ان ہی دنوں ایک نیوز چینل پر خبریں سنتے ہوئے طغرل کی آنکھیں، حیرت اور ایک انجان قسم کی خوشی کے احساس کے ساتھ پھیل گئی تھیں۔ یمن کی بندرگاہ میں لنگر انداز امریکی بحریہ کے ایک جنگی جہاز پر کچھ لوگوں نے ایک کشتی کے ذریعے خود کش حملہ کیا تھا۔ تب تک بین الاقوامی دہشت گردی کی اصطلاح وضع نہیں ہوئی تھی۔ امریکہ کی فوج کے خلاف کی گئی دہشت گردی کو چھاپہ مار جدوجہد خیال کیا جاتا تھا۔ طغرل کو خوشی کا جو احساس ہوا تھا وہ اسی لیے کہ کسی نے امریکی ہاتھی کی سونڈ پہ بھی کاٹا تھا چاہے وہ سونڈ پر سوئی چبھنے جتنی ہی تکلیف کیوں نہ تھی۔ اس خبر میں پہلی بار "القاعدہ" نام کی کسی جنگجو تنظیم کا ذکر ہوا تھا مگر تب یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس تنظیم کا سربراہ امریکہ کا ہی پیدا کردہ مجاہد اعظم اسامہ بن لادن تھا۔
ویسے بھی ان دنوں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہو رہے تھے۔ ڈیموکریٹس کی جانب سے کلنٹن کیے دور صدارت کے نائب صدر الگور امیدوار تھے جبکہ ریپبلیکن کی جانب سے جارج بش جونیر۔ لگتا یہی تھا کہ الگور جیت جائیں گے مگر جارج بش کی پوزیشن بھی کمزور نہیں تھی۔ طغرل کو موقع میسّر آ گیا تھا کہ امریکہ کے انتخابات کا جائزہ لے۔ امریکی میڈیا کی ایک خوبی ہے کہ اگر تمام نہیں تو دونوں بڑی پارٹیوں کو اپنے موقف، اپنے سروے اور اپنے جائزے پیش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے یوں ضرورت نہیں رہتی کہ کوئی گراؤنڈ پہ جا کر لوگوں کے تاثرات لے اور نتیجہ اخذ کرے تاحتٰی بین السطور دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، سب کچھ عیاں ہوتا ہے۔ طغرل کی ہمدردیاں لا محالہ الگور کے ساتھ تھیں اگرچہ الگور کی زیادہ توجہ ماحولیات کے معاملات پر تھی۔ بش کی جانب رغبت نہ ہونے کا ایک سبب ریپبلیکنز کا کنزرویٹیو ہونا تھا دوسرا سبب خود بش جونیر کے غیر سنجیدہ جوابات و بیانات اور ہونقانہ سی مسکراہٹ تھی۔
مزمل چونکہ ریستوران میں رات کو مینیجر کے فرائض سرانجام دیا کرتا تھا اس لیے وہ طغرل سے ملنے یا ویسے ہی اپنے بھائی مسعود کی جانب آنے کے لیے نیند پوری کرنے کے بعد کے وقت کا انتخاب کیا کرتا تھا یعنی کوئی چار پانچ بجے سہ پہر پہنچا کرتا تھا مگر اس روز وہ صبح نو بجے ہی مسعود کے ہاں پہنچ گیا تھا۔ طغرل نہا دھو کر کوئی پونے دس بجے جب دوسری منزل سے نیچے اترا تھا۔ مزمل لاونج میں ایک کاؤج پر نیم دراز خبریں دیکھ رہا تھا۔ اپنے ماموں پر نظر پڑتے ہی اس نے بتایا تھا،" ابا جی اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں"۔ طغرل کے بہنوئی اور مسعود و مزمل کے والد صاحب مریض تو تھے لیکن ٹیلیفونوں پر ہونے والی گفتگووں سے کبھی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ رخصت بھی ہو سکتے تھے۔ شاید ان کے گھر والے سات سمندر پار امریکہ میں بیٹھے ہوئے عزیزوں کو زیادہ پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ طغرل کو ان کے ساتھ گذرے تمام سرد و گرم ادوار یاد آ رہے تھے۔ طغرل کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے اور مزمل بھی آنسو پونچھنے لگا تھا۔ طغرل نے مزمل کو گلے سے لگا لیا تھا۔ اتنے میں صولت بھی آ گئی تھی۔ وہ بہت دیر تک مرحوم کے بارے میں باتیں کرتے رہے تھے۔
