایلا کو فون کرکے اگلے روز دو بجے ایک میٹرو سٹیشن پر ملنے کے بارے میں طے کر لیا تھا۔
ایلا اور طغرل ایک ویگن پر سوار ہو کر اس مارکیٹ میں گئے تھے جہاں اس پاکستانی کا کاروبار تھا۔ طغرل نے ایلا کو کچھ دور کھڑے ہونے کا کہا تھا اور جا کر چابی لے لی تھی۔ گھر چونکہ مارکیٹ سے زیادہ دور نہیں تھا اس لیے دونوں پیدال چلتے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔
نینا چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی کیا کرتی تھی اور تین دن آرام۔ وہ اس روز کام پر تھی۔ ایسا امکان تھا ہی نہیں کہ وہ کہیں اور دیکھنے میں آ جاتی لیکن طغرل پھر بھی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے چل رہا تھا کہ کہیں وہ کچھ خریدنے مارکیٹ میں نہ پہنچ گئی ہو حالانکہ نینا اس مارکیٹ سے بمشکل ہی کچھ خریدا کرتی تھی۔
ایلا طویل قامت اور متناسب بدن والی عورت تھی۔ اس کا چار پانچ سال کا ایک بچہ تھا۔ قبول صورت بلکہ خوبصورت تھی۔ عمر کوئی چونتیس پینتیس سال۔ مگر اس میں وہ حدت نہیں تھی جو ہونی چاہیے تھی۔ اس کے ساتھ بتایا گیا انتہائی قریبی وقت کوئی اتنا کیف آگیں نہیں تھا، بس یونہی سا تھا۔
اس سے دوسری ملاقات بھی کچھ زیادہ دیر بعد نہیں ہوئی تھی۔ اسی گھر میں لیکن تب گھر میں گھر والے موجود تھے۔ غسل خانہ ہی تنہائی دے سکتا تھا۔ غسل خانے کی تنہائی کے بعد دوسرے کمرے میں بھی جانے کو جی نہیں چاہا تھا جو گھر والوں نے ان کے لیے خالی کر دیا تھا۔ پھر بھی وہ دونوں اس کمرے میں گئے تھے۔ ایلا نے ادھار کے نام پر محبت کے معاوضے کا تقاضا شروع کیا تھا، مگر طغرل نے اس کی سرشت جانتے ہوئے کچھ بھی دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ وہ امریکہ سے خالی ہاتھ آیا ہے۔ پھر طغرل محبت کا معاوضہ ادا کرنے کو اس انسانی عمل کی توہین خیال کرتا تھا۔ ایلا بھی لالچی پن میں اپنی مثال آپ تھی۔ اس نے لفٹ میں بیٹے کے لیے چاکلیٹ لینے کے لیے طغرل سے سو روبل لے ہی لیے تھے۔ اس کے بعد طغرل نے اس سے کچھ دیر تک بس ٹیلیفون پر بات چیت کرنے تک تعلق رکھا تھا جو زیادہ دیر برقرار نہیں رہا تھا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1467431153282990
“