اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
یہ شعر طغرل کی مرحومہ والدہ اکثر پڑھا کرتی تھیں اور پھر عموما" رو دیا کرتی تھیں۔ طغرل کو امریکہ سے لوٹ آنا اس شعر کے مصداق لگنے لگا تھا۔ امریکہ سے دل اوبھ گیا تھا تو روس لوٹنے کو مناسب جان کر اس پرر عمل کر دیا تھا اور روس آ کر بھی چین محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ نہ کوئی کام ملنے کی آس تھی اور نہ نینا کا رویہ پہلے جیسا رہا تھا۔ ممکن تھا کہ طغرل کو ایسا لگتا ہو کیونکہ وہ اب اپنی نواسی اینگیلینا کی دیکھ بھال میں زیادہ وقت صرف کرنے لگی تھی۔ چوبیس گھنٹے مسلسل کام کرنے کے بعد آتی تو ایک روز کسلمندی تمام کرنے میں گذار دیتی، اس کی استراحت کا طریقہ بھی ذرا انوکھا تھا۔ وہ بجائے دراز ہونے کے کچن میں سٹول پر بیٹھی یا تو کراس ورڈ مکمل کرتی تھی یا کچھ پڑھتی،ساتھ ساتھ موسیقی سنتی رہتی تھی۔ بیچ بیچ میں گھر کے کام کر لیا کرتی تھی۔ سوتی رات کو اپنے وقت پر ہی تھی۔ اگلے روز طغرل کو ناشتہ کھلانے کے بعد وہ بیٹی کے ہاں چلی جایا کرتی تھی اور بالعموم اگلے روز لوٹا کرتی تھی۔
بقر عید نزدیک آ رہی تھی۔ طغرل نے پاکستان جانے کا پروگرام بنا لیا تھا۔ وہ کراچی پہنچ گیا تھا۔ عید کی وجہ سے نہ تو جہاز کی ٹکٹ مل رہی تھی اور نہ ریل گاڑی کی۔ اسے عید پر گھر لازمی پہنچنا تھا چونکہ سب انتظار کر رہے تھے۔ چھوٹے بھائی کے مشورے پر بالآخر اس نے بس سے جانا قبول کر لیا تھا۔ بس پورا سندھ عبور کرکے خان پور کے باہر سے گذرتی ہوئی ہیڈ پنجند پار کرکے نہ صرف یہ کہ طغرل کے قصبے میں پہنچتی تھی بلکہ اس سے آگے ایک چھوٹے قصبے میں اپنی منزل پر پہنچنے کی خاطر طغرل کے والدین کے گھر کے سامنے گلی پار سڑک سے گذرتی تھی یوں مطلب یہ کہ وہ سیدھا گھر پہنچ سکتا تھا۔
بس لگتا تھا کہ بس نہیں راکٹ تھی جو بریک لگائے بغیر سڑک کے اطراف میں اترتی، لہرا لہرا کر سڑک پر جاتی، دوسری ٹریفک سے نکلتی ہوئی بھاگے چلی جا رہی تھی۔ پھر ڈرائیور نے پتہ نہیں کہاں جا کر بریک لگائی تھی۔ وہاں موجود ٹوائلٹ نہ صرف متعفن تھے بلکہ ان دو کھڈوں کے امیدوار بھی پوری بس کے مرد تھے چنانچہ طغرل نے ڈھابے کے عقب میں واقع کھیتوں میں جا کر مثانہ ہلکا کیا تھا اور چائے کی ایک پیالی پینے میں عافیت جانی تھی تاکہ باقی عمل گھر جا کر ہی پورا کیا جا سکے۔
صبح ہو چکی تھی۔ لوگ اب جاگ کر باتیں کرنے لگے تھے۔ طغرل تو ہموار پرواز کرنے والے جہاز تک میں نہیں سو پاتا تھا اس راکٹ رفتار بس میں بھلا کیا سوتا۔ ویسے بھی کراچی سے بس کے ذریعے یہ اس کا پہلا سفر تھا اس لیے اس نے بس کے شیشوں میں سے اندھیرے کھیتوں اور نیم روشن سوئے ہوئے شہروں اور قصبوں کو دیکھتا زیادہ دلچسپ جانا تھا۔ لوگ جو باتیں کر رہے تھے وہ وہی باتیں تھیں جو کچھ نہ کر سکنے والے لوگ کیا کرتے ہیں یعنی حکومتوں کے بارے میں گلہ، سیاست سے متعلق اپنی حتمی آراء کا اظہار، ایک دوسرے سے بلا وجہ اختلافات، دلیلوں کی بجائے جذبات پر مبنی باتیں۔
