سوانح:
جناب مرزا عبدالقادر بیدل 1644ء میں پٹنہ کے مقام پر پیدا ہوئے۔ سر چشمۂ زُلالِ سعادت، محیط ِآبرُوے سیادت میر ابوالقاسم تِرمذی قُدسَ سرِّہ نے پیدائشِ بیدِل کی دو تا ریخیں ”فیضِ قدس“ اور”انتِخاب“سے نکالیں ۔ یہ قُدرتِ تا ریخ گوئی کی نمائش نہیں تھی بلکہ بیدِل کے بلند مرتبت ہونے اور مستقبلِ ارجمند ہونے کی پیش گوئی تھی۔ میر ابوالقاسم تِرمذی کی مستقبل آشنا نگاہ، طفلِ شیر خوار عبد القادِر کو انتِخابِ روز گار و قُدسی شِعار انسان کے روپ میں دیکھ رہی تھی۔
آپ فارسی اور ریختہ کے بہترین مصنف اور ہندوستان میں فارسی زبان کے اعلیٰ پائے کے مشہور ترین شعرا میں سے ایک ہیں۔
76 سال کی بہترین علمی و عملی زندگی گزار کر 5 دسمبر 1720ء کو دہلی میں وفات پائی۔
عائلی زندگی:
بیدِل کے والد مرزاعبدُ الخالق ایک صوفی بزرگ تھے۔ بیدل ابھی ساڑھے چار سال کے تھے کہ ان کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا۔ اور چھ (6) سال کی عمر مِیں والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ بیدِل کے چچا ایک صوفی بزرگ محترم مرزا قلندر نے کمال شفقت سے بیدِل کو اپنے آغوش و دامنِ تر بیت مِیں جگہ دی۔
تعلیم و تربیت:
بیدِل دَس سال کے تھے کہ مکتب میں دو اُستاد کسی بحث میں الجھے دیکھے۔دونوں ایک دُوسرے کونیچا دکھانے میں پہلے بحث، پھر کج بحثی اور کج بحثی سے ہاتھا پائی پر اُتر آئے۔ مغلّظات کی بوچھاڑ تو ہو ہی رہی تھی۔ گویا کم ظرفی و کم عقلی کا ناقابلِ مُعا فی و تلافی مظاہرہ جاری تھا۔ مرزا قلندر بھی وہاں موجُودتھے۔ اُساتذہ کی کمینہ فطرت اور اخلاق باختگی کا یہ منظر دیکھ کر وُہ سو چنے پر مجبور ہو گئے کہ عُلوم ِظاہر کے معلِّموں کا یہ اخلاق ہَے تو ایسی تعلیم ہر گِز بیدِل کے لیے سودمند نہیں ہو سکتی۔ میرزا قلندر نے بیدِل کو ایسی بے رُو ح تعلیم سے محفوظ رکھنے کا فیصلہ کِیا۔ یوں بھی بیدِل قر آن شریف ناظرہ مکمل کر چکے تھے۔ عربی قواعِد، صرف و نحواور فارسی نظم و نثر پر اُنہیں قُدرت حاصل ہو چکی تھی۔ مکتب چھڑاکر میرزا قلندر نے بیدِل کی تعلیم و تر بیت کا جو حکیمانہ طریق اختِیار کِیا وُہ اشارۂ غیبی محسوس ہو تا ہَے۔ مرزا قلندر نے بیدِل کو ہدایت کی کہ وُہ متقدِّمین اور متاخِّرین اہلِ علم و ادب و شعر کے کلامِ نظم ونثر کا عمیق مطالِعہ کریں اور مطالِعے پر مبنی انتِخابِ نظم ونثر روز اُنہیں سنائیں۔ تر کِ مکتب کے اِس فیصلے نے بیدِل کی تعلیمی و ادبی زندگی پر خوشگوار اثرات مرتَّب کیے۔ چچا کی ہدایت اور اپنے شوقِ مطالعہ سے بیدِل نے رُو د کیؔ، امیر خُسروؔ، جامیؔ وغیرہ تمام اساتِذہ ٔقدیم و جدید کے کلامِ نظم ونثر کا مطالِعہ بنظرِ عمیق کیا۔ تحصیلِ علم، مطالعۂ کتب تک ہی محدود نہیں تھی۔ خوش بختی سے بیدِل کو ایسے علمِ منقول و معقول سے آراستہ علما و صوفیا کی صحبت سے مستفیض ہونے کا بھی موقع مل گیا ۔ بیدِل بہت ذہین تھے چنانچہ جو کچھ سنتے اور پڑھتے ذہن پر کندہ ہوتا جاتا۔ سخن فہمی اور سخن سنجی کی خُداد ادو غیر معمولی صلاحیت کی بدولتصغر سنی میں ہی معائب و محاسنِ سخن اور رُموز ِ شعر گوئی سے اچھی طرح آگاہ ہوتے گئے اوربے اختِیارکلام موزُوں وارِد ہونے لگا۔
ابتدائی کلام:
بیدِل کا ابتِدائی کلام ہر لحاظ سے بہت اعلیٰ تھا اور شیخ کمال نے اسے پسند فرما کر بیدِل کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے تھے لیکن بیدل نے اپنا ابتِدائی کلام محفوظ نہیں رکھا کیونکہ بیدِل عہدِطفولیت سے ہی بلند معیار کے قائل تھے۔ جو شاعر سبکِ ہندی کو بام ِعرُوج تک پہنچانے کے لیے پیدا ہُواتھا، وُہ معمولی اسالیب پرقناعت نہیں کر سکتا تھا۔
تخلص:
مرزا عبدالقادر رمزی نے جب دیبا چۂ گلستانِ سعدی کا مندرجہ ذیل قِطع پڑھا تو اپنا تخلص رمزی سے بدل کر بیدل کر لیا۔
گر کسے وصفِ اُو ز من پُرسد
بیدِل از بے نشاں چہ گوید باز
عاشقاں کُشتگانِ معشوق اند
بر نیا ید زکُشتگاں آواز!
سخن وری اورقوتِ ابداع :
سخن وری لڑکپن سے ہی ذریعہ اظہار بن چکی تھی۔ اساتذہ کے کلام کا بالاستیعاب مطالِعہ اور اہل اللہ نیز سخنورانِ باکمال کی رہنمائی نے اس وصف کو مزید صیقل کر دیا۔ ہم عصر شُعَراکو پڑھنے سے اُسلوب میں پختگی پیدا ہوتی چلی گئی۔ یوں بیدِل میں قوّتِ ابداع کا ظُہورہُوا۔ شدّتِ جذبات، نازک احساس اور معتقداتِ صحیحہ نے ندرت بیان اور تخلیق تازہ کی ایسی صلا حیت و قد رت عطا کر دی کہ بیدِل نے شاعری اور فارسی کے مجتہد کا مقام پا لیا۔ حقائق کافلسفیانہ بیان، تجرِبات کی منطقی تفہیم اور ابداع و اختِراع کی قوّتِ عظیم سے بیدِل نے ایسا قصرِ طِلِسمِ معانی تخلیق کِیا کہ ان کی نظم و نثر فارسی ادب اور سبکِ ہندی کا بے مثال و گِرانقدر سرمایہ قرار پائی۔ یہ شرَف اُن سے قبل و بعد، کسی دُوسرے شاعر کو حا صل نہیں ہُوا۔ بحیثیت سالکِ راہِ تصوُّف بیدِل کی شخصیت اِتنی متاثِّر کُن تھی کہ مخالف بھی، فیضِ صحبت سے ہم خیال ہوجاتے ۔ اخلاقِ عالیہ کی بدولت دشمن بھی دوست بن جاتے۔ نو عمری سے طہارتِ قلب، عِفّتِ ذہن اور اخلاقِ فاضلہ کا نمونہ دکھائی دیتے ہیں۔ تمام عمر بادۂ تو حید سے سرشار اور سنّتِ نبوی پر کار بند رہے۔
