ایمرجنسی روم میں پہنچنے کے کوئی دس منٹ بعد ایک ڈاکٹر نے طغرل کے دائیں کان کے اوپر والے حصے پر افقا" تین ٹانکے لگائے تھے کیونکہ یہ کان چرا ہوا تھا۔ غالبا" حملہ آور نے سر پر وار کرنے کے بعد جب طغرل گر گیا تھا تو اس کے سر کو ٹھوکروں پر رکھ لیا تھا۔ سر اور ناک سے خون بہنا سمجھ آتا تھا لیکن کان کیسے چرا اسی سے اندازہ ہوا تھا کہ ٹھوکریں ماری ہونگی۔ طغرل کی جیکٹ کی جیب میں اور اندرونی جیب میں رکھی ہوئی ہوٹل کی خاصی کمائی میں سے ایک کرنسی نوٹ تک غائب نہیں ہوا تھا۔ کان سی دیے جانے کے بعد ایک دوسرے ڈاکٹر نے طغرل کی ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے حرام مغز سے تجزیہ کرنے کی خاطر مائع نکالا تھا۔ سرنج میں بھرا خون آلود مائع دکھا کر ڈاکٹر نے طغرل سے کہا تھا،" لگتا ہے نتیجہ کچھ اچھا نہیں ہوگا" اس کی اس بات پر طغرل خاموش رہا تھا۔ پھر اسے ہسپتال کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ تھوری دیر بعد نینا روتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ طغرل نے اسے کہا تھا کہ کیا تمہیں ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میں مر جاؤں گا، تسلی رکھو میں نہیں مروں گا۔ نینا روتی رہی تھی۔ اس نے بہت دنوں کے بعد بتایا تھا کہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگلے چوبیس گھنٹے انتہائی نازک ثابت ہو سکتے تھے۔ طغرل کو اتنی معلومات تو تھیں ہی کہ اگر خون دماغ کی جھلی سے گذر کر حرام مغز میں داخل ہو جائے تو ایسے میں بچنا مشکل ہوتا ہے لیکن طغرل کو جو سدا کا وہمی تھا بے حد یقین تھا کہ وہ نہیں مرے گا۔ اس نے اس دوران جب وہ باہوش دنیا میں نہیں تھا کچھ دیکھا تھا۔ جو دیکھا تھا وہ ابھی کسی کو نہیں بتانا چاہتا تھا کیونکہ اسے بذات خود بہت سے شکوک تھے جیسے کہیں یہ اس کی اپنی سوچ تو نہیں تھی؟ کہیں اس کے زندہ رہنے کی خواہش کا نتیجہ تو نہیں تھا؟ کہیں اس نے یہ گمان تو نہیں کر لیا تھا؟ ان سب کے باوجود وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیا تھا؟
شام ڈھلنے کے بعد وقار اور اس کا وہ دوست جو اس کے کرتوتوں میں شامل تھا، طغرل کی عیادت کی کرنے ہسپتال پہنچے تھے۔ اس وقت تک طغرل کا چہرہ اور خاص طور پر دائیں جانب کی آنکھ اور ناک کا دایاں حصہ پھول کر کپا ہو چکے تھے۔ چہرے کے اس حصے پر جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے زخم تھے۔ طغرل کی شکل دیکھ کر وقار کی شکل پر تکلیف کے اثرات ہویدا تھے مگر اس کا دوست مطمئن رہا تھا البتہ اس نے طغرل کے چہرے کی جانب دیکھ کر اپنی مخصوص پنجابی میں کہا تھا "کام کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے"۔ اس کے کہے اس فقرے سے طغرل کو شک ہو گیا تھا کہ کہیں یہ کارستانی وقار کے کہنے پر اس کے دوست نے اپنے کسی روسی شہدے دوست سے نہ کروائی ہو۔ یولیا کا چھن جانا، وقار کے دوست شاہد کی بلائی لڑکی سے طغرل کا وصل اور ساتھ ہی طغرل کو یاد آیا تھا کہ بہت پہلے جب ایک اور ہوٹل میں اپنے کسی دوست کے دفاع کے لیے وقار کا یہ دوست جو تب اس کا شناسا تک نہیں تھا، وقار سے لڑنے آیا تھا تو تب طغرل اپنے دو شناسا نوجوانوں کے ہمراہ اس ہوٹل سے باہر نکلا تھا اور ساتھ ہی اس شخص کا وہ دوست بھی جس کے دفاع میں یہ پہنچا تھا۔ طغرل کے یہ دونوں ساتھی اس کے اس دوست پر پل پڑے تھے۔ طغرل نے لڑائی روکنا چاہی تھی۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا تھا،"آپ ہمارے دوست ہیں، یا اس کے۔ آپ بھی ماریں اسے" طغرل نے بھی چار و ناچار اسے دو ایک تھپڑ جڑ دیے تھے لیکن ساتھ ہی ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ مار کھانے والا بھاگ سکے۔ بظاہر اپنی جانب سے کی گئی ان زیادتیوں کے علاوہ طغرل کو ان لوگوں کی سوچ کی سطح اور منتقمانہ خو نے بھی اس طرح سوچنے پر مجبور کیا تھا۔
ہسپتال میں قیام کے دوران نینا کے علاوہ اظفر نے طغرل کا خاص خیال رکھا تھا۔ ماسکو کے ہسپتالوں میں تیمار داری کرنا تو عملے کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن مریض شخص کو اوقات ملاقات کے دوران کسی کا روز ملنے آنا بھی بڑی بات تھی۔ اظفر مزے مزے کے کھانے بنا کر لاتا تھا لیکن چار روز بعد ہی کھانوں کے ذائقے طغرل کے لیے لذت کھو چکے تھے کیونکہ طغرل کو شدید لقوہ ہو گیا تھا۔ اس کے چہرے کا بایاں حصہ دائیں جانب کھنچ گیا تھا۔ بائیں آنکھ بند ہونے سے قاصر تھی۔ طغرل کو یاد آیا تھا کہ اسے جوانی میں بھی ایک بار لقوہ ہوا تھا، چہرے کی کس جانب البتہ اس بارے میں اسے یاد نہیں رہا تھا۔
دوسرے روز آلسو ملنے آئی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ آنے سے پہلے مستقبل کا حال بتانے والی کسی بوڑھی کے پاس گئی تھی جس نے بتایا تھا کہ طغرل طویل عمر پائے گا اگرچہ ابھی وہ موت و حیات کی کشمکش سے گذرا تھا۔
تیسرے روز یولیا کو پتہ چلا تھا تو وہ بھی آ گئی تھی۔ وہ طغرل کے لیے ہرمن ہیس کی کتاب سدھارتھا خرید کر لائی تھی۔ اتنے مختصر تعلق کے بعد بھی اسے طغرل کے ذوق کا پتہ چل گیا تھا یہ طغرل کے لیے خوش کر دینے والی بات تھی۔ وہ ہسپتال میں بھی اپنی شرارت اور مہارت سے باز نہیں آتی تھی۔ طغرل کا سہارا لے کر ہسپتال کے بیڈ پر بیٹھے، طغرل کے کمبل تلے ہاتھ دے کر دست درازی کرتی رہتی تھی اور اپنی خوبصورت مسکراہٹ مسکرائے جاتی تھی، بعض اوقات کھلکھلا کر بھی ہنس دیا کرتی تھی۔ طغرل اظفر اور یولیا دونوں کا شکر گذار تھا۔ طغرل کو ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں یولیا کے ہوتے ہوئے نینا نہ آ جائے۔ اس نے اس خدشے کا ذکر یولیا سے کیا تھا تو اس نے حسب معمول شرارتی انداز میں کہا تھا "میں جھٹ سے کسی اور مریض کے بیڈ پر جا بیٹھوں گی"۔ لیکن اس سے ایسا نہیں ہو سکا تھا کیونکہ نینا نہیں آئی تھی بلکہ اس کا بیٹا ساشا آیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ ہسپتال میں نہانے کا انتظام نہیں تھا۔ طغرل نے نینا سے کہا تھا کہ اگر اس کا داماد لیونیا آ کر اسے تھوڑی دیر کے لیے اپنی گاڑی پر گھر لے جائے تو وہ نہا کر واپس ہسپتال آ جائے گا۔ ایک روز یولیا آئی ہوئی تھی۔ طغرل کو حاجت محسوس ہوئی تھی وہ یولیا کو اپنے بیڈ کے پاس بیٹھی چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ باہر چونکہ سردی تھی چنانچہ نینا نے اپنے داماد کے ہمراہ ساشا کو طغرل کی جیکٹ دے کر بھیجا تھا۔ ساشا نے جب لڑکی کو بیٹھے دیکھا تو ماں کی محبت میں اسے کچھ الٹا سیدھا کہہ دیا تھا۔ وہ چلی گئی تھی۔ جب طغرل باتھ روم سے لوٹا تو وہ موجود نہیں تھی البتہ ساشا جیکٹ لیے متشنج چہرے کے ساتھ کھڑا تھا۔ طغرل نے اس سے استفسار کرنا مناسب خیال نہیں کیا تھا اور جیکٹ پہن کر اس کے ہمراہ جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ جب لیونیا نے انہیں گھر کے باہر یہ کہتے ہوئے ڈراپ کیا کہ میں ایک گھنٹے بعد آ کر ہسپتال پہنچا دوں گا تو ساشا اور طغرل عمارت میں داخل ہو کر لفٹ میں داخل ہوئے تھے۔ لفٹ میں ساشا نے یولیا کے بارے میں پوچھا تھا تو طغرل نے اسے ڈانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ اپنی ماں سے ذکر نہ کرنا۔
ساشا کے تیور دیکھ کر طغرل کو خود پر ہوئے حملے کے سلسلے میں اس پر بھی شک ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساشا اب بڑا ہو چکا تھا۔ جن بچوں کے ماں باپ کے درمیان طلاقیں ہو جاتی ہیں اور مائیں دوسرے مردوں کی بیویاں بن جاتی ہیں تو بچے بڑے ہو کر ان مردوں کے مخالف ہو جایا کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان مردوں نے ان کے باپوں کی جگہ لینے کی کوشش کی ہے۔ ایسا ہی ساشا کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ ایک روز جب وہ بہت نشے میں گھر پہنچا تھا تو طغرل دروازے سے باہر برآمدے میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ ساشا نے سرخ سرخ آنکھیں نکال کر دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا، "اگر تم نے کبھی میری ماں کا دل دکھایا تو تمہیں اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودنی ہوگی"۔ طغرل کو پتہ تھا کہ وہ نشے میں یہ بکواس کر رہا تھا اس لیے اس نے کہا تھا،" اگر مجھے مرنا ہی ہوگا تو میں کیوں اپنی قبر کھودوں گا، جو مارے گا وہ قبر بھی کھود لے گا "۔ طغرل کو لگا تھا کہ کہیں ساشا نے تو اپنے کسی لفنگے دوست کو اس کے پیچھے نہیں لگا دیا تھا۔
بہت بعد میں پتہ چلا تھا کہ ساشا نے یولیا کے بارے میں اپنی ماں کو بتا دیا تھا۔ وہ درپے ہو گئی تھی کہ طغرل کو چھوڑ دے گی لیکن نینا کے ہی بقول اس کی بیٹی آلا نے سمجھایا تھا کہ جس حالت میں اس وقت طغرل ہے، ایسے میں کوئی ایسا قدم اٹھانا مناسب نہیں۔ وہ صحت یاب ہو جائے تو طے کر لینا۔
