ہند کے معروف نوجوان شاعر مرزا اطہر ضیاء انتقال کرگئے۔ خوش مزاج اور خوش شکل نوجوان شاعر ایک عرصے سے برین ٹیومر کیوجہ سے علیل تھے ایک سال سے وہ آنکھوں کی بینائی سے بھی محروم تھے۔ اج رات ساڑھے بارہ بجے انہوں نے اپنی جان اللہ کے حوالے سپرد کی۔ علالت کے باعث مرزا اطہر ضیاء گزشتہ سال نومبر میں اپنی شعری تصنیف "ابجد عشق" کے اجراء کی تقریب میں بھی شریک نہیں ہوسکے تھے۔
مرزا اَطہرضیاء ۔ زندگی نامہ
مکمل نام : مرزا اطہر ضیاء بیگ
تاریخ پیدائش : 19؍فروری 1981ء
مقام پیدائش : ابڈیہہ ، اعظم گڑھ
والدین : مرزا ضیاء الدین بیگ، عذرا سلطانہ
زوجیت : شفقت مرزا
اولاد : عائشہ، آمنہ، مومنہ
ابتدائی تعلیم : مدرستہ الاصلاح سرائے میر، اعظم گڑھ
اعلی تعلیم : جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
جواہر لال نہر و یونیورسٹی ، دہلی
قطر میں قیام : 2009ء تا 2016ء
شاعری کی ابتدا : زمانۂ طالب علمی ہی سے
مستقل قیام : ابڈیہہ، اعظم گڑھ
اطہر ضیاء کے پچاس اشعار پیش خدمت ہیں۔
ڈھونڈتا ہے کوئی رستہ مرے آئینے میں
قید اک شخص ہے مجھ سا مرے آئینے میں
کھینچ لے تجھ کو نہ آئینے کے اندر کا طلسم
دیکھ مت غور سے اتنا مرے آئینے میں
میں ہی آئینۂ دنیا میں چلا آیا ہوں
یا چلی آئی ہے دنیا مرے آئینے میں
۔۔۔
کہو کہ دشت ابھی تھوڑا انتظار کرے
میں اپنے پاوں ندی میں بھگو رہا ہوں ابھی
میں تجھکو پھینک بھی سکتا تھا زندگی لیکن
کسی امید پہ یہ بوجھ ڈھو رہا ہوں ابھی
۔۔۔
یہ جو بے رنگی نظر آتی ہے
بس یہی رنگ ہمارا ہے میاں
اونچی ہونے لگی محفل کی صدا
اب یہ اٹھنے کا اشارا ہے میاں
۔۔۔
اب دوا کام ہی نہیں کرتی
اب تو ہم زہر پینے لگ گئے ہیں
۔۔۔
ابھی تو روح کو سیراب کرنا باقی تھا
ابھی تو ٹھیک سے لب بھی نہیں تھے بھیگے مرے
میں اپنے گاوں لیے بھاگتا پھروں کب تک
کہ شہر بڑھتے چلے آرہے ہیں پیچھے مرے
میں لکھ رہا ہوں بہت ان دنوں اناپ شناپ
کوئی تو پکڑے قلم کوئی کان کھینچے مرے
۔۔۔
اضافی ہو چکا ہے متن سارا
کہانی حاشیے سے چل رہی ہے
مجھے سب دفن کر کے جا چکے ہیں
مگر یہ سانس اب تک چل رہی ہے
بہت روئے گی یہ لڑکی کسی دن
جو میرے ساتھ ہنس کر چل رہی ہے
۔۔۔
اک نیا روپ دیا جائے مری مٹی کو
چاک پر پھر سے رکھا جائے مری مٹی کو
اب مجھے اور نہیں ڈھونا یہ زنجیرِ وجود
آج آزاد کیا جائے مری مٹی کو
۔۔۔
سو جتنا رونا ہے رو لو گلے لگا کے مجھے
کہ صبح مجھ کو سفر پر روانہ ہونا ہے
۔۔۔
سنتا رہتا ہوں میں خاموشی سے
لوگ دہراتے ہیں میری باتیں
زندگی پاس مرے بیٹھ کبھی
تجھ سے کرنی ہیں بہت سی باتیں
۔۔۔
یہاں آوازوں کے دینار و درم چلتے ہیں
کچھ نہیں ملتا یہاں سکۂ خاموشی سے
۔۔۔
سنائی دیتی ہے یہ کیسی بازگشت مجھے
تو کیا میں وادیِ آئندگاں تک آگیا ہوں
۔۔۔
پیاس روکے ہوئے میں بیٹھا تھا
اور پھر چینخ اٹھا پانی پانی
۔۔۔
تم نے رو دھو کے تسلی کر لی
پھیلتا ہے ابھی کاجل مجھ میں
میں تجھے سہل بہت لگتا ہوں
تو کبھی چار قدم چل مجھ میں
۔۔۔
اپنے محور پہ رقص کرتے ہوئے
