(1)ذاتی کوائف اور تصانیف:
پیدائش : 27 دسمبر 1797، مقام اکبر آباد یعنی آگرہ، اترپردیش
اصل نام : مرزا اسداللہ بیگ خاں
تخلص : اسد، غالب
عرف : مرزا نوشہ
خطاب : نجم الدولہ دبیرالملک بہادر نظام جنگ
والد کا نام : مرزاعبداللہ بیگ خاں
ماں کا نام : عزّت النسا بیگم
تعلیم:
ابتدائی تعلیم آگرہ ہی میں مولوی محمد معظّم صاحب سے حاصل کی۔ جب ان کی عمر چودہ سال (14) کی تھی تو ایک ایرانی نژاد نومسلم عالم ملّا عبدالصمد آگرے میں آئے۔ روایت ہے کہ مرزا نے دو سالوں تک ملا عبدالصمد سے اکتساب فیض کیا۔ حالی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اکثر مرزا کو یہ بھی کہتے سنا گیا ہے کہ چوں کہ لوگ انھیں بے استادا کہا کرتے تھے، اسی غرض سے انھوں نے ایک فرضی نام کا استاد گھڑلیا تھا۔ حالاں کہ اس نام کاایک فارسی نژاد عالم ضرور تھا۔ اتنی بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ غالب نے باضابطہ کسی تعلیمی ادارے میں حصول علم کے لیے وقت نہیں لگایا تھا، البتہ ان کا ذاتی مطالعہ اور مشاہدہ کچھ ایسا تھا کہ کائنات اور اشیائے کائنات کے باطن تک ان کی فکر پہنچ جایا کرتی تھی۔
شاعری میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد رہے.
شادی:
مرزا غالب کی عمر جب کہ محض 13 برس کی تھی یعنی 1810 میں ان کی شادی ہوگئی۔ ان کی شادی نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی نواب الٰہی بخش خاں کی بیٹی امراؤ بیگم سے ہوئی۔ الٰہی بخش خاں معروف خود بھی ایک کہنہ مشق شاعر تھے۔ شادی کے بعد 1812 میں غالب آگرے سے دہلی منتقل ہوگئے۔
پنشن اور کلکتہ کا سفر:
مرزا کے چچا کے انتقال کے بعد ہی جب کہ ان کی عمر 9 برس تھی، انگریزوں کی طرف سے پنشن مقرر ہوگئی تھی۔ شادی کے بعد اخراجات بڑھے تو انھوں نے کلکتہ جاکر حکومت عالیہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے کا ارادہ کیا اور دہلی سے 1826میں رخت سفر باندھا۔ کانپور ہوتے ہوئے وہ لکھنؤ پہنچے جہاں ان کا استقبال کیا گیا اور ان کے اعزاز میں ایک مشاعرے کا بھی انعقاد کیا گیا۔ لکھنؤ میں وہ تقریباً ایک سال تک رکے اور پھر بنارس اور پٹنہ ہوتے ہوئے 1828 میں کلکتہ پہنچے۔ وہاں انھیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ آخرکار نومبر 1829 میں وہ پھر دہلی آگئے۔ یہاں آکر ریذیڈنٹ کے یہاں اپنا استغاثہ دائر کیا جس کا فیصلہ 1836 میں یہ آیا کہ انھیں سالانہ پنشن کے طور پر جو 750 روپے ملتے ہیں وہی ملیں گے، اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ انھوں نے اپنے مقدمے کی اپیل ملکہ انگلستان کے حضور بھی پیش کی لیکن یہاں بھی وہ ناکام رہے۔ اس طرح وہ کم و بیش 16 برسوں تک اپنے پنشن میں اضافے کے لیے حکومت سے لڑتے رہے لیکن کامیابی نہیں ملی۔ مقدمہ لڑنے کے لیے دوسروں سے پیسے لے کر اور بھی مقروض ہوگئے۔ لیکن انھوں نے امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ یہ شعر دیکھیے:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
غالب اور قلعہ:
مرزا غالب دہلی کے ادبی حلقے میں مشہور تھے۔ ان کی مالی حالت کمزور ہوچکی تھی، لہٰذا دوستوں نے انھیں قلعہ کی ملازمت اختیار کرنے پر آمادہ کیا۔ حکیم احسن اللہ خاں اور مولانا نصیرالدین عرف میاں کالے صاحب کے کہنے پر بہادر شاہ ظفر نے غالب کو خلعت فاخرہ اور نجم الدولہ دبیرالملک نظام جنگ کے خطاب سےنوازا۔ ساتھ ہی پچاس روپے ماہوار تنخواہ مقرر کردی۔ غالب سے یہ بھی فرمائش کی گئی کہ وہ خاندان تیموری کی تاریخ لکھیں۔
