غالب نے کبھی خواہش کی تھی
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ، رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے
ان کی خواہش کو نیوروسائنس کی عینک سے دیکھتے ہیں، لیکن پہلے ایک تجربہ
ایک بکری سیاہ رنگ کا چشمہ لگائے قہقہہ لگا کر ہنس رہی ہے۔ یہاں پر اب رکئے اور آنکھیں بند کر کے اس منظر کی تصویر ذہن میں بنائیے۔
اگر آپ کے ذہن میں یہ تصویر بن گئی ہے تو پہلے ایک نظر اس پر کہ دماغ میں کیا ہوا۔ آپ نے شاید اس سے پہلے کبھی یہ منظر نہ دیکھا ہو لیکن یہ تصویر ذہن میں کیسے بن گئی۔ اس پر ہماری اب تک کی سمجھ مینٹل سنتھیسز تھیوری میں ہے۔ خلاصہ یہ کہ جس بکری اور جس چشمے اور جس قہقہے کا آپ نے تصور کیا تھا، ان کو آپ نے الگ الگ پہلے سے دیکھا ہوا تھا اور وہ تصاویر آپ کی یادداشت میں تھیں۔ تصور کرتے وقت آپ نے ان الگ الگ ٹکڑوں کو جوڑ لیا۔ ذہن میں منظر اس جگہ بنا جو کہ آپ کا دیکھنے والا کام کرتا ہے اور دماغ کی پچھلی طرف ہے۔ منظر کے ٹکڑے آپ کی یادداشت سے اٹھائے گئے تھے اور کسی ایک چیز کے تصور کے لئے آپ کے کچھ نیورون اکٹھے ایک پیٹرن میں فائر ہوتے ہیں اور ان سب کو برقی سگنل سے جوڑنے والا کام آپ کے دماغ کے آگے لگے پری فرنٹل کارٹکس نے کیا اور بکری کا یہ عجیب منظر آپ نے تصور کر لیا۔
اس تھیوری کی اپنی تفصیل نیچے دئے گئے لنک سے پڑھ سکتے ہیں لیکن ابھی گہرائی میں اس حصے کو دیکتے ہیں جو کہ آپ کی یادداشت ہے۔ یادداشت میں جسم کے باقی نظاموں کے مقابلے میں ایک چیز خاصی مختلف ہے اور وہ ہے حالت برقرار رکھنے کا عمل۔ مثال کے طور پر اگر ہاضمے کا نظام دیکھیں تو اس میں ایک مسلسل پراسسنگ ہے مگر پہلے کیا ہوتا رہا، یہ اس کے لئے اہم نہیں۔ اس کے برعکس یادداشت کا مطلب ہی پچھلی حالت برقرار رکھنا ہے۔ اس کے سٹرکچر میں پر تین چیزوں کا توازن چاہیے۔ حالت برقرار رکھنے کے لئے ایسا سٹوریج میڈیم ضروری ہے جو مستقل ہو۔ مثلا، پانی پر نقش بنانا آسان ہے مگر فائدہ نہیں، فورا مٹ جائے گا۔ دوسرا یہ چیز کہ نقش بنانا آسان ہونا چاہیے ورنہ تیز رفتار سے نقش بنانا ناممکن ہو گا۔ تیسرا یہ کہ نقش گہرا ہونا ضروری ہے یعنی سٹوریج کی ہر حالت میں اتنا فرق ہو کہ اسے آسانی سے پڑھا جا سکے۔ یادداشت کا سٹرکچر ایسا ہی ہے اور یہ ہمارے نیورونز کے ملاپ کی بدلتی حالتیں ہیں۔ نیورونز کے جوڑ سائنیپس ہیں اور یہاں پر مالیکیول کے لیول پر ہونی والی تبدیلی ہماری لانگ ٹرم یادداشت کی سٹوریج ہے۔ بکری، اس کا سیاہ چشمہ اور قہقہہ یہیں پر رہتے ہیں۔
