اس کا نام ویسے تو کچھ اور تھا مگر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ اس کا نام طغرل تھا۔ یہ طغرل، سلجوق قسم کے ترکی ناموں والے لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے ملک میں نہ تو خود چین آتا ہے اور نہ ہی ان کا اپنا ملک انہیں کوئی ایسا موقع دیتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ خود کی مناسب طریقے سے شناخت کروا سکیں اور نہ ہی انہیں اپنے ملک میں اختیار کی جانے والی وہ روش اپنانا آتی ہے جس کے توسط سے وہ اپنے آپ کو منوا سکیں۔ پھر دیکھیے یہ اپنے آپ کو منوانا یا اپنی شناخت پیدا کرنا بذات خود ایک ایسا بکھیڑا ہے جسے وہ بیچارہ طغرل تو کیا آپ، میں اور ہم جیسے بہت سے لوگ نہیں سمجھ پاتے مگر سب کے سب اس بکھیڑے میں ایسے شامل ہوئے ہوتے ہیں جیسے ان کی زندگیوں کا یہی ایک مقصد ہو، دلچسپ بات یہ ہے کہ مانتے بھی نہیں کہ وہ اپنا مقام بنانے، اپنی شناخت کروانے یا اپنے آپ کو منوانے کی کوششیں کر رہے ہیں بلکہ یہی کہتے ہیں کہ بس روزی روٹی کمانے اور بچوں کو پالنے پڑھانے کا مسئلہ ہے جس کے لیے کولہو کے بیل کی طرح جتے ہوئے ہیں۔
مگر طغرل کو نہ تو روزی روٹی کمانے کا چسکہ تھا اور نہ بچوں کو پالنے پڑھانے کے کسی تردد سے اس کا واسطہ تھا۔ یہ دونوں بلکہ چاروں کام بتدریج اس کی بیوی نے سنبھال لیے تھے۔ ارے ہاں یاد آیا اس کی ایک بیوی اور دو بچے بھی تھے۔ بیوی بیوی کیسے بنی، بچوں کی پیدائش اور ان کے اس خاص عمر تک پہنچنے تک آپس کے تعلقات کیسے تھے اور بچوں کی پرورش و پرداخت کی جانب ان کا رویہ کیسا تھا۔ معاشرے والے انہیں کیسا جانتے تھے وغیر وغیرہ اس کے بارے میں کھوج لگانے کی ہمیں ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں طغرل سے غرض ہے البتہ اتنا بتانا کافی ہوگا کہ طغرل بیوی سے اور بیوی طغرل سے نہ صرف اکتا چکے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے بیزار ہو چکے تھے۔ توتکار روز کا معمول بن چکا تھا۔ اہلیہ محترمہ منہ پھاڑ کر کئی بار فارغ خطی کا مطالبہ کر چکی تھیں۔ باوجود اس کے کہ طغرل دنیا کی ریت رواج کو نہ ماننے کا دعویدار تھا, اصل میں خاصی حد تک روایتی شخص تھا اس لیے جان چھڑانے کی شدید خواہش رکھتے ہوئے بھی اپنی بیوی کو طلاق دینے سے ڈرتا تھا۔ سوچتا تھا کہ علیحدگی کا بچوں پر کیا اثر پڑے گا مگر یہ بھول جاتا تھا کہ بچوں پر تو روز روز کے جھگڑوں کا بھی اثر ہو رہا ہے۔
کشیدہ ازدواجی حالات کے دور میں بیرون ملک سے آیا ہوا ایک دوست ملنے آ پہنچا۔ اسے ان کے ہاں چند روز قیام کرنا تھا۔ اس کے قیام کے دوران بھی طغرل اور اس کی بیوی کے درمیان چند بار جھگڑے ہوئے تھے۔ دوست نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ ایک دوماہ کے لیے اس کے پاس بیرون ملک چلا آئے۔ اس طرح ایک تو اس کے ذہن کو سکون ملے گا دوسرے ممکن ہے محترمہ بھی اس کی غیر موجودگی میں اپنے رویے درست کرنے بارے سوچنے لگے۔
بات اس کے دل کو لگی تھی۔ اس نے بیوی سے اس ارادے کا ذکر کیا تھا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ بیوی نے بھی سوچا ہوگا آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل. اس نے فورا" اس کے ارادے کو قبولیت بخش دی تھی۔ پیسہ ٹکا تھا نہیں۔ جھگڑوں کی بنیادی وجہ ہی یہ کاغذ کے ٹکڑے ہوتے ہیں، جن کے بغیر نہ کوئی سہولت میسر آ سکتی ہے اور نہ اپنے مقاصد پورے کیے جا سکتے ہیں۔ اتنے پیسے ضرور تھے کہ ویزا لگوا لیا جاتا۔ ان زمانوں میں اس ملک کا ویزا لگنا کوئی اتنا مشکل نہیں تھا۔ دوست نے جا کر اپنی غیر ملکی بیوی کی طرف سے دعوت نامہ بھجوا دیا تھا اور فیس کی ادائگی کیے جانے کے بعد ویزا آرام سے لگ گیا تھا۔
دیکھیں جب اللہ معاملات کو خود نمٹانا چاہتا ہے تو وسائل بھی خود ہی پیدا کر دیتا ہے۔ طغرل کی اپنے ایک بھتیجے سے جو اس کا دوست بھی تھا, دس سال سے کسی مسئلے پر الجھاؤ پیدا ہونے کے سبب بول چال نہیں تھی۔ جن دنوں ویزا لگوایا تھا ان ہی دنوں میں طغرل کے ایک بھانجے کی شادی تھی۔ اس شادی کے موقع پر اس کا بھتیجا بھی پہنچا ہوا تھا۔ جس طرح ناراضی ہوئی تھی اسی طرح صلح بھی ہو گئی۔
