مہمان نوازی کی اس نوع کی روش سے طغرل کا چھوٹا بھانجا مزمل تو خجل تھا ہی طغرل بذات خود زیادہ مضطرب ہوا تھا۔ چھوٹے بھانجے کی جانب سے اس نوع کی مہمان نوازی کی سعی سے نہیں بلکہ یہ جان کر کہ دنیا میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے علم بردار اور قانون کی حکمرانی کے داعی ملک ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر کے عین بیچوں بیچ انسانی جسموں کے ساتھ یوں کھلے عام کھلواڑ ہو رہا تھا۔
میکسیکو اور دوسرے لاطینی امریکی ملکوں سے ملازمت کا دھوکہ دے کر لائی ہوئی ان لڑکیوں کو جو ماسوائے "سی سی" یعنی ہسپانوی زبان میں "جی جی" کہنے کے کسی اور زبان تا حتٰی انگریزی زبان کا لفظ نہیں بول سکتی تھیں ان کو جسم فروشی کے پیشے میں دکھیل دیا گیا تھا۔ طغرل تو وہاں سے بھاگ آیا تھا لیکن کتنے اور لوگ ہونگے جن کی طلب کے سبب انسانی جسموں کا یہ بیوپار چلتا رہتا ہے۔
طغرل کو بیروزگار ہونے سے بہت پریشانی تھی اگرچہ مسعود کہتا رہتا تھا کہ کیا پریشانی ہے جب اللہ چاہے گا تو کوئی کام کرنے لگو گے۔ ایک روز اس نے ہنستے ہوئے طغرل کو بتایا تھا کہ اس کے لیے ایک کام نکلا ہے۔ ہے بہت آسان، نہ ٹیکسی چلانے کا نہ سیون الیون پر کام کرنے کا لیکن تم کروگے نہیں۔ یہ کہہ کر اس نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا تھا۔ طغرل کے استفسار پر بتایا تھا کہ سڑک کی مرمت کے دوران، ٹریفک کو سبز اور سرخ جھنڈیاں دکھانے کا کام ہے۔ نو ڈالر فی گھنٹہ معاوضہ ہے۔ پھر خود ہی یہ کہتے ہوئے کہ جھنڈیاں دکھاتے ہوئے کیسے لگو گے؟ کھی کھی کرکے ایک بار پھر ہنسنا شروع کر دیا تھا۔ "کام ہے اس میں کیسا لگنا اور کیسا نہ لگنا تو کوئی ہنسی کی بات نہیں" مسعود کی بیوی نے کہا تھا لیکن اپنے چچا کی جانب دیکھتے ہوئے خود بھی زیر لب مسکرا رہی تھی۔ طغرل نے با آواز بلند "لاحول" پڑھنے پر اکتفا کیا تھا جس پر مسعود نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کونسا تمہیں یہ کام کرنے کو کہہ رہا ہوں، اصل میں نے ایک آدمی کے ذمے کام ڈھونڈنے کی ذمہ داری لگائی تھی جس نے آج یہ تجویز دی۔
طغرل کو لگا تھا کہ چاہے مسعود اور اس کی بیوی زبان سے نہ کہتے ہوں لیکن یقینا" وہ چاہتے ہونگے کہ طغرل کوئی کام کرنے لگ جائے۔ اس تجویز کے چند روز بعد اس نے مسعود سے کہا تھا کہ وہ اسے اس سیون الیون پر چھوڑ ائے جہاں وہ ٹیکسی چلانے کے دوران کافی پینے جایا کرتا تھا اور جس پر شاہدرہ کا ایک جوان شخص کام کرتا تھا جو امریکہ آنے سے پہلے وکیل تھا۔ مسعود نے حیرت سے پوچھا تھا کہ تم گیس سٹیشن پر کام کرو گے؟ مسعود کو اس لیے حیرے ہوئی تھی کیونکہ جب بیس برس پیشتر مسعود نے امریکہ جانے کی ٹھانی تھی تب اس نے طغرل کو بھی امریکہ جانے پر راغب کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس کا جواب تھا،" میں کتنی خفت محسوس کروں گا جب میں گیس فلنگ سٹیشن پر کام کر رہا ہونگا اور میرا وہ ہم جماعت جو چند سال پہلے امریکہ سدھار چکا تھا اپنی ایس یو وی میں گیس ڈلوانے آئے اور میری اس سے آنکھیں چار ہوں" تب طغرل کو یہ نہیں معلوم تھا کہ امریکہ میں عموما" گاہک اپنی گاڑی میں خود ہی پٹرول بھرتا ہے جبکہ گیس سٹیشن پر کام کرنے والا ملحقہ سٹور کے رجسٹر پر کھڑے ہو کر پیسے وصول کرکے پمپ کا بٹن آن کر دیتا ہے۔ طغرل نے مسعود کے سوال کے جواب میں کہا تھا،" کوشش کرکے دیکھتا ہوں"۔
اگلے روز مسعود طغرل کو اپنے ساتھ لے گیا تھا اور اسے سابق وکیل اور موجودہ سیلز مین کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ چند گھنٹے بعد سابق وکیل نے طغرل سے کہا تھا کہ "بروم" (جھاڑو) پکڑ کر سٹور کے دروازے کے نزدیک گرے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے سمیٹیں اورر ڈسٹ بن میں ڈال دیں۔ طغرل نے زندگی میں کبھی جھاڑو نہیں پکڑی تھی، چاہے ماسکو کا پارٹمنٹ ہی کیوں نہ تھا، اس نے دل کڑا کرکے ایک منٹ سے بھی کم وقت کا یہ کام کر دیا تھا لیکن اسے ایسے لگا تھا جیسے وہ اوپر کی کسی منزل سے دھڑام سے زمین پر آ گرا ہو۔ رات کو کسی وقت طغرل نے سابق وکیل اور موجودہ سیلز میں اور اپنے حالیہ باس سے پوچھا تھا کہ "فریزر میں بوتلیں کیسے رکھتے ہیں؟" اس نے کہا تھا کہ یہ کام آپ نہ کریں میں خود کروں گا پھر وہ ایک دبیز جیکٹ پہن کر فریزر میں داخل ہوا تھا، اس کے ساتھ میں طغرل بھی داخل ہو گیا تھا مگر چند سیکنڈ بعد ہی سردی کے باعث "ہو ہو" کرتا باہر نکل آیا تھا۔ صبح تڑکے جب مسعود کافی پینے وہاں پہنچا تھا تو اس نے طغرل سے پوچھا تھا، "اپنے ساتھی کے ساتھ اس کے ہاں جا کر رہو گے کہ میرے ساتھ گھر جاؤگے؟" طغرل نے کہا تھا،" میں تمہارے ساتھ جاؤں گا"۔ سابق وکیل نے مسعود سے کہا تھا، "آپ انہیں لے ہی جائیں، انہوں نے چند لمحوں کے لیے جھاڑو پکڑی تھی لیکن ان کے چہرے کے تاثرات دیکھنے والے تھے۔ میرے خیال میں یہ ایسا کام نہیں کر سکین گے"۔ یوں طغرل لوٹ آیا تھا۔
طغرل نے سوچا تھا کہ بہتر ہے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا جائے۔ یہاں کی کوئی مناسب ڈگری ہوگی تو کوئی بہتر ملازمت مل سکے گی۔ اس نے مطلوبہ انگریزی کا ٹیسٹ بھی پاس کر لیا اور یونیورسٹی میں داخلے کے لیے وہ اہل بھی قرار دے دیا گیا تھا مگر اس نے پھر سوچا تھا کہ تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی تو رات کو ٹیکسی ہی چلانی پڑے گی چنانچہ اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا ارادہ بھی ترک کر دیا تھا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1442097755816330
“