شاعر نہ تو علم نجوم میں درک رکھتا ہے اور نہ ہی پیش بینی کا دعویدار ہوتا ہے اور وہ بھی مرزا اسداللہ خان غالب کے سے شاعر جن کے جب تک قوٰی مضمحل نہیں ہوئے تھے اور عناصر میں اعتدال باقی تھا تو انگریز حاکم نے اگر دفتر سے باہر آ کر ان کے قدم نہ لیے وہ ملے بنا اس کی چوکھٹ سے لوٹ گئے تھے۔ البتّہ جب بوڑھے ہو گئے تو رام پور کے نواب یوسف علی خان کو لکھتے ہیں “رمضان میں رؤساء خیرات دیا کرتے ہیں اگر اس اپاہج فقیر کو بھی کچھ مل جائے تو ۔۔۔۔۔”، چنانچہ یہ کہنا کہ مرزا غالب کو قریبا” ڈیڑھ سو برس پیشتر اس بارے علم رہا ہوگا کہ اکیسویں صدی کے پہلے اور دوسرے عشرے میں دنیا کس نوع کی ہوگی، سراسر جھوٹ ہوگا اور یہ کہنا مبالغہ آرائی کہ ان کے اشعار آج کے حالات پر صادق آتے ہیں۔ یقین کیجیے آپ غالب کے دو اڑھائی ہزار اردو اشعار میں سے اس عہد کی بنیاد پرستی کے خلاف جسے بنیاد پرستی کہنا شاید ویسے ہی غلط ہو کیونکہ معاملہ محض ناصح تک محدود تھا، پچاس سے زائد اشعار نہیں ڈھونڈ پائیں گے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ غالب روایت پرستی کے مخالف نہیں تھے، جو بنیادپرستی کی اصل اساس ہوتی ہے۔ شاہد بازی کرنا ہو یا رندی اختیار کرنا، جوا کھیلنا ہو کہ زندیقیت اپنانا، درحقیقت روایت و رواج کے خلاف بغاوت کا اظہار ہوتے ہیں۔
آج، خاص طور پر سیکیولر معاشروں میں شراب پینا یا عشق لڑانا کوئی مسئلہ نہیں رہا لیکن ایک ایسے سماج میں جو اپنی بنت میں جاگیردارانہ نوعیت کا سماج تھا اور جس میں خودساختہ اخلاقیات کو تمدن کا جوہر اور تہذیب کا خمیر خیالکہاجاتا تھا، ایسی معیوب حرکات کرنا تو ایک طرف رہا ان کے بارے میں بات کرنا اور اس سے بھی بڑھ کر اشعار میں ان کا پرچار کرنا بہت کھٹکتا تھا۔ خاص طور پر ایسے مشاعروں میں جہاں پہ مستورات بھی چلمنوں کے ساتھ لگیں، داد دینے کی اجازت سے محروم، دم سادھے شاعری سننے کا شوق پورا کرتی تھیں، عاشقی و رندی پر مبنی کھلے شعر پڑھنے سے اجتناب برتا جاتا تھا۔ یہ تو خیر بالکل نہیں ہو سکتا تھا کہ آپ کسی مذہب اور خاص طور پر اردو بولنے والے مسلمانوں کے مذہب سے متعلق اپنی شاعری میں کوئی متضاد مضمون باندھ لیتے مگر غالب نے وحدانیت پر مبنی دو مقبول مذاہب یعنی عیسائیت اور اسلام کی فکر سے متعلق نہ صرف یہ کہ شعر کہے بلکہ انہیں مشاعروں میں پڑھا بھی جیسے :
مر گیا صدمہ یک جنبش لب سے غالب
ناتوانی سے حریف دم عیسٰی نہ ہوا
یعنی موصوف نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے مرے ہووں کو زندہ کرنے والےمعجزے سے استفادہ کرنے کی بجائے ان کے لب ہلتے ہی جان دے دی اور الزام اپنی ناتوانی کو یہ کہہ کر دے ڈالا کہ وہ عیسیٰ کے دم کرنے کے حریف نہ بنے۔ یا پھر جیسے:
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا
نظر میں ہے ہماری جادہ راہ فنا غالب
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا
ان دو اشعار کے معانی وہ نکالے جسے خود پر ملحد ہونے کا فتوٰی لگوانا درکار ہو اور تشریح وہ کرے جو “دولت اسلامیہ” والوں کی ہٹ لسٹ میں درج ہونے کا متمنی ہو۔
ناصح ہر دور میں ہوا کرتے ہیں۔ وہ دوست احباب بھی ہوتے ہیں۔ اپنے تئیں خود کو کسی کا خیر خواہ خیال کرنے والے آشنا و اقرباء بھی۔ ناصح تکنیکی طور پر اس شخص کو نہیں کہا جاتا جو صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی شراب نوش کو اس سے اجتناب کی نصیحت کرتا ہو بلکہ اسے کہا جاتا ہے جو شراب نوشی سے اجتناب کا الہامی حوالہ دیتے ہوئے، مے نوش کو دوزخ کی آگ سے ڈراتا ہو اور اس بنا پر ترک شراب سے متعلق پندو نصائح کرتا ہو لیکن مرزا غالب جو کہ خود زیرک اور باعلم شخص تھے اور کسی بھی متمدن و مہذب شخص کی طرح حسب مراتب کے پاسدار بھی، پھر انہوں نے سوچ سمجھ کر مے خواری سے ناطہ جوڑا ہوا تھا، چنانچہ فرماتے ہیں:
حضرت ناصح جو آویں، دیدہ و دل فرش راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا؟
غالب کو گمان تک نہیں ہو سکتا تھا کہ آج کے ناصح زبان سے نہیں بلکہ مثال دے کر نصیحت کرنے والے ہونگے جیسے عراق کے اس خطے میں جہاں بنیاد پرستوں کی حکمرانی ہے، انیس بیس سال کے دو نوجوانوں کو سرعام روزہ توڑنے کی پاداش میں دار پر چڑھا دیا گیا یوں باقیوں کو نصیحت ہو گئی کہ اللہ سے ڈرو چاہے نہ ڈرو مگر ان سے ضرور ڈرو جو سمجھتے ہیں کہ اللہ نے ان کے ہاتھ میں لوگوں کا سمجھانا لکھا ہے، سمجھانے کے لیے وہ طریقہ کونسا اختیار۔ کرتے ہیں یہ ان کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے۔
ذات بارٰی تعالی سے شکوہ تو مرزا غالب بھی سبھوں کی طرح کرتے تھے مگر وہ مشیت ایزدی میں مخفی مصلحت پر جس طرح طنز فرماتے تھے یہ ان کا ہی خاصہ تھا، مثال کے طور پر :
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
یا جیسے:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ترک رسوم سے متعلق تو انہوں نے اپنے ایک شعر میں کھل کر کہا کہ:
ہم موحّد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملّتیں جب مٹ گئیں، اجزائے ایماں ہو گئیں
جبکہ ان کے دور کی نسبت آج ڈیڑھ سو برس بعد صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ ایک جانب ترک رسوم فیشن بن چکا ہے، دوسری جانب ترک رسوم کے ردّعمل میں عبادات تک رسوم کی محتاج محض بنا دی گئی ہیں۔ مساجد میں جس طرح لوگ صف باندھنے کے بعد ایک کے بعد ایک پیچھے مڑ کر ایڑیوں کے برابر ہونے اور جڑنے کو دیکھتے ہیں، لیکن ایک عمومی اخلاقیات یعنی عبادتی اکٹھ میں خامشی اختیار کرنے سے کسطرح اغماض برتتے ہیں، اس کے تو میں اور میری طرح اکثر مسلمان گواہ ہیں۔ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں میں اس قسم کی حرکات یقینا” دیکھنے میں آتی ہونگی، خاص طور پر قدیم مذاہب سے وابستہ عبادت گاہوں میں۔
گناہ اور ثواب کا تصوّر جزا و سزا کے ساتھ بندھا ہوا ہے اور جزا و سزا کا تصور اپنے زمانے میں بادشاہوں اور حکام سے وابستہ تھا۔ شاید یہی وجہ رہی ہو کہ تمام مذاہب میں اعلٰی ترین ماورائی ہستی کو بادشاہ کے خصائص سے ہی اجاگر کیا گیا ہے کہ وہ رحم کر سکتا ہے، مہربانی کر سکتا ہے، جابر ہو سکتا ہے، قہر توڑ سکتا ہے، نوید دے سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کی وجہ ایک بار پھر شاید یہی رہی ہو کہ تب جمہوریت اور اجتماعی قوانین سازی کا تصور اجاگر نہیں ہوا تھا۔ بہر طور حاکم اعلٰی کے احکامات پر نہ چلنے کو گناہ یا جرم قرار دیا گیا اور اس کے کہے کا پابند رہنے کو ثواب یا نیک کام سمجھا گیا اسی لیے غالب گناہ، جو بذات خود بغاوت اور زنجیر شکنی ہے، کی لذّت کے محدود کیے جانے پر شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سردامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
پھر فورا” ہی شاید ڈر کر یا مغل بچہ ہونے کی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا
اور لجاجت کے ساتھ مگر اپنی بات پر ڈٹے ہوئے فرماتے ہیں:
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار، یاد
مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
یا یہ کہ:
دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
دوسری جانب غالب بنیاد پرستوں کے ساتھ جنگ پر آمادہ رہنے کا شریفانہ اظہار بھی کرتے تھے کہ:
نہ لڑ ناصح سے غالب، کیا ہوا گر اس نے شدّت کی
ہمار بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
