مرزا غالب کی شاعری دو صدیاں پرانی اور ایک مختلف دور کی ہے لیکن آج بھی پڑھنے میں مزا دیتی ہے۔ ان کی شاعری ہمیشہ سے اعلیٰ ذوق اور گہری سوچ رکھنے والوں میں بہت زیادہ سراہی گئی ہے اور غور سے پڑھنے میں ہی لطف دیتی ہے لیکن وہ عوامی شاعر نہیں رہے۔ ان کی شاعری کی خاص بات تذبذب، گومگو کی کیفیت اور پھر ایک ہی شعر میں کئی خیالات سمو دینا ہے جن میں سے کئی ایک دوسرے کے مخالف بھی ہوتے ہیں۔
یہاں پر رک کر کاگنیٹو سائیکلوجی کا تعارف۔ اپنے ذہن کو سٹڈی کرنے کے ہمارے دو بالکل مختلف طریقے ہیں۔ ایک نیوروسائنس کا جس میں نیچے سے اوپر اسے دیکھا جاتا ہے اور دوسرا کوگنیٹو نفسیات کا جس میں اس کو ایمپیریکلی دیکھ کر اس کا ماڈل تیار کرتے ہیں۔ اس میں ذہانت، توجہ، سوچ، یادداشت، زبان اور ادراک پر تحقیق کی جاتی ہے۔ نفسیات کا یہ نیا اور تیزی سے بڑھنے والا شعبہ ہے اور اس کی اپنی کئی ذیلی شاخیں ہیں۔ اس میں ذہن کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک حصہ وہ جس کا کام جلد اور فوری فیصلہ کرنا ہے اور دوسرا وہ جو تجزیہ کرنے والا ہے اور آہستہ کام کرتا ہے۔
ہماری بقا کے لئے جلد فیصلہ کرنے کی اہلیت انتہائی ضروری ہے اور زندگی میں ہر فیصلہ کرنے کے لئے گہری سوچ نہیں چاہیے۔ کوگنیشن کا یہ علاقہ ذہنی شارٹ کٹ سنبھالتا ہے اور زندگی کا اصل کنٹرول اس کے ہاتھ میں ہے۔ جہاں ایسا کرنا زندگی کے لئے آسانی بھی ہے اور بقا بھی لیکن یہاں پر ہی ہمارے وہ تعصبات بھی ہیں جن سے ہم واقف تک نہیں۔ کسی شخص کو دیکھتے ہی اس کے بارے میں رائے قائم کر لینا اس کی مثال ہے۔ آہستہ سوچنے والا علاقہ جو تجزیاتی سوچ والا حصہ ہے، یہ کام کرنے سے دور رہنا چاہتا ہے کیونکہ اس میں زیادہ توانائی بھی زیادہ خرچ ہوتی ہے اور وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔
ہمارے دماغ کا پہلے والا حصہ کنفیوژن سے گھبراتا ہے اور اسے جواب درکار ہیں کیونکہ اس نے جلد فیصلے کرنے ہیں اور اس کا کام ہی یہ ہے۔ کسی غلط جواب کا ملنا اس کو تنگ نہیں کرتا لیکن جواب کا نہ ملنا یا مختلف اور متضاد خیالات اس کو بالکل پسند نہیں۔ جب ہم کسی سیاستدان، ڈاکٹر، تجزیہ نگار یا کسی اور شعبے کے ماہر کی ایسی گفتگو سنتے ہیں جس میں تسلسل سے ایک بات اعتماد سے کی جائے اور کہیں شک و شبے کی گنجائش نہ ہو تو اس پر آسانی سے یقین کر لیتے ہیں۔ اس کے پیچھے ہمارا یہ سسٹم ہے۔
مختلف خیالات کا اکٹھے ہونا گہری سوچ والے حصہ کو گدگداتا ہے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے کہ اگر کسی چیز کا توجہ اور گہرائی سے تجزیہ کیا جائے لیکن ہمارے دماغ کے کام کرنے کا طریقہ ایسا ہے کہ عام طور پر ایسا ہر کوئی نہیں کرتا۔
اس کا اگلا پہلو یہ کہ شاعری کیوں ہمیں نثر کی نسبت زیادہ متاثر کرتی ہے تو اس کی وجہ پراسسنگ فلوئنسی تھیوری میں ہے۔ اس کا خلاصہ یہ کہ ہمارا ذہن پیٹرنز تلاش کرتا ہے اور شاعری میں دہرائے جانے والے پیٹرن اور نغمگی سے الفاظ دماغ میں آسانی سے جگہ بنا لیتے ہیں۔ اس کی تفصیل نیچے لنک میں۔
اب واپس غالب پر۔ اس کے لئے پہلا پیراگراف دوبارہ پڑھ لیں۔
اگر آپ کی دنیا کے بارے میں سوچ یہ ہے کہ آپ سب کچھ سمجھ چکے ہیں، ہر چیز پر مؤقف بالکل واضح ہے، اپنے علم کے بارے میں پراعتماد ہیں اور کسی کو بھی فورا جج کر لیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ کہ آپ کے دماغ کا غالبا سارا کنٹرول اس حصے کے پاس ہے جو تیز فیصلے کرنے والا ہے اور بقا کے لئے خاص ہے۔ لیکن اگر آپ کو متضاد سوچیں دماغ کو گھیرتی ہیں اور کسی چیز کا جواب نہ جاننا چبھتا نہیں تو گھبرائیے مت۔ اس کے پیچھے ہائیر آرڈر کوگنیشن ہے اور یہی انسانوں کو باقی تمام جانداروں کی ذہانت میں سے ممتاز کرتا ہے۔
فٹزجیرالڈ کی کہی ہوئی بات
The test of a first-rate intelligence is the ability to hold two opposed ideas in the mind at the same time
اب غالب کی یہ مشہور غزل ایک بار پھر پڑھ لیں اور ہر شعر کے پیچھے چلتی متضاد سوچوں کا لطف لیجئے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائلِ تصّوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا
ذہن کے کام کرنے کے اس دہرے طریقے کے بارے میں
ذہن کے اس کام کرنے کے طریقے کو زیادہ تفصیل سے جاننے کے لئے نوبل انعام یافتہ رائٹر کی کتاب
Thinking, Fast and Slow by Daniel Kahnemann
انسانی دماغ کے دوسرے جانوروں سے نیوروسائنس کے حوالے سے فرق کے لئے