اس جوڑ پر پائی جانے والی جھلی میں نیورورسیپٹر یونٹ جمع ہو سکتے ہیں یا نکل سکتے ہیں اور یہ نیوروسیپٹر خود کئی قسم کے ہیں۔
نروس سسٹم میں معلومات کا ذریعہ نیوروٹرانسمٹر مالیکیول ہیں جو ایک نیورون سے معلومات دوسرے نیورون میں لے کر جاتے ہیں۔ نیورورسپیٹر ایک دروازے کی طرح ہیں جو تھوڑی سی دیر کے لئے کھلتا ہے اور کیلشئیم کے آئن پر چارج کے ذریعے معلومات اگلے نیورون تک پہنچا دیتا ہے۔ اس تبادلے میں نیورورسیپٹر، جو کے سائنیپس پر فزیکلی موجود ہیں، ان کی حالت میں تبدیلی آتی ہے۔
نیورورسیپٹر خود ایک پروٹین ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ کامن اے ایم پی اے ریسپٹر ہیں جو سلنڈر کی شکل کے خاصے پیچیدہ مالیکیول ہیں۔ ایک نیورون میں یہ سفر کر سکتے ہیں اور یہ نیورون کے جوڑ پر جمع بھی ہو سکتے ہیں اور وہاں سے نکل بھی سکتے ہیں۔ کسی جوڑ پر کتنے نیوروسیپٹر موجود ہیں، اس سے اس جوڑ کی قوت کا پتا لگتا ہے اور یہ ہماری یادداشت کا بنیادی بلاک ہے۔
جب ہم سیکھنے کا عمل دیکھتے ہیں تو اس میں نیورونز کے یہ کنکشن ہیں جو جڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے توڑ اور نکلنے کا عمل بھی ہوتا ہے۔ اس سارے عمل کو سائنیپٹک ری ماڈلنگ کہتے ہیں اور جب آپ بار بار کسی عمل کو دہرائیں یا دیکھیں یا دماغ کا استعمال کریں تو متعلقہ جوڑ مضبوط رہتے ہیں۔
آپ کا دماغ بیرونی دنیا سے تعاملات سے اور خود آپ کی اپنی سوچ اور اپنے تصورات سے اپنے آپ کو مسلسل ری ماڈل کرنے میں لگا ہے اور اپنی حالتیں اور شکل بدلتا رہنتا ہے اور یہ عمل نیورو پلاسٹیسیٹی کا ہے۔
اگر نیچے دئے گئے لنکس میں سے تفصیلی معلومات پڑھ لیں تو پھر امید ہے آپ غالب کی خواہش کی اچھی تشریح نیوروسائنس کے حوالے سے کر سکیں گے کہ جاناں کی تصویر کیسے دماغ تک پہنچی، کہاں پر رہتی ہے، اس تصور کے عمل کے دوران دماغ میں کیا کچھ ہو گا اور اگر انہیں مطلوبہ فرصت مل گئی تو ان کے دماغ پر کیا اثر ڈالے گا۔
اس وقت ہمارے دماغ کے راز کھولنے کی تحقیق کئی جگہ پر جاری ہے جس میں سب سے بڑے پراجیکٹس میں ایک یورپی یونین کا ہیومن برین پراجیکٹ اور دوسرا امریکہ میں نو اداروں کا مل کر کیا جانے والا ہیومن کنکٹوم پراجیکٹ ہے۔
ہیومن کنکٹوم پراجیکٹ کے بارے میں
ہیومن برین پراجیکٹ کے بارے میں
تصور کرنے کی اہلیت پر ابھی سائنسی تحقیق کہاں پر ہے۔ اس کی تھیوری یہاں سے
تمام عمر دماغ کی بدلتی حالتوں پر
تمام جانداروں کا دماغ سیکھنے کے عمل میں کیمیائی اور سٹرکچر کی تبدیلیاں کیسے کرتا ہے، اس پر