16 اپریل 2006:
تقریبا" ساڑھے چار بجے ندیم اپنے کمرے میں پہنچ گیا تھا۔ میں پانچ بجے میریٹ پہنچا۔ لابی میں کوئی "برنچ" قسم کا معاملہ چل رہا تھا۔ موسیقی کی لہروں کے ساتھ لوگ اکل و شرب نگلنے میں محو تھے۔ ریسیپشن سے ندیم کو کمرے میں فون کیا وہ نیچے آ کر کمرے میں لے گیا پھر فورا" اوپر والی منزل پر جانے کی خاطر لفٹ میں سوار ہوئے تو اس نے لفٹ کی دیوار میں ایک کارڈ انسرٹ کیا۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ ایگزیکٹیو لاؤنج میں جانے کے لیے لفٹ میں بھی کارڈ استعمال کرنا ہوتا ہے کیونکہ ہر شخص کو اوپر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کافی "لاتے" پیتے ہوئے اس نے بتایا کہ وہ ایم کیو ایم کا مخلص کارکن تھا اور یہ کہ آجکل ایم کیو ایم کا ترجمان، ممبر قومی اسمبلی حیدر رضوی اس کا بہت ہی اچھا دوست ہے۔ جب وہ کروفر کے ساتھ اس کے گھر اس سے ملنے آیا تو لوگوں نے کہا کام نکلواؤ لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ "خیل" کی حقیقت کو ماننے سے وہ انکاری ہے شاید مصلحتا" مگر اس بات کو مانتا ہے کہ ایم کیو ایم اقتدار ملنے سے بدعنوان ضرور ہوئی ہے۔
اسے ساتھ لے کر "انگلش سپیکنگ کلب" گیا جہاں اراکین سے اس کا تعارف کرایا۔ نتالیا نام کی وکیل لڑکی نے بتایاکہ صدر پوتن چین سے واپس آ کر انتظامیہ پر برسے ہیں کہ ہم چین کی سی صنعتی ترقی کیوں نہیں کر سکتے۔ میں نے تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چین میں صنعتی ترقی کے منفی پہلووں کو دیکھنے سے پہلو تہی نہیں کی جانی چاہیے اور یہ کہ روسی فطرتا" بدعنوان لوگ ہیں، مستزاد یہ کہ تعمیر نو نے بھی اپنے رنگ دکھائے ہیں اس لیے پوتن یہ بات کہنے میں حق بجانب نہیں ہیں۔
17 اپریل 2006:
مضمون کو بیچ میں چھوڑ کر سکرپٹ پر بحث کرنے کی غرض سے شاہباز کی طرف گیا۔ جس ویگن میں مجھے سوار ہونا تھا اس میں پاشا پہلے سے بیٹھا ہوا تھا۔ میرے "پری ویت" کہنے پر اس نے "زدراست ویتے توارش" یعنی والسلام ساتھی کہا۔ اسے نیند نے گھیرا ہوا تھا۔ سامنے سے ایک لڑکی گذر رہی تھی۔ میں بولا،"پاشا دیکھو کیسے چل رہی ہے" اور اس نے میرے منہ کے الفاظ چھین کر کہا،" جیسے سٹیج پر"۔
منزل پر پہنچ کر ویگن سے اترتے ہی گالیاں دینے لگا کہ مجھے خواہ مخواہ شاہباز کی طرف پہنچنے کے لیے تین گھنٹے صرف کرنے پڑتے ہیں۔ کچھ کھانے کی چیز تو لے چلیں وہاں تو چنے چاول ہی بنائے ہونگے اس نے۔
پہلے دونوں پتوں سے حظ اٹھاتے رہے۔ بمشکل انہیں موسیقی سے متعلق نوٹس سنائے۔ دونوں خوش ہوئے بالخصوص پاشا۔ اسے موسیقی کے بارے میں ققنس کی چونچ کے سات سوراخوں سے موسیقی کے سر برآمد ہونے کی روایت بہت بھائی۔
ان کے ساتھ میں اسلام عرفان کے ہاں پہلی بار گیا۔ اس نے جب سنا کہ میں نے مے نوشی ترک کر دی ہے تو اس نے مجھے لبھانے کی غرض سے میرے لیے خاص طور پر "بلیو لیبل" انڈیلی۔ بضد تھا کہ پیو مگر میں اپنی "نہ" پر ڈٹا رہا۔ وہ کہتا تھا کہ اب وہ کمیونزم کی بطور مذہب ترویج کرے گا۔ بار بار خود کو کمیونسٹ کہتا تھا ، ساتھ ہی کروڑوں ڈالر کی ملکیت کا تذکرہ بھی کرتا جاتا تھا۔ خاصا جاہل شخص ہے وہ۔ اس کے چہرے میں اظفر کی لجاجت، سندھو کی مکاری، فرقان کا جھوٹ اور بنیے کا سا انداز گھلا ہوا ہے۔ عجیب کثیر الشکل آدمی ہے۔ آدمی برا نہیں بس شیخی خورا ہے۔ شاہباز اس کے سامنے مرید بنا بیٹھا تھا۔ اس کی ہر بات کو سچ اور میری ہر بات کو جھوٹ اور بے ایمانی گردان رہا تھا۔ زیادہ پی گیا، بالآخر بکواس کی اور مذہب کی ہرزہ سرائی کرکے مجھے طیش دلا دیا چنانچہ میں وہاں سے نکل آیا۔
