چھوڑیں ماضی کی باتوں کو، حال کے انفاس میں لوٹتے ہیں۔ طغرل نیویارک شہر کے مرکز سے گرے ہاؤنڈ بس میں سوار ہوا تھا۔ سفر کے دوران شہر فلاڈلفیا راستے میں پڑا تھا جہاں بس چند منٹوں کے لیے رکی تھی۔ یہ شہر طغرل کی آنکھوں میں بس گیا تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی کچھ معلوم نہیں شہر کا جو منظر نامہ اس کے سامنے تھا جس میں چلتے پھرتے لوگ بھی شامل تھے، نے یہ تاثر قائم کیا تھا۔ وہ تو بہت دیر بعد جب طغرل نے فلم "سکستھ سنس" دیکھی تھی تو اس پر شہر فلاڈلفیا کا روپ مزید کھلا تھا۔ محبت کے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں، پل بھر میں ہو جاتی ہے اور عمر بھر اس سے شناسائی نہیں ہو پاتی جس سے محبت محسوس ہوئی تھی۔ پانچ گھنٹے کے بعد وہ پینسلوانیہ کے اس شہر میں پہنچا تھا جہاں ظہیر چوہدری نے اسے لینے آنا تھا۔
ظہیر چوہدری طغرل کو لینے پہنچا ہوا تھا۔ لمبا تڑنگا، ایک ٹانگ سے ہلکا سا لنگ مارتا ہوا، سیاہ پلاسٹک سے بنے سستے فریم کی موٹی عینک لگائے، کبھی کبھار کرائے کی سائیکل کے ایک ہینڈل کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے کبھی انتہائی سنجیدہ تو یک لخت فلک شگاف قہقہے لگانے والا ظہیر چوہدری اب مہنگا ملبوس زیب تن کیے، سنہری فریم والی قیمتی عینک لگائے، ایک سیاہ رنگ کی بڑی سی ایس یو وی یعنی سپورٹ یوٹیلیٹی وہیکل پر آیا تھا، جسے ہمارے ہاں لینڈ کروزر، پراڈو وغیرہ کہا جاتا ہے۔ جب وہ طغرل سے بغل گیر ہونے کے لیے اترا تھا تو طغرل نے دیکھا تھا کہ اس کے جوتے بھی کپڑوں سے میچ کرتے ہوئے مہنگے جوتے تھے۔ طغرل کی آنکھوں کے سامنے ایک لمحے کے لیے اس کے اس دور کے مٹی میں اٹے بوٹ آ گئے تھے، جو بوسیدہ اور کہنہ ہوتے تھے۔ طغرل کو خوشی ہوئی تھی کہ اب اس کا دوست آسودہ ہال تھا۔ گاڑی میں سوار ہونے کے بعد طغرل نے سگریٹ سلگانا چاہی تھی تو ظہیر چوہدری نے اسے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ اسے کچھ عرصہ پیشتر "ایمفائسیما" ہو گیا تھا اس لیے اب وہ سگریٹ کے دھوئیں تک سے بچتا ہے۔ یہ بھی اچھی بات تھی کیونکہ ظہیر چوہدری ریل کے انجن کی مانند مسلسل دھواں چھوڑا کرتا تھا یعنی وہ اس سے پہلے چین سموکر تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد ظہیر چوہدری نے اپنی گاڑی ایک سٹور کے سامنے روکی تھی۔ یہ ظہیر چوہدری کا ہی سیون الیون سٹور تھا۔ امریکہ میں سیون الیون ایسے جنرل سٹورز کو کہا جاتا ہے جو ایک زمانے میں صبح سات بجے سے رات گیارہ بجے تک کام کیا کرتے تھے لیکن اب چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے سامنے پٹرول پمپ ہوتے ہیں لیکن ظہیر کے سٹور کے سامنے پٹرول پمپ نہیں تھا۔ ایسے بیشتر سٹور پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کی ملکیت ہیں۔ طغرل اور ظہیر چوہدری سٹور کے عقب میں موجود دفتر میں جا بیٹھے تھے۔ سٹور پر اس وقت دو نوجوان کام کر رہے تھے۔ ان میں ایک کے بارے میں ظہیر چوہدری نے بتایا تھا کہ وہ اس کا بیٹا تھا جو پاکستان میں اس کی پہلی بیوی سے تھا جس کے ساتھ اس کی طالبعلمی کے زمانے میں شادی ہو گئی تھی لیکن نبھ نہ سکی تھی۔ ظہیر چوہدری نے طغرل سے کہا تھا کہ اگر تم سرمایہ داری کے نطام کو گرفت میں لے لو جو تمہارے جیسے ذہین شخص کے لیے بالکل بھی مشکل نہیں تو تم امریکہ میں سربرآوردہ ہو سکتے ہو۔ پھر ظہیر چوہدری اپنے پہلے بیٹے کے جنسی ہیجانات سے متعلق اور اس کی جانب سے پیدا کردہ مسائل سے متعلق بتاتا رہا تھا۔ یہ بھی بتایا تھا کہ اس نے اپنے اس بیٹے کو دوسرے کام کرنے والوں کے ساتھ ایک علیحدہ گھر کرائے پر لے کر دیا ہوا تھا۔ پھر اس نے اپنا فلسفہ بگھارنا شروع کر دیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں آجر مالک ہوتا ہے اور کام کرنے والا اس کا غلام۔ "یہ جو کام کر رہے ہیں یہ سب میرے غلام ہیں"۔ "تمہارا بیٹا بھی؟" طغرل نے طنزا" پوچھا تھا جس پر ظہیر چوہدری نے سنجیدگی کے ساتھ کہا تھا،" ہاں وہ بھی"۔ طغرل نے بات کا رخ موڑنے کی خاطر پوچھا تھا " الیاس شاہد بھی تو یہاں امریکہ میں تھا؟" الیاس شاہد ان کا مشترکہ دوست تھا، جس زمانے میں ظہیر چوہدری نے طغرل کو بائیں بازو کے طلباء کی تنظیم کھولنے کی جانب راغب کیا تھا تب وہ اس تنظیم کا کنوینر ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں وہ پاکستان میں ایک بین الاقوامی تنظیم کے ایک شعبے کا ڈائریکٹر تھا۔ ظہیر چوہدری نے منہ بنا کر کہا تھا،" ہاں الیاس شاہد کو بھی میں نے یہاں نوکری دی تھی، وہ بھی میرا غلام رہا تھا"۔ اس کے لہجے میں تفنن کی بجائے تضحیک کا زیادہ عنصر تھا۔ طغرل کی امید پر پانی پھر گیا تھا۔ وہ تو یہ سوچ کر آیا تھا کہ چلو دوست ہے، اتنے اصرار پر بلایا ہے، کچھ عرصہ ایڈجسٹ کر لے گا۔ تاہم ظہیر چوہدری نے اسے ایک مشورہ دیا تھا کہ وہ کسی اچھی یونیورسٹی سے مارکیٹنگ میں ماسٹرز کر لے تو اس کے لیے کام کے امکانات زیادہ ہونگے۔
شام کو ظہیر چوہدری طغرل کو اپنے گھر لے گیا تھا اگرچہ شام ہونے تک طغرل کو کھٹکا لگا ہوا تھا کہ وہ اسے اپنے بیٹے کے ہاں نہ ٹھہرا دے۔ ظہیر چوہدری 1970 کی دہائی کے اواخر میں کسی طرح جرمنی چلا گیا تھا۔ اس کی موجودہ بیوی مشرقی جرمنی سے ایک نہایت مناسب خاتون تھیں۔ ان کے دو بیٹے تھے، دونوں بیٹوں کے نام مغربی طرز کے تھے مارک اور مارٹن البتہ ان کے ساتھ فرید شکر گنج کے حوالے سے فرید کا سابقہ لگایا گیا تھا۔ ظہیر چوہدری نے اپنے چھوٹے بیٹے کے بارے میں ہنستے ہوئے بتایا تھا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو وہ پاکستان کے معروف سیاستدان اور بیرسٹر سے اپنے بوٹ کے تسمے ضد کرکے بندھویا کرتا تھا جو ظہیر چوہدری کے ہاں بطور مہمان آتے تھے۔