طغرل پاکستان میں پرویز مشرف کے ہاتھوں جمہوریت کے ایک اور عارضی و نامکمل دور کی پامالی اور حکومت ایک بار پھر فوجی اشرافیہ کے ہاتھوں غصب ہونے کے بعد پہلی بار پاکستان پہنچا تھا۔ اسے لوگوں کی بے سروپا باتیں کاٹے کھائے جا رہی تھیں چنانچہ اس سے نہ رہا گیا اور اس نے یہ فقرہ کہہ کر کہ "دنیا کی تازہ تاریخ میں کوئی بھی جرنیل آج تک اپنے ملک کے عوام کے لیے کچھ اچھا نہیں کر پایا ماسوائے دو جرنیلوں کے جن میں ایک فرانس کا جنرل دیگال تھا اور ایک امریکہ کا ڈوائٹ آئزن ہاور تھا مگر یہ دونوں جرنیل فوج سے فراغت کے بعد سیاست میں آئے تھے اور انہوں نے جمہوری عمل سے ہی لوگوں کے دلوں میں جگہ پائی تھی" ان لوگوں کی گفتگو مین کود پڑا تھا۔ اتنی مختلف رائے سے لوگ چونک پڑے تھے، دو ایک ادھیڑ عمر داڑھی والے مردوں نے ہلکا سا اختلاف کرنے کی کوشش کی تھی مگر ادھر ادھر بیٹھے ہوئے تین داڑھی والے نوجوانوں نے انہیں یہ کہ کر "چاچا جی، ہمیں ان کی باتیں سننے دو" انہیں چپ کرا دیا تھا۔ طغرل نے انہیں بتآیا تھا کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے روس میں مقیم ہے اور حال ہی میں امریکہ میں ایک سال بتا کر وطن لوٹا تھا۔ اس سے نوجوانوں میں مختلف رائے سننے کا تجسس مزید بڑھا تھا۔
طغرل سیاست اور سماج سے متعلق منطقی باتیں کرتا رہا تھا۔ بس تھی کہ بھاگے چلی جا رہی تھی۔ نوجوان ادھر ادھر لڑھکتے تھے لیکن ان کا طغرل کی گفتگو سننے میں انہماک دیدنی تھا کہ ان کی نگاہیں طغرل کے چہرے سے نہیں ہٹتی تھیں۔ بیچ بیچ میں وہ کوئی مناسب سوال بھی کر دیتے تھے اور کبھی کبھار جذباتی رائے بھی دے دیتے تھے لیکن طغرل ہنستے ہوئے ان کی ہر بات کو سہتا اور ان کو مطمئن کرتا رہا تھا۔ وقت اور فاصلے کا پتہ ہی نہیں چلا کہ بس جی ٹی روڈ سے طغرل کے قصبے میں داخل ہونے کے لیے مڑ گئی تھی۔ ان نوجوانوں نے اڈے پر ہی اترنا تھا۔ اترنے سے پہلے ان میں سے ایک نے کہا،" جناب آپ ہم لوگوں کا ساتھ دیں۔ ہم جہادیوں کو آپ جیسے پڑھے لکھے سمجھدار لوگوں کی ضرورت ہے"۔ طغرل کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ یہ جہادی کیا کرتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ کراچی میں دہلی مسلم برادری کے ایک واقف دکاندار سے بھی، جس کے پاس اس کا آنا جانا رہا تھا، جہادی جہادی سن چکا تھا۔ اس دکاندار کی دکان میں "جہاد" نام کا ایک منحنی سے اخبار بھی آتا تھا۔ طغرل یہی سمجھتا تھا کہ یہ لوگ شاید کشمیر کی تحریک آزادی کی خاطر جہاد کرنے کے متمنی تھے۔ اس لیے وہ اس نوجوان کی درخواست پر مسکرا دیا تھا اور کہا تھا کہ بھائی میں تو مسافر ہوں۔ آج یہاں ہوں کل پھر ملک سے باہر چلا جاؤں گا۔ وہ لڑکے ہاتھ ملا کر اتر گئے تھے۔ ان کے سامان سے یہی لگتا تھا جیسے وہ کسی محاذ سے لوٹے ہوں یعنی فوجیوں کی طرح مختصر سامان تھا ان کا۔ تھوڑی دیر میں بس طغرل کے گھر کے سامنے پہنچ گئی تھی۔ طغرل نے بس رکوا کر سامان اتروایا تھا۔ گھر میں دروازے کی ریخ سے شاید کوئی راہ دیکھ رہا تھا اسی لیے گھر کا دروازہ فورا" کھلا تھا اور طغرل کا نوجوان بھتیجا نکلا تھا جس نے آ کر سامان اٹھا لیا تھا۔ گھر پہنچا تو بہنوں نے ماتھا چوما تھا، گلے لگایا تھا اور خوش ہو گئی تھیں۔ ریخ پر آنکھ رکھ کے طغرل کی راہ دیکھنے والی طغرل کی وہ بڑی بہن تھی جس نے اس کی پرورش کی تھی۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1469735409719231
“