سامعین کے خطوط کا معیار وہی ہوتا تھا جو نسبتا" چھوٹے شہروں یا قصبوں میں رہنے والے ان لوگوں کا ہو سکتا ہے جن کی دلچسپی "لسنرز کلب" بنانے سے ہو سکتی ہے۔ ویسے طغرل کو طویل عرصہ ریڈیو کے ساتھ وابستہ رہ کر ایسی کلب سازی اور کلب ساز افراد اور ایسے کلبوں کے اراکین سے متعلق ایک بات جو سمجھ آئی تھی وہ یہ تھی کہ ایسا کیا جانا ان چھوٹے شہروں اور قصبوں کے ان نوجوانوں کا شغل ہوتا ہے جو ادھیڑ عمر کو پہنچ کر بھی اس "شوق" کو برقرار رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ایسے لوگ اپنے نام کو نشر ہوتا سن کر خوش ہوتے ہیں، کہیں اس کا تذکرہ کر سکتے ہیں یا ڈینگ ہانک سکتے ہیں، ویسے ہی جیسے ایک سیاستدان آج کے الیکٹرونک میڈیا کے کسی ٹاک شو میں شامل ہوتا ہو۔
ایسے شوقین نوجوان لوگوں کے خطوں میں کیا ہوتا ہے ماسوائے گلے شکووں، تجاویز، تعریف و شکایت کے، چنانچہ ایسے خطوں کے جواب بھی رسمی سے دیے جاتے ہیں۔ سننے والوں کو معمولی تحائف بھیج دیے جاتے ہیں اور انہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ انہیں اہمیت دی جا رہی ہے۔ اہمیت کا حصول ہر انسان کی آرزو ہوتی ہے۔
یہ تو کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ جس ریڈیو کے ساتھ طغرل وابستہ تھا، اس کے سامعین کو تحائف بھیجنے کی خاطر اردو سیکشن کے عملے کو چندہ دینا ہوتا تھا۔ دو تین ہفتوں کے بعد ہی طغرل ایسے رسمی خطوط لکھنے سے اکتا گیا تھا۔ اس کی توجہ اس جانب تھی کہ وہ خبروں اور تبصروں کے تراجم کر سکے اور تیزی سے کر سکے۔ ایک ماہ بعد اس نے کچھ اغلاط کے ساتھ خاصی سرعت سے تراجم کرنے شروع کر دیے تھے اور ساتھ ہی وہ انہیں سٹوڈیو میں ریکارڈ بھی کروانے لگا تھا۔
اس نے ریڈیو سٹیشن میں جاتے ہی اردو سیکشن کی روسی اہلکار خواتین کو اردو بولنے کی جانب راغب کرنا شروع کر دیا تھا۔ روسی ان کی مادری زبان تھی۔ دوسرا کام اس نے یہ کیا تھا کہ اس سے پہلے خبریں پڑھتے ہوئے کوئی بھی نیوز ریڈر اپنا نام نہیں لیتا تھا، ایسا نہ کرنے کی وجہ کیا تھی کوئی نہ بتلا سکا تھا تاہم اس نے اپنا نام لینا شروع کیا تھا یوں اس کی دیکھا دیکھی خبریں پڑھنے والیوں نے بھی اپنے نام لینے شروع کر دیے تھے۔
طغرل چند سو روبل ماہوار کے مشاہرے پر تقریبا" دو اڑھائی سال کام کرتا رہا تھا لیکن اسے آدھی تنخواہ پر نصف کام کے لیے بھی نہیں رکھا جا رہا تھا۔ اس نے گریگوری سے جب بھی اس بارے میں بات کی اس کے پاس کوئی نہ کوئی بہانہ ہوا کرتا تھا۔ اس اثناء میں ایک اور صاحب جو پہلے یہاں کام کیا کرتے تھے مگر چند سالوں کے لیے وسط ایشیا کی ایک ریاست کے ریڈیو کی اردو سروس سے وابستہ ہو گئے تھے، لوٹ آئے تھے جنہیں آدھی تنخواہ پر آدھے وقت کے لیے لے لیا گیا۔ طغرل پر ریڈیو والوں کی قلعی کھل گئی تھی۔ اس بات پر اس کی ارینا سے کھٹی ہو گئی تھی کیونکہ گریگوری کہنے کو سربراہ تھا پر اردو اور ہندی کے تمام معاملات غیر رسمی طور پر ایرینا کے ہاتھ میں تھے۔
طغرل بد دل ہو گیا تھا۔ اس نے ریڈیو سٹیشن جانا بند کر دیا تھا۔ دو ایک بار ایرینا یا مارگریتا کا فون آنے پر وہ گیا تھا مگر کام میں کوئی دلچسپی نہیں لی تھی۔ بالآخر ایک روز کہہ ہی دیا تھا کہ اسے اس طرح سے اتنے کم معاوضے پر کام کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
طغرل کو ریڈیو سٹیشن چھوڑے ہوئے چند ماہ ہو گئے تھے۔ اس دوران ایک اور صاحب کو جو سندھی تھے مستقل طور پر بطور مترجم و براڈکاسٹر کے کام پر لے لیا گیا تھا۔ اس بارے میں اسے کسی نے بتایا تھا۔
طغرل ایک بار ریڈیو کی عمارت سے کچھ دور واقع تاریخی مسجد میں جمعہ نماز پڑھنے گیا تھا۔ نماز کے بعد مسجد کے احاطے سے باہر نکلتے ہوئے اسے فیصل آباد کا ایک حاضر جواب اور مستعد نوجوان ملا تھا جس سے وہ شناسا تھا۔ سلام دعا کے بعد اس نوجوان نے کہا تھا،"طغرل صاحب، بڑی خوشی ہوئی آپ کو مسجد سے نکلتا دیکھ کر"۔ طغرل نے اس کا نام لے کر کہا تھا،" نماز تو پڑھنے لگا ہوں لیکن لگتا ہے میرا ایمان پختہ نہیں ہے"۔ نوجوان نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا تھا،" طغرل بھائی آپ نماز پڑھتے رہیں۔ جب پیسے آئیں گے تو ایمان بھی آ جائے گا"۔ طغرل اس کی اس بات پر قہقہہ لگا کر ہنسا تھا جس پر وہ بھی ہنسنے لگا تھا۔
مسجد سے لوٹتے ہوئے اس کا دل کیا تھا کہ وہ اپنے ریڈیو کے رفقائے کار کے ساتھ ملتا جائے۔ اس نے نیچے سے مارگریتا کو فون کیا تھا جو تھوڑی دیر میں اس کا انٹری پاس لے کر آ گئی تھیں۔ وہ ان کے ہمراہ اوپر گیا تھا۔ سب مل کر خوش ہوئے تھے۔ سندھی صاحب سے جو جثہ والے اور بلند آواز سے گفتگو کرتے ہوئے شخص تھے، سے تعارف کرایا گیا تھا جن کا نام علیم شہانی تھا۔ انہوں نے کینٹین میں چل کر چائے پینے کی دعوت دی تھی۔ وہ صاحب طغرل کو دلچسپ اور دوست نواز لگے تھے۔ شہانی نے کہا تھا، "بھائی اگر کبھی مجھے چھٹی کی ضرورت پڑے تو آپ متبادل کے طور پر کام کر دیا کیجیے گا، مہربانی ہوگی"۔ طغرل نے اس قدر خوش اخلاقی سے کہی گئی ان کی بات مان لی تھی۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1573533256006112
“