جب یولیا دوسری بار آئی تھی تو سیدھی دفتر میں پہنچی تھی۔ اس وقت وہاں وقار موجود نہیں تھا البتہ اس کے گاؤں سے کچھ عرصہ پہلے آیا ہوا اس کا کوئی عزیز یا دوست شاہد نامی موجود تھا، جس کے ذمے کرایہ داروں سے کرایہ وصول کرنے کا کام تھا۔ ایک اور نوجوان بھی بیٹھا تھا جو الٹے سیدھے کاموں میں وقار کا شریک کار تھا اور بنیادی طور پر موٹر مکینک۔ وہ روسیوں کی مانند روسی بولتا تھا، مگر گلی والی روسی زبان۔ روسیوں کی طرح ہی دھمکا کر کسی کے پاؤں سے زمین کھینچ سکتا تھا۔ خوبرو تھا مگر یکسر ان پڑھ البتہ اس نے اپنے اطوار سے یہ احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ اس کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔
طغرل نے یولیا کے نام کمرہ بک کروا کے اسے کمرے میں انتظار کرنے کو کہا تھا اور روزانہ کرائے کی وصولی اور حساب کتاب کے معاملات نمٹانے کے لیے دفتر لوٹ آیا تھا۔ ایک اور لڑکی آئی بیٹھی تھی۔ یہ لڑکی ہوٹل کے سامنے والی سڑک کے اس پار ایک دکان میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ سیلز گرل تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری کی خاطر جب طغرل کا اس دکان میں چند بار جانا ہوا تھا تو اسے یہ لڑکی اچھی لگی تھی۔ طغرل نے اسے دفتر میں دیکھ کر پوچھا تھا کہ یہ یہاں کیسے آئی ہے؟ شاہد خاموش رہا تھا، دوسرے شخص نے بتایا تھا کہ اسے شاہد نے مدعو کیا تھا۔ شاہد کو روسی زبان نہ آنے کے برابر آتی تھی چنانچہ لڑکی طغرل کے ساتھ باتیں کرنے لگی تھی۔ گفتگو کے دوران اس کی عشوہ طرازیوں کو نمایاں ہوتے دیکھ کر دوسرے نوجوان نے پنجابی میں کہا تھا،"طغرل صاحب، کس بات کا انتظار کر رہے ہیں، لڑکی رضامند ہے، لے جائیں غسل خانے میں"۔ طغرل نے ویسے ہی لڑکی سے کہا تھا،"اٹھو ، میری بات سنو" وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ طغرل اسے لے کر غسل خانے میں گھس گیا تھا۔ جب وہ خاصی دیر باہر نہیں نکلے تھے تو باہر سے شاہد نے پوچھا تھا،" آپ لوگ اندر کیا کر رہے ہیں؟" طغرل نے جس کی سانس اکھڑی ہوئی تھی، یہی کہا تھا،" کیا کر رہے ہیں، وہی جو کیا جاتا ہے"۔ تھوڑی دیر میں دونوں باہر نکل آئے تھے۔ شاہد کی شکل میں تشنج تھا اور دوسرا نوجوان شرارتی مسکراہٹ مسکرا رہا تھا۔ یوں اس روز ہو گئی تھیں ناں پانچوں گھی میں ۔ البتہ اس لڑکی کے بدن سے اٹھتی ہمک نے طغرل کو لطف نہیں لینے دیا تھا۔
یولیا کے پاس کمرے میں جانے سے پہلے طغرل نے جا کر ریسیپشن پر ہدایت کی تھی کہ اگر اس کی بیوی نینا کا فون آئے تو یہی کہنا ہے کہ طغرل سو چکا ہے، فون بالکل تھرو نہیں کرنا۔ ریسپشن پر موجود لڑکی نے حامی بھر لی تھی۔ رات کے پچھلے پہر طغرل جس کمرے میں تھا، اس کے دروازے پر دستک ہوئی تھی، پہلے ہلکے ہلکے اور پھر بہت زور سے۔ یولیا نے مضطرب ہو کر پوچھا تھا، کون ہو سکتا ہے۔ طغرل کو کیا معلوم تھا کہ کون ہے۔ شروع میں اس نے سوچا تھا جو بھی ہوگا جواب نہ پا کر چلا جائے گا۔ مگر جب دروازہ بہت زور سے بجایا جانے لگا تھا تو اس نے اٹھے بغیر پوچھا تھا کہ کون ہے؟ باہر سے ہوٹل کے محافظ نے جواب دیا تھا کہ میں ہوں۔ طغرل نے قمیص پہن کر بٹن بند کیے بغیر دروازہ کھولا تھا تو محافظ نے بتایا تھا کہ نیچے آپ کی بیوی آئی ہے ۔ طغرل پریشان ہو کر اس کے ہمراہ لفٹ کی جانب چل دیا تھا۔ اس نے راستے میں بتایا تھا کہ آپ کی بیوی پولیس کی گاڑی میں آئی ہے اور ساتھ دو پولیس والے بھی ہیں۔ وہ بیچارہ سمجھ رہا تھا کہ شاید طغرل کی بیوی طغرل کے خلاف شکایت درج کرا کے پولیس والوں کو ساتھ لائی ہے۔ جاتے جاتے طغرل نے قمیص کے بٹن بند کیے تو وہ اوپر نیچے لگ گئے تھے جیسے بہت جلدی میں بند کیے گئے ہوں۔ طغرل جانتا تھا کہ پولیس والے اس کی بیوی کے رفقائے کار ہیں اور پولیس کی گاڑی ان کے دفتر کی گاڑی۔ طغرل جب گاڑی کی پچھلی کھلی ہوئی کھڑکی میں جھانکنے کے لیے جھکا تو نینا نے پوچھا تھا، "تم کس کے ساتھ ہو؟" طغرل نینا پر چڑھ دوڑا تھا کہ وہ کیوں آئی تھی۔ کیا اسے بدنام کرنے کی خاطر، ہوٹل کے عملے نے کسقدر برا تاثر لیا ہوگا، کیا یہ وہ جانتی تھی" نینا نے بس اتنا کہا تھا،" اگر تم اکیلے ہو تو اتنا گھبرانے کی کیا ضرورت ہے، اپنی قمیص کے بٹن تو ٹھیک سے بند کر لو" یہ کہہ کر اس نے اپنے کولیگ ڈرائیور سے کہا تھا "چلو"۔
طغرل محافظ کے ساتھ نکلتے ہوئے یولیا کو بتا گیا تھا کہ اس کی بیوی نے چھاپہ مارا ہے۔ جب وہ کمرے میں لوٹا تو یولیا ڈر کے مارے تقریبا" کانپ رہی تھی۔ طغرل اسے پہلے بتا چکا تھا کہ اس کی بیوی بہت حاسد تھی اور مارشل آرٹس بھی جانتی تھی۔ طغرل نے اسے تسکی دی تھی تاہم ان دونوں کی یہ رات تو برباد ہو چکی تھی۔ یولیا الجھن اور اضطراب میں کوئی چھ بجے ہی ہوٹل سے نکل گئی تھی۔
ایک روز پہلے طغرل آلسو سے بھی وعدہ کر چکا تھا کہ وہ گھر جانے سے پہلے اس کے ہاں آئے گا تاکہ وصال کا لطف لیا جا سکے۔ اسے وعدہ نبھانا تھا چنانچہ اس کے ہاں چلا گیا تھا۔ آلسو کے ساتھ یگانگت نے اسے کل شام والی لڑکی کے بدن کی ناگوار ہمک اور بیوی کے رات گئے چلے آنے سے پیدا ہونے والی ناخوشگواری بھلا دی تھی، پھر آلسو کا اندام ایسا تھا کہ جیسے کھلتا ہوا پھول۔ کون نہیں جانتا کہ اندام نسواں کوئی خوشنما انگ نہیں مگر آلسو اس معاملے میں شاید یکتا تھی۔ کم از کم طغرل کو تو یہی لگا تھا اور اب تک لگتا ہے۔ بہر حال جب وہ تلذذ سے عہدہ برآء ہو کر گھر جا رہا تھا تو شکر کر رہا تھا کہ نینا کے ساتھ رات کو رنجش ہو گئی تھی وگرنہ اب اس میں مزید ملوث ہونے کی سکت باقی نہیں رہی تھی۔
آٹھ مارچ 1999 کی رات طغرل نے آلسو کے گھر بسر کی تھی۔ 9 مارچ کو کوئی دس بجے وہ ہوٹل کے دفتر پہنچا تھا۔ گیارہ بجے کے قریب گھر جانے کو نکلنے کی سوچ رہا تھا کہ وقار دفتر میں داخل ہوا تھا۔ وقار نے پوچھا تھا،"آپ نکل تو نہیں رہے؟" "بس نکلا ہی چاہتا ہوں" طغرل نے جواب دیا تھا۔ اس نے کہا تھا،" آدھ پون گھنٹہ مزید انتظار کر لیجیے، مجھے آپ کی ٹوپی چایے، مجھے کہیں جانا ہے، بس گیا اور آیا سمجھیں"۔ طغرل نے ٹوپی وقار کو دے کر ٹانگیں سیدھی کر لی تھیں۔ وقار کوئی ایک گھنٹے بعد لوٹا تھا۔ طغرل نے گلہ کیا تھاکہ بہت دیر لگا دی جس پر وقار نے معذرت کی تھی۔ وقار سے ٹوپی لے کر طغرل نکل گیا تھا۔ باہر نکل کر سڑک سے ٹیکسی پکڑی تھی اور زیرزمین ریلوے کے قریبی سٹیشن پر پہنچ کر سیڑھیاں اتر کر سٹیشن میں داخل ہو گیا تھا۔ ٹرین کا انتظار کرنے کی خاطر طغرل جس ننچ پر بیٹھا تھا اس پر ایک جوان اور خوبصورت لڑکی ملول سی بیٹھی تھی۔ طغرل نے اس سے پوچھا تھا،"اتنی اداس کیوں ہیں آپ؟" یہ کہہ کر اس کی نگاہ اٹھی تو اس نے دیکھا تھا کہ تھوڑی دور کھڑا ایک مضبوط تن و توش والا نوجوان ان دونوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ طغرل نے یہ سوچ کر کہ کہیں یہ لڑکی اس نوجوان کی گرل فرینڈ نہ ہو مزید کوئی بات نہیں کی تھی۔ اتنے میں ٹرین آ پہنچی تھی۔ طغرل ایک دروازے سے کمپارٹمنٹ میں داخل ہو گیا تھا۔ اس روسی نوجوان نے جو کمپارٹمنٹ کے دوسرے دروازے سے داخل ہوا تھا، طغرل پر نظریں گاڑی ہوئی تھیں۔ طغرل نے اس کے اس عمل کو درخور اعتناء نہیں جانا تھا۔ طغرل نے کچھ سٹیشنوں کے بعد ٹرین تبدیل کی تھی، وہ نوجوان اس ٹرین کے اسی کمپارٹمنٹ میں موجود تھا جس میں طغرل سوار ہوا تھا۔ طغرل کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ مگر جب آخری اور تیسری ٹرین تبدیل کی تو یہ نوجوان طغرل کے بالکل سامنے آ کر بیٹھ گیا تھا اور طغرل کو گھورنے لگا تھا۔ طغرل عموما" گھورنے والے کو خود بھی گھورنے لگ جاتا تھا مگر اس روز نجانے کیوں طغرل ڈر گیا تھا، اس نے نظریں نہیں اٹھائی تھیں۔ جب طغرل کا سٹیشن آیا تو وہ نکل آیا تھا پر اس نے اس نوجوان کو اترتے نہیں دیکھا تھا۔ سٹیشن سے باہر نکل کر طغرل نے راہ چلتے ہوئے دو بار مڑ کر دیکھا تھا مگر وہ نوجوان دکھائی نہیں دیا تھا۔ کوئی ایک سو میٹر چلنے کے بعد طغرل نے سڑک پار کی تھی اور ایک پارک میں سے گذرنے والے ترچھے راستے پر ہو لیا تھا تاکہ شارٹ کٹ لے جو اس کا روزانہ کا عموم تھا۔ ترچھی راہ کے آخر پر پہنچ کر طغرل نے ایک بار پھر گھوم کر دیکھا تھا۔ راستے کے وسط میں ایک ادھیڑ عمر کا شرابی لڑکھڑاتا ہوا آ رہا تھا، اس کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ دن کے کوئی اڑھائی بجے تھے۔ اگرچہ ہر طرف برف کی بڑی بڑی ڈھیریاں تھیں مگر دھوپ چمک رہی تھی۔ دن پر رونق تھا۔ ترچھی راہ سے نکل کر چند قدم چلنے کے بعد جب وہ ایک بلند رہائشئ عمارت کی اوٹ میں پہنچا تھا تو چراغوں میں روشنی نہ رہی تھی۔ پھر جب طغرل کے ہوش بجا ہوئے تو اس کے ناک ، کان اور سر سے خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ اس نے دونوں ہتھیلیوں سے پھوٹنے خون کو ڈھانپا تھا اور پیدل چلتا ہوا گھر پہنچا تھا۔ روس میں خون میں لت پت شخص کو دیکھ کر لوگ کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا شخص نشے میں دھت ہو کر کسی کے ساتھ لڑائی کرکے، مار کھا کر جا رہا ہوتا ہے۔ طغرل کو بھی گھر تک کی راہ میں چند ایک افراد ملے تھے جنہوں نے کنکھیوں سے دیکھا تھا اور بس۔ طغرل نے اپنے اپارٹمںٹ کے دروازے پر پہنچ کر بیل بجائی تھی۔ اندر سے نینا کی آواز آئی تھی "کون" ۔ طغرل نے کہا تھا "دروازہ کھولو"۔ نینا نے کہا تھا،"چابی تمہارے پاس ہے کھول لو"۔ طغرل نے چیخ کر کہا تھا، "کھولو دروازہ"۔ نینا نے دروازہ کھولا تھا تو طغرل کی حالت دیکھ کر بیہوش ہوتے ہوتے بچی تھی۔ طغرل نے کہا تھا،"جلدی سے میڈیکل ایمرجنسی کو فون کرو"۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1402466746446098
“