صولت کی مزمل کے ساتھ اور مزمل کی صولت کے ساتھ بالکل نہیں بنتی تھی۔ صولت دیور کو بدتمیز خیال کرتی تھی اور دیور بھابی کو عقل باختہ۔ ممکن ہے ایک وجہ یہ رہی ہو کہ مزمل جب امریکہ پہنچا تھا تو وہ اپنے بھائی مسعود اور بھابی صولت کے ہاں ہی رہا تھا۔ صولت اپنی کہی پر ڈٹ جانے والی اور مزمل کسی کو خاطر میں نہ لانے والا تھا۔ کئی سال پہلے جب مزمل ایک گیس سٹیشن پر کام کرتا تھا تو رات کو سفید فام نسل پرست اسے زدوکوب کرکے تقریبا" مار کر چلے گئے تھے۔ مزمل کئی ماہ ہسپتال میں رہا تھا۔ اس کی کھوپڑی میں سٹیل پلیٹس لگائی گئی تھیں۔ یہ وقت مسعود کے لیے بہت کٹھن تھا۔ اس دوران صولت نے مسعود کا ہر معاملے میں ساتھ دیا تھا۔ ہسپتال سے فارغ ہو کر طبیعت پوری طرح بحال ہونے تک مزمل بھائی اور بھابی کے ہاں ہی رہا تھا۔ وقت گذرتا گیا تو پھر سے دونوں میں ٹھن گئی تھی۔ مزمل بھتیجوں سے پیار کرتا تھا اور بھائی کی تعظیم چنانچہ آتا ضرور تھا۔ بھابی دیور کی آپس میں بول چال نہیں ہوتی تھی لیکن خدمت وہ ضرور کرتی تھی۔ کھانا چائے وغیرہ ضرور پیش کرتی تھی۔
صولت کو جیسے بتایا جا چکا ہے سستی خریداری کا خبط تھا، کھانا پکانا کبھی کبھار کرتی تھی۔ باہر سے منگوائی گئی جنک فوڈ یا گھر میں ذخیرہ کردہ ڈبہ بند غذا پر ہی گذارا تھا۔ طغرل کو کھانے پینے کا یہ ڈھنگ نہیں بھاتا تھا چنانچہ بعض اوقات معترض ہو جاتا تھا اور کبھی کبھار غصے کا اظہار بھی کر دیتا تھا، آخر صولت اس کی بھتیجی ہی تو تھی اوت عمر میں پانچ چھ سال چھوٹی بھی۔ دوسرے یہ کہ طغرل صولت کے ساتھ گفتگو کے دوران مزمل کی حمایت بھی کر دیا کرتا تھا چنانچہ صولت کو اپنے چچا یعنی طغرل پر بھی بعض اوقات غصہ آ جایا کرتا تھا جس کا اظہار وہ عجیب عجیب طریقوں سے کیا کرتی تھی مثلا" ایک بار اسی طرح کے ایک غصے میں اس نے طغرل کا شلوار قمیص کا ایک جوڑا قینچی سے کاٹ کاٹ کر لیروں میں بدل ڈالا تھا اور مزاج درست ہونے پر چچا کو اپنے اس مذموم عمل کے بارے میں بتا بھی دیا تھا۔
طغرل گھر میں بیٹھے بیٹھے بور ہوا کرتا تھا۔ صولت کو چچا کا بور ہونا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ معاشی تنگی کے باوجود وہ ایک روز کمپیوٹر خرید لائی تھی اور اسے نچلی منزل کے ایک کمرے میں رکھ دیا تھا، ٹیلفون لائن سے تب بھی انٹرنیٹ میسر تھا۔ اس نے چچا سے کہا تھا،" اب آپ بور نہیں ہونگے، انٹر نیٹ پر سرفنگ کیا کیجیے" ۔ طغرل نے اس کے اس عمل کو بہت تحسین سے دیکھا تھا۔ چونکہ ٹیلیفون ڈرائنگ روم میں ہوتا تھا چنانچہ اس کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے کوئی تین چار میٹر کی ارتباطی تار ہوتی تھی۔ جب بھی صولت کا مزاج بگڑتا وہ کیبل کے کئی ٹکڑے کر دیا کرتی تھی۔ جب طغرل اپنے کمرے سے انٹرنیٹ دیکھنے نیچے آتا تو کیبل کو غائب پاتا۔ البتہ کیبل کے کٹے ہوئے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے ہوتے تھے۔ چند گھنٹوں بعد صولت خود ہی گاڑی چلا کر جاتی، کیبل خرید کر لاتی اور منسلک کر دیتی۔ شروع میں طغرل صولت کے ان بچگانہ اعمال پر بہت جھنجھلاتا تھا پھر وہ ان کا عادی ہو گیا تھا۔ صولت نقصان بھی خود کرتی تھی اور ازالہ بھی خود۔