چلیے بھتیجے کا نام عاصم رکھ لیتے ہیں۔ دس برسوں کی بچی کھچی باتیں تھیں سو وہ کرتے رہے۔ جب طغرل نے اسے باہر جانے کے بارے میں بتایا تو یہ بتاتے بتاتے رہ گیا کہ زاد راہ تو ہے ہی نہیں۔ عاصم بنیادی طور پر کاروباری شخص تھا، طغرل کی ایک لمحے کو زبان کیا اٹکی کہ وہ تاڑ گیا معاملہ کیا ہے چنانچہ جھٹ سے بولا،" چنتا نہ کر چاچا سب بندوبست ہو جائے گا۔ جب جانا چاہو تو میرے پاس پہنچ جانا۔ فلائٹ تو وہیں سے جاتی ہے ناں"۔ تو کام بن گیا۔
دوہفتے بعد ہی طغرل اس شہر پہنچ گیا جہاں عاصم کا کاروبار تھا۔ چند روز بعد ٹکٹ خرید لیا گیا۔ عاصم نے چاچا کی خوب آؤ بھگت کی۔ ویسے بھی اس شہر میں طغرل کے جاننے والے چند دوست بستے تھے جن کا لکھنے پڑھنے کے ساتھ واسطہ تھا چنانچہ جتنے روز اس شہر میں قیام رہا اس کا وقت اچھا کٹا۔ اسے گھر کی تلخی بھول گئی۔
عاصم نے اسے سمجھایا،" یار چاچا ایسے ملک جا رہے ہو جہاں کاروبار کرنے کے بہت مواقع ہیں۔ تم جا تو رہے ہو سیر ویر کرنے کی خاطر لیکن اگر لگے ہاتھوں کاروبار کے مواقع کا بھی مشاہدہ کر لو گے تو ممکن ہے کہ میں ہاتھ بٹا دوں اور تم کاروبار کرنے لگ جاؤ۔ پھر آنا جانا کوئی مسئلہ نہیں رہے گا، دنیا بھی دیکھتے رہنا اور پیسے بھی کماتے رہنا۔ میری تو یہ بس تجویز سمجھو، باقی تم سیانے ہو۔"
طغرل نے کبھی کاروبار نہیں کیا تھا۔ وہ ایک سرکاری محکمے میں درمیانے درجے کا ملازم تھا۔ لگی بندھی مناسب تنخواہ مل جایا کرتی تھی اور وہ قانع تھا۔ مگر اس کی بیوی قانع نہیں تھی۔ پھر بچے بھی بڑے ہو رہے تھے۔ سکول کی ابتدائی جماعتوں میں تھے۔ اخراجات نے بڑھنا ہی تھا بلکہ روز بروز بڑھ رہے تھے۔ اسے اس بارے میں کوئی خاص علم نہیں تھا۔ ایسی باتیں تو بس اس کی بیوی اسے بتایا کرتی تھی۔ وہ چپ رہتا تھا کیونکہ اول تو جس دفتر میں وہ کام کرتا تھا وہاں اضافی آمدنی کے امکانات نہیں تھے اور ہوتے بھی تو باوجود اس کے کہ وہ کوئی خاص مذہبی شخص نہیں تھا، بدعنوانی یا رشوت ستانی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ گھریلو تلخیوں کی اساس یہی ضروریات کا پورا نہ ہونا اور مستقبل کا غیر محفوظ ہونا تھی، اس بات کو تو ظاہر ہے کہ وہ سمجھتا تھا۔ اس لیے اسے عاصم کی بات اچھی لگی تھی۔ اس نے فورا" حامی بھر لی تھی کہ وہ اس ملک میں جا کر امکانات کا مطالعہ ضرور کرے گا۔ عاصم نے مسکرانے پر اکتفا کیا تھا۔
جس ملک میں وہ جانے والا تھا وہ کوئی عام ملک نہیں تھا جیسے امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات ہیں جہاں کاروبار کے لگے بندھے اصول ہیں بلکہ یہ وہ جسے کہتے ہیں "وکھری ٹیپ" کا ملک تھا۔ یہ نہ تو مغربی ملک تھا اور نہ ہی مشرقی۔ یہ اتنا مغربی تھا جتنا مشرق کے باسی اسے سمجھ سکتے تھے اور اتنا ہی غیر مغربی تھا جتنا اہالیان مغرب کو وہ لگ سکتا تھا۔ مشرقیت تو نام کو نہیں تھی لیکن مشرق سے اس کا تعلق ضرور گہرا تھا۔ آپ سوچتے ہونگے کہ بھئی ملک کا نام بتانے میں کیا حرج ہے، بتا دو تو پڑھنے والے خود ہی طے کر لیں گے کہ یہ کیسا ملک ہے۔ نہیں جناب ایسا نہیں ہے جب تک کوئی اس ملک میں پہنچ کر تب تک نہ رہے جب تک اس کے گھٹنوں میں درد ہونے لگے تو وہ نہیں جان سکتا کہ یہ کیسا ملک ہے۔ اس لیے بغیر نام کے ہی گذارا کیجیے۔
لوگ عموما" غیر ملک کے سفر پر، وہ بھی اگر پہلا سفر ہو، جاتے ہوئے خوش ہوتے ہیں۔ طغرل کا یہ پہلا نہیں بلکہ دوسرا بیرون ملک سفر تھا۔ وہ دس برس پیشتر کام ملنے پر ایک ہمسایہ ملک گیا تھا مگر پہلی مدت ملازمت ختم ہوتے ہی وطن لوٹ آیا تھا۔ اگر چاہتا تو مدت ملازمت میں توسیع کروا سکتا تھا مگر اسے اس ملک میں سیاسی گھٹن اچھی نہیں لگتی تھی اس لیے وہاں سے جلد از جلد بھاگ کر وطن عزیز لوٹ جانے بارے سوچتا رہتا تھا۔
بالآخر وہاں سے وطن روانہ ہونے سے دو روز پہلے جب وہ بیوی بچوں کے ساتھ ایک ہوٹل میں مقیم تھا اسے خیال آیا تھا کہ اچھے بھلے مشاہرے والی ملازمت چھوڑ کر جا رہا ہے، شاید غلط کر رہا ہے۔ بیوی سے جب اس کا ذکر کیا تو اس نے تنک کر کہا تھا،" تم نے کبھی کسی کی سنی بھی ہے۔ اپنی مرضی کرتے ہو۔ واپس جا کر آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوگا تو ہوش ٹھکانے آ جائیں گے"۔
طغرل بہانہ بنا کر ہوٹل سےنکلا تھا اور سیدھا اس محکمے کے صدر دفتر گیا تھا جس سے اس نے استعفٰی دیا تھا۔ اس نے پھر سے ملازمت پر لیے جانے کی زبانی درخواست کی تھی۔ متعلقہ اہلکار نے انکار نہیں کیا تھا بس اتنا کہا تھا،" ہماری پالیسی تبدیل ہو چکی ہے۔ اب آپ کو پیشہ ورانہ امتحان دینا ہوگا" یہ کہتے ہوئے ساڑھے تین سو نظری سوالوں پر مشتمل کاغذوں کا ایک پلندہ اسے تھما دیا تھا اور بولا تھا کہ چاہیں تو ساتھ والے خالی کمرے میں بیٹھ کر جواب لکھ لیں۔
