اس بار طغرل کراچی نہیں گیا تھا البتہ اپنے آبائی گھر ہو آیا تھا اور راستے میں پڑنے والے شہروں میں اپنے چند دوستوں سے مل لیا تھا۔ اس کا دل بجھ سا گیا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ مناہل تو چند سال پہلے ہی اسے چھوڑ کر کسی اور کی بیوی بن چکی تھی۔ اب ایسی کون سی بات ہو گئی ہے کہ اسے یوں لگا ہے جیسے پتوار ہاتھ سے چھوٹ گئے ہوں۔ ایک جانب تو یوں لگتا تھا جیسے اس نے مناہل سے پھر رشتہ استوار نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے تو دوسری جانب ذہن کے کسی خانے میں اس کی مراجعت کی کوئی چنگاری بھی دبی ہوئی تھی شاید۔ اگر بچوں کی پیدائش سے آپس کے تعلقات مستحکم ہونا یقینی ہوتا تو ان کی طلاق ہی کیوں ہوتی۔ ان کے تو ماشاّاللہ دو مشترکہ بچے تھے۔ اسے خود بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کی اس قدر افسردگی کی وجہ کیا ہے۔ طغرل الماآتا چلا آیا تھا۔ اسے اس بار ایسے لگا تھا جیسے وہ خالی ہو کر آیا ہو۔ اس نے اسے خود بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کی افسردگی کا کارن کیا ہے۔اس نے ایمان کے ساتھ چند روز خوش و خرم رہ کر بتائے تھے اور پھر نینا کے پاس ماسکو لوٹ گیا تھا۔
سکاچ وہسکی پینے کی استطاعت نہیں رہی تھی۔ بہت پہلے کی بات ہے جب طغرل اپنے ملک میں ایک دوست کے ساتھ بیٹھ کر تقریبا" روز ہی پیا کرتا تھا۔ اس نے ایک روز دوست کے سامنے سوال رکھا تھا، "شاہ جی، اس بارے میں سوچیں کہ ہم کیوں پیتے ہیں۔ شراب کڑوی ہوتی ہے اور بودار بھی۔ اس پر اخراجات بھی آتے ہیں پھر ہمیں دنیا سے چھپ کر پینی پڑتی ہے۔ ہم پی کر ہلڑ بازی بھی کرتے ہیں،کبھی قے بھی ہو جاتی ہے کبھی برتن ٹوٹ جاتے ہیں، بیویوں کا دل دکھتا ہے۔ ہم یہ سب جانتے ہیں اور پھر بھی پیتے ہیں۔ ایسا کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟" دو ایک روز بحث اور کج بحثی کے بعد شاہ جی اور طغرل دونوں ایک نتیجے پر پہنچے تھے کہ "زندگی اس قدر اکتا دینے والی اور یکسانیت کا شکار کہ ذہنی حالت تبدیل کرنے کی خاطر پینی پڑ جاتی ہے"۔ اب زندگی کہیں زیادہ بے کیف ہو چکی تھی۔ یہاں اس ملک میں دنیا سے چھپ کر تو نہیں پینی پڑتی تھی البتہ شوہروں کی شراب نوشی پر یہاں بھی بیویوں کا منہ بن جاتا تھا اور بیشتر اوقات تلخ کلامی تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ طغرل معیار گرانے کا مخالف تھا لیکن چارہ بھی نہیں تھا، چانچہ اس نے یوں کرنا شروع کیا کہ کرستال یعنی کرسٹل نام کے معیاری اور مسند کارخانے کی اپنی دکانوں کی ایک شاخ سے اچھی وادکا خرید لیتا تھا اور گن کر تین پیگ پی لیتا تھا۔ چوتھا پیگ اس لیے نہیں لیتا تھا کہ اس کے بعد پھر ہاتھ شاید نہ روک سکتا۔ مذاہب ایسے اعمال سے غالبا" اسی لیے روکتے ہیں کہ ان میں اعتدال قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے اور قوت ارادی سے عاری لوگوں کے لیے تو ممنوعات سے ہاتھ کھینچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ان ہی دنوں کی بات تھی کہ طغرل کی کہیں پھر سے اظفر سے ملاقات ہو گئی تھی۔ وہ ان دنوں ایک کھلی منڈی میں جسے روس میں "رینوک" کہا جاتا ہے، خوانچہ لگا کر ملبوسات بیچتا تھا۔ طغرل بیکار تھا چنانچہ کبھی کبھار اظفر کا کام ختم ہونے سے گھنٹہ بھر پہلے اس کے پاس چلا جاتا تھا۔ کام ختم ہونے پر اظفر اپنا خوانچہ سمیٹ سماٹ کر مال سمیت گودام میں جمع کرا دیتا تھا پھر دونوں کہیں کھڑے ہو کر بیئر پی لیتے تھے اور گپ شپ کر لیتے تھے۔ اظفر کا طغرل کو مشورہ تھا کہ وہ نینا کے ساتھ قانونی بندھن بنا لے تاکہ ہر سال پاکستان جا کر ملٹی پیپل ویزا لینے کے جھنجھٹ اور اخراجات کرنے سے جان چھوٹ جائے۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ گذشتہ چھ برس سے نینا اور طغرل شرکائے زندگی تھے۔ دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ لگاؤ بھی بہت تھا تو کیا ہرج تھا اگر اس تعلق کو قانونی حیثیت دے لی جائے۔ طغرل کو اس کی بات میں وزن محسوس ہوا تھا۔ اس نے نینا سے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا تھا کہ انہیں انسانی تعلق کے تسلسل کی خاطر کسی کی سند درکار نہیں تاہم اگر ایسا ہو جائے تو طغرل کے لیے کسی حد تک سہولت ہوجائے گی۔ نینا کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ انہوں نے بیاہ کی درخواست دے دی تھی، حسب دستور ایک ماہ بعد کی تاریخ مل گئی تھی۔ اس تاریخ کو نینا کا داماد ان دونوں کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر "میرج ہاؤس" لے گیا تھا اور وہ دونوں قانونی طور پر میاں بیوی بن کر لوٹے تھے۔
اگلا مرحلہ کٹھن رہا تھا۔ ریزیڈنٹ پرمٹ کے حصول کی خاطر طغرل کا کسی گھر میں رجسٹر ہونا لازمی تھا۔ نینا کے گھر کے علاوہ تو کوئی گھر تھا نہیں۔ مگر اس کے بچے اس میں اڑچن بن گئے تھے۔ ساشا اکیس برس کا ہو چکا تھا یعنی وہ کب کا بالغ تھا جبکہ نینا کی شادی شدہ بیٹی بھی اس کے ہی گھر میں درج تھی کیونکہ روس میں سیاسی تبدیلیاں آنے کے بعد حکومت نے لوگوں کو مفت دیے گئے سرکاری گھر اہنے اپنے نام رجسٹر کروانے کی مراعت دے دی تھی۔ پرائیویٹ گھر میں کسی اور کو، چاہے وہ نیا شوہر ہی کیوں نہ ہو رجسٹر کرائے جانے کی خاطر گھر میں درج سبھی بالغ لوگوں کی تحریری اجازت لینا ضروری تھا۔ بچوں نے طغرل کے سامنے تو کچھ نہیں کہا تھا لیکن نینا کو ضیق کرکے رکھ دیا تھا۔ طغرل نے نینا کو تسلی دی تھی کہ اگر تمہارے بچے رضامند نہیں تو کوئی بات نہیں، جیسے پہلے معاملات چل رہے تھے ویسے اب بھی چلتے رہیں گے۔ بالآخر نینا نے بچوں کو دھمکی دی تھی کہ وہ انہیں چھوڑ کر طغرل کے ہمراہ ہمیشہ کے لیے پاکستان چلی جائے گی یوں اس نے ان کی رضامندی حاصل کر لی تھی۔ اس بارے میں طغرل کو بہت بعد میں علم ہو سکا تھا
