امریکہ کے ہر شہر میں ایک سے زیادہ اخبار چھپتے ہیں، ان میں سے ایک مقامی اخبار ڈاکٹر قدیر مہر کے ہاں بھی آتا تھا۔ طغرل صبح کی چائے کے بعد اس کی سرخیوں پر نظر دوڑا رہا تھا تو اسے ایک دو کالمی سرخی دکھائی دی تھی " رگ و ورید کے جراح ڈاکٹر زاہد چوہان نے وارڈ کے لیے پچاس ہزار ڈالر عطیہ کیے"۔ طغرل کے لیے یہ رقم خاصی بڑی تھی۔ جب طغرل اور ڈاکٹر مہر ناشتہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تو طغرل نے یہ خبر سنائی اور ساتھ ہی کہا،" اس سے بہتر تھا مجھے دے دیتا، کم سے کم کلاس فیلو تو ہوں ہی اور پردیسی ضرورت مند بھی"۔ "تمہیں کیوں دے دیتا؟" ڈاکٹر قدیر مہر نے ہنس کر کہا تھا پھر سنجیدہ ہو کر بتانے لگے تھے،"بھائی جہاں اس نے یہ عطیہ دیا ہے اور جس طرح اس کی تشہیر کی ہے اس سے نہ صرف اس کی شہرت بڑھے گی بلکہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں بھی چھوٹ ملے گی، یوں اسے دوہرا فائدہ ہوگا۔ تمہیں دینے کا مطلب تھا پیسے ضائع کر دینا۔ میاں اس قسم کے عطیات ایک طرح کی انویسٹمنٹ ہوتے ہیں"۔ طغرل خود کو غبی محسوس کر رہا تھا کہ نظام سرمایہ داری کے کل پیچ سے وہ کتنا کم آشنا تھا اوپر سے دنیا کی جان نظام سرمایہ داری سے چھڑانے کی جدوجہد میں خود کو شریک بھی تصور کرتا تھا۔ طغرل نے عطیے سے متعلق اپنی طلب کا ذکر یونہی کیا تھا مگر اب خفت محسوس کر رہا تھا جیسے اس نے خود کو زیادہ برہنہ کر دیا ہو۔ ڈاکٹر قدیر نے اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ کر گفتگو کا رخ موڑ دیا تھا۔
" تم نے کہا تھا کہ تم واپسی پر ناصر چیمہ سے ملنا چاہتے ہو۔ اسے ایک دو روز پہلے فون کر لینا، وہ بہت مصروف ڈاکٹر ہے"۔
" میں آج ہی فون کر لوں گا" طغرل بولا تھا۔
" بھائی میں تمہیں کھدیڑ نہیں رہا، ویسے ہی بتایا ہے"۔
لیکن اب اس شہر میں دیکھنے کو کچھ باقی نہیں بچا تھا۔ دو اغراض تھیں، ڈاکٹر قدیر مہر سے ملاقات اور آبشار نیاگرا کا دیدار۔ دونوں ہو چکے تھے اور بخوبی ہو چکے تھے۔ طغرل کو لگتا تھا جیسے وہ ڈاکٹر قدیر کے کام اور ان کے گھر کے عموم میں مخل ہو رہا ہے اگرچہ اہل خانہ میں سے کسی نے ایسا تاثر نہیں دیا تھا۔ طغرل نے ناصر چیمہ کو فون کیا تھا۔ وہ اس وقت آپریشن تھیٹر میں تھا، اس کی سیکرٹری نے طغرل کا نمبر مانگا تھا تاکہ ڈاکٹر ناصر سے کال بیک کروا سکے مگر طغرل نے کہا تھا کہ وہ دیر میں خود فون کر لے گا ۔ آج ڈاکٹر قدیر کا ڈے آف تھا۔ دونوں بازار گئے تھے، سڑک پر چہل قدمی کی تھی اور دوپہر کے کھانے کے بعد اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ سہ پہر کو طغرل نے ایک بار پھر ناصر چیمہ کے دفتر میں فون کیا تھا۔ اس کی سیکرٹری نے فون خاصی دیر ہولڈ پر رکھا تھا۔ پھر دوسری جانب سے ناصر کی آواز آئی تھی،"یار تو نے تو کہا تھا آئے گا۔ کہاں ہے تو؟" اس نے جب بتایا کہ وہ ڈاکٹر قدیر مہر کے پاس ہے تو ناصر نے مصنوعی ناراضی کے لہجے میں کہا تھا،" بڑے استاد ہو بھائی، قدیر کا نمبر مجھ سے لیا اور مجھے بائی پاس کر کے آگے نکل گئے۔ اب میں تمہیں نہیں ملوں گا" پھر فورا" کہا،" اوہ دیکھنا سچ نہ سمجھ لینا۔ کب آ رہے ہو میرے پاس" طغرل نے بتایا تھا کہ آج بس کا ٹکٹ لینے کی کوشش کرے گا، ٹکٹ لینے کے بعد بتا ئے گا۔ ناصر نے تاکید کی تھی کہ ٹکٹ لیتے ہی بتا دے تاکہ وہ اپنا پروگرام ایڈجسٹ کر لے۔
جب طغرل نے فون پر گفتگو ختم کی تو ڈاکٹر قدیر نے کہا تھا،" میں نے تو تمہیں فون کرنے کا مشورہ دے کر غلطی کی، تم تو جانے پر تل گئے ہو"۔
" مسافر ہوں ناں بھئی، جانا تو ہے ہی۔ تمہاری محبت کا بوجھ بہت زیادہ ہو گیا تو سنبھال نہیں پاؤں گا"۔
"اچھا اب باتیں نہ بناؤ۔ یہ بتاؤ کہ کیا پروگرام ہے؟"
"پروگرام کیا ہے، بس جاتے ہیں اور ٹکٹ لے لیتے ہیں"۔
" ٹکٹ مل جائے گا، کب کا چاہیے"۔
"کل کا اور کب کا؟"
"پکا"
"ہاں پکا" طغرل نے کہا۔
ڈاکٹر قدیر نے بتایا تھا کہ ٹکٹ باآسانی مل جاتا ہے۔ بس کی روانگی کے اوقات پوچھ لیتا ہوں۔ انہوں نے فون کیا تھا اور ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھ کے طغرل کو بتایا تھا کہ ایک بس صبح گیارہ بجے جائے گی اور دوسری سہ پہر تین بجے روانہ ہوگی۔ طغرل نے گیارہ بجے جانا مناسب جانا تھا چنانچہ ڈاکٹر قدیر نے فون پر ہی گیارہ بجے کی بس میں ایک نشست مختص کروا دی تھی۔
اس رات دونوں دوست رات گئے تک گپیں لگاتے رہے تھے۔ صبح ناشتہ کر لینے کے بعد طغرل اور ڈاکٹر قدیر تیار ہوئے تھے۔ گھر سے جلدی نکل گئے تھے۔ پہلے بابر کے ہاں پہنچے تھے۔ اس کے ساتھ آدھ پون گھنٹہ گذار کر رخصت ہوئے تھے۔ بابر نے طغرل سے ایک بار پھر اس شہر میں آنے کی درخواست کی تھی۔
بس کی روانگی سے بیس منٹ پہلے اڈے پر پہنچے تھے۔ ڈاکٹر قدیر نے ٹکٹ خریدا تھا۔ بس روانہ ہونے تک ڈاکٹر قدیر بس کے باہر کھڑا ہاتھ ہلاتا رہا تھا۔ بس میں سوار ہونے سے پہلے قدیر نے طغرل سے کہا تھا کہ کوئی ضرورت ہو تو بلا تکلف کہہ دینا۔ روانہ ہوتے ہوئے طغرل کا دل بوجھل تھا مگر مسرور بھی کہ اللہ نے اسے اتنا اچھا دوست عطا کیا تھا جس نے دیار غیر میں اس کی یاوری کی۔
چار گھنٹے کے پرسکون سفر کے بعد بس بمنگھٹن کے ٹرمینل پر پہنچی تھی۔ اپنی جوانی کے زمانے کا تیز طرار، منحنی قد ناصر چیمہ اسے وہاں منتظر کھڑا ملا تھا۔ یہ بڑی سی جیپ ساتھ کھڑی تھی۔ طغرل جب بس سے باہر نکلا تو اس نے ناصر کو ملنے کے لیے بازو کھولے، کانوں کی لووں تک لب کھولے مسکراتا ہوا پایا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو بھینچ کر گلے ملے تھے۔
