11 اپریل 2006:
تھکا دینے والا کام کرنے کے بعد میں ملک شکیل کے ہاں عید میلادالنبی کی تقریب میں شرکت کی خاطر پہنچا۔ چونکہ میزبان خریداری میں مصروف تھا اس لیے اس نے ویگن کے ذریعے پہنچنے سے متعلق بتا دیا تھا۔ ویگن میں سوار ایک عورت اپنے ہی ملک روس کے لیے انتہائی گرے ہوئے فحش الفاظ استعمال کر رہی تھی اور ساتھ ہی بتا رہی تھی کہ وہ معلمہ ہے۔ ڈرائیور نے محض اتنا کہا کہ ہاں واقعی معلمہ لگتی ہو۔ وہ پیے ہوئے تھی اور غالبا" کرایہ ادا نہیں کرنا چاہتی ہوگی۔
میں نے جب "دمافون" کا بٹن دبایا تو اتنیکسی نے فصیح لہجے میں روسی بولی تھی۔ میں نے غلط گھر کی بیل بجانے پر معذرت کی تو کسی نے اردو میں کہا،" طغرل صاحب ہیں؟"۔ روسی بولنے والا نوجوان فاروق تھا جو ملک عقیل کے اپارٹمنٹ میں اکیلا تھا۔ جب میں داخل ہوا تو وہ گوشت دھو رہا تھا۔ بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے کود رہے تھے۔ اس نے میرے مانگنے پر، ابھی ابھی تیار کی گئی گرم گرم گجریلا کھیر مجھے کھانے کو دی۔ مزا آ گیا۔ پھر ملک نے نیچے پہنچ کر دمافون پر سامان اٹھانے میں مدد کرنے کے لیے بلایا تو میں فاروق کی درخواست پر اس کے ساتھ نیچے اترا ۔ ملک شکیل حسب عادت بے تحاشا سامان اکل و شرب لایا تھا، ساتھ میں پچاس ساٹھ کیک بھی۔ آٹھ ساڑھے آٹھ تک سات آٹھ افراد جمع ہوئے تھے۔ اس وقت تک کراچی میں بم پھٹنے کی خبر سن کر میں نے ملک عقیل کے موبائل سے چھوٹے بھائی تحسین کو فون کیا۔ تب تک 47 افراد کی ہلاکت کی اطلاع تھی۔ مزید مر رہے تھے۔بڑا افسوس ہوا۔ت
تقریب میں نجم نے حضور صلعم کے معجزات بارے بات کی اور میں نے حضور کے لائے سماجی انقلاب کی۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔ رخصت ہوتے وقت ملک عقیل نے ہر ایک شریک کو ایک کیک تحفے میں دیا۔ اللہ اسے خوش رکھے۔ آج بہت زیادہ تھک گیا تھا مگر پھر بھی ڈیڑھ بجے یورونیوز پر خبریں سن کر سویا۔۔
12 اپریل 2006:
انٹرنیٹ کے دفتر گیا۔ نینا نے بتایا تھا کہ انٹرنیٹ نصب کروانے پر پندرہ سولہ سو خرچ آئے گا، ہوا بھی وہی۔ انہوں نے پندرہ سو طلب کیے جبکہ میرے پاس بارہ سو تھے چنانچہ تنصیب کل پرسوں پر ملتوی کر دی۔
گھر واپس آ کر فلم "بھگت سنگھ" دیکھی۔ آج کے دور مین یہ فلم بہت زوردار لگی۔ ہر دور میں انقلاب پسندوں کو دہشت گرد ہی تعبیر کیا جاتا رہا ہے جبکہ ان کے آدرشوں کو دوسرے استعمال کر گئے۔ فلم میں گاندھی، نہرو اور کانگریس کی قلعی کھول دی گئی ہے۔ یہ فلم دیکھنے کو مجھے سلجوق نے کہا تھا۔ لگتا ہے وہ مجھے سمجھتا ہے اور اس میں بھی ناانصافی اور ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے کے جراثیم ہیں۔ بس حالات کی گرد میں دب کر خفتہ ہو گئے ہیں۔
