میرزا غالب کے منطقی انداز بیان ، رمز و ایمائیت، ندرت خیال، نکتہ سنجی اور تخیل آرائی کا کوئی جواب ہی نہیں ہے ۔میرزا غالب کا اشہب فکر و قلم نت نئی اور ان دیکھی ہوئی اور غیر پامال وادیوں کی سیر کرتا ہے۔ ایسی جگہیں جہاں اس سے پہلے انسان کا تخیل تو دور اس کے فرشتے بھی نہیں گئے۔ غالب آن واحد میں وہاں پہنچ جاتے ہیں ۔
غالب مستعار خیالات کو بھی اپنے انداز سے اچھوتا بنادیتے ہیں ۔ غالب کی مشکل پسندی اور تضمینات کا ذکر بعد میں کروں گا فی الحال غالب کے کلام کی خوبیاں ،:
شوخی انداز بیان
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
غالب
یعنی کاش معشوق ستمگر کا خنجر کند ہوتا کہ جان نکلنے میں کچھ دیر لگتی اور اس کو دیکھنے کی آرزو پوری ہوسکتی ۔۔۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
غالب
زود پشیمان یعنی دیر سے پچھتانے والے ۔۔۔
سمجھ کے کرتے ہیں بازار میں وہ پرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ سرِ رہگذر ہے کیا کہئے
غالب
ظاہر ہے بازار میں معشوق کا حال پوچھنا گویا عاشق کو مدعا و مقصد کہنے سے باز رکھنا ہے۔
یہ غالب کا منفرد اسٹائل ہے وہ بات کو
سیدھا کہنے کے بجائے پیچدار انداز سے کہتے ہیں ۔ اور بعض اوقات آدھی ہی بات کہتے ہیں ۔ غور و غوض کرنے کے بعد دوسرا حصہ قاری یا سامع خود ہی سمجھ لیتا ہے۔
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
غالب
غالب کی شاعرانہ استدلال اور توجیہ بھی بے نظیر ہے ۔
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے
غالب
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
غالب
تقریر کی لذت کی عمدہ توجیہہ بیان کی ہے ( گویا یہ بھی میرے دل میں ہے )
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
یعنی
میرے سامنے جو تیرا رویہ ہے اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ تیرے پیچھے یعنی تیری عدم موجودگی میں میرا حال کیا ہوتا ہوگا۔ ۔ عرض حال پر بہترین شعر ہے الفاظ میں ایسی کیفیات کا اظہار غالب کا کمال ہے۔
کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو۔
یعنی اس بیمار کو نظارہ سے پرہیز ہے
غالب
یعنی معشوق کی چشمِ بیمار کو دیکھنے سے منع کیا گیا ہے ۔معشوق کے تغافل کی شاعرانہ توجیہ ہے یہ ۔۔
دیا ہے دل اگر اس کو ، بشر ہے کیا کہئے
ہوا رقیب تو ہو، نامہ بر ہے کیا کہئے
یعنی اگر نامہ بر بھی معشوق کا دلدادہ ہوکر میرا رقیب بن گیا ہے تو کیا کیا جائے آخر بشر ہے۔
یہ ضد کہ آج نہ آئے اور آئے بن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے کیا کہئے
یعنی قضا کو ضد ہے کہ کہ اج جب کہ میں زندگی سے بیزار ہوں نہ آئے گی کل کیا پتہ ہے کہ میں نہ مرنا چاہتا ہوں اور وہ آجائے۔
عارضِ گل دیکھ روئے یار یاد آیا اسد
جوششِ فصلِ بہاری اشتیاق انگیز ہے
پھول کو دیکھ معشوق کا چہرہ یاد آنا
اور موسم بہار کی جاذبیت اور کشش کو عشق کی سرحدوں سے ملا دینا غالب کا کمال ہے۔
انہیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے کیا لڑئیے
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے کیا کہئے
یعنی وہ مجھے دیوانہ سمجھ کر لڑائی سے اعراض کرتے ہیں اور میں ان کے جواب سے بے نیاز ہوں یعنی عشق سے باز انے والا نہیں ہوں۔
حسد سزائے کمالِ سخن ہے کیا کیجئے
ستم بہائے متاع ہنر ہے کیا کہئے
میزرا کے اکثر اشعارپہلو دار اور انکی نفسیاتی ژرف بینی کے آئینہ دار ہیں ۔ میرزا غالب کے یہاں حیرت انگیز تنوع مضامین دیکھ کر دل و دماغ دھنگ رہ جاتا ہے ۔ میرزا کی آزاد خیالی، فلسفیانہ انداز، صوفیانہ منطق ، حکیمانہ نظر کا کوئی جواب نہیں
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا، کاش کے مکاں اپنا
غالت
مرزا غالب نے بقول ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری
“خود آفریدہ تشبیہات اور استعارات کا اس بے تکلف انداز سے استعمال کیا ہےکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ ہمیشہ سے ہماری زبان میں موجود تھے “مثلا
موئے آتش دیدہ کو زنجیر سے بہار کو حنائے پائے خزاں سے، سرمہ کو دودِ شعلۂ آواز سے، ساغر کو متاع دستگراں سے، دریا کو زمین کے عرق انفعال سے مماثل بیان کیا ہے۔ ”
میرزا کے یہاں طنز و مزاح اور ظرافت و استہزا نہایت ہی اچھوتے انداز میں اشعار میں ڈھل گئی ہے ۔
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
غالب
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
غالب
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی
غالب
فلسفہ اور شاعری مختلف شعبے تھے لیکن غالب کے یہاں تشکک پسندی ،نہایت ہی قابل قبول شعری پیرایہ میں وارد ہوئی ہے۔
ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
غالب
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
غالب
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
غالب
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...