اتنا مختصر آدمی اتنی بڑی جیپ چلا رہا تھا۔ کہیں جیپ میں سے کسی غیر ملکی عورت کی آواز آئی تھی۔ اس نے ڈاکٹر ناصر چیمہ سے اس کی واپسی کے بارے میں پوچھا تھا۔ ناصر چیمہ نے کوئی آلہ منہ کے قریب لائے بغیر اس سے کہا تھا کہ وہ چالیس پینتالیس منٹ میں دفتر پہنچ جائے گا۔ اس طرح سے گفتگو کیا جانا بالکل نیا نیا تھا۔ روس میں ابھی ایسی سہولت نہیں آئی تھی۔ وہ شہر میں داخل ہو چکے تھے۔ ناصر چیمہ نے ایک شاپنگ مال کے پاس گاڑی روکی تھی۔ گارمنٹ سیکشن میں گئے تھے اور اس نے طغرل کے لیے دو "پل اوور" منتخب کیے تھے۔ طغرل نے پوچھا تھا "کیا کر رہے ہوں بھئی" " جب ماسکو جاؤ تو لوگوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ منڈا امریکہ توں آیا اے" اور قہقہہ مار کے ہنسا تھا۔ کچھ کھاؤ پیوگے؟ ناصر چیمہ نے پوچھا تھا۔ "ہاں بیئر پیوں گا" طغرل نے جان بوجھ کر کہا تھا۔
"یار انسان بن، تمہیں پتہ ہی ہے کہ میں نہیں پیتا۔ میری وائف بڑی سخت ہے۔ وہ گھر میں ایسی چیز پسند نہیں کرتی۔ بار وار میں میں جاتا نہیں"۔
"چل نہیں پلانی تو نہ پلا" طغرل نے منہ بنا کر کہا تھا۔
" یار سافٹ ڈرنک سے گذارا نہیں چلے گا؟"
" جماعتیے کا جماعتیہ رہا ناں، لے لے سافٹ ڈرنک"
سافٹ ڈرنک ہاتھوں میں پکڑے وہ گاڑی میں آ بیٹھے تھے۔ اب وہ ڈاکٹر ناسر چیمہ کے دفتر جا رہے تھے۔ ڈاکٹر معروف جراح اعصاب تھا۔ اس کا نام امریکہ کے موقر اخبارات میں کئی بار آ چکا تھا۔ اس نے راستے میں خود بھی بتایا تھا کہ اس کے پاس اپنا ہوائی جہاز ہے۔ وہ ویک اینڈ منانے کے لیے پیرس چلا جاتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ مگر وہی بات کہ مشقت اور کمانے کی دوڑ نے اس کے چہرے کی جلد میں عمر سے زیادہ جھریاں پیدا کر دی تھیں۔ اس کا رنگ جوانی میں بھی زردی مائل ہوا کرتا تھا لیکن اب وہ مٹیالا لگنے لگا تھا، جیسے لاش کا ہوتا ہے تاہم ناصر چیمہ کا برجستہ پن، آواز کا کرارا پن اور ہنسی جوں کی توں برقرار تھی۔
ڈاکٹر ناصر کا شاندار دفتر تھا۔ دفتر کی دیوار پر اس کے والد کی ایک بڑی سی تصویر آویزاں تھی۔ نوادرات بھی ادھر ادھر رکھے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ اس سے ملنے آ گئے تھے۔ وہ مصروف ہو گیا تھا۔ جب اس نے طغرل کی اکتاہٹ دیکھی تو کہا تھا، "جا باہر گھوم آ، تمہیں سگریٹ بھی پینی ہوگی"۔ طغرل باہر نکل گیا تھا مگر دس پندرہ منٹ بعد لوٹ آیا تھا۔ ڈاکٹر فارغ ہو چکا تھا۔ پتزا کے دو ٹکڑے سامنے رکھے تھے۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کے عملے نے پتزا منگوایا تھا۔ ایک ایک پیس کھا لیتے ہیں۔ کھانا گھر جا کر ہی کھائیں گے۔ انگریز سیکرٹری کافی کے دو کپ لے آئی تھی۔ وہ پتزا کھا کر کافی پیتے ہوئے گپ شپ لگانے لگے تھے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1426708717355234