آج سے ٹھیک پینتالیس سال پہلے آج کے ہی روز دنیا کا پہلا خلا باز یوری گاگارین خلا میں پہنچا تھا۔ ساراتوو صوبے کے جس گاؤں میں اس کا چھاتہ بردار کیپسول گرا تھا وہاں کے لوگوں نے پہلے پہل اسے دشمن کا جاسوس تصور کیا تھا۔ اس نے ایک گھنٹہ چالیس منٹ پذیرائی کے بعد کہا تھا کہ میں ایک عام روسی ہوں ان لاکھوں نوجوانوں کی طرح جو ملک میں موجود ہیں۔
آج اس تقریب کے موقع پر صدر روس نے خلائی سٹیشن پر موجود خلا بازوں کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کی۔ خلاباز پاویل وینوگرادوو نے کہا کہ میں صدر کو مدعو کرتا ہوں کیونکہ وہ آبدوز میں گئے ہیں۔ ایس یو 27 جنگی طیارہ تو جیسے ان کا ذاتی طیارہ ہے مگر خبائی سٹیشن پر صدر کبھی نہیں آئے۔
صدر نے کہا،" لوگ مجھے جانے دیں تو ناں"،
13 اپریل 2006:
ایک تو رات کو ڈیڑھ بجے ٹیلی کاسٹ ہونے والی خبریں سن کر سونے کی عادت پڑ گئی ہے دوسرے روشنی گل کرکے تکیے پر سر دھرتے ہیں ایک تخئیل نے آ لیا جیسے پاکستان کی ایک بڑی سیاسی کاروباری شخصیت کوئی اردو اخبار نکال رہی ہے اور اسے کسی نے مشورہ دیا ہے کہ طغرل کو ایڈیٹر لو۔ بس پھر کیا تھا، شرائط، اخبار کی تیاری، لے آؤٹ، ٹیم کی تشکیل، تشہیر کے پروگرام اور شہرت پانے کے جو تانے بانے بنے جانے شروع ہوئے کہ میں نے عقلمندی کی۔ اپنی حماقت پر مسکرا کر اٹھا اور نیند کی گولی نگلی۔ رات کے اڑھائی بجے تھے۔ پھر لفظ "ژولیدہ" بھول گیا جس کی بجائے ذہن میں لفظ پراگندہ آ رہا تھا۔ بہرحال صبح سات بجے ساشا نے کھٹاک پٹاک شروع کر دی اور نو بجے اس کی کچھ لگتی نے۔ اس کے نکلنے کے بعد خود لذتی کا سہارا لیا سمجھو جیسے جسم کا سارا ہی ست نکل گیا ہو۔ پھر جواہر لال کلچرل لائیبریری سے موسیقی کی کتابیں لینے نکل گیا۔ لوٹ رہا تھا تو برا حال تھا۔ ریل گاڑی میں بوڑھوں کی طرح ادھر ادھر تاک رہا تھا کہ کوئی بیٹھنے کو جگہ دے دے۔ مجھے کوئی بوڑھا سمجھے تو جگہ دے ناں اوپر سے ہندوستانی چہرہ۔ غیر روسی کو آج کے نوجوان کبھی جگہ نہ دیں۔
خواب ژولیدہ ذہن کا عکس ہوتا ہے اور تخئیل قلق کا گمان۔ میرا اپنا ایک پرانا شعر ہے:
انہونی کی آس میں پیارے ہونی بھی نہ ہوئے
کالے کوس دنوں کا سایہ آنکھ میں یاس سموئے
تو کیا میں عنفوان شباب سے ہی قلق کے گمان میں مبتلا ہوں؟
14 اپریل 2006:
بارش ہو رہی تھی اس لیے مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ کھوے سے کھوا بھڑ رہا تھا۔ لوگ آڑے ترچھے ہو کر بیٹھے تھے۔ اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں جو قدم چوڑے کر کے، پاؤں کے ساتھ پاؤں ملا کر، عین اپنے دل کی جگہ پر ہتھیلیوں کو اوپر نیچے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ایک کہنی ویسے ہی بدن کے زاویے سے نکل جاتی ہے۔ رکوع کے بعد اقامت کے دوران سیدھے کیے گئے بازووں کی کہنیاں پیٹ میں گڑی ہوتی ہیں اور ہاتھ رانوں کے ساتھ جھوجھ ریے ہوتے ہیں۔
