ماورائیت کے حوالے سے طغرل کی سوچ میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آ سکی تھی۔ کونیات اور متوازی نفسیات پڑھنے کے بعد بھی اس کی تشکیک میں شاید ہی کمی آئی تھی۔
طغرل کو امریکہ جانے کا کوئی اتنا شوق نہیں تھا مگر اول تو ماسکو میں اب زندگی کاٹنا دشوار ہوتا جا رہا تھا، دوسرے جب سے اس کا مینیجر تاجک اسے غچہ دے کر امریکہ گیا تھا، طغرل سمجھتا تھا کہ امریکہ جا کر وہ اسے شاید پکڑ سکے مگر اس خام خیالی پر اسے کئی بار شک ہوا تھا پھر بھی دو سال پیشتر اس نے امریکہ کے ویزے کی درخواست دے ہی دی تھی۔ انٹرویو کے دوران متعلقہ کونسلر سے تب طغرل نے سچ ہی بولا تھا جب اس نے پوچھا تھا کہ آپ امریکہ کیوں جانا چاہتے ہیں، اس کے جواب میں اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا کہ وہ امریکہ جانے کے لیے مرا نہیں جا رہا مگر چونکہ اس کا مینیجر اسے لوٹ کر بھاگ گیا ہے، چنانچہ وہ چاہتا تھا کہ اسے وہاں جا لے۔ ابھی طغرل سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ایسا بیباک جواب کیوں دیا کہ امریکی کونسلر نے تڑ سے کہا تھا "اور اگر آپ وہاں جا کر اس کو قتل کر دیں تو؟" طغرل اس کی اس بات پر بھنا گیا تھا اور اس نے کونسلر سے پوچھا تھا،" کیا میں آپ کو شکل سے قاتل لگتا ہوں؟" کونسلر نے اس کی جانب دیکھے بغیر اس کے پاسپورٹ پر ریجیکٹ کا ٹھپہ لگا کر اسے تھما دیا تھا۔
لیکن اب اس کے پاس روس کا پاسپورٹ تھا۔ ایک پرانے ہم خیال دوست نے طغرل کو تلاش کر لیا تھا اور ای میل کے ذریعے اصرار کر رہا تھا کہ وہ امریکہ آئے۔ یہ دوست بہت عرصہ پہلے جرمنی چلا گیا تھا اور وہاں سے امریکہ منتقل ہو گیا تھا۔ طغرل کے رشتے کے ایک بھائی بھی امریکہ میں تھے، جن سے اس نے دعوت نامہ اور ان کے ٹیکس ریٹرنز کی نقول منگوا لی تھیں تاکہ ویزا کی درخواست کا کیس کمزور نہ ہو۔ اس بار وہ پوری فائل تیار کرکے امریکی سفارت خانے میں اپنے ساتھ لے گیا تھا مگر کونسلر نے وہی ایک سوال پوچھا تھا، "آپ امریکہ کیوں جانا چاہتے ہیں" اس بار بھی اس نے سچ بولا تھا کہ میلینیم کے جشن میں شامل ہونے کی خاطر جس پر کونسلر نے کہا تھا کہ دو بجے آ کر پاسپورٹ لے جائیں۔ طغرل کو خود کہنا پڑا تھا "کیا آپ کو کیس فائل نہیں دیکھنی؟" کونسلر مسکرا دیا تھا۔ دو بجے طغرل کو ویزا لگا ہوا پاسپورٹ واپس مل گیا تھا۔
طغرل ماسکو سے نیویارک کی پرواز پر روانہ ہو گیا تھا۔ ساڑھے گیارہ گھنٹے کے بعد وہ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایر پورٹ پر اترا تھا۔ امیگریشن لاؤنج میں داخل ہو کر اسے مایوسی ہوئی تھی۔ باوجود ماہ دسمبر کے امیگریشن کی لائن میں کھڑے بہت سے لوگوں کو نجانے کیوں گرمی لگ رہی تھی۔ جب اس کی باری آئی تھی تو امیگریشن انسپکٹر نے اس کی جانب دیکھا تھا، طغرل نے کہا تھا "یہاں بہت گرمی ہے" انسپکٹر نے اس کی کہی بات نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا تھا،"جناب کیا پہلی بار ریاستہائے متحدہ امریکہ آئے ہیں؟" طغرل کے اثبات میں جواب دینے پر اس نے چھ ماہ کے دخول کی مہر لگائی تھی اور پاسپورٹ واپس کرتے ہوئے کہا تھا " ریاستہائے متحدہ امریکہ میں خوش آمدید جناب"۔ طغرل سامان وصول کرنے کے بعد باہر نکل گیا تھا لیکن اس کو اپنا بھانجا کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس زمانے میں موبائل فون تو ہوتے نہیں تھے چنانچہ طغرل نے انتظار کرنا مناسب سمجھا تھا۔ اس کا بھانجا کوئی ایک گھنٹے بعد پہنچا تھا کیوں کہ وہ پہلے ٹریفک جام میں پھنس گیا تھا، پھر اسے پارکنگ فل ہونے کی وجہ سے گاڑی دور لے جا کر کھڑی کرنی پڑی تھا۔ وہ دونوں سامان کے ساتھ کوئی سات منٹ پیدل چل کر گاڑی تک پہنچے تھے۔ اس کے بھانجے نے گاڑی سٹارٹ کرنے کے فورا" بعد بتا دیا تھا کہ انہیں نیویارک شہر سے باہر کوئی سوا سو کلومیٹر دور کے ایک شہر جانا ہے جہاں وہ رہتا تھا۔