آگئے ہیں ترے مدار میں ہم
اپنا چہرہ نہیں ہے یاد مگر
تم کو پہچان لیں ہزار میں ہم
۔۔۔
جہاں آتی ہے سچ پر آنچ اطہر
وہاں ہم سب سے پہلے بولتے ہیں
۔۔۔
سوکھنے لگتا ہوں میں تجھ سے جدا ہوتے ہی
جب تلک ساتھ رہوں تیرے ہرا رہتا ہوں
سرسری لوگ گزر جاتے ہیں ہر منظر سے
اور اک میں ہوں کہ پتھرایا کھڑا رہتا ہوں
مجھ میں تھوڑی سی جگہ بھی نہیں نفرت کے لیے
میں تو ہر وقت محبت سے بھرا رہتا ہوں
جیسے پھولوں کا بغیچہ ہو مرے شانوں پر
اس طرح میں تری یادوں سے لدا رہتا ہوں
۔۔۔
پھر اس کے بعد تھی رستوں میں صرف دھوپ ہی دھوپ
میں تھوڑی دور چلا تھا کسی کی چھاؤں میں
۔۔۔
چلو کہ ہم بھی ملا دیں اسی میں اپنے چراغ
دیارِ شب میں جو اک آفتاب بن رہا ہے
۔۔۔
آتا ہے کون بجھتے چراغوں کے آس پاس
اچھا کیا جو آپ بھی اٹھ کر چلے گئے
۔۔۔
دکھوں کی دھوپ میں خوشیوں کے پل بچا کے رکھو
یہ سبز باغ بہت دیکھ بھال چاہتا ہے
۔۔۔
دیکھ لگ جائے نہ یہ کبر کی دیمک تجھ کو
یہ وہ کیڑا ہے جو کردار کو کھا جاتا ہے
۔۔۔
دی بھی اگر صدائے مکرر ، نہ آؤں گا
اس بار میں گیا تو پلٹ کر نہ آؤں گا
قامت مری دراز ہے کوتاہ تیرا قد
اے زندگی میں تجھ پہ برابر نہ آؤں گا
خود کو لٹا رہا ہوں یہی سوچ کر ابھی
پھر اس کے بعد خود کو میسر نہ آؤں گا
۔۔۔
ہزار راتوں کا زہراب ہے رگوں میں مری
میں ایک رات میں تھوڑی ہرا بھرا ہوا ہوں
۔۔۔
نہ اختلاف ہے کوئی نہ برہمی ہوئی ہے
مگر خلوص میں تھوڑی سی کچھ کمی ہوئی ہے
۔۔۔
میں نے اس کی آنکھیں دیکھیں گہرے کاجل میں
جیسے دو دو چاند کھلے ہوں کالے بادل میں
۔۔۔
بالکنی سے کیا نظارہ بارش کا
آؤ ہم تم چھت پر چل کر بھیگتے ہیں
۔۔۔
ہم اپنے زخم کو شعروں میں ڈھال لیتے ہیں
بس اس قدر ہی ہمارا کمال ہے پیارے
۔۔۔
ہمیں تو خاک بھی ہو کر نہ آئی ابجدِ عشق
سنا ہے چھو کے سبھی آ رہے ہیں سرحدِ عشق
۔۔۔
قحط الرجال ایسا تھا اطہر کہ شہر میں
جو بوالہوس تھے سرمد و منصور ہو گئے
۔۔۔
تجھ کو راس آئے گا یہ شہر نہ اس شہر کے لوگ
باندھ لے آج کی شب رخت سفر دشت نورد
۔۔۔
نہ جانے کب انھیں اسٹیج ہونا ہے اطہر
وہ سارے سین جو میرے لیے لکھے ہوئے ہیں
۔۔۔
نہ انتظار کرو کل کا آج درج کرو
خموشی توڑ دو اور احتجاج درج کرو
۔۔۔
چلتے رہے ہیں زندگی ہم تیری دھوپ چھاوں میں
کچھ دن دکھوں کے شہر میں کچھ دن خوشی کے گاوں میں
۔۔
لہو کا شور اگر تھوڑی دیر تھم جائے
تو پھر سکون سے کچھ دیر میں سنوں خود کو
مرے وجود کے سب تانے بانے الجھے ہیں
کدھر کدھر سے میں سلجھاؤں اور بنوں خود کو
۔۔۔
کیا پتہ جانے کہاں آگ لگی
ہر طرف صرف دھواں ہے مجھ میں
ایک دن تھا جو کہیں ڈوب گیا
ایک شب ہے کہ جواں ہے مجھ میں
۔۔۔
نہ جانے کتنے پرندوں کے سر کی چھتری ہے
وہ بوڑھا پیڑ جو بارش کی زد میں رہتا ہے
۔۔۔
کچھ اس طرح سے اڑی ہے مرے وجود کی گرد
کہ کہکشاں سی بناتا ہوا چلا گیا میں
فلک سے تا بہ زمیں پھر زمیں سے تا بہ فلک
غبار اپنا اڑاتا ہوا چلا گیا میں
۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