طغرل نینا کے ہاں سے ایمان کو فون نہیں کرتا تھا کہ کہیں بل میں نمبر آنے پر نینا ٹوہ میں نہ لگ جائے اور نئی مصیبت نہ کھڑی کر دے۔ اس لیے یا تو کسی دوست کے گھر سے یا کسی پبلک کال آفس سے فون کیا کرتا تھا۔ ایک بار فون پر اس نے یکدم ہی عقدہ وا کیا کہ وہ بچے کو جنم دینے والی ہے۔ طغرل کے حالات ایسے تھے کہ وہ اس کی کوئی مالی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ اسی برس کے ماہ جولائی میں اس نے ایک بچی کو جنم دیا تھا۔ طغرل نے اس بچی کا نام اپنی پہلی بیٹی کے نام ماہین کے تناسب سے تامین رکھنے کی تجویز دی تھی جو ایمان نے مان لی تھی۔
ماہ اگست میں ایک بار طغرل کو نینا کے ہمراہ کنٹری ہاؤس جانا پڑا تھا۔ اگرچہ اسے نینا کی طرح کنٹری ہاؤس میں مسلسل رہنا پسند نہیں تھا لیکن کبھی کبھار ایک دو روز کے لیے چلا جاتا تھا۔ کھلے دیہاتی ماحول میں نیند بہت اچھی آتی تھی۔ رات کو ہمسایہ وادکا کی بوتل لے کر آ گیا تھا۔ پینے کے دوران ہمسائے کے اصرار پر وادکا کی مقدار سے متعلق طغرل کو اپنا اصول توڑنا پڑا تھا۔ چوتھے کے بعد پانچواں اور پانچویں کے بعد چھٹا۔ بس پھر کیا تھا، چڑھ گئی تھی اور اس نے بتا دیا تھا کہ ایمان نے اس کی ایک بچی کو جنم دیا تھا۔ نینا ہمسائے کے سامنے تو ہنگامہ کرنے سے باز رہی تھی لیکن یہ ہنگامہ تو ہونا ہی تھا۔ اگلے روز جب طغرل بیدار ہوا تھا تب نینا ہمسائی کے ہمراہ شاید پانی لینے چشمے پر گئی تھی یا پیراکی کے لیے ندی پر۔ طغرل کی طبیعت بہت خراب تھی۔ وہ گھروندے سے نل کر ساتھ واقع قبرستان میں گھومتا رہا تھا۔ ایک قبر کی لوح کے ساتھ ٹیک لگا کر کچھ دیر کے لیے اونگھ بھی لیا تھا۔ پھر جی میں نجانے کیا آئی تھی کہ پیدل ہی واپسی کا سفر شروع کر دیا تھا۔ کئی کلومیٹر پیدل چل کر جب مین روڈ پر پہنچا تھا تب ٹرانسپورٹ میّسر آئی تھی۔ اتنا چلنے کے بعد جب ہوش کسی قدر ٹھکانے ائے تو اسے احساس ہوا تھا کہ نینا کو مطلع کیے بغیر وہاں سے نکل کھڑا ہوا تھا، وہ پریشان ہوگی تو اس کے بارے میں کیسے معلوم کر سکے گی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہو سکتا تھا، واپس جانا دوچند لڑائی کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ جب وہ خاصی دیر کے بعد گھر پہنچا تو تھوڑی ہی دیر کے بعد گھر کے فون کی گھنٹی بجی تھی۔ اس زمانے میں موبائل فون ویسے ہی نہیں تھے، اگر تھے تو شاذ و نادر۔ بیچاری نینا نے گاؤں کے پبلک کال آفس سے فون کیا تھا۔ اس نے بس اتنا پوچھا تھا کہ گھر پہنچ گئے ہو اور طغرل نے بھی "ہاں‘ کہہ کر جواب دینے میں عافیت جانی تھی یوں شاید دونوں مطمئن ہو گئے تھے۔ کنٹری ہاؤس کا سیزن اگست کے آخر میں یا ستمبر کے اوائل میں ختم ہو جاتا ہے۔ تب تک جتنی بار بھی نینا گھر لوٹی تھی یا تو طغرل سے بولی نہیں تھی یا اگر طغرل نے بولنے کی کوشش بھی کی تو روکھائی سے جواب دیا تھا۔ ظاہر ہے سیانی عورت تھی، جانتی تھی کہ جو روح دنیا میں آ گئی سو آ گئی۔ اس سلسلے میں ہنگامہ آرائی کرکے نو بس شوہر ہی گنوایا جا سکتا تھا۔ اس کو شاید یہ بھی معلوم تھا اگر وہ ایمان کے پاس جائے گا ہی نہیں تو اس کے ساتھ تعلق بھلا کیسے مضبوط ہوگا، اگر بچوں کی پیدائش سے تعلق مستحکم ہوتے تو دنیا میں طلاقیں کیوں ہوتیں۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1398356056857167
“