22 اپریل 2006:
بائیں کندھے سے جڑے پشت کے پٹھوں کا درد اس قدر اذیت ناک ہے کہ چند گھنٹے پشت لگائے بغیر بیٹھ کر کام کرنے سے سانس بند کر دینے کی حد تک ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں۔
ندیم کو ورنی ساژ اور رینک گھمانے کے بعد کام پر دیر سے پہنچ پایا۔ کام تو خیر مکمل کر لیا مگر گھر آ کر کھانے سے فارغ ہو کر لیٹے بغیر چارہ نہیں تھا۔ نینا بغیر بتلائے چلی گئی تھی۔ آج ہفتے کا اخبار پڑھنے اور ٹی وی پر تجزیاتی پروگرام دیکھنے پر اکتفا کیا۔ ساتھ ساتھ نیپل کا ناول "میجک سیڈز" بھی پڑھتا رہا۔
یہ ناول "ڈیٹرمینزم" پر مبنی ہے کہ انسان کی زندگی میں واقعات اپنے طور پر ہوتے رہتے ہیں۔ آدمی نئے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی خاطر ایک خاص وقت چار و ناچار گذارتا ہے پھر وہ انہی حالات کا حصہ بن جاتا ہے اور حالات اس کا۔ ایک وقت یکسانیت کا آتا ہے جس میں آدمی پھر کوئی فیصلہ کر لیتا ہے۔ پھر فیصلہ کرنے اور اس پر عمل درآمد ہونے کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں وہی سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ وجودیت کی بنیاد پر لکھا گیا یہ ناول انتہائی آسان زبان میں ہے۔ اس کے برعکس ژاں پال سارتر کی "ٹرائیولوجی" فلسفیانہ نکات سے بھری پڑی ہے۔
23 اپریل 2006:
علی شاہ کے کمین پنے پر بحث کی خاطر شاہباز، شاہانی اور شاہد کھوکھر کو ایک بجے سہ پہر بلایا تھا۔ شاہباز اور شاہانی تو بروقت پہنچے مگر ملک عقیل نے پاکستانی انداز میں تین بجا دیے۔ بیچ میں شاہباز اور شاہانی نے دو بار جانے کی ٹھانی۔ بہرحال اکٹھے ہوئے تو یہ طے کیا کہ جو کچھ بھی وہ کرتا ہے اسے کرنے دو۔ پھر سوچا گیا کہ کیوں نہ علی شاہ سے بیٹھ کر بات کی جائے۔ شہانی نے اسے ملک عقیل کے گھر مدعو کر لیا۔
میں وقت گذاری کی خاطر کلب چلا گیا۔ آج تو کچھ بولنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ اصل میں میرا وہاں جانے کا قطعی موڈ نہیں تھا۔ کل رات سترہ برس کے ایک آرمینین لڑکے واگان ابرامیان کو کسی سکن ہیڈ نے میترو پوشکنسکایا سٹیشن کے عین بیچ، دل میں چاقو گھونپ کر ہلاک کر دیا۔ قومیت پرست دہشت گردوں نے اپنے گرگوں کو شاید یہ نئی ٹکنیک سجھائی ہے کہ چشم زدن میں دل میں چاقو بھونکو اور رفو چکر ہو جاؤ۔ دو ہفتوں کے دوران اسی طرح کے تین قتل ہو چکے ہیں۔ مارے جانے والوں میں فسطائیت مخالف دو روسی لڑکے بھی شامل ہیں۔ میترو میں جاتے ہوئے مجھے ہر شخص سینے میں چھرا گھونپنے والا لگ رہا تھا۔ میری کیفیت بالکل ویسی تھی جیسی چھ برس پہلے خود پر حملہ ہونے کے بعد ہو گئی تھی۔۔
ان دونوں کو لوکیٹ کرنے پر وقت اور فون کا بیلنس صرف ہوئے۔ شاہانی نے زلزلہ زدگان پاکستانی بچوں کی بہبودی کا کوئی قضیہ چھیڑا۔ ملک کے ہاں، میں نے شاہانی کے منع کرنے کے باوجود بالآخر بات چھیڑ دی۔ علی شاہ کی وہی رٹ تھی کہ تنظیم میرا بچہ ہے۔ میں نے اپنی پچھاڑی سے اسے پیدا کیا ہے اور میں اس کی حفاظت کروں گا۔ آخر میں مجھ سے رہا نہ گیا اور کہہ ہی دیا کہ شاہ جی پھر اپنا بچہ رکھیں اپنی "کوچھڑ" میں۔
24 اپریل 2006:
انٹرنیٹ لگانے والا گیارہ بجے سے پہلے ہی آ گیا۔ میں تب غسل خانے میں تھا۔ خاصی دیر تو اسے سیرور سے رابطہ کرنے میں اچھی بھلی دقت رہی۔ پھر باہر کہیں گیا اور لوٹ کر جلد ہی اس نے انٹرنیٹ چالو کر دیا۔
میں نے آج کا دن انٹرنیٹ پر ہی بتایا۔ گوگل میں جا کر محبت اور سیاسیات، محبت اور نفسیات، محبت اور جنسیات وغیرہ کے موضوعات کھنگالتا رہا۔ کسی ماہر نے محبت کے تین ادوار لکھے ہیں: شناسائی، کشش اور لگاؤ۔ آخری مرحلے سے متعلق اس کا ایک فقرہ بہت بھایا،" کشش ہمیشہ برقرار نہیں رہتی کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو کوئی شخص کوئی بھی اور کام نہ کر سکتا"۔ اسے پڑھ کر بے اختیار ہنسی آئی۔ یہ محبت ایک اسطور ہے جسے تصور نے کھینچ کر حقیقت کی کھپچی پر چڑھادیا ہے۔
