مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے زمانے میں ابوالفضل نے ایک کتاب آئین اکبری لکھی تھی۔ اس کتاب میں اس زمانے کے دستور , قوانین , شرح محصولات , لگان اور اشیا و اجناس کے مقرر کردہ نرخ وغیرہ تھے۔
1855ء میں سرسید احمد خان نے اس کتاب کی تصحیح کی اور اس پر حواشی کے اضافے کے بعد اسے دوبارہ چھاپنے کا ارادہ کیا۔ انگریزوں کا مفاد یقیناً اسی میں تھا کہ مسلمانوں کے اہلِ علم ایسے بےکار کاموں میں مشغول رہیں۔ اس لیے انہوں نے نہ صرف اس کام کیلئے فنڈ بھی فراہم کیا اور اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا بھی لالچ دیا۔ (مسٹر بلاکمین نے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کیا تھا) ان سب باتوں کے پیشِ نظر سرسید احمد خان کی نظر میں یہ ایک عظیم علمی کارنامہ تھا اور اس لیے انہوں اس کتاب کی شان مزید بڑھانے کیلئے مرزا غالب سے اس پر تقریظ لکھنے کی درخواست کی۔
مرزا غالب اور سرسید احمد خان کے خاندانی روابط تھے۔ اور سرسید مرزا غالب کو ادب سے چچا کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ غالب اس کارنامے پر دیگر قدامت پرستوں اور چالباز انگریزوں کی طرح ان کی پیٹھ تھپکیں گے۔ لیکن غالب جیسے حق گو کے سچ بولنے میں کوئی مصلحت کیسے آڑے آ سکتی تھی۔ پس غالب نے بطور مفکر اور بطور نقاد اپنی تقریظ میں سرسید کی کلاس لگا دی۔ اور وہ کچھ کہہ دیا جو اس زمانے کے مسلمانوں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔
چند اشعار پر مبنی یہ ایک تقریظ نہیں بلکہ غالب کی عصری حسیت اور قومی شعور کو سمجھنے کے لیے پورا دفتر ہے۔ یہ تقریظ 1855ء میں لکھی گئی اور اس زمانے تک مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے اور خواص میں کوئی نمایاں بیداری یا ایسا قومی شعور نظر نہیں آتا۔ اس لحاظ سے غالب کو برصغیر کے مسلمان مفکرین کا فکری امام کہا جا سکتا ہے کہ قومی شعور اور بیداری فکر کی پہلی آواز انہوں نے بلند کی۔
سرسید کو یہ تقریظ پسند تو نہ آئی۔ اور نہ ہی انہوں نے اس تقریظ کو کتاب پر چھپوایا۔ لیکن 1857ء کے ہنگامے کے بعد مسلمانوں کو یاد آیا کہ غالب نے کہا تھا کہ انگریزوں کا مقابلہ جوش سے نہیں علم سے کیا جا سکتا ہے۔ تب غالب کی نصیحتوں میں سے ایک نصیحت پر عمل کرتے ہوئے سرسید نے 1862 میں سائنٹفک سوسائٹی کا آغاز کیا۔ اور پھر علی گڑھ تحریک کی ابتدا ہوئی۔۔
★تقریظ ِ آئینِ اکبری★
اینکہ در تصحیح ِآئیں رائے اوست
ننگ و عار ِ ہمت والائے اوست
ترجمہ: تصحیحِ آئین اکبری کی نسبت سیداحمد خان کی جو رائے ہے۔ وہ اس کی بلند ہمتی کیلئے باعث ِشرم و عار ہے۔
بر چنیں کارے کہ اصلش ایں بود
آں ستاید کش ریا آئیں بود
ترجمہ: جس کام کی بنیاد ہی ایسی ہو۔ ایسے کام کی تعریف وہی کرے گا جو ریاکار ہو۔
گر بدیں کارش نگویم آفریں
جائے آں دارد کہ جویم آفریں
ترجمہ: اس کے اس کام پر میں آفرین نہیں کہتا۔ بجائے اس کے کہ اس سے آفرین چاہتا ہوں۔
کس مخر باشد بگیتی ایں متاع
خواجہ را چہ بود امید انتفاع
ترجمہ: اس زمانے میں اس متاع کا خریدار کون ہو سکتا ہے؟ سید احمد خان کو اس سے کس قسم کے نفع کی امید ہے؟
گر زآئیں مے رود با ما سخن
چشم بکشاد اندریں دیرِ کہن
ترجمہ: اگر مجھ سے آئین کے بارے میں پوچھتے تو میں کہتا کہ اس کہن سال دنیا میں آنکھیں کھول کر دیکھو۔
صاحبان انگلستاں را نگر
شیوہ و انداز ایناں را نگر
ترجمہ: انگلستان والوں کو دیکھو۔ ان کا طریقہ اور ان کا انداز سمجھو۔
تاچہ آئیں ہا پدید آوردہ اند
آنچہ ہرگز کس ندید آوردہ اند
ترجمہ: وہ کیسے کیسے آئین کے موجد ہیں۔ اور کیسی چیزیں لائے ہیں جن کو پہلے کسی نے نہیں دیکھا۔
زین هنرمنداں هنر بیشی گرفت
سعی بر پیشینیاں پیشی گرفت
ترجمہ: ان صاحبانِ ہنر سے زیادہ سے زیادہ ہنر حاصل کرنا چاہیے۔ اور ان پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے
حقِ ایں قوم است آئیں داشتن