وہ جانتا تھا کہ عملی طور پر تو وہ اپنے پیشے میں طاق ہے مگر علم حاصل کرنے کے ایک عرصے بعد نظری معلومات اتنی تازہ نہیں رہیں جتنی ایسا امتحان دینے کے لیے عموما" درکار ہوتی ہیں۔ قصہ مختصر وہ اس امتحان میں ناکام رہا تھا۔ خاصی دیر بعد لوٹا تھا اس لیے بیوی نے لامحالہ پوچھنا ہی تھا کہ میاں اتنی دیر کہاں لگائی؟ خجل سا ہو کر سچ بتا دیا تھا۔ سچ بولنا اس کی بیماری تھی اور وہ جانتا تھا کہ یہ بیماری تڑپاتی رہتی ہے پر جان نہیں لیتی۔ بیوی کچھ نہیں بولی تھی بس یونہی بلاوجہ بچے پر برس پڑی تھی۔ بچے بیچارے نے رونا شروع کر دیا تھا۔ اس نے اسی میں عافیت جانی تھی کہ چپ سادھے رہے۔ دو روز بعد وہ جس طیارہ میں سوار ہوئے تھے فضا میں بلند ہو گیا تھا۔
طغرل خوش نہیں تھا۔ وہ بیوی بچے، رشتے دار، زبان، ثقافت، شور، گرد، مکھیاں، غلاظت، چھپکلیاں، بقر عید اور اس کے کئی روز بعد تک گلیوں میں پڑی جانوروں کی اپھنی ہوئی، بو دیتی اوجھڑیاں انتڑیاں، بدرووں میں بہتا ہوا انسانوں کا فضلہ، موتیا کے پھول، چنبیلی کی کلیوں کی خوشبو، کوئل کی کوک، فاختاؤں کی گھگو گو، کھلتے گلاب اور ایسی لڑکیاں پیچھے چھوڑے جا رہا تھا جن کے ڈھیلے کپڑوں میں سے ان کے بدن کی کوئی ڈھلان اور کوئی بلندی نمایاں ہونے سے قاصر رہتی ہے، مگر پھر بھی پیاری لگتی ہیں۔ اسے معلوم تھا کہ وہ مسافر نہیں مفرور ہے۔ اس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ انسانوں کی بھلائی کے جس مقصد کو پانے کی خاطر صرف کیا تھا وہ تصور بھک سے اڑ گیا تھا۔ اس مقصد کی خاطر تگ و دو کرتے ہوئے وہ نہ تو دین کے بارے میں کچھ سوچ سکا تھا اور نہ ہی دنیا کے بارے میں کچھ خیال کر پایا تھا۔ اس کا مقصد اب اس کے لیے طعنہ بن کر رہ گیا تھا۔ سب سے زیادہ طعنوں کے نشتر اس کی بیوی چبھویا کرتی تھی۔ چبھوتی بھی کیوں نہ۔ وہ اس کے مقصد سے بہت زیادہ اتفاق نہ کرتے ہوئے بھی اس کے بیسیوں ساتھیوں کے لیے کھانا پکاتی تھی اور کوشش کرتی تھی کہ ان سب کو ان کے ہاں گھر کا سا سکون ملے۔ مگر جی بھر کر چگنے والے وہ سب پنچھی اپنے اپنے گھونسلوں میں جا چھپے تھے شاید، کچھ بھی تو باقی نہیں رہا تھا۔
" نہیں، نہیں! میں تو استراحت کرنے کی خاطر عازم سفر ہو رہا ہوں۔ دو ایک ماہ بعد واپس آ جاؤں گا" وہ خود کو تسلی دیتا تھا مگر اسے لگتا تھا جیسے خود سے جھوٹ بول رہا ہے۔ اسے ایسا کیوں لگتا تھا؟ اسے اس کی وجہ خود بھی معلوم نہیں تھی۔ شاید مایوسی تھی، اضطراب تھا، بے یقینی تھی یا یونہی بس کچھ بھی نہیں تھا, خواہ مخواہ کی سوچ تھی۔
بالآخر اس نے خود کو ملک کے سب سے بڑے شہر کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے لاؤنج میں بیٹھا ہوا پایا تھا۔ اس کے سامنے ایک غیر ملکی جوان لڑکی بیٹھی تھی جس کے ہمراہ ایک ملیح شکل والا مسکراتا ہوا نوجوان تھا۔ کیونکہ وہ اس گیٹ کے سامنے بیٹھا تھا جہاں سے اسے طیارے میں داخل ہونا تھا چنانچہ ظاہر تھا کہ لڑکی اسی ملک سے تھی، اس نے سوچا تھا۔ نوجوان البتہ مقامی تھا۔ اس نے مناسب جانا تھا کہ ان سے راہ و رسم پیدا کر لے۔
"السلام علیکم! کیا آپ وہاں جا رہے ہیں" طغرل نے اس شہر کا نام لے کر پوچھا تھا جو انگریزی حروف میں اس کے بورڈنگ کارڈ پر درج تھا۔
"جی!" نوجوان نے حسب عادت مسکراتے ہوئے مختصر جواب دیا تھا۔
" میں بھی وہیں جا رہا ہوں، آپ کا نام کیا ہے؟ مجھے طغرل کہتے ہیں" اس بار اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
" جی مجھے خرم کہتے ہیں" نوجوان نے بتایا تھا۔
اسے لگا تھا کہ یہ نوجوان اس کے ایک شناسا شخص کا فرزند ہے جو تعلیم کے سلسلے میں اس ملک میں تھا۔ استفسار پر نوجوان نے اثبات میں جواب دیا تھا۔
