مزمل نیویارک شہر دکھانے تو لے جاتا تھا مگر اس کا مسئلہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے بے توجہی تھا۔ ایسا کئی بار ہوا تھا کہ جو دخول شہر میں لے جاتا تھا وہ اس سے آگے نکل گیا۔ زیادہ ٹریفک والے ملکوں میں مڑنے کی راہ کئی کئی کلومیٹر کے بعد ہی مل پاتی ہے۔ طغرل اس کے ساتھ سفر کرتے ہوئے اس سے اکثر پوچھتا تھا، "مزمل دیکھو کہیں آگے تو نہیں نکل گئے؟" اس پر مزمل جھنجھلا کے کہا کرتا تھا ،"آپ مجھے کنفیوز کر رہے ہیں" اس کے باوجود وہ آگے نکل ہی جایا کرتا تھا۔
علی نے اپنی امریکہ زدہ اردو میں جب پہلی بار پوچھا تھا،" آپ مال میں گئے ہیں" تو طغرل کو یہی لگا تھا کہ وہ کسی سڑک کی بات کر رہا تھا اور حرف جار کے سلسلے میں غلطی۔ وجہ یہ تھی کہ روس میں تب "شاپنگ مال" نہیں ہوتے تھے۔ جو دو ایک تھے بھی انہیں وہاں "ترگووے سنتر" یعنی کمرشل سنٹر کہتے تھے۔ طغرل نے جواب میں کہا تھا کہ نہیں ، وہ نہیں گیا۔ "اوہ! ٹین منٹس، میں آپ کو لے کے جاٹا ہوں"۔ دس منٹ بعد وہ خاصی دیر گاڑی چلانے کے بعد جہاں پہنچے تھے وہ یہی "کمرشل یا ٹریڈ سنٹر" تھا، تب طغرل کو معلوم ہوا تھا کہ امریکہ میں ایسے مقامات کو "شاپنگ مال" کہا جاتا ہے۔
ایک روز ایسے ہی ایک ٹرپ پر عمر بھی ساتھ تھا۔ عمر مسعود کا منجھلا بیٹا تھا، جس کی اٹھک بیٹھک افریقی امریکی لڑکوں لڑکیوں کے ساتھ تھی۔ اس لیے اس نے انداز بھی انہیں جیسے اختیار کر لیے تھے۔ اسے اردو بہت واجبی سی آتی تھی۔ اس نے مال سے اپنا ایک کان چھدوایا تھا اور طغرل کے پیچھے پڑ گیا تھا کہ "انکل آپ بھی گیٹ دا پیرسنگ ڈن، یو ول لوک سو کول"۔ طغرل بمشکل اس کی اس بیجا ضد سے خود کو مرخصی کروا پایا تھا۔ عمر جھوٹوں کا پٹا تھا۔ کھڑے کھڑے آپ کے سامنے آپ کے بارے میں اس اعتماد سے جھوٹ بول دیا کرتا تھا کہ ایک لمحے کو تو آپ کو اپنے بارے میں ہی کہی گئی جھوٹی بات سچی لگنے لگتی تھی۔
عمر کچھ زیادہ ہی بدتمیز واقع ہوا تھا۔ اپنی ماں کے ساتھ اس کا رویہ امریکہ کے بگڑے ہوئے بچوں کا سا ہوتا تھا۔ اس کی ماں صولت بھی اس کے ساتھ وہی رویہ روا رکھتی تھی جو امریکی ماؤں کا ہوتا ہے یعنی براہ راست مبنی بر مبارزہ آرائی۔ ایک روز دوسری منزل پر ماں بیٹے کے درمیان توتکار ہوئی تھی اور خاموشی چھا گئی۔ طغرل جو گراؤنڈ فلور پر لاؤنج میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا، یہی سمجھا تھا کہ معمول کی جھڑپ تھی۔ چند منٹ کے بعد باہر کے دروازے کی گھنٹی بجی تھی جس پر طغرل نے جا کر دروازہ کھول دیا تھا۔ باہر موجود منظر کو دیکھ کر لمحے بھر کے لیے تو طغرل کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے کیونکہ دو پولیس والوں نے پستول تانے ہوئے تھے اور ٹانگٰیں پھیلائے، گھٹنے جھکائے عمل کے لیے تیار کھڑے تھے۔ طغرل کو پٹ کی اوٹ میں دیکھ کر ایک پولیس والے نے چیخ کر کہا تھا،" سامنے آ جاؤ، ہاتھ پیچھے کر لو" طغرل نے ایسے ہی کیا تھا۔ ان میں ایک شست باندھے ہوئے اور دوسرا پستول کو ہولسٹر میں ڈال کر اپنی پیٹی سے بندھی ہتھکڑی ہاتھ میں لیے آگے بڑھے تھے۔ جب وہ طغرل کے نزدیک پہنچے تھے تو طغرل نے کہا تھا،" وہ میں نہیں ہوں بلکہ وہ کم عمر لڑکا ہے"۔ اتنے میں صولت بھی انتباہ سن کر زینے پر آ چکی تھی۔ اس نے پولیس والوں سے کہا تھا،" وہ اوپر ہے اور غیر مسلح ہے، میں اسے لے کر آتی ہوں"۔ صولت عمر کو لے آئی تھی جو کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے ہوئے تھا۔ پولیس والا اس کو ہتھکڑی لگانے تک چوکس اور پستول بردار رہا تھا۔ طغرل سے پولیس والے نے معذرت کی تھی اور عمر کو ساتھ لے کر چلے گئے تھے۔ عمر کے انداز سے لگا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں جب اسے پولیس لینے پہنچی تھی۔ تھوڑی دیر بعد صولت بھی معاملہ نمٹانے کی خاطر اپنی گاڑی میں سوار ہو کر نکل گئی تھی۔