یولیا اس واقعے کے بعد بھی آئی تھی مگر تب طغرل کسی کے ساتھ ہسپتال سے باہر بیٹھا ہوا تھا۔ جب وہ کمرے میں لوٹا تھا تو ساتھی مریض نے بتایا تھا، "تمہاری بیٹی تمہیں ملنے آئی تھی" طغرل نے اس کی تصحیح کرنے سے اغماض برتا تھا۔
جو ماہر اعصاب طغرل کا معالج تھا۔ اس نے سختی سے طغرل کو منع کیا تھا کہ لقوہ کا مکمل علاج کیے جانے کی خاطر الکحل سے یکسر گریز کیا جانا ہوگا مگر جو ڈاکٹر رات کی ڈیوٹی پر ہوتا تھا، اس نے طغرل سے کہا تھا کہ تمہارا ڈاکٹر یونہی کہتا ہے، آو بیئر پیتے ہیں۔ اس کے کہنے پر طغرل نے ڈاکٹر کے ساتھ چند بار بیئر پی لی تھی، شاید یہی وجہ تھی کہ طغرل کے لقوے کا صد در صد مداوا نہیں ہو پایا تھا۔
طغرل کو سب سے بڑا صدمہ لقوے سے نہیں ہوا تھا جو اس کی شاہد بازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا بلکہ ایک اور مظہر سے ہوا تھا۔ وہ ایسے کہ ایک روز طغرل کے سامنے پیالی پڑی ہوئی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ پیالی کو اردو میں پیالی کہتے ہیں اور روسی زبان میں چیاشکا لیکن انگریزی میں کیا کہتے ہیں اسے بھول چکا تھا تاحتٰی یہ بھی بھول چکا تھا کہ انگریزی کو انگریزی زبان میں انگلش کہتے ہیں۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ تو انگریزی کا ایک ایک لفظ بھول چکا تھا۔ وہ تلملا اٹھا تھا اور بہت زیادہ پریشان ہو گیا تھا۔ اگلے دن جب اس کا معالج راؤنڈ پر آیا تھا تو اس نے اس سانحے کے بارے میں اسے بتایا تھا۔ ڈاکٹر مسکرا دیا تھا اور اس نے کہا تھا،" گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اسے طب کی زبان میں "ترانزی یینٹ ایمنیزیا" یعنی عارضی نسیان کہتے ہیں، وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا"۔
کوئی بیس روز کے بعد طغرل کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ وہ اگلے ہی روز ہوٹل پہنچا تھا۔ ہوٹل میں ایک بہت شفیق میٹرن ہوا کرتی تھی جو اسے اتفاق سے لفٹ میں ملی تھی۔ جب اس نے طغرل کے بگڑے چہرے کی جانب دیکھا تھا تو طغرل نے بے اختیار کہا تھا، "دیکھیں میرے چہرے کے ساتھ کیا ہو گیا ہے"۔ شفیق عورت نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں، ہاتھ پیر تو سلامت ہیں ناں۔ اس پر طغرل کو احساس ہوا تھا کہ واقعی درست کہتی ہے۔ اس نے ہسپتال میں ایک ایسے نوجوان کو دیکھا تھا جو سر کی چوٹ سے اس قدر متاثر ہوا تھا کہ اس کو اپنی چال اور ہاٹھوں کی حرکات پر قابو نہیں رہا تھا، عجیب بے ڈھنگے طریقے سے چلتا تھا۔ طغرل نے اس خدا کا لاکھ شکر ادا کیا تھا جس کو وہ اب تک نہیں مانتا تھا۔ البتہ اسے ہوش میں آنے سے پہلے جو دکھائی دیا تھا، اس سے وہ سوچنے پر مجبور ضرور ہو گیا تھا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1404055042953935
“