بھلے تاریخ انکار کرے، مؤرخین تردید کریں، سائنسدان لاعلمی کا الزام لگائیں، ادباء، کفرِ ادب کے فتوے داغیں، مگر نقلِ حق حق نباشد، میں اپنی حسِّ عرفان کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ مرزا داغؔ دہلوی نے اپنے کسی بے تکلف دوست کی دعوتِ شیراز کو قبول کرتے ہوئے ایران کا رُخ کیا ہو گا اور یہاں آتے ہی دہلی میں رہ جانے والی اپنی منہ چڑھی طوائفوں سے ہمہ وقت رابطے میں رہنے کے لیے کسی ایرانی سِم کو اپنے گشتی فون (Mobile) میں نصب کیا ہو گا اور سِم کے فعال ہوتے ہی غریب پر نازل ہونے والی مصیبتوں کی طرح کمپنی کی طرف سے مختصر پیغامات (SMS) کی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی ہو گی، تب تنگ آ کر یہ غزل ان سے صادر ہو گئی ہو گی:
خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں
ایران میں اس وقت چار یا پانچ سرکاری، نیم سرکاری اور نجی موبائل فون کمپنیاں صارفین کو آپس میں کم اور کمپنی سے زیادہ رابطہ استوار رکھنے کی سہولت فراہم کرنے میں مصروف عمل ہیں، اور چونکہ سب اپنی ہیں اس لیےسب صارفین کو اپنا سمجھ کر شب و روز انہیں طرح طرح کے اوٹ پٹانگ پیغامات بھیج کر اپنی بے تکلفی کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ اور اس قدر بے تکلف ہیں کہ ان پیغامات میں صارفین سے وہ وہ سوال بھی پوچھ لیتی ہیں جن کے پوچھنے کا حق صرف رشتہ کروانے والی ماسی اور ڈاکٹر کو ہوتا ہے۔
بعض اوقات آپ بھری بس میں کھڑے، ایک ہاتھ میں اپنا بستہ پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے ڈنڈا تھامے ہچکولے کھا رہے ہوتے ہیں کہ اچانک جیب میں پڑے موبائل کی پیامی گھنٹی ہولے ہولے شور مچانا شروع کر دیتی ہے اور موبائل کی تھرتھراہٹ سے آپ بھی تھرتھرانا شروع ہو جاتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں میں سے کوئی ایک ہاتھ بھی اس حالت میں نہیں ہوتا کہ موبائل نکال کر دیکھ ہی سکیں کہ کس ناہنجار نے اس سخت مقام پر پیغام ارسال کر دیا کہ جس کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ:
رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں
ایسے ہی سخت مقام پر آنے والا یہ پیغام جس کو آپ پڑھ بھی نہیں سکتے، ذہن میں کھلبلی مچا دیتا ہے، نہ جانے کس کا پیام ہو گا، کیا لکھا ہو گا۔ خود ہی اندازے لگانے شروع ہو جاتے ہیں: شاید یہ لکھا ہو، شاید وہ لکھا ہو۔ پھر اس موہوم پیغام کا جواب بھی دماغ میں تیار ہونے لگتا ہے اور مرزا غالبؔ کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے:
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
دماغ کی یہ ہیجانی کیفیت اگلی اِیستگاہ (Bus Stop) آنے تک جاری رہتی ہے جب تک کہ بس وہاں رُک کر دوچار مسافروں کو اُگل اور دو چار کو نگل نہ لے۔ جونہی بس نے ذرا قرار پکڑا، ہاتھ نے ڈنڈا چھوڑا اور لپکا جیب کی طرف۔ موبائل نکالا، جیسے ہی پیغام کو کھولا تو دماغ کھولنے لگا۔ لکھا ہوا پایا:
’’اس بہار کے موسم میں آپ اور آپ کے خاندان کے لیے کون سا لباس مناسب رہے گا۔ یہ جاننے کے لیے درج ذیل نمبر پر جوابی پیام ارسال کریں۔ ہر پیام کی قیمت ۱۰۰ تومان ہے۔‘‘
پیغام پڑھتے ہی آنکھیں چوری چوری طالب علمانہ جیب کی طرف دیکھتی ہیں اور پھر غصے سے موبائل کمپنی اور بادِ بہاری دونوں کو ناراض ساس کی طرح کوسنے لگتی ہیں:
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری، راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں
کسی بھی ایرانی سِم پر اس طرح کے فضول، بے ہنگم، بے ربط، بے محل اور اول فول قسم کے پیغامات آتے رہتے ہیں۔
استثناء منفصل یہ ہے کہ کچھ پیغامات آیات، احادیث ، حمد، نعت اور منقبت وغیرہ پر بھی مشتمل ہوتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، اس لیے وہ داغؔ دہلوی ایسے من موجی شاعر کے محل بحث سے خارج ہیں۔
دن بھر پیغامات کی اس بوچھاڑ کی وجہ یہ ہے کہ یہاں موبائل فون کمپنیاں اشتہارات اور تبلیغات (Advertising) کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
ہر کمپنی اور ادارہ جو بھرپور طریقے سے اپنی تشہیر کرناچاہتاہے وہ اپنا پیغام ان موبائل فون کمپنیوں کے حوالے کر دیتا ہے اور پھر یہ کمپنیاں اس پیغام کو خواتین کے رازوں کی طرح پورے ایران میں موجود موبائل صارفین کو ارسال کر دیتی ہیں۔ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ یہ فون کمپنیاں صارفین سے اپنی جان چھڑوا کر دوسری کمپنیوں کے ہتھے چڑھا دیتی ہیں۔ یہی سوچ کر داغؔ نے اگلا شعر داغا ہو گا:
