ریاستہائے متحدہ امریکہ کی وفاقی اور مقامی ریاستیں اپنے ملک اور اپنی ریاستوں میں بسنے والوں کے لیے بلا شبہ بہت اچھی ہیں۔ دنیا میں امریکہ انسانوں کے ساتھ جو بھی زیادتیاں کرے لیکن اپنے ہاں لوگوں کو پرسکون رکھنے کے سارے جتن کیے جاتے ہیں۔ طغرل چونکہ ادھیڑ عمری میں وہاں پہنچا تھا، اس لیے اس کی وہاں رائج بہت سے معمولات کے ساتھ ہم آہنگی ہونا مشکل تھی۔ ایسا مخمصہ صرف طغرل کا ہی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اس سے ہر اس شخص کو واسطہ پڑتا ہے جو کسی دوسرے ملک، خاص طور پر ایسے ملک سے وہاں گیا ہو جہاں سرمایہ دارانہ مادہ پرستی پر مبنی نظام اپنی خالص شکل میں موجود نہیں اور جہاں کی روایات میں زرعی نظام اور اخلاقیات کی باقیات ابھی زندہ ہیں۔ کم عمری اور نوجوانی کے عہد میں امریکہ منتقل ہونے والے لوگ تو وہاں کی معاشرتی اقدار کو خود میں آسانی سے جذب کر لیتے ہیں لیکن عمر کے ایک خاص حصے کے گذر جانے کے بعد وہاں پہنچنے والا شخص لوگوں کی حد سے بڑھی ہوئی شخصی آزادی، قانون کی صد در صد پابندی اور بناوٹی خوش اخلاقی کو قبول نہیں کر سکتا۔
طغرل کو وہاں شروع شروع میں کئی بار شائبہ ہوا تھا کہ وہ ان مرد و خواتین سے شاید شناسا ہے جو اسکی جانب دیکھ کر دل کھول کر مسکراتے تھے اور کبھی کبھار سر کو ہلکے سے جھکاؤ کی جنبش بھی دیتے تھے مگر لمحے بھر کے بعد اسے احساس ہوتا تھا کہ بھلا یہاں کے "گورے" اسے کیسے جان سکتے تھے۔ کسی کو دیکھ کر مسکرانا امریکیوں کی "اخلاقیات" کا حصہ ہے۔ ناشناسا شخص ایسی مسکراہٹ سے شش و پنج میں پڑ جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو نالاں بھی ہوتا ہے۔ جب طغرل نے ایسی بناوٹی مسکراہٹوں کا مسعود سے ذکر کیا تھا تو وہ کھلکھلا کر ہنسا تھا اور ساتھ ہی بتایا تھا کہ بعض اوقات وہ بلا وجہ مسکرانے والے شخص کو ڈانٹ کر پوچھ لیتا تھا،" تمہارا کوئی مسئلہ ہے کیا؟ کیا میں تمہیں کوئی بندر وندر دکھائی پڑتا ہوں"۔
پڑھنے والے کو یہ بات غالبا" کھٹکی ہوگی کہ حد سے بڑھی ہوئی ذاتی آزادی کیا شے ہوتی ہے اور اسے کیونکر قبول نہیں کیا جا سکتا؟ تو سنیے ایک بار ایسا ہوا کہ طغرل نے کسی امریکی چینل پر ایک معلوماتی پروگرام دیکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ بہت سی امریکی خواتین کو بلاوجہ خریداری کا جو لپکا تھا وہ درحقیقت ایک نفسیاتی عارضہ تھا جسے " کمپلسیو بائنگ سنڈروم" نام دیا گیا تھا۔ جب اس نے یہی بات مسعود کی موجودگی میں صولت کے سامنے کی تھی تو وہ بھڑک اٹھی تھی اور طغرل کو غلط قرار دینے کے درپے ہو گئی تھی۔ جب وہ طغرل اور مسعود دونوں کو قائل کرنے میں ناکام رہی تو اس نے جھنجھلا کر حرف ایف سے شروع ہونے والا وہ مختصر فقرہ طغرل کی جانب اچھال دیا تھا جس کا امریکی ماحول کے حساب سے ترجمہ "بھاڑ میں جاؤ" بنتا ہے لیکن اس کا لغوی مطلب فحش ہے۔ جب ایسا فقرہ اپنے سے بڑے، مہمان اور چچا کو کہا جائے تو کہیں زیادہ معیوب ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے طغرل اپنی سگی بھتیجی کو جواب میں وہی فقرہ تو کہہ نہیں سکتا تھا، جس کا شمار امریکی تعزیرات میں نہیں ہوتا چنانچہ اس نے چیخ کر "بدتمیز"کہا تھا اور اس کا ہاتھ فضا میں بلند ہو گیا تھا جسے مسعود نے ہوا میں ہی اچک کر کہا تھا،" نہ نہ تھپڑ مت مارنا، یہ تو بہت مشکل قانونی معاملہ بن سکتا ہے"۔ جی ہاں امریکہ میں گالی کے جواب میں گالی دینا، چیخنے کے جواب میں چیخنا کوئی بری یا بڑی بات نہیں مگر ہاتھ کا استعمال منع ہے۔ خیر جب صولت کا جنون ٹھنڈا ہوا تو اس نے طغرل سے معذرت کر لی تھی البتہ طغرل کو کان ہو گئے تھے کہ یہاں کسی کو بھی مشتعل نہیں کرنا چاہیے۔ مسعود خود غصے کا تیز تھا، اس نے اتنا عرصہ امریکہ میں رپتے ہوئے یہ طریقہ نکالا تھا کہ غصے کی حالت میں الماریاں الٹ دیتا تھا، چیزیں پٹخ دیتا تھا مگر بیوی یا بچوں کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔ اس نے ایسا ہی ایک دورہ پڑنے کے بعد جس میں اسے پرسکون کرنے کی خاطر طغرل نےمداخلت کرنا چاہی تھی، تنبیہہ کر دی تھی کہ ایسے موقع پر دور ہی رہنا۔ مسعود بیچارے کو ایسی جھنجھلاہٹ مہنگی پڑا کرتی تھی۔ ایسا کرنے کے بعد وہ اپنے گھر والوں کو کھانا کھلانے ریستوران لے جاتا تھا اور جو چیزیں ٹوٹ پھوٹ جاتی تھیں وہ نقصان علیحدہ ہوتا تھا۔
طغرل تیزہ دسمبر کو پہنچا تھا،جلد ہی 31 دسمبر کا دن ہو گیا تھا۔ طغرل کو بہت شوق تھا کہ وہ ٹائم سکوائر میں روشنیوں کا گولہ نیچے آتے دیکھے۔ اس کے لیے وہ چوہدری اقبال کے ہاں نیویارک سٹی پہنچ گیا تھا جہاںاس کے آگے پیچھے کی کسی تاریخ کو ماسکو سے پہنچا ہوا اس کا دوست مقیم تھا۔ طغرل کا خیال تھا کہ عیسوی صدی کا دوسرا ہزارواں سال ختم ہوتے اور اکیسویں صدی میں داخلے کی تقریب میں شرکت کی خاطر شاید وہ سب اکٹھے جائیں گے مگر رات ہوتے تک سب کا جوش ماند پڑ چکا تھا بلکہ میزبان چوہدری اقبال تو سونے کی تیاری کرنے لگے تھے۔ طغرل بہت جز بز ہو رہا تھا جس کو بھانپتے ہوئے میزبان کے جواں سال بھانجے عثمان نے کہا تھا،" چاچا جی میں تہاڈے نال چلنا واں" وہ تقریبا" ساڑھے دس ، پونے گیارہ گھر سے نکلے تھے، جب وہ ٹائم سکوائر کے انڈر گراؤنڈ سٹیشن سے نکلے تو تقریبا" ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ لوگوں کا ایک اژدہام تھا جس سے ٹائم سکوائر سے وابستہ تما سڑکیں پٹی پڑی تھیں۔ بہت کوشش کے باوجود جب رسائی کا کوئی راستہ ہاتھ نہ آیا تو طغرل نے اس گمان پر کہ اس نے سنا جاتا تھا امریکہ کی پولیس بہت خلیق ہوتی ہے، پولیس کی ایک ٹکڑی میں شامل پولیس والے سے بڑے سبھاؤ سے پوچھا تھا،"افسر، ہم میلینیم کی تقریب کیسے دیکھ سکتے ہیں؟" اس نے شان بے نیازی سے کہا تھا ،" کسی بھی عمارت کی چھت پر چڑھ کر کے" اور قہقہہ لگا دیا تھا جس میں اس کا دوسرا ساتھی پولیس والا بھی شامل ہو گیا تھا۔ طغرل کو لگا تھا جیسے دنیا بھر کے پولیس والے چاہے جہاں کے بھی کیوں نہ ہوں ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ اس نے یہ بھی سوچا تھا کہ شاید نئے سال کی تقریب کے حوالے سے پولیس والے نے بھی کچھ چڑھا لی ہوگی، تبھی ایسا بیہودہ جواب دیا تھا۔ میلینیم کی یہ آخری رات طغرل کے لیے بور ترین رات تھی۔ کچھ بھی دکھائی نہ دے پایا تھا ماسوائے لوگوں کے ہجوم میں کندھے سے کندھا چھلواتے ہوئے نکلنے کی تگ و دو کرنے کے۔ انڈر گراؤنڈ میں واپسی کے سفر کے دوران طغرل نے عثمان سے یونہی پوچھ لیا تھا کہ اس نے امریکہ آنے کے لیے کتنے اخراجات کیے تھے؟ اس نے بتایا تھا "سولہ لاکھ روپے"۔ "اوہ ہو ہو ہو" طغرل نے تاسف سے کہا تھا جس پر عثمان نے کہا تھا،"چاچا جی میں نے پیسے تقریبا" پورے کر لیے ہیں"۔ "وہ کیسے؟" طغرل نے تحیر سے پوچھا تھا۔ عثمان نے بتایا تھا کہ وہ چونکہ ابھی غیز قانونی حیثیت کا حامل ہے اس لیے ہندوستانی ٹھیکیداروں کی نگرانی میں عمارتوں میں پینٹ کرنے کا کام کرتا تھا۔ اگرچہ ہندوستانی ٹھیکیدار قانون کے مطابق معاوضہ نہیں دیتے تھے مگر گیارہ ڈالر فی گھنٹہ پھر بھی مل جاتا تھا۔ وہ چونکہ ماموں کے ہاں رہتا تھا، کھانا بھی وہیں کھاتا تھا اس لیے اس کی تقریبا ساری کی ساری کمائی بچت تھی۔ زیادہ پڑھا لکھا ہونا کتنا نقصان دہ ہوتا ہے کہ آپ پینٹ کرنے کا کام بھی نہیں کر سکتے، طغرل نے ایک لمحے کے لیے سوچا تھا۔
جس دوست کے بے حد اصرار پر طغرل امریکہ پہنچا تھا وہ ریاست پنسلوانیا میں رہتا تھا۔ طغرل نے سوچا تھا کہ اس کے پاس ہو آئے۔ مسعود نے اسے بتایا تھا کہ اسے نیویارک سٹی سے "گرے ہاؤنڈ" بس پکڑنی ہوگی یا "پنسلوانیا سٹیشن سے ریل گاڑی۔ ساتھ ہی بتایا تھا کہ بس کا سفر آسان اور سستا تھا۔ آسان اس لیے کہ ٹکٹ مل جاتا تھا، ٹرین بعض اوقات بھری ہوتی تھی اور ٹکٹ ملنے کا امکان کم۔ طغرل چوہدری اقبال کے ہاں سے فون ملانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن فون نہیں مل پا رہا تھا۔ اس نے ماسکو سے آئے ہوئے اپنے دوست سے کہا تھا کہ وہ فون ملانے کی کوشش کرے۔ اس کی کوشش سے فون مل گیا تھا۔ دوست نے سلام دعا کے بعد فون طغرل کو دیا تھا۔ دوسری جانب طغرل کا دوست ظہیر اس سے بات کرکے خوش ہوا تھا۔ جب طغرل نے بتایا تھا کہ وہ اسے ملنے پہنچ رہا ہے تو اس نے ایک ایسا فقرہ کہا تھا جس کی طغرل کو اس سے توقع نہیں تھی۔ اس نے کہا تھا،"یار اکیلے ہی آنا، کسی اور دوست کو ساتھ مت لانا"۔ طغرل اپنے ماسکو والے دوست سے پہلے ہی بات کر چکا تھا کہ اکٹھے چلتے ہیں۔ طغرل کو خجل ہو کر اپنے دوست کو اس کی کہی بات بتانی پڑی تھی۔ دوست نے برا منائے بغیر کہا تھا، "آپ جائیں لیکن ایک بات سن لیں کہ آپ کا یہ دوست کوئی اچھا آدمی نہیں"۔
یہ دوست جو دوسرے دوست کے مطابق "اچھا آدمی" نہیں تھا، طغرل کی نوجوانی کے عہد میں اسے ایک ایسی بس میں ملا تھا جو ملتان سے جوشیلے نوجوانوں کو لے کر منٹو پارک لاہور میں بھٹو کا جلسہ سنوانے لے جا رہی تھی۔ بس میں نعرے لگائے جا رہے تھے، "انقلاب، انقلاب، سوشلسٹ انقلاب" ۔ جب نعرہ لگانے والے نے انقلاب، انقلاب کہا تھا تو جواب میں طغرل کے منہ سے بے اختیار "اسلامی انقلاب" نکل گیا تھا۔ باقی سب تو ہنسنے لگے تھے لیکن ساتھ بیٹھا ہوا لمبا تڑنگا، سیاہ رنگت والا وہ جوان شخص سنجیدہ رہا تھا جس نے موٹے موٹے شیشوں اور بھدے سیاہ فریم والی عینک لگائی ہوئی تھی۔ اس شخص کا نام ظہیر چوہدری تھا جس نے سفر کے دوران طغرل کو سوشلزم کی الف بے سے آگاہ کیا تھا اور پھر واپسی کے سفر کے دوران چند پوسٹر اور پمفلٹ دیے تھے۔ طغرل نے ہوسٹل لوٹ کر "پاؤں میں توٹی ہوئی زنجیر کے ہیولے والا" پوسٹر اپنے کمرے کے دروازے کے باہر آویزان کر دیا تھا اور کالج میں بائیں بازو کے طالبعلموں کی ایک متوازی تنظیم کی بنیاد رکھ دی تھی۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1416821805010592
“