اس کی ساتھی لڑکی مسلسل منہ چلا رہی تھی۔ طغرل نے بے تکلف ہونے کی خاطر بڑے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا تھا، "بھئی تمہاری دوست کھاتی بہت ہے" نوجوان تھوڑا سا ہنسا تھا، جب اس کی ساتھی لڑکی نے اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تھا تو اس نے اسی طرح مسکراتے ہوئے اپنی زبان میں کچھ کہا تھا، لڑکی کا منہ بن گیا تھا اور اس نے طغرل کی جانب خشمگیں نگاہوں سے دیکھا تھا۔ طغرل کو لگا تھا کہ شاید کچھ غلط ہو گیا ہے۔ لڑکی نے کھانے والی چیزوں کے پیکٹ سمیٹ کر اپنے بیگ میں بھر لیے تھے۔ خرم اٹھ کر شاید باتھ روم کی جانب چل پڑا تھا۔ طغرل نے بھی خرم کے جاتے ہی وہاں سے اٹھ جانا بہتر سمجھا تھا۔ کہیں بہت عرصے بعد جا کر طغرل کو معلوم ہوا تھا کہ جو کچھ لڑکی کے بارے میں اس نے کہا تھا وہ اس کی اس ملک کے حوالے سے پہلی "ثقافتی غلطی" تھی۔ کم از کم کسی خاتون کو اس کے سامنے "موٹی" یا "پیٹو یعنی بسیار خور" نہیں کہنا چاہیے چاہے موصوفہ میں یہ دونوں صفات کیوں نہ ہوں۔ اس نے بعد میں اس ملک جانے والے سبھی لوگوں کی طرح بہت سی غلطیاں اور بھی کی تھیں۔
اس سے پہلے کہ طیارے میں داخل ہوں اور اس کی گہما گہمی اور سفر سے متعلق روداد شروع ہو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس ملک کے ساتھ طغرل کا انسلاک کیا فقط وہاں سے آئے ہوئے دوست کی ترحم آمیز دعوت تک محدود تھا یا اس کی کوئی اور جہت بھی تھی۔ یہ بتانا اس لیے مناسب ہے کیونکہ اس ملک میں چند برس پہلے تک جو سیاسی معاشی نظام رائج تھا اسے طغرل اور اس ملک سے دور دوسرے ملکوں میں بسنے والے بہت سے اس جیسے لوگ بنی نوع انسان کے لیے مثالی نظام تصور کیا کرتے تھے۔ اس ملک کے دوسرے ملکوں میں موجود اپنی ہمدرد سیاسی جماعتوں کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ روابط تھے جسے ان پارٹیوں کی قیادت کھلم کھلا جھٹلایا کرتی تھی۔ ویسے بھی طغرل کے وطن میں ان ہارٹیوں کی بنت چند بوڑھوں اور چند چالاک ادھیڑ عمر لوگوں پر مشتمل قیادت اور چند درجن جوان پیروکاروں پر مبنی ہوتی تھی۔
ایسے ٹولے کئی تھے، جن سب میں مذہب کی نفی، شعور کی معراج تصور کی جاتی تھی۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی مذہب کے ملا، پروہت، پادری، ربی وغیرہ حاکموں کی مدد کرنے کی خاطر مذہب کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے مگر عوام کی اکثریت جو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہوتی ہے مذہب سے جذباتی وابستگی رکھتی ہے۔ کہیں بھی اور کبھی بھی ساری قوم، ملک میں بسنے والے سارے لوگوں اور مستزاد یہ کہ ساری دنیا کو جذبات سے عاری نہیں کیا جا سکتا یعنی سبھوں کو عقل کی بنیاد پر سوچنے کی جانب راغب کیا جانا ممکن نہیں۔ پھر یہ لوگ جو خود محبت کے جذبے سے انکاری نہیں تھے نجانے کیوں کروڑوں جذباتی لوگوں کی لگن کو سمجھنے سے قاصر تھے۔
یہی وجہ تھی کہ ایسی پارٹیاں ایسے ملکوں کے لوگوں میں جہاں مذہب بہت اہم ہو کبھی جگہ نہیں بنا پائیں بالخصوص وحدانیت پر یقین رکھنے والے لوگوں کے ملکوں میں۔ کثیر الالوہی معاشروں میں ایسی پارٹیوں نے نہ صرف لوگوں کے دل جیتے بلکہ ان ملکوں میں حکومتیں بھی بنائیں۔ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ روس، مشرقی یورپ کے دوسرے ملکوں اور کیوبا میں تو عیسائیت تھی جو اگرچہ تثلیث کو مانتی ہے لیکن اسے کثیرالالوہی مذہب نہیں کہا جا سکتا تو وہاں یہ پارٹیاں کیسے کامیاب ہوئی تھیں؟
یہ ایک لمبی بحث ہے بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ جس طرح ایران میں بادشاہت کے خلاف سب سے زیادہ جدوجہد وہاں کی "حزب تودہ" یعنی ایران کی کمیونسٹ پارٹی نے کی تھی مگر انقلاب لانا آیت اللہ حضرات کے نام لگ گیا تھا اسی طرح روس میں بادشاہت کے خلاف سب سے پہلے سرکشی کلیسا نے کی تھی مگر اس ابتری سے بائیں بازو کی مختلف پارٹیوں نے فائدہ اٹھایا تھا، انقلاب لانے کا سہرا بالشویکوں کے سر رہا تھا۔ مشرقی یورپ کے ملکوں میں تو کمیونسٹ انقلاب ویسے ہی لائے گئے تھے جیسے آج سرمایہ داری نظام کئی ملکوں میں "رنگین انقلابات" یا مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کے ملکوں میں"بہار عرب" برپا کرتا ہے۔ کیوبا کی بات تو رہنے ہی دیں۔
ہم تو طغرل کے پیچھے ہیں تو جناب طغرل اگرچہ ان ٹولوں میں سے ہی ایک ٹولے میں شامل تھے جس میں اس نے بہت بعد میں جا کر کہیں چھتیس سینتیس برس کی عمر میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ بھی اس لیے کہ ملک کے دفاع سے متعلق شعبے کی خفیہ ایجنسی طغرل کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی تھی۔ وہ اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتا تھا چنانچہ اس نے عجلت میں اپنے تئیں ذلت کے مارے لوگوں کے لیے کام کرنے کو "ثواب" جان کر ایسے ہی ایک ٹولے کے اپنی جانب بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لیا تھا۔