طغرل کو سونے کی جگہ تہہ خانے میں دی گئی تھی جو بہت آراستہ تھا۔ طغرل اور میزبان وہسکی پیتے رہے تھے۔ میزبان خاتون خانہ نے گھر کے دروازے کے باہر ایک ایش ٹرے رکھ چھوڑی تھی تاکہ طغرل باہر جا کر سگریٹ پی سکے۔ طغرل دو ایک بار سگریٹ پینے باہر گیا تھا مگر شدید سردی کے باعث ہر بار چند کش لگا کر لوٹ آیا تھا۔ طغرل کی جانب سے شراب کی مزید طلب کی خواہش اور فون کارڈ کے معاملے پر ظہیر چوہدری نے کچھ تلخ فقرے کہے تھے۔ طغرل خاموش رہا تھا۔ اگلے روز دوپہر میں ظہیر چوہدری کی اہلیہ نے طغرل سے پوچھا تھا،" کیا آپ سپاگیٹی کھاتے ہیں"۔ " نہیں مجھے پسند نہیں ہے" طغرل نے جواب میں کہا تھا۔ خاتون نے کہا تھا،" اوہو، میں نے تو سپاگیٹی ہی بنائی ہے" اس پر طغرل بولا تھا،" کوئی بات نہیں، میں کھا لوں گا"۔ سپاگیٹی کا ظہرانہ کھانے کے بعد جب وہ دونوں سٹور کے لیے روانہ ہوئے تو ظہیر چوہدری نے کہا تھا،" طغرل تم ملک سے باہر رہ کر بھی فیوڈل ہی رہے"۔ "کیوں، تمہیں ایسا کس لیے محسوس ہوا؟" طغرل نے پوچھا تھا۔ اس کے جواب میں ظہیر چوہدری نے اپنی اہلیہ کا نام لے کر کہا تھا کہ اس نے پوچھا تھا آیا تم سپاگیٹی کھاؤ گے اور تم نے انکار کر دیا، مغرب میں عورتوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جانا معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ اب معاملہ طغرل کی برداشت سے باہر ہو چکا تھا، وہ پھٹ پڑا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ تمہاری بیگم نے پہلے یہ نہیں بتایا تھا کہ اس نے سپاگیٹی بنائی ہے بلکہ ایک عمومی سوال کیا تھا جس کا جو جواب بنتا تھا وہ اس نے دے دیا تھا۔ اگر وہ پہلے کہتی کہ میں نے سپاگیٹی تیار کی ہے، کیا آپ کھائیں گے؟ تو لامحالہ اس کا جواب اثبات میں دیا جاتا۔ طغرل نے الٹا اسے سنا ڈالی تھیں کہ یہاں آ کر تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تم نے کل سے کوئی ڈھنگ کی بات کی ہی نہیں۔ جب وہ سٹور پر اتر کر دفتر میں گئے تو وہاں ظہیر چوہدری کے دو پاکستانی دوست پہلے سے آئے ہوئے تھے۔ عمومی گپ شپ شروع ہو گئی تھی۔ جب جذبات کی جھاگ بیٹھ گئی تو طغرل نے کہا تھا، "یار ظہیر بس کے ٹکٹ بارے پتہ کرو، میں آج واپس جانا چاہتا ہوں"۔ آئے ہوئے مہمانوں نے کہا تھا کہ شام کو آپ ہمارے ساتھ کھانا کھائیں کل چلے جانا لیکن ظہیر نے کوئی بات نہیں کی تھی بس اتنا کہا تھا کہ یہاں ٹکٹ آسانی سے مل جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ نیویارک کے لیے روانہ ہونے والی بس کا وقت معلوم کرو۔ گاڑی کو ایک گھنٹے بعد روانہ ہونا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد ظہیر چوہدری اور اس کے دونوں دوست مل کر طغرل کو چھوڑنے گئے تھے۔ طغرل ظہیر چوہدری سے ناطہ توڑ کر نیویارک کے لیے روانہ ہو گیا تھا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1417594638266642