یوں طغرل کا ریڈیو سٹیشن میں کبھی کبھار آنا جانا ایک بار پھر شروع ہو گیا تھا۔ اس کی غیر حاضری کے دوران ریڈیو کے شعبہ اردو میں لینا نام کی ایک نوجوان لڑکی شامل ہوئی تھیا جس کے بارے میں کہیں بعد میں ایرینا صاحبہ نے بتایا تھا کہ دراصل وہ پہلے سے ہی کام کر رہی تھی مگر طالب علم ہونے کی وجہ سے امتحان کی تیاری کے لیے ریڈیو سے رخصت لی ہوئی تھی۔ امتحان دینے کے بعد اس نے باقاعدگی سے آنا شروع کر دیا تھا۔
لینا دھان پان بلکہ بہت حد تک دبلی پتلی لڑکی تھی جس میں بظاہر کوئی کشش نہیں تھی۔ ذہین تھی۔ کام سے کام رکھتی تھی اور لیے دیے رہتی تھی۔ وہ اس کمرے میں نہیں بیٹھا کرتی تھی جہاں باقی سب اہلکار بیٹھتے تھے بلکہ ایک کمرہ چھوڑ کر اگلے گمرے میں جہاں اردو ہندی شعبہ ادارت کے لوگ بوتے تھے، اسی طرح کے کمرہ امتحان کی میزوں کرسیوں کی طرح لگی نشستوں میں سے ایک دیوار کے ساتھ کی قطار میں آخری سے دوسری نشست پر بیٹھتی تھی۔ طغرل کے پلے یہ بات نہیں پڑی تھی کہ جب اس کمرے میں جہاں سب بیٹھتے ہیں جگہ خالی تھی تو وہ دوسرے کمرے میں کیوں بیٹھتی تھی جبکہ اس کا کام وہی تھا جو باقی سب کرتے تھے یعنی روسی مسودوں کو اردو زبان میں ڈھالنا اور پھر سٹوڈیو میں جا کر نشر کر دینے کا کام۔ اس نے بس اندازہ لگایا تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتی تھی اور تعلق بنانے کے جھمیلوں سے دور رہنا چاہتی تھی۔ خیر یہ لینا کا ذاتی معاملہ تھا۔
طغرل نے یہ سوچتے ہوئے کہ دفتر پہنچنے پر چونکہ وہ اپنے رفقائے کار کو سلام کرتا ہے تو لینا کو بھی سلام کرنا چاہیے، وطیرہ بنا لیا تھا کہ دفتر میں داخل ہونے سے پہلے اس کے کمرے میں جا کر نہ صرف لینا سے ہیلو ہائی کرتا بلکہ اس کے ساتھ مصافحہ بھی کرتا تھا۔
سندھی دوست مختلف خواتین سے تعلق بارے لن ترانیاں کیا کرتے تھے جن میں ایک بار لینا کا تذکرہ بھی آیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ایک اور لینا تھی جو عمر میں بڑی تھی یہی کوئی چونتیس پینتیس برس کی۔ تھی تو وہ کسی اور شعبے سے مگر سگریٹ نوشی کے لیے سیڑھیوں پر آتی تھی، جہاں کھڑا ہو کر کے طغرل بھی دھواں اڑایا کرتا تھا۔ طغرل اس کو سلام کرتا تھا، وہ بڑی بے رخی سے جواب دیا کرتی تھی۔ اس کے اس نوع کے رویے کے بعد طغرل نے بھی راہ و رسم بڑھانے میں دلچسپی لینا چھوڑ دی تھی۔
جب شہانی نے لڑکی لینا کا ذکر کیا تو طغرل نے خاتون لینا کے رویے کے بارے میں بتایا تھا۔ شہانی نے کمال مہربانی سے فرمایا تھا،" جاؤ اسے تیرے لیے چھوڑ دیا" جیسے وہاں کام کرنے والی خواتین ان کی میراث تھیں۔ طغرل ان کی دریا دلی پر مسکرا دیا تھا۔
شاید شہانی کے کمال مہربانی کا اثر تھا یا ان طلب خیز نگاہوں کا جو لینا طغرل سے ہاتھ ملانے پر اس پر ڈالتی تھی کہ ایک روز طغرل نے اسے ہاتھ ملاتے ہوئے "آئی لو یو" کہہ دیا تھا۔ طغرل اور لینا کی عمر میں 27 برس کا فرق تھا اگرچہ طغرل اپنی عمر سے خاصا کم دکھائی دیتا تھا مگر تھا تو بڑا ہی۔ سینیر وینیر کا روس میں ڈرامہ ہے نہیں، اگر ایک ہی طرح کا کام کرتے ہوں تو کیا سینیر کیا جونیر، سبھی ایک ہوتے ہیں۔ دنیا میں مقبول عام ترین یہ فقرہ سن کے لینا نے طغرل کو اچنبھے سے دیکھا تھا، کھسیانی مسکان مسکائی تھی لیکن کچھ کہا نہیں تھا۔
