لفٹ غالبا" آٹھویں منزل پر رکی تھی۔ خوش اخلاق مارگریتا صاحبہ ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے طغرل کو بائیں ہاتھ کے بغلی طویل برآمدے میں لیے جا رہی تھیں۔ کمروں پر نمبر لکھے ہوئے تھے۔ برآمدے میں بچھی لینولیم ادھڑی ہوئی تھی۔ ادھر ادھر کی دیواروں پر بجلی، فون اور نجانے کس الا بلا کی تاریں کھنچی ہوئی تھیں۔ اس کمرے کا نمبر اب طغرل کو یاد نہیں رہا جس کا دروازہ کھول کر مارگریتا طغرل کو ساتھ لیے داخل ہوئی تھیں۔
برآمدہ تو تھا ہی کسی قدیم طلسمی کہانی کا پرتو مگر یہ کمرہ جس میں طغرل کو لے جایا گیا تھا کافکا کے ناول "قلعے" کا کوئی کمرہ لگتا تھا۔ جس میں ایک ہی جانب رخ کیے تین قطاروں میں کوئی پندرہ میزیں دھری تھیں جن کے پیچھے کوئی آٹھ دس افراد بیٹھے ہوئے، اپنے آگے رکھے کاغذوں پر اسطرح انہماک سے لکھ رہے تھے جیسے امتحان دے رہے ہوں۔ اس کے داخل ہونے سے ان کا انہماک ٹوٹ گیا تھا۔ کچھ تو پھر سے لکھنے میں مصروف ہو گئے تھے، کچھ طغرل کو یوں تاک رہے تھے جیسے اسے ان کے ساتھ کمرے میں بند کرنے کی خاطر نیا نیا لایا گیا ہو۔
مارگریتا صاحبہ نے اسے اپنی عمر کی ایک خوش شکل خاتون سے متعارف کرایا تھا جن کا نام ارینا تھا۔ ان کی پشت کی جانب ایک فربہ خاتون براجمان تھیں جن کا نام نادیہ بتایا گیا تھا۔ دو ایک ہندوستانی افراد بھی تھے۔ ویسے زیادہ تر بڑی عمر کی عورتیں تھیں البتہ انستاسیا نام کی ایک معنک جوان اور خاموش طبع لڑکی بھی تھی جو جیسا کہ طغرل کو بتایا گیا تھا ہندی تراجم سے وابستہ تھی۔ ایک خوش شکل معمر خاتون اور تھیں جو پنجابی بڑے دھڑلے سے بولتی تھیں۔ معلوم ہوا کہ وہ سوویت یونین کے زمانے میں پنجابی زبان کے تراجم سے وابستہ تھیں مگر جب وہ سیکشن بند کر دیا گیا تو انہیں ہندی شعبے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ لدمیلا نام کی یہ خاتون بہت زندہ دل اور ہشاش بشاش تھیں البتہ وہ اپنی ہی بات کہے جاتی تھیں،جس کی وجہ کچھ عرصے بعد معلوم ہوئی تھی کہ وہ ضعف بصارت کی شکار تھیں۔
ان سب میں جس شخصیت نے طغرل کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی وہ ایک روسی مرد تھے جو ہندی والوں کی قطار میں چوتھے نمبر پر بیٹھے ہوئے۔ وہ انتہائی سنجیدہ تھے اور ان کے چہرے سے ذہانت ٹپک رہی تھی۔ انہوں نے بس ایک دو بار ہی اپنی چبھ جانے والی نگاہیں اٹھا کر طغرل کی جانب دیکھا تھا مگر ان کا اتنا دیکھنا ہی کافی تھا۔ ان کا نام اناطولی تھا۔