شاہبا، مجھے اور شاہانی کو آموں کے کاروبار کے سلسلے میں ملاقات کرنی تھی ۔ نیٹ کی لگن، کمر درد اور نہ چاہنے کی وجوہ کے سبب میرا جانے کو جی بالکل نہیں چاہ رہا تھا۔ خان کا فون آ گیا اور اس نے میری رپورٹ پر تنقید شروع کر دی کہ اس کا اختتام بھی اسی موضوع پر ہونا چاہیے جس سے شروع کی گئی۔ شریف آدمی کو سمجھایا کہ سیاسی ڈائری ہونے کے باعث اس میں کئی خبروں کو علیحدہ علیحدہ موضوع بنانا ہوتا ہے۔ ہاں البتہ اس کی بات سے مجھے خود یہ سمجھ آئی کہ ہر موضوع کو مارک کر دینا چاہیے تاکہ پڑھنے والا غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔
ایک مختصر مضمون انگریزی میں لکھ کر ٹائمز لاہور کو بھی بھیجا۔
25 اپریل 2006:
صبح جلد آنکھ کھل گئی۔ پونے آٹھ بجے بالآخر ساشا کو بیدار کیا کیونکہ اسے اپنی کاہلی کی عادت کے باعث کام پہ جانے میں تاخیر ہو گئی تھی۔ سات بجے صبح معلوم ہوا تھا کہ مصر کی سیاحتی بستی دہاب میں بم پھٹنے کے باعث 22 افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو زخمی ہو گئے ہیں۔ مرنے والوں میں ایک روسی بھی تھا۔
نو بجےلڑکی اٹھی اور کام پر چلی گئی۔ آج میں نے پہلی بار جنگ کا ملٹی میڈیا ایڈیشن پڑھا۔ لغاری سے بات ہو گئی۔ اسے میری تحریریں پسند آ رہی ہیں۔ لغاری اچھا انسان اور اچھا دوست ہے۔ کہہ رہا تھا،"توں میلی رکھ"۔
ریڈیو کی تو بات ہی کیا کرنی۔ وہاں تو وہی ٹھک ٹھک ہی ہوتی ہے۔ آج پہلی بار نتاشا کا موڈ خراب دیکھا۔ آخر انسان ہے، ہمہ وقت مسکرانے سے تو رہی۔ میں نے لینا سے کہا کہ کہیں اس کا یہودی دوست تو اسے نہیں چھوڑ گیا۔ پھر میں نے اسے "گدھی کا غصہ دھوبن پر" کے معانی سمجھائے۔ لینا دل لگا کر کام کرنے والی لڑکی ہے۔ تتلی کی مانند اڑتی پھرتی ہے۔ ہر کام میں دلچسپی رکھتی ہے۔ دوست کوئی نہیں بنایا۔ اپنی ماما کی بچی ہے۔ اس بنتو کا بنے گا کیا؟ لڑکی ذہین ہے اس لیے قاضی یعنی میں اس کے غم میں دبلا ہوں۔ نتاشا پھر مسکرانے لگی تھی اور اعتراف کیا تھا کہ موڈ خراب تھا ورنہ مجھے ناراحت کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
ناستیا ہندوستان کے طول و عرض میں گھوم چکی ہے۔ اس کی کھینچے فوٹو دیکھ کر ہندوستان جانے کو جی چاہا۔
26 اپریل 2006:
ذیشان کو فون کرکے کراچی ارسال کیے جانے کی خاطر رسالے کے لیے مواد یولیا کو دیا تو اس نے بڑے ہی اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا،" وہ آ رہا ہے، خود ہی سکین کر لے گا اور بھجوا دے گا"۔ اگر میرے پاس کام کرنے والی لڑکی شفیق کے ساتھ ایسا سلوک کرتی تو میں اس کے خوب لتے لیتا۔ مگر میں میں ہوں اور شفیق شفیق۔ اب بھلا کون اس بات کو ثابت کرتا پھرے۔
گھر آ کر شکم پری کرنے کے بعد "اسلام اور مسلمان" کا ترجمہ کنے بیٹھا۔ پھر نماز کے لیے نیت باندھی ہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ آواز کسی لڑکی کی تھی، پہچانی نہ گئی لیکن فورا" جان لیا کہ نتالیا ساوینا ہے۔ اپنے انجنیر طلباء کا امتحان لینے کو کہہ رہی تھی۔ میں نے حامی بھر لی۔
انٹرنیٹ کچھ زیادہ ہی سست چلنے لگا ہے۔ کوئی مزہ نہیں آیا۔ ملک عقیل کو فون کیا لیکن اس سے ملاقات کے لیے بھی دیر ہو چکی تھی۔ شاہباز کو میں نے ویسے ہی جمعہ کو ملاقات کرنے کا کہا تھا۔
سٹینلے کوبرک کی فلم "شائننگ" دیکھی۔ فلم بس ٹھیک تھی۔ اس کے آخر میں لگنے لگا تھا جیسے دیکھی تھی پہلے بھی۔
نینا پھر چھتیس گھنٹے کی تھکی ہاری گھر پہنچی۔ کچھ پیے ہوئے تھی ویسے ہی ہنسی پڑ رہی تھی۔ میری خاموشی کو دیکھ کر اعتراض کرنے پر اتر آئی کہ کچھ کھانے کو بنا لیا ہوتا۔ میں نے کہا تمہارا کیا خیال ہے میں سارا دن بیکار بیٹھا رہا ہوں تو چپ ہو گئی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“