طغرل کو قانون کی اس قدر پاسداری کچھ عجیب سی لگی تھی۔ یہ قانون کی پاسداری کم اور خاندانی معاملات میں مداخلت کرنا زیادہ لگتا تھا لیکن اس طرح پولیس گھروں میں ہونے والے تشدد کے خلاف کمر بستہ رہتی تھی۔ قانون کی بے جا اگر اسے بے جا کہا جا سکتا ہے، پابندی بعض اوقات معاملات سنوارنے کی بجائے بگاڑنے کا موجب بنتی تھی۔
طغرل چونکہ کہیں کام نہیں کرتا تھا۔ گھر میں بیٹھا ٹی وی دیکھتا رہتا تھا یا وسیع و عریض صحن میں چہل قدمی کرتا تھا تاکہ ٹانگیں جم کر نہ رہ جائیں۔ اس نے ایک چینل پر ایک البانوی ماں باپ کی المناک کہانی دیکھی تھی۔ البانوی اپنی بیوی اور دو بچوں کو لے کر امریکہ پہنچا تھا تاکہ اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکے۔ بیٹا بڑا تھا کوئی چھ سال کا اور بیٹی چھوٹی کوئی چار سال کی۔ بیٹے کو کنگ فو سیکھنے کا شوق تھا۔ باپ نے اسے کنگ فو سکھانے کے سکول میں داخل کرا دیا تھا۔ البانوی مرد اور خاتون نے محنت کرکے ایک پتسیریا سے دو پتسیریا بنا لیے تھے۔ ایک روز بچی نے کہا تھا کہ وہ بھائی کو کنگ فو کھیلتے دیکھنا چاہتی ہے۔ اس روز اس سکول میں اظہاریے کی کوئی تقریب تھی۔ باپ اپنی بچی کو لے کر پہنچا تھا۔ کھیل کے دوران وہ اپنی بچی کو پچکارتے ہوئے لاڈ پیار بھی کرتا رہا تھا۔ ایک خاتون سب لوگوں کی وڈیو بنا رہی تھی۔ بچی بھائی کو کھیلتا دیکھ کر خوش تھی۔ دو روز بعد پولیس اور سوشل سیکیورٹی والے آئے تھے۔ بچی اور بچے کو والدین سے جدا کر کے لے گئے تھے اور باپ کو گرفتار کر لیا تھا۔ الزام اس وڈیو کو دیکھ کر لگایا گیا تھا کہ باپ بچی سے جنسی زیادتی کا مرتکب ہوا تھا۔ بچوں کی ماں نے ایک مستشرق خاتون پروفیسر کی خدمات حاصل کی تھیں۔ باپ کی ضمانت تو ہو گئی تھی لیکن لوگ اس پر شک کرنے لگے تھے۔ اس کی آمدنی گھٹنے لگی تھی۔ انہیں ایک پتسیریا بند کرنا پڑا تھا۔
باپ کو تو بچوں سے ملنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ ماں ایک بار جب بچوں سے ملنے گئی تو بچوں نے شکایت کی تھی کہ رضائی والدین نے انہیں لحم خنزیر کھلایا ہے۔ ان کے گلوں میں بھی زنجیروں میں ٹکی آرائشی صلیبیں آویزاں تھیں۔ عدالت میں شکایت کی گئی تو بچوں کو دوسرے رضائی والدین کے حوالے کر دیا گیا تھا لیکن ماں کی بچوں کے ساتھ ملاقات کا وقفہ بھی بڑھا دیا گیا تھا۔ جب تک پروفیسر نے عدالت میں ثابت کیا کہ باپ کا بچی کو پچکارنا ان کے ملک کی روایات کے عین مطابق تھا کیونکہ وہاں بچوں سے تعلق کا اظہار اسی طرح کیا جاتا ہے تب تک بچوں کی اپنی ماں سے بھی مغائرت بڑھ چکی تھی۔ اس پروگرام میں البانوی باپ نے بتایا تھا کہ میرا خواب تو کیا پورا ہونا تھا الٹا یہاں آ کر میرا گھر اجڑ گیا۔ بچے رضائی والدین کے پاس رہنے میں خوش تھے اور بیوی بچوں کی دوری کے سبب شوہر سے نالاں ہو کر طلاق لینے کا مطالبہ کرنے لگی تھی۔ یہ تھی کچھ لوگوں کے لیے خوابوں کی تکمیل کی سرزمین ریاستہائے متحدہ امریکہ۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1415267041832735
“