سب سے رسمی تعارف کے بعد ایرینا طغرل سے مخاطب ہوئی تھیں اور اسے بتایا تھا کہ ریڈیو وائس آف رشیا کے اردو سیکشن میں جہاں اس ریڈیو کا ترجمہ "صدائے روس" کیا گیا تھا، کام کس طرح ہوتا ہے یعنی روسی زبان میں چھپے ہوئے تبصرے،خبریں وغیرہ مترجمین کو دیے جاتے ہیں جو اس مواد کا ترجمہ کرنے کے بعد ایک مخصوص وقت پر سٹوڈیو میں جا کر ریکارڈ کروا دیتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس کمرے میں اردو، ہندی اور بنگالی سیکشنوں کے اہلکار سبھی اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ یہ بتانے کے بعد طغرل کو روسی زبان میں چھپی ہوئی ایک خبر دی گئی تھی اور سے نادیہ کے پیچھے والی میز کے نزدیک دھری کرسی پر بیٹھ کر کام کرنے کو کہا گیا تھا۔
طغرل نے ابھی تک کوئی مربوط روسی تحریر شاید ہی پڑھی تھی۔ بس ٹوکویں لفظ پڑھ کر گذارا چلا لیا کرتا تھا۔ آج پہلی بار تھی کہ اسے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر چونکہ وہ ہمیشہ سے سیاست اور اخبار کا رسیا تھا اس لیے اسے خبر کو ترجمہ کرنے میں دشواری پیش نہیں آئی تھی البتہ وقت زیادہ لگا تھا اور اس کو لگا تھا کہ ترجمے میں کچھ نقص بچ رہے تھے۔ ترجمہ کرکے اس نے جیسا کہ ایرینا نے کہا تھا ترجمہ مارگریتا کو دکھایا تھا جنہوں نے ایک دو لفظ بدلے تھے اور شاباش دی تھی یعنی طغرل کام کے لیے قبول کر لیا گیا تھا۔
طغرل کو بتایا گیا تھا کہ اسے فی الوقت آن کال رکھا جا رہا ہے، جس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ جب بلایا جائے تب آئے بلکہ یہ کہ ہفتے میں دو روز تو وہ لازمی آئے ہاں کبھی مزید ضرورت پڑے تو اسے بلایا جا سکتا تھا۔ کوئی مشاہرہ مقرر نہیں تھا۔ ترجمہ کے کوئی اٹھارہ روبل فی صفحہ ملتے تھے۔ طغرل نے دماغ ہی دماغ میں حساب لگایا تھا تو ایک ماہ میں بمشکل چند سو روبل بنتے تھے جبکہ وہ کئی سو کے تو غیر ملکی سگریٹ پھونک جایا کرتا تھا تاہم اس نے سوچا تھا کہ کچھ جیب سے جا تو نہیں رہا کچھ آ ہی رہا ہے، سگریٹوں کا خرچہ ہی سہی۔ پھر یہ کہ پڑھے لکھے لوگوں سے رابطہ رہے گا۔ چنانچہ اس نے یہ پیشکش قبول کر لی تھی۔
دو روز بعد دوسری بار پہنچنے پر، کمرے میں موجود کھڑے ہو کر گفتگو کرتے ہوئے شخص سے اس کا تعارف کرایا گیا تھا جو ڈھلکے ہوئے چہرے اور کسی حد تک فربہ بدن والے طویل قامت گھنگھریالے بالوں والے جارجیائی نسل کے گریگوری تھے اور وہ جنوبی ایشیائی سروس کے انچارج تھے۔
ارینا نے اس روز ترجمے کی بجائے سامعین کے کچھ خط دیے کر طغرل سے کہا تھا کہ ان کے فردا" فردا" جواب لکھ دو۔ فی خط معاوضہ تیرہ روبل بتایا گیا تھا۔ اس روز طغرل نے سات خطوں کے جوابا لکھ دیے تھے یعنی غیر ملکی سگریٹ کے تین پیکٹوں کی قیمت کے برابر۔
دفتر پہنچنے کے اوقات گیارہ سے ایک بجے تک تھے اور کام کرنے کے فورا" بعد دفتر کو خیر باد کہا جا سکتا تھا۔
https://web.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1572257199467051
“