نر اور مادہ کے ملاپ سے بچے تو پیدا ہو ہی جاتے ہیں پر طغرل کو لگا تھا جیسے کشتی نے لنگر ڈال دیا ہو۔ وہ جو طلاق اور مناہل کے دوسرے مرد کے ساتھ ادواج کے بعد بھی خود کو مناہل کے ساتھ ایک انجان سے تعلق سے بندھا محسوس کرتا تھا، اب یک لخت ٹوٹے ہوئے دھاگوں سے الجھا محسوس کرنے لگا تھا۔ کچھ تعلق ایسے ہوتے ہیں جو ٹوٹنے کے باوجود نہیں ٹوٹ پاتے، پھر کبھی لگتا ہے جیسے وہ تعلق واقعی ٹوٹ گیا ہو اور پھر کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس شخص سے تعلق ٹوٹا ہو اس سے ایک اور نوع کا ناطہ بن جاتا ہے۔
ماسکو میں اگرچہ کچھ باقی نہیں بچا تھا مگر نینا تو موجود تھی، لوگوں پر چڑھے قرض بھی باقی تھے جن کے ملنے کا ہلکا سا گمان تھا۔ ویسے بھی ایسے حالات میں اگر طغرل پاکستان لوٹ آتا تو کیا کرتا، وہی کوئی درمیانے درجے کی ملازمت مگر اب وہ ملازمت کے کسی چکر میں نہیں پڑنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے الما آتا کے راستے نینا کے پاس آنے میں عافیت جانی تھی۔ لوٹنے کے بعد اس نے اظفر کے بھائی سے رابطہ کیا تھا جس نے ایک زیر زمین ریلوے سٹیشن پر آ کر دفتر کی چابیاں اس کے حوالے کر دی تھیں۔ جب طغرل نے جا کر دفتر دیکھا تھا تو وہ حیران رہ گیا تھا کہ بس میزیں کرسیاں پڑی رہ گئی تھیں تا حتٰی جس کمرے میں اس نے عارضی رہائش اختیار کی ہوئی تھی اس میں پڑی درجنوں وڈیوکیسٹیں اور کتابیں تک غائب تھیں۔
مال لے جانے والے نے یہ تو مانا کہ وہ مال لے گیا تھا لیکن دفتر کی جو باقی چیزیں غائب ہوئی تھیں، اس کے بارے میں اس کا کہنا تھا چونکہ مال جلدی میں سمیٹنا تھا، جو لڑکے بطور مزدوروں کے آئے تھے شاید وہ اٹھا کر لے گئے ہوں۔ اظفر کے بھائی کا کہنا تھا کہ باوجود اس کے روکنے کے آئے ہوئے لڑکوں نے ہر چیز پر ہاتھ صاف کیے تھے۔ اور تو اور طغرل کے ذاتی دفتر میں جو لیدر صوفہ پڑا ہوا تھا وہ بھی غائب تھا، جس کے متعلق ان دونوں حضرات کا کہنا تھا کہ نہیں جب ہم لوگ دفتر چھوڑ کر نکلے تھے تب صوفہ وہیں پڑا تھا۔ اب کیا کیا جا سکتا تھا جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو چکا تھا۔ دفتر کو مقفل کرکے وہ مستقل طور پر نینا کے ہاں منتقل ہو گیا تھا۔
طغرل نے اضافی ادائیگی کرکے دفتر میں ٹیلیفون کی ایک بزنس لائن لی تھی۔ ٹیلیفون غائب تھا البتہ لائن موجود تھی جسے چرایا نہیں جا سکتا تھا مگر یہ بھی طغرل کی غلط فہمی تھی۔ ایک روز اسے پاکستان فون کرنے کی احتیاج تھی لیکن وہ نینا کے گھر کے ٹیلیفون سے کالز کرکے اس پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ اظفر کے بھائی سے فون پر بات ہوئی تو اس نے کہا کہ آپ مجھے کہیں آ کر ملیں، میں فون سیٹ لیتا آؤں گا، دفتر چلیں گے اور فون کونیکٹ کر لیں گے، آپ کالیں کر لیجیے گا چنانچہ طغرل نے ایسا ہی کیا تھا۔ وہ تو جب اظفر کا بھائی ماسکو سے پاکستان جا چکا تھا تو لوگوں نے بتایا تھا کہ جناب اس نے تو آپ کے دفتر کو پبلک کال آفس بنایا ہوا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ٹیلیفون کا ہوش ربا بل آ گیا تھا۔ اس دوران دفتر میں موجود باقی ماندہ فرنیچر ایک اور شخص جو مال لے جانے والے شخص کے ساتھ آیا تھا قیامت کے ادھار پر لے گیا تھا۔ دفتر کا کرایہ، بجلی پانی کے بل، بھتہ خوروں کا ڈر اوپر سے خالی دفتر، کوئی چارہ باقی نہیں بچا تھا۔ پھر کیا، ایک روز طغرل شام کے جھٹپٹے میں جا کر چابیاں دفتر کی دہلیز کے پاس چھوڑ کر کان لپیٹ کر وہاں سے نکل رہا تھا۔ راستے میں ایک نوجوان سکھ گاہک مل گیا تھا جو کبھی کبھار مال لے جایا کرتا تھا اور ادائیگی باقاعدگی سے کرتا تھا۔ وہ اصرار کرکے طغرل کو نزدیک ہی واقع اپنے گھر میں لے گیا تھا کہ جناب کم ازکم ہمارے ہاتھ سے بھی کبھی چائے پی لیں۔ جب طغرل اس کے ہاں پہنچا تو وہی لیدر صوفی سیٹ پڑا ہوا تھا جو طغرل کے ذاتی دفتر میں ہوتا تھا۔ طغرل کو اچنبھا ہوا تھا۔ اس نے میزبان سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا تھا کہ یہ انہیں اظفر کے سب سے چھوٹے بھائی نے بیچا تھا۔ اظفر کے چھوٹے بھائی کو طغرل بیٹوں کی طرح اپنے پاس رکھتا تھا، اسے یہ جان بڑا ہی دکھ پہنچا تھا۔ مزید یہ معلوم ہوا کہ اس کے پاس عقب کے کھڑکی پر لگی لوہے کی جالی میں لگے تالے کی چابی (ڈپلیکیٹ) تھی۔ اس نے اسے کھول کر صوفہ کھڑکی کے راستے نکال کر انہیں بیچا تھا۔ طغرل کو معلوم تھا کہ اظفر کا یہ چھوٹا بھائی کونسے میٹرو سٹیشن پر باقی لڑکوں کے ساتھ مل کر کوئی نہ کوئی پرچون مال غیر قانونی طور پر فروخت کرتا ہے۔ طغرل اس سٹیشن کے اندر پہنچا تھا اور ایک بنچ پر بیٹھ گیا تھا، جونہی اظفر کا چھوٹا بھائی آیا اور عادت کے مطابق ہنستے ہوئے طغرل کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے جھکا طغرل نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کسی ردعمل کا اظہار کرتا ، طغرل نے اس کی بے وفائی اور جرم یاد دلایا تھا اور وہاں سے چلا آیا تھا۔
اندوختہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہا تھا۔ آخری کار بچی تھی وہ بھی بیچ دی تھی۔ قرض دہندہ سب عنقا ہو گئے تھے۔ طغرل نے ایک اصول اپنایا تھا جس پر وہ ہمیشہ قائم رہا کہ ماسکو میں موجود کسی ہم وطن سے قرض نہیں لے گا۔ اسی زمانہ آشوب میں ایک بار جب طغرل کے گھر سے فون کرنے کا بھاری بل آ گیا تھا تو اس نے چند سو ڈالر ایک امریکی ڈینٹل سرجن دوست سے ادھار لیے تھے مگر یہ افتاد کے آغاز سے ڈیڑھ برس بعد کی بات ہے۔
نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اخراجات پورے کرنے کی خاطر نینا کو دو دو جاب کرنے پڑے تھے۔ وہ چوبیس گھنٹے کے کام سے لوٹتی تھی تو سیدھی شہر کے دوسرے سرے پر موجود کنٹینر منڈی کے ایک کنٹینر میں کام کرنے پہنچ جاتی تھی۔ شام کو لوٹتی تھی تو چور ہوئی ہوتی تھی۔ پھر گھر کے سارے کام کرتی تھی۔ چند روز تک طغرل اس کی اس مشقت کی اذیت کو دیکھتا رہا تھا پھر اس نے سوچا تھا کہ "تقسیم محنت" کے اصول پر عمل کرنا چاہیے چنانچہ اس نے زندگی میں پہلی بار نینا کی غیر موجودگی میں برتن دھونے اور گھر کی صفائی کا کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ سلسلہ کوئی دو ماہ چلا تھا۔ اس کے بعد اس شخص نے جس نے طغرل کا سارا مال لیا ہوا تھا اور کھلے ہاتھ سے لوگوں میں بانٹ چکا تھا، ایک ہوٹل کے فلور کو ٹھیکے پر لے کر "سب لیٹ" کرنے کا کام شروع کیا تھا یوں شام کو وہ طغرل کو "خرچ" دے دیا کرتا تھا۔
ادھر ساشا بڑا ہو رہا تھا۔ اس کی زبان چلنے لگی تھی۔ جب طغرل کا دفتر چلتا تھا تو طغرل اس کا اپنی ماں کی جانب رویہ دیکھ کر اس کی گوشمالی کر دیا کرتا تھا، بعض اوقات زیادہ ہی سخت رویہ اختیار کر لیا کرتا تھا۔ یہ بات ساشا کے دل میں بیٹھ جاتی تھی۔ پھر طغرل نے اس کی ماں پر بھی تو "قبضہ" کیا ہوا تھا۔ ہر اس لڑکے کی سوچ یہی ہوتی ہے جس کی ماں اس کے باپ سے طلاق لے کر کسی اور کی ہو جاتی ہے۔ اب جب طغرل معاشی طور پر کمزور ہو چکا تھا اور بہت حد تک کم از کم رہائش اور سہولیات کے حوالے سے اس کی ماں کا محتاج ہو چکا تھا تو اس کو موقع مل گیا تھا کہ بدتمیزی کرکے اپنا حساب چکائے۔ نینا کی کیفیت عجیب ہوتی تھی، وہ بیٹے کو بھی ناراحت نہیں کر سکتی تھی اور دوست کا دل دکھتے بھی نہیں سہہ سکتی تھی۔ جب طغرل اس ضمن میں اس کی غیر جانبداری پر معترض ہوتا تھا تو ان کی آپس میں ٹھن جاتی تھی۔ ایسے ہی ایک موقع پر طغرل ناراض ہو کر گھر سے یہ کہہ کر نکلا تھا کہ وہ لوٹ کر نہیں ائے گا۔ مگر جب اس شخص کے ہوٹل والے دفتر کے کمرے میں، کھرے قالین پر تکیے اور کمبل کے بغیر رات بتانا پڑی تھی تو ہوش ٹھکانے آ گئے تھے۔ منہ لٹکا کر بدھو گھر کو لوٹ کر آیا تھا۔ اس کے بعد بھی ایک واقعہ ہوا تھا کہ طغرل ناراض ہو کر سارا سامان اٹیچی کیس میں بھر کر نکل گیا تھا۔ اس شخص نے کہا تھا کہ رہنے کا بندوبست ہو جائے گا۔ رات کو وہ اسے ساتھ لےکر ماسکو کے شمال میں دور ایک اپارٹمنٹ میں پہنچا تھا جہاں کوئی ساتھ آٹھ افراد اکٹھے رہ رہے تھے۔ رات کو جب طغرل کے سامنے والے کی سناسیں اس کے چہرے پر پڑی تھیں تو وہ بہت مضطرب ہوا تھا۔ رات بھر بے خوابی کاٹ کر اگلے روز شام کو طغرل نے ایک بار پھر نینا کو فون کیا تھا۔ جب اس نے اسے اپنی بپتا سنائی تھی تو نینا نے کہا تھا،"تم سے کس نے کہا تھا، چلے جاؤ"۔ اس کی بات درست تھی۔ طغرل لوٹ آیا تھا اور پھر کبھی ناراض ہو کر گھر سے نہیں گیا تھا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1396459487046824
“