کس نیارد ملک بہ زیں داشتن
ترجمہ: صاحبِ آئین ہونا اس قوم کا حق ہے۔ کسی اور کو ان سے بہتر حکومت کرنے کا سلیقہ نہیں۔
داد و دانش را بہم پیوستہ اند
هند را صد گونہ آئیں بستہ اند
ترجمہ: انہوں نے عدل اور عقل کو باہم ملا دیا ہے۔ اور ہندوستان کو سینکڑوں طرح کے قوانین سے مالا مال کردیا ہے۔
آتشے کز سنگ بیروں آورند
ایں هنر منداں زخس چوں آورند
ترجمہ: لوگ تو پتھر سے آگ نکالتے ہیں۔ لیکن یہ ہنر مند تنکے (ماچس کی تیلی) سے آگ پیدا کرتے ہیں۔
تا چہ افسوں خواندہ اند ایناں بر آب
دود کشتی را ہمی راند در آب
ترجمہ: ان لوگوں نے پانی پر ایسا جادو پڑھا ہے کہ کشتی دھویں سے پانی پر چلتی ہے۔ (اسٹیمر)
گہ دخاں کشتی بہ جیحوں می برد
گہ دخاں گردوں بہ ہاموں می برد
ترجمہ: کبھی دھویں سے دریا میں کشتی چلاتے ہیں۔ کبھی اسی دھویں کی طاقت سے ریل کا انجن چلاتے ہیں۔
از دخاں زورق بہ رفتار آمدہ
باد و موج ، ایں ہر دو بیکار آمدہ
ترجمہ: دھویں سے کشتی بھی برق رفتاری سے چلتی ہے۔ ہوا اور لہروں کی طاقت کو انہوں نے بےکار کردیا ہے۔
نغمہ ہا بے زخمہ از ساز آورند
حرف چوں طائر بہ پرواز آورند
ترجمہ: تار کو چھیڑے بغیر یہ نغمہ سازی کرتے ہیں۔ اور حروف پرندے کی طرح پرواز کرتے ہیں۔
(گرامو فون)
ایں نمی بینی کہ ایں دانا گروہ
در دو دم آرند حرف از صد کروہ
ترجمہ: تم نے نہیں دیکھا کہ یہ عقلمند لوگ دو لمحوں میں بات سو کوس پر پہنچا دیتے ہیں۔ (ٹیلی گراف)
رو بہ لندن کاندراں رخشندہ باغ
شہر روشن گشتہ در شب بے چراغ
ترجمہ: لندن جا کر دیکھو کہ اس چمکتے باغ جیسے شہر میں رات بھی بغیر کسی چراغ کے کس طرح روشن ہے۔
(بجلی کے بلب)
کاروبارمردم ہشیار بیں
درہر آئیں صد نو آئیں کار بیں
ترجمہ: ذرا ان ہوشیار لوگوں کے کاروبار تو دیکھو۔ ان کے ہر آئین میں سو نئے آئین مضمر ہیں۔
پیشِ ایں آئیں کہ دارد روزگار
گشتہ آئینِ دگر تقویم پار
ترجمہ: ان کے موجودہ آئین کے سامنے, دیگر آئین پرانی جنتری کی طرح محض بےکار ہیں۔
چوں چنیں گنجِ گہر بیند کسے
خوشہ زاں خرمن چرا چیند کسے
ترجمہ: جب اس قسم کے علوم و فنون کے خزانے موجود ہوں تو آئینِ اکبری کے بوسیدہ خرمن کی خوشہ چینی کیوں کی جائے۔
مردہ پروردن مبارک کار نیست
خود بگو کاں نیز جز گفتار نیست
ترجمہ: مُردے پالتے رہنا اچھا کام نہیں ہے۔
خود ہی بتاؤ کہ وہ اب صرف ایک کہانی کے سوا اور کیا ہے۔
غالب، آئینِ خموشی دل کش است
گرچہ خوش گفتن, نگفتن ہم خوش است
ترجمہ: غالب خاموش رہنے کا طریقہ خوبصورت ہے۔ اگرچہ اچھا کہہ رہے ہو, لیکن نہ کہنا بھی بہت اچھا ہے۔
(کلام معجز نظام:- مرزا اسد اللہ غالب
اردو ترجمہ :- خاک نشین جوگی)
تحریر : اویس قرنی
نوٹ: مذکورہ بالا واقعہ، تقریظ اور اس کے ترجمے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ سرسید احمد خان کو عصری علوم کی طرف ترغیب دلانے والے مرزا غالب ہی تھے۔ اس لیے جو لوگ مرزا غالب کو ہندوستان میں عصری و سائنسی علوم کے بابا آدم سمجھتے ہیں وہ بالکل بجا سمجھتے ہیں۔ سر سید حضرت غالب سے 20 سال چھوٹے تھے۔ غالب ضعیف اور فطری شاعر ہونے کے سبب بہ ذات خود کوئی ایسی تحریک برپا نہیں کر سکتے تھے لیکن انھوں نے سر سید میں وہ جذبہ وہ چنگاری پیدا کر دی جو ایک بڑی تحریک کی صورت میں ابھری۔ سرسید کئی سال تک غالب سے ناراض رہے۔ جب ان کو غالب کی بات پوری طرح سمجھ میں آگئی تو انھوں نے غالب سے معذرت کی اور پھر اپنے مشن کا آغاز کیا۔
اس تقریظ میں جو غصہ اور جھنجھلاہٹ اور انگریزوں کی ایجادات و کمالات کا ذکر ہے اس سے غالب کا سائنسی علوم کی طرف بے انتہا رحجان کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ جو لوگ غالب کے اشعار کی سائنسی تشریح پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں انھیں ایک بار ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا چاہیے کہ کہیں ان کا رویہ غالب کی حقیقی تفہیم میں رکاوٹ تو نہیں بن رہا ہے؟