یعنی وہ اس زمانے میں بھی جب مغل بادشاہت تمام ہو چکی تھی۔ 1857 کی جنگ آزادی یا غدر جو چاہے کہہ لو کہ اس سے اب کوئی فرق پڑنے والا نہیں، اپنی تمام تر چیرہ دستیوں کے ساتھ ختم ہو چکی تھی۔ چالاک اور زیرک بظاہر سیکیولر مغربی طاقت کا غلبہ ہو چکا تھا، انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اور ان جیسے بہت سے اس بدی کی اساس سے جھوجھ سکتے ہیں، چنانچہ ان کو بھی خلش تھی کہ ہمارا بھی زور بس گریبان تک ہی محدود ہے اگرچہ ان کا دعوٰی تھا:
ہم موحّد ہیں، ہمار کیش ہے ترک رسوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
یہ بات نہیں کہ غالب مادہ پرست تھے یا خدانخواستہ ان کی رسائی کسی مذہب مخالف تحریک تک ہو گئی تھی جو وہ آج کے الحاد پرستوں کی طرح مذہب کے خلاف لڑائی یا مذہب سے وابستہ اعمال و افعال کی ہرزہ سرائی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے۔ وہ دراصل مذہب کے بارے میں اس فہم کے خلاف تھے جو کم علم مذہبی اہلکاروں نے عوام میں عام کی تھی اور عام کی ہوئی ہے۔ بیشتر علماء بھی عام سوجھ بوجھ کو چیلنج نہیں کرنا چاہتے تھے، چنانچہ این و آں کرتے ہوئے اسی دھر کو قبول کر لیا کرتے جو رائج تھی۔ جو ایک دو اہل نظر مذہبیات شناس تھے بھی ان کی کہی بات اوّل تو آج ہی کی طرح کسی کے پلّے نہ پڑا کرتی تھی اگر کسی نے کسی حد تک سمجھ بھی لیا تو وہ مارے الوہ کے ڈر کے نعوذباللہ پڑھ کر خود کو دوزخ کی آگ سے محفوظ بنانے میں عافیت سمجھتا تھا چنانچہ غالب کہنے پر مجبور ہو گئے تھے:
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود
قبلہ کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
پھر مرزا اسداللہ خان غالب کو یقین تھا کہ ان کے کلام کا جو معیار ہے وہ اس قدر بلند ہے کہ اس کی تعریف مافوق الانسان کی جانب سے بھی ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں:
پاتا ہوں اس سے داد میں اپنے کلام کی
روح القدس اگرچہ مرا ہم زبان ہے
یا یہ کہ :
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
انہیں بھی مابعدالطبیعات کے اسرار یا جنہیں مصلحت خداوندی کا نام دیا جاتا ہے ، ہم تمام انسانوں کی طرح سمجھ نہیں آتی تھیں، جیسے کہ ایک وقت میں اللہ کے حکم پر تمام فرشتوں نے پہلے تخلیق کردہ انسان آدم کو سجدہ تک کیا، صرف ایک ابلیس تھا جس نے انکار کیا، اس کے انکار سے متعلق کلام الٰہی میں جواز پیش کیا گیا ہے کہ وہ جنّ تھا اس لیے منکر ہو گیا، یعنی وہ عبادات کی بنا پر جن سے ترقی پا کر فرشتوں کی صف میں شامل ہوا تھا مطلب یہ کہ اس کے پاس فرشتوں کی نسبت جو حکم ماننے کے علاوہ کوئی اور کام اپنی مرضی سے نہیں کرتے، شعور تھا جیسے ایک اور مخلوق انسان کو دیا جانا مقصود تھا۔ مگر دوسری جانب غالب دنیا میں انسان کو مجبور و مقہور دیکھتے تھے چنانچہ ضیق ہو کر کہتے تھے:
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں
یہاں غالب سے غلطی ہو گئی کہ وہ یہ نہ جان پائے کہ انجیل اور زبور کے برخلاف قرآن پاک میں ابلیس کو “اپ گریڈڈ” بتایا گیا ہے، وہ اپنی اساس میں فرشتہ نہیں تھا۔ بہر حال انہوں نے خدا سے جو گلہ کرنا تھا وہ کر دیا۔
ان کے مندرجہ اشعار پر تو آج فرقوں میں جدال ہو جاتا:
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہیں
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس جناب میں
ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگیں ہیں خواب میں
پس ثابت ہوتا ہے کہ غالب ایک ایسے شاعر اور انسان تھے جن کی سوچ سیکیولر تھی اور جو چاہتے تھے کہ انسان انسانوں کی طرح زندگی بسر کرے۔ انسان باشعور اشرف المخلوقات کا نام ہے جو تضاد کو دلیل سے ثابت کرتا ہے اور تضاد سے پیدا ہونے والے جھگڑے کو بات چیت اور منطق سے حل کرتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ مخالفین کو مار دینے سے کدورتیں کم نہیں ہو سکتیں۔ سارے مخالف مار بھی دیے جائیں تب بھی اختلاف کرنے والے پیدا ہو جائیں گے اور محکومی سے نجات کے لیے علم بغاوت بلند کر دیں گے۔