وقار ان ایرانیوں کی سرگرمیوں سے متاثر تھا اور مسلسل پیسے مارنے کی مشق کیے جاتا تھا۔ ویسے بھی وہ پنجاب کے اس علاقے سے تھا جہاں زمینداریاں چند ایکڑوں کی ہوتی ہیں اس لیے دشمنیاں کرنا، دھوکہ، فریب دینا، کمائی کی خاطر کوئی حربہ اختیار کر لینا یہ سب عام زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ طغرل اسے تنبیہہ تو کرتا رہتا تھا لیکن جانتا تھا چوبکہ وقار اس کی تعظیم کرتا ہے اس لیے ہاں ہاں تو کہے گا مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات کی مانند ہوگا۔ بہر حال طغرل کو بھی وقار پسند تھا خاص طور پر اپنی حاضر جوابی اور جگت بازی کے باعث مثلا" ایک روز اس نے کہا تھا "طغرل صاحب دیکھیں لڑکی کتنی اچھی ہے"۔ طغرل نے کہا تھا،" ہاں اچھی تو ہے مگر دانت اچھے نہیں"۔ وقار نے پنجابی زبان میں ترنت جواب دیا تھا،" آپ نے دانتوں سے چنے چبانے ہیں کیا؟" ایسے ہی ایک روز طغرل نے کسی بات پر کہا تھا،"شیر بھوکا مرے پر گھاس نہ چرے" اس پر بھی وقار نے فوری فقرہ کسا تھا "مگر آپ نے تو گھاس چر لی" ۔ طغرل نے پوچھا تھا کہ کیسے؟ تو اس نے کہا تھا اس لیے کہ آپ ہماری سطح کے لوگوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ وقار طغرل کی فکر و دانش کا قدر دان تھا۔
ایک روز طغرل کی وقار کے ساتھ اسی ہوٹل کی لابی میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک پیاری سی دھان پان بوٹا سے قد کی لڑکی تھی جو تھی تو انیس بیس برس کی مگر لگتی پندرہ سولہ سال کی تھی۔ وقار نے کہا تھا،" آئیں جناب کچھ پیتے ہیں" وہ لابی کے دائیں جانب واقع کیفے میں جا بیٹھے تھے اور چائے کا آرڈر دیا تھا۔ چائے پیتے ہوئے آپس میں باتیں کرنے لگے تھے۔ اس لڑکی کا نام یولیا تھا۔ یولیا ہنس مکھ لڑکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں جنسی ہوس ٹھاٹھیں مارتی دکھائی دیتی تھی۔ وہ اس پوری ملاقات کے دوران وقار کی بجائے طغرل میں زیادہ دلچسپی لیتی دکھائی دی تھی۔ بار بار طغرل کی آنکھوں میں جنس سے گاڑھی ہوتی اپنی آنکھیں گاڑ دیتی تھی۔ باقاعدہ ایسے لگتا تھا جیسے دعوت گناہ دے رہی ہو۔ طغرل آنکھیں چرا لیتا تھا کیونکہ اس کا وتیرہ نہیں تھا کہ کسی شناسا کے معاملات میں دخیل ہو۔
بات آئی گئی ہو گئی تھی۔ طغرل کو معلوم تک نہیں تھا کہ وہ لڑکی وقار کے ساتھ شب بتا کر گئی تھی۔ وہ اکثر ایسے اوقات میں فون کرتی تھی جب دفتر میں طغرل تنہا ہوتا تھا۔ ان دونوں کی شناسائی ہو گئی تھی۔ طغرل ہوٹل سے باہر اس کے ساتھ کئی بار مل چکا تھا اور وہ اکٹھے گھومے پھرے تھے۔ جب وہ بہت دن وقار کے ساتھ دکھائی نہیں دی تھی تو ایک روز طغرل نے باقاعدہ وقار سے اجازت مانگی تھی کہ اگر وہ اس لڑکی کو بلا لے تو کیا اسے برا تو نہیں لگے گا؟ وقار نے کھلے دل سے کہا تھا،" خوشی سے بلا لیں، مجھے بھلا کیوں برا لگے گا"۔ طغرل نے ایک رات اسے بلا لیا تھا۔ طغرل کی وہ رات اتنی اچھی گذری تھی کہ اس نے یولیا کو "ماستر" یععنی ماسٹر مطلب یہ کہ ماہر کا لقب دے دیا تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس عمل میں ماسٹر ہونے کا جس کی خاطر اس نے طغرل کے ساتھ رات بتائی تھی۔ یولیا کو بھی طغرل شاید بہت پسند آیا تھا۔ طغرل نے اسے بتایا تھا کہ وہ متاہل ہے، اس پر اس نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں، ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لو، میں کبھی کبھار وہاں آ جایا کروں گی، اس سے زیادہ میرا اور کوئی تقاضہ نہیں ہوگا۔ طغرل نے اس کی اس تجویز پر کان نہیں دھرے تھے۔ جس روز یولیا آئی تھی، اس روز وقار شام ڈھلے پہنچا تھا۔ اس کو شاید ریسیپشن والی نے بتا دیا تھا کہ یولیا کے نام پر کمرہ بک ہوا تھا۔ وقار نے بڑے سپاٹ انداز میں طغرل سے پوچھا تھا،"طغرل صاحب، یولیا کو آپ نے بلایا ہے؟"۔ طغرل نے کھسیانا سا ہو کر کہا تھا کہ تم نے ہی کہا تھا کہ چاہیں تو بلا لیں۔ اس پر وقار بولا تھا "میں نے کوئی اور بات کی ہی نہیں"۔ یہ کہتے ہوئے وقار غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھا۔ جب طغرل نے یولیا کو اس بارے میں بتایا تھا تو وہ بولی تھی کہ میری اپنی مرضی ہے، جب اور جس سے جیسا تعلق چاہے بناؤں۔
جب طغرل اگلے روز گھر پہنچا تھا تو نینا کا مزاج بگڑا ہوا تھا۔ اس نے طغرل سے کہا تھا کہ تم کل رات ایک لڑکی کے ساتھ تھے۔ چخ چخ کے بعد نینا نے کہا تھا کہ اسے کسی نے بتایا تھا۔ ظاہر ہے اس بارے صرف وقار کو پتہ تھا اور وقار کے پاس طغرل کے گھر کے فون کا نمبر بھی تھا۔ وہ نینا سے بھی متعارف تھا۔ طغرل نے عام مردوں کی طرح اپنی بیوی کی بات کو دروغ پر مبنی قرار دے دیا تھا۔ البتہ اس نے جب وقار سے استفسار کیا تھا تو وقار نے بہانہ گھڑا تھا کہ اس نے پی لی تھی جو اسے چڑھ گئی تھی اس لیے اسں نے بتا دیا تھا۔ طغرل نے اس سے کہا تھا "میں نے تو آج تک نشے میں تمہاری بیوی کو فون کرکے تمہارے کرتوتوں سے مطلع نہیں کیا" اس پر وقار نے سرجھکا لیا تھا چنانچہ طغرل نے بھی مزید ناراحتی ظاہر نہیں کی تھی۔
ان ہی دنوں ریسیپشن سے کوئی لڑکی کمرے کی چابی لے کر گذری تو طغرل کو وہ بہت اچھی لگی تھی۔ طغرل نے ریسیپشنسٹ سے پوچھا تھا کہ ابھی جو لڑکی چابی لے کر گئی ہے وہ کس نمبر کے کمرے میں ہے تو اس نے بتانے سے انکار کر دیا تھا۔ طغرل کو ٹوہ لگ گئی تھی۔ بالآخر دو روز کے بات طغرل نے کسی طرح معلوم کر لیا تھا کہ وہ کونسے کمرے میں مقیم ہے۔ طغرل بئیر کی چار بوتلیں لے کر اس کے کمرے کے باہر پہنچا تھا اور دروازے پر دستک دی تھی۔ ماہ جبیں نے دروازہ کھولا تھا تو طغرل نے معذرت کرتے ہوئے اجازت چاہی تھی کہ کیا وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر بیئر پی سکتا تھا۔ لڑکی نے دروازے کے پٹ سے ہاتھ اٹھا لیا تھا یعنی اذن مل گیا تھا۔ طغرل نے ایک بوتل پینے کے بعد جب بیلاروس کے درالحکومت سے آئی مارینا نام کی اس لڑکی کا ہاتھ پکڑا تھا تو اس نے ہاتھ چھڑائے بغیر کہا تھا کہ وہ اس قسم کی لڑکی نہیں اور طغرل نے "آئی ایم سوری" کہتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ مارینا نے کسی کو فون کرنا شروع کر دیا تھا۔ گفتگو میں اس نے کہا تھا کہ اس کے پاس فون کا بل دینے ادا کرنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ طغرل نے یہ سن کر جیب سے دو تین سو روبل نکال کر میز پر رکھ دیے تھے۔ مارینا نے فون پر گفتگو ختم کرنے کے بعد پیسوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا،"یہ کیا ہے؟" طغرل نے مسکرا کر کہا تھا "فون کا بل ادا کر دینا"۔ وہ ایک ادا کے ساتھ اٹھی تھی اور جھک کر طغرل کے گلے میں بانہیں ڈال کر اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں میں پیوست کر دیے تھے۔ طویل بوسے کے بعد مارینا نے طغرل کا ہاتھ پکڑ کر اسے کرسی سے اٹھایا تھا اور پلنگ پر لے گئی تھی۔ طویل القامت، ہالی ووڈ کی اداکاراؤں کی سی حسین مارینا سپردگی اور شراکت عمل میں بھی باکمال تھی۔ طغرل خود حیران تھا کہ تین سو روبل سے دگنا تو اس کے کمرے کا کرایہ ہوگا پھر اتنی مہربانی کیوں۔ مگر انسان بھی عجیب مخلوق ہے کبھی چھوٹی سی بات پر بے حد خوش ہو کر اپنا آپ پیش کر دیتا ہے اور کبھی بیش بہا پیشکش پر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اب طغرل کی تینوں گھی میں تھیں یعنی نینا، یولیا اور مارینا، چوتھی انگلی کو ابھی گھی میں جانا تھا اور پھر پانچویں کو بھی، مگر بہت عارضی مدت کے لیے۔