گاڑی چلتی جا رہی تھی۔ طغرل اپنے بھانجے مسعود سے باتیں بھی کر رہا تھا اور گاڑی کی کھڑکی سے باہر بھی دیکھ رہا تھا۔ اس کےذہن میں تو فلک بوس عمارتوں والا نیویارک بسا ہوا تھا جو اس نے فلموں اور تصویروں میں دیکھا تھا۔ جس شہر کو وہ دیکھ رہا تھا وہ تو اسے صاف ستھرے گوجرانوالہ یا اوکاڑہ کی طرح کا شہر لگ رہا تھا۔ اس نے جب یہی بات مسعود سے کہی تھی تو اس نے زور کا قہقہہ بلند کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اونچی عمارتوں والا تو نیویارک کا صرف ایک حصہ ہے جو مین ہیٹن کہلاتا ہے، باقی نیویارک میں زیادہ اونچی عمارتیں نہیں ہیں۔
پہاڑی راستے پر، جس کے ارد گرد خوش کن مناظر تھے، سفر کرتے ہوئے وہ ڈیڑھ گھنٹے بعد ایک گھر کے گیٹ میں داخل ہوئے تھے، سڑک گھر کی عمارت تک جاتی تھی جو گیٹ سے پینتالس پچاس میٹر اندر تھی۔ گھنٹی بجانے پر طغرل کی بھتیجی صولت نے دروازہ کھولا تھا جو مسعود کی اہلیہ تھی۔ وہ اپنے چچا کے آنے پر بہت خوش تھی۔ طغرل ان کے قریبی عزیزوں میں سے ان کے گھر آنے والا پہلا مہمان تھا۔ طغرل کو جو کمرہ دیا گیا تھا، اس کی کھڑکی سے صحن کے بیچ کھڑا بلوط کا ایک قدیم درخت دکھائی دیتا تھا اور صحن کی بغل سے بہتی ہوئی ایک چھوٹی سی آبجو بھی دکھائی دیتی تھی۔
واپنجر فال نام کا یہ علاقہ کچھ زیادہ ہی پرسکون تھا اور مسعود کا قدیم گھر تو کچھ زیادہ ہی پرسکون تھا جسے سنسان کہنا زیادہ مناسب لگتا تھا۔ یہاں نہ تو کسی انسان کی اواز آتی تھی اور نہ ہی کسی گاڑی کا شور۔ یا ٹیلیویژن کی آواز تھی یا ویکیوم کلینر کا شور کیونکہ صولت کو ویکیوم کلین کرنے کا جنون تھا۔ صولت کا ایک اور جنون بلاوجہ خریداری کرنا تھا۔ اس کے گھر کی الماریاں ٹنڈ فوڈ اور الا بلا سے اٹی پڑی تھیں۔
ایک روز آرام کرنے کے بعد طغرل نے مسعود سے کہا تھا کہ وہ اسے بھی ساتھ لے جائے تاکہ وہ شہر دیکھ سکے۔ مسعود نیویارک شہر کے ایک حصے میں ریڈیو ٹیکسی چلاتا تھا۔ وہ اسے ساتھ لیتا گیا تھا۔ ابھی شام کے آٹھ بجے تھے۔ اندھیرا چھانے لگا تھا لیکن شہر کے گھروں کی شاید ہی کسی کھڑکی سے گھر میں روش بلبوں کی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ طغرل نے استفسار کیا تھا کہ لوگ کہاں ہیں؟ مسعود نے بتایا تھا کہ لوگ سو رہے ہیں۔ کیوں اتنی جلدی سونے کی کیا وجہ ہے؟ طغرل نے حیران ہو کر پوچھا تھا جس کے جواب میں مسعود نے پرسکون انداز میں کہا تھا کہ اس لیے چونکہ صبح سب کو کام پر جانا ہوتا ہے۔ طغرل نے مزید کچھ نہیں کہا تھا۔
مسعود نے طغرل کو بلا جھجھک بتا دیا تھا کہ وہ چونکہ رات کو ٹیکسی چلاتا تھا اس لیے اسے گھما پھرا نہیں سکے گا۔ وہ صرف اتوار کے روز چھٹی کرتا تھا اور اس روز بھی زیادہ سوتا تھا مگر وہ پریشان نہ ہو کیونکہ مزمل ہفتہ اتوار کے روز نیویارک سے آیا کرے گا اور اسے سیر کروا دیا کرے گا، مقامی علاقے میں کسی شاپنگ مال پر جانا ہو تو علی لے جایا کرے گا، گھر میں ایک گاڑی کھڑی ہی ہوتی تھی۔ مزمل مسعود کا چھوٹا بھائی تھا جو نیویارک شہر میں ایک ریستوران میں مینیجر تھا اور علی مسعود کا بڑا بیٹا جو فی الحال بیروزگار تھا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1410418808984225
“