18 اپریل 2006:
کام سے لوٹ کر مضمون مکمل کرنے کی کوشش کی مگر لدمیلا واسیلیوا سے اس ضمن میں گفتگو کو 9 بجے تک موخر کرکے میں زیر تکمیل دستاویزی فلم کے ٹیکسٹس دیکھتا رہا۔ بیچ میں شاہباز کا فون آیا۔ میں نے اس کے کل کے وتیرے پر خوب سنائیں تو اس نے معذرت کر لی۔ فلم کے اکثر حصوں سے مجھے نکالا جانا چاہیے کیونکہ کہیں چہرے کے تاثرات درست نہیں تو کہیں بیٹھنے کا انداز غلط، کہیں میں خواہ مخواہ اپنی رائے ٹھونستا ہوا محسوس ہوا۔ صرف ایک کیمرے کا استعمال بھی بہت کھٹکتا ہے۔
میں ڈاکٹر میلا سے تھوڑی سی متعلقہ بات کرنا چاہتا تھا مگر انہوں نے اپنی جانب سے پورا انٹرویو ہی دے ڈالا۔ فنکار اور ادیب کا مسئلہ خود پسندی بھی تو ہوتا ہے اور پھر پاکستان کے کسی جریدے میں ان کی آراء کی اشاعت کی خاطر میں شاید پہلا شخص تھا جس نے ان سے رجوع کیا تھا۔
وہ گفتگو تو بنا لگی لپٹی ہی کرتی ہیں لیکن ان کے اس فقرے کہ ستارہ امتیاز میری حقیر کوششوں اور میرے ملک کے لوگوں کی مشترکہ محنت کا اعتراف ہے، سے کیا ناستلجیا کی بو نہیں آتی۔ ممکن ہے وہ اپنے اہل وطن سے واقعی اس قدر محبت کرتی ہوں کہ اپنی خوشی میں ان کی شمولیت کو مقدم جانتی ہوں۔
اور ایک بار پھر رات ہو گئی۔ آج اگرچہ نیند سے بے کل تھا لیکن کروٹیں بدلتے رہنا تو عادت ہے ہی، لگتے لگتے لگی آنکھ۔
19 اپریل 2006:
لیکن صبح صبح ساشا اور ایرا کی بلند آوازوں اور دروازے کھولنے بند کرنے کی کھٹ پٹ نے نیند اچاٹ کر دی۔ ہر پندرہ بیس منٹ بعد تکیے سے گردن اٹھا کر وقت دیکھا کیا اور آٹھ بج کر چالیس منٹ پر عافیت اس میں جانی کہ بلند ہو رہو۔ آج تو تینوں ہی گھر سے نکل گئے تھے۔ خبریں، کیسٹ اور اس سے منسلک عمل۔ پھر غسل اور حسب معمول فجر کی قضا نماز اور عبادات۔
بارش ہوئے جا رہی تھی۔ مزاج میں آلکس رہی۔ کہیں تین بجے کے قریب وہ دونوں آ گئے۔ کوئی خنزیر نما گوشت ڈال کر دیگچا پانی سے بھر دیا۔ دال روٹی حوالہ شکم کی اور قریب میں ایک دوست کے دفتر کو نکل گیا۔ ان کا نیٹ ادائیگی نہ ہونے کے سبب بند تھا البتہ دوست کی سیکرٹری یولیا نے مواد سکین کر دیاتھا۔ صبح دوست کا ملازم آ کر پوسٹ کر دے گا۔ انٹرنیٹ کے دفتر جا کر انٹرنیٹ لگوانے کے پیسے دیے۔ کئی روز تو سوچتے سوچتے ہی بیت گئے تھے۔
آج امتیاز نے ترنگ یا چقمے میں آ کر اپنا فون کوڈ دے دیا۔ میں نے پاکستان میں جن جن کو فون کرنے تھے کر لیے۔ دیکھو خدا نے کوئی سبیل پیدا کر ہی دی۔ خدا کارساز ہے۔
اپنی بیٹی کو جب میں نے فون پر کہا کہ میں محبت کے بارے میں کتاب لکھنے کی سوچ رہا ہوں تو اس نے بہت خوش ہو کر کہا،"پاپا یہ تو بہت مزے کی ہوگی"۔ میں ہنسے بنا نہیں رہ پایا، بھلا تجھے کیا پتہ مزے کی ہوگی یا نہیں۔ شاید اس کو میری تحریر پر اتنا اعتماد ہو کہ پاپا لکھیں گے تو اچھی ہی ہوگی۔