صولت کا شوہر مسعود بھی غصے میں پاگل ہو جایا کرتا تھا۔ الماریاں الٹا دیتا، چیختا دہاڑتا تاہم اس نے طغرل کو پہلے سے سمجھا دیا تھا کہ جب وہ حالت غیض میں ہو تو اس کے نزدیک نہ آئے۔ غصے کے ایسے دورے یا دورانیے کے بعد وہ ٹوٹی ہوئی چیزیں پھر سے خرید کے لاتا اور انہیں جہاں وہ پہلے رکھی ہوتی تھیں وہاں خود رکھ دیتا تھا، پھر سب کو ریستوران لے جا کر کھانا کھلاتا تھا یعنی اس کو اپنا ہر بار کا غصہ ڈیڑھ دو سو ڈالر میں پڑا کرتا تھا۔
دونوں میاں بیوی فربہ تھے اور دونوں ہی ذیبیطس کے مریض لیکن دونوں شیرینی کھانے کے شیدائی تھے۔ طغرل جو ہمیشہ شیرینی سے احتراز کرتا تھا ماسوائے گاجر کے حلوے کی ایک خاص قسم جسے گاجر پاک کہتے ہیں اور آموں کے، ان دونوں کے ساتھ میٹھا اور مٹھائی کھا کھا کر میٹھا کھانے کا عادی ہو گیا تھا اور اب تک ہے، ہر کھانے کے بعد کوئی نہ کوئی مٹتھی چیز چاہے میٹھی گولی ہی کیوں نہ ہو وہ ضرور کھاتا ہے۔
صولت کے فراہم کردہ کمپیوٹر اور اس سے وابستہ نیٹ ورک سے ہی طغرل پر خدا کی حقیقت اور طرح عیاں ہوئی تھی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ طغرل نے سر پر چوٹ کھانے کے بعد مابعد الطبیعیات اور علم الکائنات کا گہرا مطالعہ کرنا شروع کر دیا تھا، یوں اس کی کائنات سے متعلق معلومات کے حصول میں دلچسپی بڑھ چکی تھی۔ وہ اس سے متعلق دیگر سائٹس کے علاوہ ناسا کی سائٹ بھی وزٹ کیا کرتا تھا۔ ان دنوں کسی سائنسدان نے نئی کہکشاں دریافت کی تھی جس کا ناسا کی سائٹ پر ذکر درج تھا۔ اس ذکر میں سائنسدان مذکور نے بیان کیا تھا کہ اس کہکشاں کی تنویر دیکھ کر اسے یوں لگا جیسے اس نے خدا کو دیکھ لیا ہو۔ چونکہ ایسے مواقع پر ساتھ ہی تصویر کا لنک بھی دیا ہوتا ہے چنانچہ طغرل نے تجسس میں اس لنک پر کلک کیا تھا جو تنویر سامنے آئی وہ یقینا" مبہوت کر دینے والی تھی لیکن طغرل کے ذہن میں جو سوال ابھرا وہ یہ تھا کہ "کمپیوٹر" کیا ہے؟ ساتھ ہی سوال ابھرا کہ "چپ" کیا ہوتی ہے؟ اس سوال کے ساتھ ہی ایک اور سوال، کہ "سلیکون" کیا ہے؟ یہ تینوں سوال سیکنڈ کے کوئی لاکھویں حصے میں پیدا ہوئے تھے اور طغرل پر یک لخت عقدہ کھلا تھا کہ اوہ "خدا" تو "سوپر سوپر سوپر کمپیوٹر" ہے جو یہاں وہاں کہیں بھی موجود ہے، جس میں تمام جانداروں کا جو تخلیق کائنات کے بعد سے اب تک موجود تھے اور کائنات تمام ہونے تک موجود رہیں گے، کا شعور جمع ہے یعنی "وہ" جو ہے "وہ" " مجموعی شعور" ہے۔ اگر سیلیکون کے ایک ذرے میں دنیا اکٹھی کی جا سکتی ہے تو "اس" میں پوری کائنات کی جاندار مخلوقات کا شعور بھی "سٹور" ہو سکتا ہے۔ اب طغرل نے مزید سوچنا شروع کیا تو اسے یوں لگا جیسے دنیا میں خالق کی نمائندگی کے لیے جتنے بھی انسان آئے چاہے وہ فلسفیوں کی شکل میں تھے یا پیغمبروں کی صورت، ان سب نے "اجتماعی شعور" سے جڑت پیدا کرنے کی بات کی تھی۔ ہر کسی نے اس کے ساتھ ارتباط کے اپنے اپنے طریقے بتائے چنانچہ کوئی بھی طریقہ غلط نہیں۔ چونکہ طغرل کو یہ طریقہ نماز کی شکل میں سکھایا گیا تھا اس لیے طغرل نے پھر سے نماز پڑھنے کی نیت کر لی تھی جس پر وہ اب تک کاربند ہے۔ اجتماعی شعور سے ارتباط ہوتا ہے یا نہیں اس بارے میں جاننے کے لیے بہت ہی زیادہ ارتکاز خیال درکار ہے، اسی لیے وہ اب تک متشکک رہتا ہے کیونکہ وہ بذات خود مناہل کی زبان میں ایک "بے چین روح" ہے۔ یوں طغرل کو امریکہ سے میٹھا کھانے کی عادت اور خدا سے سلسلہ جنبانی کے تحفے ملے تھے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1453037141389058
“