اگرچہ جماعت پونے تین بجے کے قریب کھڑی ہوتی ہے لیکن دو بجے ہی مسجد میں دہلیز پر، سیڑھیوں کے قدمچوں پر غرض ہر جگہ نمازی ہوتے ہیں۔ سیڑھیاں جہاں ختم ہوتی ہیں وہاں تھوڑی سی جگہ پر میں بھی جم گیا تھا۔ لوگ پھر بھی آتے رہے۔ جگہ نہ ہونے کے باوجود آگے اور مزید آگے جا کر خواہ مخواہ جگہیں بناتے رہے۔ لوگ نماز کے لیے جگہ فراہم کرنے کے ثواب کی خواہش میں ادھر ادھر پھنس پھنس کر کھسکتے رہے۔ جب جماعت کھڑی ہوئی تو حسب معمول ایک آواز بلند ہوئی "پول شاگا پیریود" یعنی نیم قدم آگے تاکہ ایک اور صف بندھ سکے۔ لوگ کھسکتے ہیں۔ پھنسے ہونے کی وجہ سے صفوں میں کھڑے لوگوں کے پاؤں کبھی سیدھ میں نہیں رہتے۔ لوگ تاہم فریضہ ادا کر لیتے ہیں۔ ماسکو میں بہت تعمیرات ہو رہی ہیں۔ قفقازی اکثر وبیشتر بے تحاشا دولت مند ہیں لیکن کوئی بھی بیس پچیس لاکھ ڈالر لگا کر نئی مسجد بنانے کی پہل نہیں کر رہا۔۔
نماز کے بعد مفت اخبار لینے کی غرض سے میاکووسکی گیا۔ واپسی پر پوشکنسکایا تک پیدل چلا۔ کتابیں، اخبار اور چھتری۔ عجب بے ہنگم پن۔ ریل گاڑی میں بیٹھنے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔ گھر پہنچ کر کھانا نیم گرم کرکے زہر مار کیا۔ کمر کے پٹھے درد سے پھٹ رہے تھے۔ پانچ منٹ بیٹھ کر پھر گھر سے نکل گیا۔ وکیل والنتین تو مل گیا مگر انٹرنیٹ کا دفتر بند ہو چکا تھا۔
15 اپریل 2006:
ہفتے اتوار کے دن سانس بند رکھنے کے ایام بن چکے ہیں۔ ویسے بھی رات کوئی تین بجے کے بعد نیند آئی تھی۔ ساڑھے نو بجے صبح ایرا اور ساشا نے زور زور سے بولنا شروع کر دیا۔ مجھے جگا کر ہمیشہ کی طرح خود سو گئے۔ نینا بے چاری کچن میں کپڑے استری کر رہی تھی۔ جب تک یہ دونوں نہ اٹھیں یعنی ایک بجے دن تک، مجھے دم سادھے رکھنا پڑتا ہے، کہیں ساشا کوئی فضول بات نہ کہہ دے۔ اپنی حفاظت تو آپ ہی کرنی ہوتی ہے۔
مولوی عفان کا کزن کیلی فورنیا سے آیا ہے اور ہوٹل میریٹ میں ٹھہرا ہوا ہے۔ تہی دامنی کے سبب عجب گو مگو کا عالم ہے۔ بہرحال، حسب وعدہ اسے فون کیا مگر وہ ہوٹل میں نہیں تھا۔ میں نے ہندوستان کی موسیقی پر نوٹس تیار کیے۔ شام چھ بجے کے قرینب ندیم کا فون آیا۔ تجزیہ جاتی پروگرام "پوسٹ سکرپٹ" نہ دیکھنے کا افسوس لیے ڈھونڈ کر میریٹ پہنچا۔ ندیم سے ملاقات ہوئی۔
باوجود امریکی شہری ہونے اور Intel میں اچھے عہدے پر فائز ہونے کے وہ نہ صرف امریکہ مخالف ہے بلکہ سرمایہ داری کی حقیقت کو بھی خوب سمجھتا ہے اور قائل ہے کہ یہ نظام خالصتا" استحصال پر مبنی ہے۔
انجنیرنگ کرنے کے دوران جب این ای ڈی میں تھا تو پروگریسو سٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں تھا۔ دہریہ کبھی نہیں رہا البتہ متشکک ضرور ہے۔ امریکہ جا کر کیونکہ ثقافتی صدمہ پہنچا تھا اس لیے ردعمل میں زیادہ مذہبی ہو گیا تھا مگر بعد میں اعتدال پر آ گیا۔ 1992 میں حج کرنے کے بعد ایک بار پھر کٹر پسندی کی جانب مائل اور بالآخر مذہب میں اعتدال پسندی کا قائل ہو چکا ہے۔
مسلسل سفر میں رہنے کے دوران مچھلی اور سبزیوں پر گذارا کرتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
"