اس ٹولے میں ایک دو بار سرسری طور پر اسے اس ملک کے دورے پر بھیجے جانے کا اشارہ بھی ہوا مگر وہ تو علائے کلمۃ الحق پر یقین رکھتا تھا اس لیے اس نے قبل اس کے کہ اسے رسمی طور پر دورے پر جانے کی دعوت دی جاتی منہ پھاڑ کر کہہ دیا تھا کہ ،" میں تو کبھی ایسے دورے پر نہ جاؤں جس میں اسے وہاں کی حکومت اپنی مرضی سے وہ کچھ دکھائے جو وہ دکھانا چاہتی ہو اور وہ اس سب کو نہ دیکھ پائے جو وہ خود دیکھنا چاہتا ہے۔ میں تو اپنے طور پر ہی جا کر وہاں کے حقائق کا مشاہدہ کروں گا"۔ وہ تب اس بات پر یقین نہیں رکھتا تھا کہ بعض اوقات فرشتے کہی بات پر آمین کہہ دیا کرتے ہیں۔
اس کے ساتھیوں میں سے اکثر کی اس ملک کے ساتھ لگن ویسے ہی تھی جیسے مسلمانوں کی کعبہ اور مسجد نبوی سے، عیسائیوں کی یروشلم اور قسطنطنیہ سے اور یہودیوں کی اسرائیل کے ساتھ ہوتی ہے۔ اگر وہ خود کو اس نظریے سے جدا کر سکتا جو تھا ہی جذبات سے عبارت یعنی اس کا آبائی اور پیدائشی مذہب تو وہ کسی ملک یا وہاں رائج نظام یا نظریے سے بھلا ویسی ہی جذباتی وابستگی کیوں کر رکھ سکتا تھا؟
طیارے میں داخل ہوا تو بھی اسے یاد نہیں تھا کہ فرشتوں نے جس بات پر آمین کہی تھی وہ پوری ہونے چلی ہے۔ بہر حال وہ جونہی طیارے میں داخل ہوا تو اسے ایک عجیب چیز دیکھنے کو ملی تھی ۔ اس زمانے میں اس ملک میں بوئنگ اور ایربس استعمال کرنے کا رواج نہیں تھا جو آج عام ہے اسلیے مقامی طور پر ساختہ اپنے مسافر بردار طیارے استعمال کیے جاتے تھے، عجیب یہ تھا کہ طیارے کی چھت میں دو تین مقامات پر سے جیسے پانی کی پھوار پڑ رہی ہو لیکن وہ پانی نہیں تھا خوشبو ملے ذرات تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ طیارے میں داخل ہوتے ہی اس جادوئی منظر کی جانب متوجہ ہوئے تھے ماسوائے ان نوجوانوں کے جو ایسے طیاروں میں سفر کرنے کے عادی تھے۔
ایسے نوجوانوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ یہ سب چھٹیاں گذار کر نہیں بلکہ ان کی اکثریت بالٹی گوشت یعنی کڑاہی اور دیگر پاکستانی پکوانوں سے محظوظ ہونے کی خاطر اس بڑے شہر میں دو تین روز گذارنے کے بعد واپس جا رہی تھی۔ طغرل کو ان کی چلبلی طبیعتوں سے یہ تو پتہ چل گیا تھا کہ وہ سب طالب علم ہیں لیکن یہ کوئی ایک ڈیڑھ ماہ بعد معلوم ہوا تھا کہ وہ سب "پوائزن" کے سوداگر بھی ہیں۔ ارے بھائی زہر کے نہیں پوائزن نام کے فرانسیسی پرفیوم کے۔
طغرل کو پچیس برس گذرنے کے بعد یہ یاد نہیں رہا کہ اس کے برابر کی نشست پر کون بیٹھا تھا؟ اگر کوئی بیٹھی ہوتی تو ضرور یاد رہتا اور کہانی شاید اور طرح کی ہو جاتی یا اگر نہ بھی ہوتی تو اس ہمسفر کا تذکرہ کم از کم ضرور ہوتا۔ یہ البتہ یاد ہے کہ نشست "ایزل" والی تھی یعنی نشستوں کے درمیاں گذرگاہ کے ساتھ ملحق، وہ دن اور آج کا دن موصوف اگر سینکڑوں نہیں تو بیسیوں ہوائی سفر کر چکے ہیں وہ اسی روش کی کسی نشست کا انتخاب کرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ اٹھنے، نکلنے، آنے جانے میں سہولت رہتی ہے۔
بہرحال جب طیارہ ایک خاص بلندی پر پہنچ کر سیدھا ہوا تو میزبان عملہ مشروبات کی ٹرالی لے کر آ گیا تھا۔ طغرل تب تک شراب نوشی سے تائب نہیں ہوا تھا۔ اب تو اللہ معاف کرے وہ ایسا عمل کرنے کا سوچتا تک نہیں ہے بلکہ اس نے اپنے شراب خور دوستوں کو کہہ دیا ہے کہ جب وہ پیے ہوئے ہوں تو اسے فون نہ کریں۔ درست کیا ہے، سوچ کی ایک عمومی لہر اور شعور کی تبدیل شدہ کیفیت میں اٹھنے والی سوچ کی لہر، بھلا کیسے باہم ہو سکتی ہیں۔ شراب پی کر ہر شخص اپنے موقف کو دوسرے پر ٹھونسنے پر تل جاتا ہے۔ یاد آیا ایک بار طغرل اپنے سے عمر میں خاصے کم دوست کے ساتھ بیٹھا شغل کر رہا تھا۔ اس کے شعور کی تبدیل شدہ کیفیت سے برآمد ہوتی سوچ کو وہ دوست بہت دیر تک سہتا رہا تھا پھر بڑے نرم لہجے میں استفسار کیا تھا،" جب آپ پیے ہوئے نہیں ہوتے تو آپ خالصتا" جمہوری رویوں کے حامل ہوتے ہیں مگر پی لینے کے بعد آپ بڑے فیوڈل بن جاتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟"۔ طغرل نے جواب میں کہا تھا،" جب پی لیتا ہوں تو مجھ میں سے میرا باپ برآمد ہوتا ہے" اور قہقہہ بار ہو گیا تھا۔