فلور مینٹیننس کے لیے عموما" ادھیڑ عمر خواتین متعین ہوتی تھیں مگر ایک نئی خاتون کو یہ جاب دیا گیا تھا جو ستائیس اٹھائیس برس کی تھی۔ دبلی پتلی تاحتٰی اس کے سرین بھی لڑکوں کے سے تھے لیکن جنسی کشش پوری پوری تھی۔ طغرل نے اس کے ساتھ نظریں چار کی تھیں وہ بھی بلا وجہ مسکرانے لگی تھی بلکہ ایک بار تو جب وہ طغرل کے آفس کی ویکیوم کلینر سے صفائی کر رہی تھی تو طغرل کی بیوی نینا دفتر پہنچی تھی۔ اسے طغرل اور آلسو کا ایک دوسرے کو خاص انداز میں دیکھنا مشکوک کر گیا تھا۔ اس نے آلسو کے جانے کے بعد طغرل سے پوچھا تھا کہ اس خاتون کے ساتھ تمہارا کیا سلسلہ ہے؟ چونکہ ابھی کوئی سلسلہ تھا ہی نہیں، تو اس نے کہا تھا کہ کوئی سلسلہ نہیں۔ نینا نے تنبیہا" کہا تھا "دیکھنا"۔
فلور وومن کے پاس جو کمرہ ہوتا تھا، اس میں بس ایک کرسی اور ایک میز ہوتی تھی۔ ایک روز طغرل نے اس کے دفتر میں گھس کر دروازہ بند کیا تھا اور کرسی پر بیٹھ کر کہا تھا "کم آن"۔ آلسو نے کہا تھا " پتہ نہیں کیوں لیکن میں آپ کو انکار نہیں کر سکتی" یوں کرسی ان کے لیے سیج بن گئی تھی۔ آلسو روس میں طغرل کی واحد دوست خاتون تھی جو طغرل کے لیے "آپ" کا صیغہ استعمال کرتی تھی کیونکہ وہ بنیادی طور پر کازان کی تاتار تھی وگرنہ روس میں تو "آپ" کہہ کرغیر کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ والدین تک کو تم سے پکارا جاتا ہے۔ آلسو پھر ایسی کھلی تھی کہ رات کو فلور کا کوئی بھی کمرہ کھول دیتی تھی بلکہ ایک بار تو جم میں ایکسرسائز سائیکل کی گدی اور ہینڈل نے ہی سیج کا کام دیا تھا۔ جم میں چاروں طرف اوپر سے نیچے تک آئینے تھے۔ نیم شب کو جم شیش محل ثابت ہوا تھا۔ آلسو کا گھر بھی فرلانگ سے زیادہ دور نہیں تھا۔ گھر میں دو کمرے تھے اور اس کا دس سال کا بیٹا۔ خاوند شرابی تھا جو گھر پھٹکتا تک نہیں تھا۔
مارینا سے ملاقات گاہے بگاہے ہوتی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک بار طغرل ریسپشن میں مارینا سے روبرو ہوا تو اس نے اسے ہائی بولا تھا لیکن وہ بیگانہ بنی کھڑی رہی تھی۔ طغرل کی تو لگتا تھا کہ ریسپشنسٹ کے سامنے ہیٹی ہو گئی تھی اس لیے وہ وہاں سے کھسک لیا تھا۔ کوئی پانچ چھ گھنٹے بعد مارینا نے اپنے کمرے سے فون کیا تھا اور طغرل کو یہ کہہ کر بلایا تھا کہ مجھے تم سے اہم بات کرنی ہے۔ طغرل کو غصہ تو بہت تھا مگر وہ چلا گیا تھا۔ مارینا نے وضاحت کی تھی کہ اس وقت جو لڑکی ریسپشنسٹ کے سامنے کھڑی تھی وہ اس کی ہم جنس پرست دوست تھی جو ماسکو میں اس کے قیام کا سارا خرچ برداشت کر رہی تھی۔ وہ بہت حاسد ہے، میں اس کے سامنے کسی مرد سے اپنا تعلق ظاہر نہیں کر سکتی۔ یہ کہنے کے بعد وہ طغرل کے ساتھ لپٹ گئی تھی، جب تک طغرل کے ست کا آخری قطرہ اپنے حلق سے نیچے نہیں اتار لیا تھا، اس نے طغرل کو نہیں چھوڑا تھا۔ طغرل خود کو آزاد کرانے کی خاطر اس کو دوسری جانب دھکیل رہا تھا مگر اس نے کسی آکٹوپس کی طرح طغرل کو جکڑا ہوا تھا اور سب کچھ چوس لینے کے بعد ہی اس نے اپنی گرفت ڈھیلی کی تھی۔ طغرل کو زندگی بھر نہ تو اس سے پہلے اور نہ کبھی بعد میں ایسی سسکاریاں بھری سرشاری کا احساس نہیں ہوا تھا جس سے اس روز مارینا نے اپنی ہم جنسی کے معاوضے کے طور پر متعارف کرایا تھا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1401664069859699
“