رسمِ تحریر بھی مٹ جائے یہی مطلب ہے
اُن کے خط میں مجھے غیروں کے سلام آتے ہیں
یہ پیغام عجیب نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بھری دیگ سے چند نوالے آپ کے چکھنے کے لیے بھی پیش خدمت ہیں:
۱۔ ’’ مستقبل ان لوگوں کا ہے جو اس کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ آئندہ کی منصوبہ بندی کے طریقے جاننے کے لیے اس نمبر پر پیغام ارسال کریں۔ قیمت ۱۰۰ تومان۔‘‘
ایسے ذومعنی پیغامات آنے کے بعد پڑھا لکھا اور متأہلانہ زندگی میں مبتلا طبقہ ’’منصوبہ بندی‘‘ کے لفظ پر اٹک اور جھٹک کر رہ جاتا ہے کہ اس لفظ سے شاعر کی مراد کیا ہے؟ آیا یہ پیغام وزارتِ بہبودِ آبادی کی طرف سے، دنیا میں ابھی تک بوجوہ نہ پہنچ سکنے والے ذی روحوں کی آمد کے راستے پر کینٹینر کھڑے کرنے کی سازش کی کڑی ہے، یا کسی بیمہ کمپنی کا اشتہار ہے جو آپ سے پیسے لے کر پہلے اپنا اور پھر آپ کا مستقبل محفوظ رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے، یا کسی حکمران جماعت کا سیاسی بیان ہے جو ناراض حزبِ اختلاف کو منانے کے لیے مولانا فضل الرحمن کو بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔۔۔ الیٰ آخرہ۔
۲۔ کبھی آپ بچوں کو، بقول جوشؔ کے، مولانا مودودی والا انسانِ صالح بننے کی نصیحتیں کر کر کے تھک ہار کر بیٹھے ہوں کہ ایک پیغام آ دھمکے گا:
’’کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کیوں بگڑ رہے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فلاں ابن فلاں نمبر پر پیغام ارسال کریں۔ قیمت ۱۰۰ تومان۔‘‘
غصے سے جوابی پیغام بھیجنے کو دل کرتاہے کہ آپ کو اپنے دفتر میں گھس کر بیٹھے رہنے سے کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ ہمارا بچہ کیوں بگڑ رہا ہے۔ بچہ بگڑا ہمارا اور بگڑنے کے اسباب و عوامل پر بحث کریں گی موبائل کمپنیاں:
محوِ حیرت ہوں کہ لونڈا کیا سے کیا ہو جائے گا
۳۔ بعض پیغامات ہمارے تھانیداروں کو بھیجنے کی بجائے صارفین کو ارسال کر دیے جاتے ہیں:
’’اپنے بڑھے ہوئے پیٹ کی روک تھام کے طریقے جاننے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں۔ قیمت ۱۰۰ تومان۔‘‘
ایسے پیغامات کا ایک اُخروی فائدہ ضرور ہے کہ پیٹ چاہے مالِ حرام کھانے سے بڑھا ہو مگر طریقے حلال بتائے جائیں گے۔ وہ طریقے اپنانے سے پیٹ ہلکا ہو نہ ہو جیب ضرور ہلکی ہو جاتی ہے اور اتنی ہلکی کہ سونا تولنے والے ترازو بھی جواب دے جائیں۔
۴۔ کبھی کبھی تو خواتین کے خصوصی مسائل کو چھیڑتے چھاڑتے پیغام بھی آ جاتے ہیں کہ شرفاء جن کا تذکرہ کرنا توہینِ شرافت سمجھتے ہیں۔
۵۔ کئی دفعہ تو یہ کمپنیاں ہمارے ہاں ہر گلی کوچے میں بیٹھے عاملوں کی طرح معلوم ہوتی ہیں۔ صرف طریقہ الگ، الفاظ نئے۔ہمارے ہاں عامل اپنی تشہیر کرتے ہیں: ’’محبوب آپ کے قدموں میں اور اگر وہ محبوب ترقی کر کے شوہر کی منزل پر جا پہنچا ہے تو وہی شوہر آپ کی مٹھی میں۔۔۔‘‘ لیکن یہاں پیغام آتے ہیں: ’’اچھی شوہر داری اور شوہر کا دل جیتنے کے طریقے جاننا آپ کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا پیپلز پارٹی کی بقاء کے لیے بھٹو اور قائم علی شاہ کا زندہ رہنا۔۔۔‘‘
شوہر کو مٹھی میں کرنا اور شوہر کا دل جیتنا۔ نتیجہ تو ایک ہی مگر طریقۂ واردات الگ الگ۔ اسی نتیجے سے تو مرزا داغؔ اس قدر ڈر گئے ہوں گے کہ ڈرتے ڈرتے لکھ بیٹھے ہوں گے:
وہ ڈرا ہوں کہ سمجھتا ہوں یہ دھوکا تو نہیں
اب وہاں سے جو محبت کے پیام آتے ہیں
ان موسلا دھار پیغامات سے جان چھڑوانے کے لیے داغؔ متعلقہ کمپنی کے دفتر بھی گئے ہوں گے مگر جب فارسی کو مشرف بہ لہجۂ دہلی کیا ہو گا تو جوابِ آں غزل کے طور پر ملازمین کے حسنِ سلوک سے داغؔ بلبلا اُٹھے ہوں گے:
نہ کسی شخص کی عزت، نہ کسی کی توقیر
عاشق آتے ہیں تمہارے کہ غلام آتے ہیں
اپنے پاس بھی داغ داغ، داغؔ کی طرح ان پیغاماتِ آہ و فغاں کی روک تھام کا کوئی طریقہ نہیں ہے سوائے اس کے:
صبر کرتا ہے کبھی اور تڑپتا ہے کبھی
دلِ ناکام کو اپنے یہی کام آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...