فضائی میزبان ہر خواہش مند کو حسب فرمائش سرخ یا سفید وائن کا، کوئی دو گھونٹ بھر جرعہ دے رہے تھے۔ طغرل اپنے ہم وطنوں کی طرح سخت مے پینے کا عادی تھا، کلی بھر جرعہ دیکھا تو سوچا کہ منہ ہی گیلا ہوگا اور کیا؟ میزبان دوسری بار انڈیلنے سے انکاری تھے۔ چونکہ طلباء سوداگر پہلے ہی جانتے تھے چنانچہ جب ٹرالی اس کے متوازی اس سے اگلی نشست سے گذرنے لگی تو اس ہی طرح "ایزل" نشست پر بیٹھے ہوئے ایک جرات مند نے ٹرالی کی نچلی سطح سے ریڈ وائن کی ایک بوتل اچک لی تھی۔ اس چیرہ دستی سے میزبان غیرآگاہ رہے تھے۔ نوجوان نے دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس چوری کی شراب سے طغرل کو بھی دو اضافی جرعے نوش جان کرنے کا موقع دیا تھا۔ آج وہ نوجوان بہت بڑا کاروباری شخص ہے اور سنا ہے کہ لوگوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنے میں بھی ویسے ہی ماہر ہے جیسے ٹرالی سے وائن کی بوتل اڑانے کا ماہر ہوا کرتا تھا۔
شراب اتنی مخمور کن تو نہ تھی کہ طغرل میں سے اس کا باپ برآمد ہو جاتا مگر اس کا باپ اس کے اندر بے کل ضرور تھا کیونکہ طغرل کا باپ اور طغرل دونوں ہی مہمان نوازی کا جب تک دو گنا جواب نہ دے لیتے ان کی انا کی تسکین نہیں ہوتی تھی۔ کرنسی طغرل کے پاس تھی نہیں کہ میزبانوں کو لالچ دے کر، بوتل دو بوتل خرید کر مہربان نوجوان اور اس کے ساتھی طالبعلم کی ضیافت کرتا۔ کرنسی نہ ہونے کی وجہ یہ سوچ تھی کہ زرمبادلہ جاتے ہوئے خرید کر لے گا مگر اتفاق سے آخری روز کوئی غیر متوقع تعطیل آ پڑی تھی اس لیے ایرپورٹ سے ٹریولر چیک ہی خرید پایا تھا۔
اسی اضطراب اور بیخ و بن میں اسے کچھ سوجھی تھی۔ اس نے میزبان خاتون کو طلب کرکے ایک کاغذ اور قلم لا دینے کی درخواست کی تھی۔ پھر انگریزی زبان میں اس خاتون کی تعریف میں ایک نظم لکھی تھی۔ نظم لکھنے کے بعد قلم واپس کرنے کے بہانے میزبانوں کے کیبن میں جاکر اس خاتون کو اس کے حسن اور حسن سلوک سے متعلق نظم سنائی تھی- معاوضے میں ایک نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے وائن کی تین بوتلیں پائی تھیں۔ اس ضیافت سے دو طالبعلم مخمور ہو کر انٹا غفیل ہو گئے تھے۔ طغرل نے اپنے اندر اپنے باپ کو تو اس سکون آور دوائی کے زیر اثر سلادیا تھا پر آپ جاگتا رہا تھا۔
طیارہ لینڈ کر گیا تھا۔ طغرل نے آنے سے پہلے اپنے اس دوست کو جس نے اسے اس ملک میں مدعو کیا تھا "ایکسپریس ٹیلیگرام" بھیجا تھا جس میں اپنے آنے کی تاریخ اور وقت بتایا تھا۔ کسٹم اور امیگریشن سے فارغ ہو کر جب وہ باہر نکلا تو دوست کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ اس ملک کا ارتباطی نظام اس قدر خراب تھا کہ فوری تار بھی کوئی دس روز بعد موصول ہوتا تھا۔ دوست بیچارے کو تار ملتا تو وہ پہنچتا۔ کرنسی ندارد، ملک اجنبی، زبان اجنبی، کرے تو کیا کرے؟ اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ ایک بڑی عمر کا شخص اس کی طرف بڑھا تھا جس نے پوچھا تھا،" آپ کو زبان آتی ہے، مجھے ٹیکسی لینی ہے"۔ وہ شخص شاید طیارے میں طالبعلموں کے ساتھ شغل شراب نوشی کے موقع پراس کی فعالیت کو بھانپتا رہا تھا، اسی لیے سمجھا ہوگا کہ کوئی پرانا مسافر ہے۔
" صاحب زبان تو مجھے بھی نہیں آتی، البتہ ٹیکسی لے سکتا ہوں پر میرے پاس مقامی کرنسی نہیں ہے" طغرل بھلا یہ کیوں بتاتا کہ اس کے پاس کوئی بھی کرنسی نہیں۔
" کوئی بات نہیں میرے پاس روبل ہیں" اس شخص نے کہا تھا جو اس ملک میں کام کرنے والی کسی پاکستانی فرم کا اہلکار تھا اور یہاں شاید آتا جاتا رہتا تھا۔
طغرل نے اس شخص سے یہ پوچھ کر کہ کہاں جانا ہے اس سڑک اور جہاں خود جانا تھا اس سڑک کا نام لے کر ٹیکسی والے سے "بات" کی تھی۔ ڈرائیور "دولار، دولار" کی رٹ لگائے ہوئے تھا جبکہ طغرل "روبل، روبل" کی تکرار کر رہا تھا۔ ٹیکسی پر جانے والے لوگ زیادہ نہیں تھے۔ بہت سے مقامی لوگ تو پبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں پر سوار ہو کر جا چکے تھے جو طغرل کی طرح "غیرملکی" تھے ان میں سے اکثر لینے آنے والوں کے ساتھ چلے گئے تھے یا لینے کی خاطر آنے والوں کا انتظار کر رہے تھے چنانچہ ٹیکسی والا بالآخر ایک سو روبل کے عوض لے جانے پر رضامند ہو گیا تھا۔ یہ پچیس برس پہلے کا قصہ ہے، آج ایک ہزار روبل سے کم میں کوئی بات بھی نہیں کرے گا۔ بہرحال جب ٹیکسی اس شخص کی منزل تک پہنچ گئی جہاں اس کا میزبان پہلے ہی کھڑکی سے جھانک رہا تھا تو یہ بھائی صاحب عجلت میں "اچھا خدا حافظ" کہہ کر رخصت ہوا چاہتے تھے کہ طغرل نے یاد دلایا تھا،" ٹیکسی والے کو ایک سو روبل دے دیں"۔ اس نے خجل ہو کر سوری کہتے ہوئے ایک سو روبل کا لینن کی تصویر والا نوٹ ڈرائیور کے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔
قصہ مختصر یہ کہ طغرل کو مقامی زبان میں صرف اس سڑک کا نام آتا تھا جہاں واقع یونیورسٹی کے ہوسٹلوں میں کسی ایک میں اسے جانا تھا تا حتٰی اسے ہوسٹل کا نمبر تک معلوم نہیں تھا۔ اسں نے لفظ "سٹوڈنٹ" کہہ کر سونے کا اشارہ کرکے ٹیکسی ڈرائیور کو سمجھایا تھا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ سمجھ گیا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور پبلک ڈیلنگ والے لوگ ہوتے ہیں، بھانت بھانت کے لوگوں سے ان کا واسطہ پڑتا ہے جن میں طغرل جیسا "لازبان" شخص بھی شامل تھا۔
گذرے زمانوں کی سبھی تعریف کرتے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ یاد ماضی چپکی ہوتی ہے۔ یہ انسانی خاصہ ہے کہ وہ اچھی یادوں کو زیادہ یاد رکھتا ہے اور بری یادوں کو مغز کے کسی نہاں خانے میں دھکیل دیتا ہے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ ہر عہد کی کچھ اچھی باتیں ضرور ہوتی ہیں، کچھ معیشت سے متعلق اور کچھ معاشرت بارے۔ تو اس زمانے میں اس ملک کے لوگوں کی اخلاقیات خاص طور پر غیر ملکیوں کے حوالے سے بہت مثبت ہوتی تھی جو اتنا عرصہ بیت جانے پر نہ صرف ہوا ہو چکی ہے بلکہ معکوس بھی ہو چکی ہے۔ آج ہر جانب غیر ملکی ہیں چاہے ان کی اکثریت وسط ایشیائی ملکوں سے ہی کیوں نہ ہو مگر اب وہ "توارش" یعنی کامریڈ نہیں رہے، اب انہیں "گاستر بائتر" کہا جاتا ہے یہ جرمن لفظ کا روسی لہجہ ہے جس کا مطلب ہے " کاٹنے والے مہمان" یعنی میزبانوں کے حق میں سے چھین کر کھانے والے افراد۔ یہ توہین آمیز اصطلاح قوم پرستی کی غماز تو ہو سکتی ہے لیکن درست ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ دراصل کوئی قوم اپنے تفاخر کے زیر اثر کم آمدنی والے، ضرررساں اور کراہت آمیز کام کرنے سے انکار کر دیتی ہے تو ایسے کام صرف تارکین وطن ہی کرتے ہیں اور وہ بھی کم معاوضے پر۔ اور تو اور دکانداری اور کم مالیت کے کاروبار جیسے دکاندار ہونے کو بھی ایسی قوموں کے افراد اپنے وقار کے منافی خیال کرتے ہیں چنانچہ ان برادر قوموں کے لوگ جو چھوٹے کاروبار کو مناسب کام سمجھتے ہیں جب منڈیوں میں چھا جاتے ہیں تو وہی قوم پرست جو ایسے کام کو بھی برا سمجھتے تھے ان کے خلاف نفرت اگلنے لگتے ہیں۔
بہرحال ٹیکسی ڈرائیور نے کسی ایک ہوسٹل کے سامنے گاڑی روک کر طغرل کا سوٹ کیس نکال کر باہر رکھا تھا، پھر ہاتھ اٹھا کر سلام کیا تھا اور عجیب نامانوس لہجے میں انگریزی زبان کا تھینک یو کہہ کر چلا گیا تھا۔ طغرل ان طلباء پر نظر جمائے کھڑا تھا جو ہوسٹلوں سے نکل کر یونیورسٹی کی جانب گامزن تھے۔ اس لیے کہ شاید کوئی مانوس شکل دکھائی دے جائے جس سے وہ اپنے میزبان حسام کے بارے میں جان سکے کہ وہ کونسے ہوسٹل کے کس کمرے میں مقیم ہے۔ بیشتر لڑکے لڑکیاں افریقی یا لاطینی امریکی تھے البتہ کچھ گورے بھی تھے۔ ویسے تو "گورے" کی یہ اصطلاح ان ملکوں کی ہے جہاں انگریز یا ان کے رشتے دار یعنی نوآباکاروں کی اولادیں بستی ہیں جن کی آج بھی سابقہ نوآبادیات سے آنے والے لوگوں کے ساتھ مغائرت ہے مگر تب طغرل کے ذہن میں یہی سنی پڑھی اصطلاح آئی تھی۔ ایک عرصہ قیام کے بعد اسے معلوم ہو سکا تھا کہ نہ تو وہ گورے ہیں اور نہ باہر سے آنے والے سانولے یا سیاہ انسانوں سے دوری رکھتے تھے البتہ کوئی ناخلف اگر نفرت کا اظہار کرنا چاہے تو رنگدار یا سیاہ سبھی لوگوں کو "چورنے ژوپا" یعنی سیاہ سرینوں والا کہہ کر ان سے اپنی نفرت کا اظہار کر سکتا ہے مگر ایسے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بڑی مشکل سے ایک طویل قامت گوری رنگت کا نوجوان دکھائی دیا تھا جو باقی "گوروں" کی نسبت کچھ اور طرح گورا تھا، طغرل کو لگا تھا کہ ہو نہ ہو وہ پٹھان ہے۔ پھر بھی اس نے انگریزی میں پوچھا تھا کہ آپ کہاں سے ہیں۔ اس نے جب بتایا کہ وہ اسی ملک سے ہے جہاں سے وہ وارد ہوا تھا تو اس کی جان میں جان آئی تھی۔ جب اس نے حسام کے بارے میں پوچھا تو نوجوان نے کہا تھا کہ وہ اسے زیادہ تو نہیں جانتا مگر وہ ان دونوں ہوسٹلوں میں سے کسی ایک میں رہتا ہے شاید۔ معذرت چاہتا ہوں مجھے کلاس میں جانا ہے مجھے دیر ہو رہی ہے، یہ کہہ کر وہ چلا گیا تھا۔
