مرزا غالب اور درزی …
مرزا غالب : آداب میاں !
درزی : آداب مرزا نوشہ ، بیٹھیے ، کہیے مزاج کیسے ہیں، آپ کا کرتا، کلو دے گیا تھا… سلے دیتے ہیں… کچھ وقت لگے گا .
مرزا غالب : کیسا وقت میاں.. سب سے پہلے ہم ہی کرتا دیے اور ہم کو ہی وقت لگے گا… یہ کس کا جوڑا سل رہے ہیں بھلا..؟
درزی : اجی ! یہ تو حکیم مومن خان مومن کا ہے.. فیروز پور سے خالص لٹھے کا تھان منگائے ہیں.. اور سارا تھان بیوپاری سے خرید لیے ہیں کہ پورے دلی میں کوئی اس سا سوٹ نہیں پہنے گا…
– درزی سینے میں مصروف ہو جاتا ہے –
مرزا غالب ( کچھ توقف کے بعد ) : ارے میاں ، آپ سلجوقی وافراسیابی ہیں، یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے؟ کچھ تو بولو، کچھ تو اُکسو…. کب دو گے ہمارا کرتا؟
درزی : وقت وقت کی بات ہے مرزا نوشہ .
مرزا غالب : عید کیا آن پڑی ، قصائی ہی بن جاتے ہو… ارے ہمیں نہیں جانتے کیا .. ہم ہی وہ شاعر اعظم ہیں کہ لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں گویا…
اگر نہیں سل دو گے تو درزی بہتیرے … کسی کا کیا خوب شعر ہے..
"درزیوں کی کمی نہیں غالب
ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں "
سنو صاحب! شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں، اور گدھوں میں درزی .. یہ چار آدمی چاروں فن میں سرِ دفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے، فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسن بصری سے ٹکر کھائے، عاشق کی نمود یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرحی نصیب ہو..گدھے کی معراج یہ کہ درزی ہو جائے.. بھئی”مغل بچے“ بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں، اس کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی ”مغل بچہ“ ہوں۔ عمر بھر میں ایک بڑی ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے…. پچاس برس عالم رنگ و بو کی سیر کی۔ ابتدائے شباب میں ایک مرشد کامل نے ہم کو یہ نصیحت کی کہ ہم کو زہد و ورع منظور نہیں، ہم مانع فسق و فجور نہیں، پیو، کھاؤ، مزے اُڑاؤ، مگر یاد رہے کہ مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو، میرا اس نصیحت پر عمل رہا ہے۔ کسی کے مرنے کے وہ غم کرے جو آپ نہ مرے، کیسی اشک افشانی؟ کہاں کی مرثیہ خوانی؟…. میں جب بہشت کا تصور کرتا ہوں اورسوچتا ہوں کہ اگر مغفرت ہو گئی اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی۔ اقامت جاودانی ہے اور اسی ایک نیک بخت کے ساتھ زندگانی ہے۔ اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے ہے وہ حور اجیرن ہو جائے گی، طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی؟ وہی زمردیں کاخ اور وہی طوبیٰ کی ایک شاخ! چشم بددور، وہی ایک حور۔
اگر کرتا نہ سلا تو انگیا پہنے بلی ماروں کے محلے میں پھریں گے…پر خوار ہوتے پھریے گا کہ عورتوں کی آنکھاں پر کھوپے پہناویں یا مرزا نوشہ کو کرتا سی دیں..
قاسم جان سے ہوتے ہوئے ننگے بدن لال قلعے کی دہلیز پہ ناک رگڑیں گے..
درزی : مرزا جی ! غصہ کاہے ہوتے ہیں.. بولا ہے کہ سل دیں گے کرتا… آپ تو ویسے بھی دین و دنیا سے تائب ہیں.. نہ بھی پہنا تو کیا قیامت ہو گی .. !