کچھ دنوں کے بعد 1854 میں مرزا فخرالدین ولی عہد ہوئے۔ چوں کہ مرزا فخر و غالب کے شاگر دتھے اس لیے تنخواہ کی رقم بڑھا دی گئی۔ جولائی 1856 میں مرزا فخرو کا انتقال ہوگیا اور 1857 میں جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، لال قلعہ پوری طرح اجڑ گیا۔
1857 کے ہنگامے کا ذکر غالب نے اپنے خطوط میں اور فارسی تصنیف ‘دستنبو’ میں بھی کیا ہے۔ اس کے بعد پنشن اور تنخواہ دونوں سے غالب محروم ہوگئے۔ انھوں نے والیٔ رام پور نواب یوسف علی خاں کو خط لکھا جس کے بعد انھیں سو روپے ماہوار آخر دم تک ملتے رہے۔
آخری ایام:
مرزا غالب آخری عمر میں کم سنتے تھے بلکہ یہ نوبت آگئی تھی کہ ملنے والے لکھ کر رقعہ ان کے سامنے بڑھاتے تھے، پھر وہ جواب دیا کرتے تھے۔ موت سے کچھ دنوں پہلے ان پر بے ہوشی سی طاری رہنے لگی۔
موت سے اک روز پہلے دماغ پر فالج گرااور 15 فروری 1869 کو وفات پاگئے۔ ان کی قبر بستی حضرت نظام الدین میں ہے۔ اسی سے ذرا آگے بڑھنے پر حضرت نظام الدین اولیا کا مزار بھی ہے جس کے آنگن میں اردو اور فارسی کے بڑے نامور شاعر حضرت امیر خسرو بھی مدفون ہیں۔
مرزا غالب کی تصانیف:
دیوان ِ غالب:
اس میں مرزا کا اردو کلام ہے جس میں غزلو ں کے علاوہ قصائد، قطعات اور رباعیات ہیں۔
دستنبو:
اس کتاب میں 1850 سے لے کر 1857 تک کے حالات درج ہیں۔ یہ کتاب فارسی میں ہے جو پہلی بار 1858 میں شائع ہوئی۔ اردو میں اس کا ترجمہ خواجہ احمد فاروقی نے کیا ہے۔
مہر نیمروز:
تیمور سے ہمایوں کے عہد تک کے حالات لکھے۔ پھر بادشاہ کی فرمائش پر حکیم احسن اللہ خاں نے حضرت آدم سے چنگیز خاں تک کی تاریخ مرتب کی جسے غالب نے فارسی میں منتقل کیا۔
قاطع بُرہان:
فارسی لغت ‘برہانِ قاطع’ از مولوی محمد حسین تبریزی کا جواب ہے۔ قاطع برہان کی اشاعت 1861 میں ہوئی بعد میں اعتراضات کا اضافہ کرکے غالب نے اسی کو ‘دُرفش کاویانی’ کے نام سے 1865 میں شائع کیا۔
میخانۂ آرزو:
فارسی کے کلام کا پہلا ایڈیشن 1845 میں اسی نام سے چھپا۔ پھر بعد میں کلیات کی شکل میں کئی ایڈیشن چھپے۔
سبد چین:
اس نام سے فارسی کلام1867 میں چھپا۔ اس مجموعے میں مثنوی ابر گہربار کے علاوہ وہ کلام ہے جو فارسی کے کلیات میں شامل نہیں ہوسکا تھا۔
دعائے صباح:
عربی میں دعاء الصباح حضرت علی سے منسوب ہے۔ غالب نے اسے فارسی میں منظوم کیا۔ یہ اہم کام انھوں نے اپنے بھانجے مرزا عباس بیگ کی فرمائش پر کیا تھا۔
عودہندی:
پہلی مرتبہ مرزا کے اردو خطوط کا یہ مجموعہ 1868 میں چھپا۔
اردوئے معلیٰ:
غالب کے اردو خطوط کا مجموعہ ہے جو 1869 میں شائع ہوا۔
مکاتیب غالب:
مرزا کے وہ خطوط شامل ہیں جو انھوں نے دربار رامپور کو لکھے تھے اور جسے امتیاز علی خاں عرشی صاحب نے مرتب کرکے پہلی مرتبہ 1937 میں شائع کیا۔
نکات غالب رقعات غالب:
نکات غالب میں فارسی صَرف کے قواعد اردو میں اور رقعات غالب میں اپنے پندرہ فارسی مکتوب ‘پنج آہنگ’ سے منتخب کرکے درج کیے تھے۔ غالب نے ماسٹر پیارے لال آشوب کی فرمائش اور درخواست پر یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔
قادرنامہ:
مرزا نے عارف کے بچوں کے لیے آٹھ صفحات پر مشتمل یہ ایک مختصر رسالہ لکھا تھا جس میں ‘خالق باری’ کی طرز پر فارسی لغات کا مفہوم اردو میں لکھا گیا تھا۔ جیسے
اس نظم کا پہلا شعر ہے:
قادر اللہ اور یزداں ہے خدا
ہے نبی مرسل، پیمبر رہنما