نومبر کا اواخر تھا۔ مزمل نے خود ہی طغرل سے پوچھا تھا "آپ کب جانا چاہتے ہیں" اس نے کہا تھا مسعود کو لوٹ لینے دو۔ مزمل نے کہا تھا "آپ ٹکٹ کی فکر نہ کرنا، ٹکٹ میں لے دوں گا"۔ طغرل کے دل سے بوجھ اتر گیا تھا۔ الیکشن ہوا تھا اور امریکہ کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار ایک سکینڈل کھڑا ہو گیا تھا کہ کمپیوٹرائزد ووٹنگ کی گنتی درست طور نہیں ہوئی۔ یہ شکایت ری پبلیکنز کی جانب سے آئی تھی۔ تصفیہ ہونے کی خاطر ووٹوں کی ہاتھوں سے گنتی کیے جانے کا طے ہوا تھا۔ اتنے بڑے امریکہ میں یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ امریکہ میں انتخابات کے نتائج کا جو گھمچال مچا تھا وہ طغرل کے لیے موجب دلچسپی تھا۔ ایسے میں طغرل کو یاد آیا تھا کہ ایک بار جب وہ کسی محفل میں بتا رہا تھا کہ اس نے سعودی عرب جانے کا سوچا تو شاہ فیصل کو ایک شہزادے نے قتل کر دیا تھا۔ ایران جانے کی خاطر انٹرویو دیا تھا تو وہاں انقلاب آگیا تھا۔، اس پر اس کے دوست چودھری ماہم کے بڑے بھائی جنہیں سب حاجی صاحب کہا کرتے تھے، نے کہا تھا،"بھئی اسے امریکہ بھیجو تاکہ وہاں کا بھی بیڑا غرق ہو" اس بات پر وہاں موجود سب لوگوں کا قہقہہ چھوٹ گیا تھا۔ طغرل کی امریکہ میں موجودگی کے دوران نہ صرف امریکی بحریہ کے جنگی جہاز کو گذند پہنچا تھا بلکہ انتخابات کے نتائج بھی مشکوک ہو گئے تھے۔
مسعود لوٹ آیا تھا۔ وہ اپنے والد کی وفات پر بہت غمگین تھا۔ طغرل کی رفاقت سے اس کا غم کم ہونے میں کچھ زیادہ عرصہ نہیں لگا تھا۔ اب طغرل نے مناسب جانا تھا کہ واپسی کا ٹکٹ خرید لیا جائے۔ وہ مزمل کے ہمراہ نیویارک سٹی میں ایک پاکستانی ٹریول ایجنٹ سے ٹکٹ خریدنے گیا تھا۔ اتفاق تھا کہ اسے اسی تاریخ کا ٹکٹ ملا تھا جس تاریخ کو وہ ایک برس پیشتر امریکہ آیا تھا یعنی تیرہ دسمبر کی تاریخ کا۔
تیرہ دسمبر کو مسعود نے طغرل کو کینیڈی انٹرنیشنل ایر پورٹ پر الوداع کہا تھا مگر اس سے پہلے یہ کہنا نہیں بھولا تھا کہ نہ جاتے تو اچھا تھا۔ طغرل مسعود کے خلوص کے جواب میں بس مسکرا کر آگے بڑھ گیا تھا۔ امیگریشن پر جو سیاہ فام خاتون بیٹھی تھی اس نے مسکرا کر انٹری فارم لے کر رکھ لیا تھا اور ماتھے تک ہاتھ لے جا کر الوداع کہہ دیا تھا۔ کہیں بھی کوئی چیکنگ نہیں تھی، نہ کہیں کچھ اتارنا پڑا تھا، طغرل جیسے بازار میں چلتا ہوا ڈیپارچر لاؤنج پہنچ گیا تھا۔ ایر لائن کے ایل ایم کی پرواز تھی۔ ساڑھے سات گھنٹے بعد ایمسٹرڈٰم کے شپ ہول انٹرنیشنل ایر پورٹ کی شیطان کی مانند طویل راہداریوں میں چلتے ہوئے طغرل کی نظر اوپر لگے ایک ٹی وی سیٹ کی سکرین پر پڑی تھی۔ سی این این کی خبروں میں بتایا جا رہا تھا کہ الگور کے مقابلے میں بہت کم سبقت لے کر جارج بش جونیر کو امریکہ کا صدر منتخب کر لیا گیا تھا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1459211837438255
“