مرزا غالب : ارے میاں… تمہارے منہ میں خاک.. تائب الدنیا کون کمبخت ہے.. مانا کہ شعر کہہ چکے ہیں اس پر مگر شعر تو ہم بہت سے کہہ چکے ہیں..
ارے ! اہل اسلام میںصرف تین آدمی باقی ہیں: میرٹھ میں مصطفی خان، سلطان جی میں مولوی صدر الدین خاں، بَلّی ماروں میں سگِ دنیا موسوم بہ اسد، تینوں مردود و مطرود، محروم و مغموم:
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا
آسمان سے بادہء گلفام گو برسا کرے
درزی : آپ کے شعر آپ خود کو بھی سمجھ آتے ہیں کیا ؟ نواب ذوق کو ہی لے لیجیے…فارسی عربی پر قادر الکلام ، ریختہ تو یوں کہتے ہیں جیسے کانوں میں شہد گھول رہے ہوں مانو….
مرزا غالب : دیکھو بھئی… تم ہمارا مورال ڈاون کر رہے ہو..یہ کسی صورت برداشت کے قابل نہیں..اسی کو دیکھ لو.. کچھ اچھے شعر کہہ گیا ہے بس… ہم تو وہ جنوں جولاں گدائے بے سروپا ہیں.. بلکہ وہ آتش بیاں و بجاں ہیں.. میں عربی کا عالم نہیں مگر نرا جاہل بھی نہیں، بس اتنی بات ہے کہ اس زبان کے لغات کا محقق نہیں ہوں، علما سے پوچھنے کا محتاج اور سند کا طلب گار رہتا ہوں۔ فارسی میں مبداء فیاض سے مجھے وہ دست گاہ ملی ہے اور اس زبان کے قواعد و ضوابط میرے ضمیر میں اس طرح جاگزیں ہیں، جیسے فولاد میں جوہر۔ اہل پارس میں اور مجھ میں دو طرح کے تفاوت ہیں: ایک تو یہ کہ ان کا مولد ایران اور میرا مولد ہندوستان، دوسرے یہ کہ وہ لوگ آگے پیچھے، سو دو سو، چار سو، آٹھ سو برس پہلے پیدا ہوئے۔
خیر یہ ادبی باتیں ہیں.. تم کہاں سمجھو گے…تم بس کرتا ہی سیا کرو..
درزی : آپ کیا ہیں خدا ہی جانے
مرزا غالب : میں دنیا داری کے لباس میں فقیری کر رہاہوں، لیکن فقیر آزاد ہوں، نہ شیّاد، نہ کیّاد۔ ستر برس کی عمر ہے، بے مبالغہ کہتا ہوں، ستر ہزار آدمی نظر سے گزرے ہوں گے زمرہء خاص میں سے، عوام کا شمار نہیں …. میں آدمی نہیں آدم شناس ہوں:
نگہم نقب ہمے زد بہ نہاں خانہء دل
مژدہء باد اہلِ ریا را کہ زمیداں رفتم
درزی : خیر یہ آپ کا کرتا سل جائے گا.. آپ آنے کی تکلیف مت کریے گا.. گھر پہنچا دونگا.. آپ عید کی تیاریاں کیجیے…
مرزا غالب : ارے کاہے کی عید اب تو شراب کے پیسے بھی نہیں… لیکن عید مزے سے گزرتی ہے.. بلکہ.سارا ماہ رمضان مزے میں گزرتا ہے..
سچ تو یہ ہے کہ …. مولانا غالب علیہ الرحمہ ان دنوں میں بہت خوش ہیں۔ پچاس ساتھ جزو کی کتاب امیر حمزہ کی داستان کی اور اسی قدر حجم کی ایک جلد بوستان خیال کی آ گئی۔ سترہ بوتلیں بادء ناب کی توشک خانہ میں موجوود ہیں، دن بھر کتاب دیکھا کرتے ہیں، رات بھر شراب پیا کرتے ہیں:
کسے کیں مرادش میسر بود
اگر جم نہ باشد سکندر بود
– پردہ گرتا ہے-
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“