چند روز کے بعد طغرل نے جب ایک بار پھر یہی کہا تو لینا نے دیکھنے میں ہچکچاہٹ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا،" یہ بکواس بات ہے"۔ اگر کوئی پاکستانی لڑکی ہوتی اور لفظ "بکواس" استعمال کرتی تو شاید طغرل بھنا جاتا اور ممکن ہے لڑکی کو کھری کھری سنا بھی دیتا مگر وہ جانتا تھا کہ اردو سیکھنے والے روسی ساتھ ہی ساتھ ہندی بھی سیکھتے ہیں اس لیے وہ بکواس کو بیکار یا لایعنی کے معانی میں بھی استعمال کر لیتے ہیں چنانچہ اس نے لینا سے پوچھا تھا،"کونسی بات بکواس ہے" اس نے کہا تھا کہ "محبت کرنے والی" جس پر طغرل نے برا منائے بغیر محبت پر ایک چھوٹا سے لیکچر دے دیا تھا جس کا خلاصہ کچھ یوں تھا،" عشق کے بارے میں جس سے بھی پوچھو وہ اپنی ہی تعریف کرے گا جبکہ عشق کو سمجھنا بہت آسان ہے جو چار کیفیات پر مشتمل ہوتا ہے پہلی کیفیت جسمانی ضرورت ہے دوسری، دوسری ارتباط باہمی تیسری باہمی افہام و تفہیم اور چوتھی باہمی مفادات، ان کیفیات یا ادورا میں سے کوئی بھی ادھر ادھر ہو جائے تو عشق مکمل نہیں ہو پاتا۔ لفظ محبت انگریزی لفظ Love کا غلط ترجمہ ہے۔ اس کا ترجمہ عشق ہے۔ کسی پر یونہی مر جانے کی سوچ کو انگریزی میں Infatuation کہا جاتا ہے، اس کا ترجمہ اگر محبت کر لیا جائے تو شاید درست ہو۔ پیار تو کسی بھی چیز کے ساتھ ہو سکتا ہے، ماں کے ساتھ، وطن کے ساتھ، بہن کے ساتھ، چھوٹے بچے کے ساتھ، بکری کے پیارے سے بچے کے ساتھ اور کسی حسین پھول کے ساتھ بھی۔ ہاں البتہ جنون ایک اور ہی بالیدہ ترین شکل ہے تعلق کی۔ لینا مجھے تم سے عشق ہے، کوئی عام محبت وہبت نہیں"۔ یہ آخری فقرہ طغرل نے کیوں کہہ دیا تھا اسے خود بھی پتہ نہیں تھا۔ لینا یہ تقریر سن کر جزبز ہو گئی تھی۔
طغرل نے سوچا تھا کہ اسے عشق ہے یا نہیں بہرحال اب کہہ دیا ہے تو کہا نبھانا ہوگا۔ اب وہ اسے "آئی لو یو" نہیں کہتا تھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ دیتا تھا۔ وہ بھی مسکرا دیتی تھی۔ شاید اس کی حرکت کو سہنا سیکھ گئی تھی۔
باوجود اس کے کہ لینا نے ابھی " سپیشلسٹ" ( یہ سند روس میں ہی ہوتی ہے ) ہونے کا امتحان دیا تھا جس میں بعد میں وہ اچھی حیثیت سے کامیاب بھی رہی تھی، اس کی اردو وہاں کام کرنے والی باقی سینیر ترین اہلکار خواتین سے کہیں بہتر تھی۔ اس میں سیکھنے کی لگن تھی۔ چونکہ عملے میں واحد اہل زبان طغرل تھا اس لیے وہ اس سے استفادہ کرتی رہتی تھی۔ دوسری جانب طغرل بھی بعض اوقات روسی زبان سے متعلق اس کی رہنمائی لے لیا کرتا تھا یوں ان دونوں کا ایک دوسرے کے کمرے میں آنا جانا بڑھ گیا تھا۔ طغرل نے ایک دو بار لینا کی اردو استعداد کی تعریف کی تھی جس پر ساٹھ سال پھلانگی ہوئی خواتین نے تو کچھ اتنا برا نہیں منایا تھا البتہ پچاس کے پیٹے میں فربہ خاتون نادیہ کی شکل بن گئی تھی کیونکہ وہ واحد اہلکار تھی جس کا عہدہ باقاعدہ "مترجم" کا تھا باقی سب "پیشکار یعی براڈ کاسٹر تھے مگر انہیں اس لیے ترجمہ کرنا ہوتا تھا کیونکہ سارا ترجمہ نادیہ نہیں کر سکتی تھی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...