20 اپریل 2006:
نیند کا معاملہ تو ہمیشہ ہی سے نازک ہے۔ آنکھیں مند رہی ہوتی ہیں مگر تکیے پر سر دھرتے ہی مغز میں حقائق اور تصورات کی آندھیاں چلنے لگتی ہیں پھر گھنٹے ڈیڑھ بعد جب بدن میں ادھر ادھر چیونٹیاں سی کاٹنے لگیں تو احساس ہوتا ہے کہ اب خواب کی دیوی اپنی آغوش میں لینے والی ہے۔
صبح خیز بھی ہمیشہ سے تھا مگر بڑھے ہوئے پراسٹیٹ کے سبب رات ڈیڑھ بجے سو کر صبح سات سوا سات بجے آنکھ کھل جانا اور گرمیوں کے سورج کی چمک کا موٹے پردوں میں سے بھی چھن کر اندر آ جانا بس پھر نیند کہاں۔ آج بھی یوں لگتا ہے جیسے دن بھر اضمحلال طاری رہے گا۔
کام پر جاتے ہوئے راستے میں پاکستان کے پیٹر سے سر راہ ملاقات ہوئی۔ اس نے گھبرائے ہوئے سے لہجے میں کہا،" آج اس کی سالگرہ ہے"۔ میں نے کہا،" کس کی؟ اوہ ہاں ہٹلر کی۔ اللہ خیر کرے"۔ 20 اپریل ماسکو اور روس کے دوسرے بڑے شہروں میں غیر سفید فام غیر ملکیوں کا تقریبا" گھر میں بند رہنے کا دن ہوتا ہے۔ عجیب بات ہے جس ملک نے کئی کروڑ جانیں ہٹلر کی فسطائیت کو شکست دینے کے لیے دیں، وہاں نوفسطائیت کئی برسوں سے پنپ رہی ہے۔
آج ماسکو کے نواح میں گیارہ تعمیراتی مزدور زندہ جل گئے اور چار شدید طور پر جھلسے ہووں کو ہسپتال لے جایا گیا۔ بدعنوانی اور غربت کے اختلاط میں کچھ جیبیں بھرتے ہیں اور کچھ جان سے جاتے ہیں۔
آج درختوں میں شگوفوں کی بہار نمودار ہو گئی۔ چھ ماہ سے سرد زمین اور ٹنڈ منڈ درخت، زمین میں اتنی طاقت اور درختوں میں اتنا ہیجان ہوتا ہے کہ ماسکو کی بہار بس آنا" فانا" ہی آتی ہے۔ ایک دن درخت خالی ہوتے ہیں اور اگلے روز پتیوں کی کونپلوں سے بھرے ہوئے۔
21 اپریل 2006:
عبادت اور عبادت کا تواتر و تسلسل، ذکر و تکرار اور صوم، نظم و ضبط اور ربط کا ذریعہ ہے۔ کسی بھی تنظیم کی بندش سے پہلے تنظیم کے پیش رو اصول و ضوابط سے شناسائی کسی حد تک تو چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کے نظم و ضبط کو دیکھ کر ہو سکتی ہے اور کچھ خود حفاظتی کے اجتماعی افادی عمل کے ذریعے۔ لیکن پھر مابعد الطبعیات کو تنظیم سے منسلک کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی رہی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہی سمجھ آتی ہے کہ تب تک توجیہہ و جواز کے ترقی یافتہ سائنسی طرائق وجود میں نہیں آئے تھے اور تمدن میں ٹکنالوجی کا عمل دخل اس حد تک نہیں بڑھا تھا جتنا بیسویں صدی میں۔ کچھ بھی ہو پیغمبر حضرات اگر نظم و ضبط کے اس قدر خوگر تھے اور سماجی برائیوں کو ختم کرنے کی ٹھان لیتے تھے تو تخویف و تحریص کا الوہی سہارا کیوں لیا؟ ایک بات تو طے ہے کہ اس قدر انقلابی اذہان جھوٹ کا سہارا تو کسی طور نہیں لے سکتے تھے ہاں البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اپنے تصور و احساس کی سچائی کے ازحد قائل تھے اور اسے ایمان کی شکل میں پیش کرتے تھے۔ ان کی کہی باتوں کو آج سائنس سے ثابت کرنا آیا عقیدے کی توثیق کا مسئلہ ہے یا کوئی سیاسی سائنسی لائحہ عمل؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“