طغرل سوٹ کیس اٹھا کر ہوسٹل میں داخل ہوا تھا۔ ایک کیبن میں مقامی نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ طغرل نے اسے ستودنت (اب اسے معلوم ہو گیا تھا کہ حرف ٹ نہیں چلے گا) اور ملک کا نام لے کر پوچھا تھا۔ اس نے جھٹ سے ایک رجسٹر کھولا تھا اور ایک جانب اوپر سے نیچے انگلی پھیرنا شروع کی تھی۔ ایک مقام پر انگلی ٹکا کر اس نے کہا تھا "آصف" اور اسی ملک کا نام لیا تھا جو طغرل کے منہ سے سنا تھا۔ اب مسئلہ پیدا ہو گیا تھا کہ چوکیدار یا دربان جو کچھ بھی یہ نوجوان تھا اس تک اپنی بات کیسے پہنچائی جائے۔ شکر یہ ہوا کہ ایک افریقی طالبعلم سامنے آ گیا۔ اس کے توسط سے طغرل نے مقامی نوجوان سے درخواست کی کہ اس کا سوٹ کیس کیبن میں رکھنے دے تاکہ وہ آصف کو مل کر آ سکے۔ اس نے بات مان لی تھی، کمرے کا نمبر بتایا تھا اور افریقی طالبعلم نے سمجھا دیا تھا کہ تیسرے فلور پر دائیں جانب مڑ کر راہدری کے کسی ایک جانب اس نمبر کا کمرہ ہوگا۔
طغرل نے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ اندر سے مقامی زبان میں ہی کسی نے کچھ کہا تھا جس کا مطلب اس نے یہی لیا تھا کہ اندر آ جاؤ۔ آصف صاحب ادھیڑ عمر کے بے حد نستعلیق شخص تھے۔ جب طغرل نے انہیں اپنی آمد اور حسام کی تلاش بارے بتایا تو انہوں نے سب سے پہلے تو اپنا شیو کا سامان پیش کیا تھا کہ جائیں شیو بنا لیں، ہاتھ منہ دھولیں۔ چائے پیتے ہیں تو پھر حسام کی تلاش پر نکلتے ہیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ ہوسٹل میں نہیں بلکہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ کسی کرائے کے اپارٹمنٹ میں کہیں مقیم ہے۔ خیر چائے پینے کے بعد وہ دونوں حسام کی تلاش کے لیے نکلے تھے۔ آصف صاحب کا ارادہ تھا کہ یونیورسٹی جا کر طالبعلموں سے معلوم کرتے ہیں۔ ابھی ہوسٹل سے زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ طغرل کو عقب سے ایک لڑکی کو دیکھ کر گمان ہوا تھا کہ یہ نتاشا ہے۔ جی ہاں نتاشا حسام کی اہلیہ تھی جو تب اس کے ہمراہ طغرل کے ہاں آئی تھی جب حسام نے طغرل کو استراحت کی خاطر اس ملک میں آنے کی دعوت دی تھی۔ طغرل نے زور سے پکارا تھا "نتاشا!" لڑکی مڑی تھی اور دوڑتی ہوئی آ کے طغرل کے گلے لگ گئی تھی۔ یہ وہی تھی ، یہ اور بات کہ بعد میں طغرل کو معلوم ہوا تھا کہ یہاں تو ہر چھٹی لڑکی کا نام نتاشا ہے، ہر دوسری کا لینا، ہر تیسری کا آنیا اور ہر چوتھی کا تانیا۔ ہر پہلی اور پانچویں کے نام مختلف ہو سکتے تھے۔
اب یہ تینوں مل کر اس ہوسٹل کے آٹھویں فلور پر پہنچے تھے جس کے ایک کمرے میں حسام نتاشا کو کام پر جانے کے لیے رخصت کرکے پھر سے سویا تھا۔ جب نتاشا نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور بتایا تھا کہ وہ لوٹ آئی ہے تو اس کے شوہر نے چہرے پر انتہائی ناگوار تاثرات لیے ہوئے دروازہ کھولا تھا مگر طغرل کو دیکھ کر مارے حیرت اور خوشی کے اسے گلے لگاتے ہی ایک منٹ کہہ کر یہ جا وہ جا، کہیں چلا گیا تھا۔ یہ تینوں کمرے میں داخل ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ حسام کہیں سے شیمپین کی بوتل لے آیا تھا۔ وہ طغرل کی آمد کی خوشی منانا چاہتا تھا۔ گلاس رکھے گئے تھے۔ جونہی اس نے بوتل کھولی تو اس کا مواد ابل کر تقریبا" پورے کا پورا بیچارے آصف صاحب کو چہرے سے گھٹنوں تک گیلا کر چکا تھا۔ حسام اور نتاشا دونوں ان کو صاف کرنے میں جت گئے تھے۔ مگر آصف صاحب جیسے بیٹھے تھے ویسے ہی بیٹھے رہے تھے اور بولے تھے" بھئی جو بچا ہے وہ کم از کم اپنے مہمان کے لیے تو انڈیل دیں"۔
( جو نئے دوست میرا ناول " مثل برگ آوارہ" پڑھ رہے ہیں، ان کے لیے ناول کا پہلا باب پیش کیا جا رہا ہے تاکہ وہ گذشتہ سے پیوستہ کو جان پائیں۔ کوشش ہوگی کہ ہر چند روز بعد تسلسل کے ساتھ ایک آدھ باب اپ لوڈ کر دیا جائے۔)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“