وُسعتِ علمی اور قوتِ استِد لال ایسی کہ معترِض کے پاس اُن کا مؤقِف تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا۔ خود بیان کرتے ہیں کہ ا رَمل ،جَفر اور علمِ نُجوم پر مذکورہ عُلوم کی مستند کتب سے احکام اور مواد فراہم کرکے ایک کتاب ” تالیف ِاحکام“ تصنیف کی۔
خوش گو اُن کے تبحرِ علمی کا ذکر یوں کرتے ہَیں :
”بالجُملہ آن جناب از اِلہٰیّات و رِیاضیات وطبیعیّات، کم وبیش چاشنی بُلند کردہ بود وبہ طبابت ونُجوم ورَمل وجَفروتاریخ دانی وموسیقی،بِسیار آشنا بود۔ تمام قصّۂ ”مہا بھارت“کہ در ہندیان ازان معتبر کتا بے نیست، بیاد داشت و در فنِ اِنشاء بے نظیر۔ چنانچہ”چہار عُنصر“ و رُقعات ِ اُو برین دعویٰ دلیل ساطِع است“۔
عاجزی اور سادگی و پُرکاری:
بیدِل کی بے مثل شخصیت اور علمی کمالات ملنے والوں کو حیرت میں ڈالتے ہی تھے اُس پر مستزاد یہ کہ سادہ طبعی،شگفتہ مزاجی اور وضع داری بھی باعِثِ کشش و محبوبیت تھی۔ گھر ایک طرف تصوف کی تر بیت گاہ تھی تو دوسری طرف مدرسۂ شعرو ادب تھا۔ مختلف ذوق واحوال کے شا ئقینِ علم و ادب بصد اشتیاق شبانہ محفلوں میں شامل ہوتے ۔دن بھر کے معمولات سے فراغت پاکر، شام کو دیوان خانے میں رونق افروز ہوتے۔ عشاق شعر وادب حاضر ہوتے جن کی خاطر مدارت کے لیے غلام کمر بستہ رہتا اور بیدِل کے حُقّے کی چلم بھی ٹھنڈی نہ ہونے دیتا۔ بیدِل اپنے تجرِبات بیان کرتے۔ شعر و ادب اور شریعت و طریقت کے نِکات ودقائق پر گفتگو فر ماتے۔ مسائل و حالاتِ حاضرہ کا تجزِیہ کرتے۔ اندازِ بیان شگفتہ اور انتہائی شائستہ ہوتا۔ مجلس میں شر کت کے لیے نہ مذہب و ملّت کی قید تھی نہ امیر غریب کاامتِیاز۔ اُن محفلوں مِیں بیدِل کی شخصیت نکھر کے سامنے آتی تھی۔ حاضرین محسوس کرتے تھے کہ کعبۂ حقائق ومعانی اور قبلۂ بلا غت و فصاحت کہلانے کا مستحِق یہی سربلند وبے نیاز صاحبِ کمال ہَے۔
خوشگو لکھتے ہَیں :
”قسم بجانِ سخن کہ جانِ من است وخاکپاے اربابِ سخن کہ ایمانِ من است کہ فقیر درین عمر کہ پنجاہ و شش مر حلہ طے کردہ، باہزاران مردُم ِ ثِقہ بر خوردہ می باشم لیکن، بہ جامعیّتِ کمالات وحسنِ اخلاق و بُزُرگی وہمواری وشِگُفتگی و رسائی وتیز فہمی و زُود رسی واندازِ سخن گُفتن وآدابِ معاشرت وحسنِ سلوک ودیگر فضائلِ انسانی ہمچو وے ندیدہ ایم“۔
اورنگزیب عالم گیر اور بیدل:
بیدل کی مجلسوں کی رونقیں اورنگ زیب عالم گیرکے دور سے لے کر محمد شاہ رنگیلا کے دور تک تا حیات قائم و دائم رہیں۔ بیدِل کے آفتابِ شاعری وشخصیت کی شُعاعوں سے شاہجہاں آباد کے ایوان ہائے علم و ادب ہی نہیں، قصورِ اَمارت و سیاست بھی منوّر ہُوئے۔ اُن کی شاعری کی شہرت و اثرانگیزی کی ایک روشن دلیل یہ ہَے کہ ا ورنگ زیب عالمگیر جیسے صاحب علم و عمل مغل شہنشاہ کے دل میں بیدِل کا کلام پڑھنے کا شوق پیدا ہُوا۔ عالمگیر نے بیدل کی شاعری کا مطالعہ اس قدر توجہ سے کِیا کہ اُس کے شعر عالمگیر کے قلم پر رواں ہو گئے۔ چنانچہ عالمگیر اپنے خطوط میں جا بہ جا بیدِل کے اشعار استِعمال کرتاہَے۔ ایک خط مِیں اسد خاں کو یہ مقطع لکھا:
حرص قانع نیست بیدِل ؔورنہ اسبابِ معاش
آنچہ ما درکاردارم اکثرے در کار نیست
ایک فر مان مِیں شاہزادہ اعظم شاہ کو امن و امان قائم رکھنے اور راستوں کو رہزنوں سے پاک کرنے کی ہدایت کرتے ہُوئے بیدِل کا یہ شعر لکھا:
من نمی گو یم، زیان کُن یا بفکرِ سود باش
اے ز فر صت بے خبر! در ہر چہ باشی زُود باش
عالمگیر ایک مکتوب مِیں مظلوموں کو جلد انصاف فراہم کرنے کی اہمیت، بیدِل کے اِس شعر کے ذریعے اعظم شاہ کے ذہن نشین کراتے ہَیں:
بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دُعا کردن
اِجا بت از درِ حق بہرِ استِقبا ل می آید!
اورنگ زیب نے یہی شعر ”بترس از آہ مظلوماں“ایک خط میں اسد خاں کو بھی بیدِل کے نام کی تصریح کے ساتھ تحریر کِیا ۔
مقبولیت و شانِ امتیاز:
بیدِل اپنے عہد کے شعر و ادب اور دین و سیاست دونوں میں مقبول وممتاز انسان بن چکے تھے۔ بیدِل کی نگاہ التِفات کو باعِثِ اعزاز سمجھنے والوں کی فہرست بہت طویل ہے ۔ چیدہ چیدہ احباب حل و عقد کا تذکرہ دیکھ لیجئے:
حضرت شاہ ولی اللہ محدِّث دہلوی کے والد بُزُرگوار قاضی شاہ عبد ُالرحیم جو ایک بلند پایہ ادیب و شاعر تھے۔
اورنگ زیب عالمگیر ۔
عارضی اور پھر مستقل قیام:
1075ھ سے 1096 ھ تک شمالی ہند میں بیدِل کہیں بھی مستقل قیام پذیر نہیں ہوئے ۔ کبھی اکبر آباد کبھی متھرااور کبھی دہلی مختلف اوقات میں کئی کئی سال مقیم رہنے کے بعد، ستائیس (27) جمادی الثانی 1096ھ مطابق 31مئی 1680ء کو ”متھرا“سے معہ اہل و عِیال، مستقل قِیام کے لیے دہلی میں فروکش ہوئے۔ نواب شکر اللہ خاں خاکسار ان کے دہلی منتقل ہونے پر بہت خوش ہُوئے اور اپنے فر زند شاکر خاں کو ان کی رہائش کے لیے ایک اچھا سا مکان تلاش کرنےکو کہا۔ چنانچہ شہر پناہ اور دہلی دروازے کے باہر محّلہ ”کھیکریاں“میں گُزَر گھاٹ کے کنارے، لُطف علی کی حویلی مبلغ پانچ ہزار روپےمیں خرید کر بیدِل کی نذر کی۔ اور دو روپے یومیہ دیگر ضروریاتِ زندگی کے لیے مقرّر کر دیا۔ اُس زمانے مِیں ماہر کاریگر کی آمدنی پانچ آنے روز تھی۔ خلیق احمد نظامی ”تاریخ مشائخ چشت“مِیں لکھتے ہَیں کہ شاہ کلیم جہان آبادی (معاصرِ بیدِل)کے پورے مہینے کے خرچ کے لیے دو روپے کا فی ہوتے تھے۔ اِس معیار سے نواب شکراللہ خاں کے مقرّر کردہ یومیہ دو رو پے بیدِل کی معاشی خوش حالی و فارغُ البالی کی ضمانت تھے۔ مزید یہ کہ اُن کی طبّی مہارت بھی معقول آمدنی کا ذریعہ تھی۔ بیدِل کی بنائی ہُوئی دوائیں دہلی مِیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں۔ غرَض وُہ باقی زندگی مالی اعتِبار سے خوش اَوقات رہے۔ بیدِل کی فراوانیِ زَر کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہَے کہ اُنہوں نے اپنے کُلّیات ”چہار مصرع“کے ہم وزن زر و جواہر پَئے شکر و نیک فا ل خیرات کیے۔ کُلّیات کا وزن چودہ(14) سیر تھا۔
عالمِ شباب مِیں سیرو سیاحت کے شوقین بیدِل کے لیے ایّامِ پیری میں گوشۂ عافیت کی خواہش فطری تقا ضا تھا۔ دہلی مِیں قِیام اُن کے لیے اِسقدر موجِبِ راحت واطمینان ہُوا کہ وہیں کے ہو کے رہ گئے۔ بیدِل نے چھتّیس (36) سال دہلی مِیں بسر کیے۔
ازدواجی زندگی:
بیدِل کی شادیوں کی تفصیل نہیں ملتی کیونکہ اُنہوں نے اپنی عائلی زندگی کے متعلِّق بالعموم خاموشی اختِیار کی ہَے۔ خوشگو نے بیدل کے چار نکا حوں کا ذکر کیا ہے۔
پہلی شادی بعمر پچّیس سال 1079ھ مِیں ہُوئی۔ خود اُنہوں نے شادی کی تاریخ کہی”بشگُفت گُلِ حدیقۂ یُمن“ سے 1079ھ نِکلتی ہَے۔
یکم رجب 1120ھ کو شادی کے اکتایس سال بعد بیدِل کے گھر بیٹا پیدا ہُواجو اُن کی پہلی اورآخری اولاد تھی۔ بّچے کا نام بیدل نے اپنے والد کے نام پر عبد ُالخالق رکھا۔ شادی اور بّچے کی ولادت مِیں اکتالیس سال کا وقفہ اِس امکان کی طرف اشارہ کر رہا ہَے کہ گوہرِ مراد تیسری یا چوتھی بیگم سے حاصل ہُوا ہوگا۔ بیٹے کی پیدائش پر بیدِل کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ خیرات کی گئی، دس تاریخیں کہیں، دوستوں اور بالخُصوص میرلُطف اللہ شکر اللہ خاں ثانی کوعبد الخالق کی ولادت کی خوشخبری کے خطوط لکھے۔
شاعری:
مرزا بیدل کے لاجواب کلام اور فنِ شاعری سے غالب جیسے فکر رسا رکھنے والے لوگ بھی متأثر ہوئے بغیر نہ ره سکے۔ غالب بیدل کی فارسی گوئی کے دل سے قائل تھے۔ چنانچہ غالب نے اردو میں انہی کا اسلوب اختیار کیا۔ جس کا اظہار غالب نے یوں کیا:
طرز بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد الله خاں قیامت ہے
بوئے گل، نالۂ دل، دُودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزم تو برخاست، پریشان برخاست
(بیدل)
بوئے گل، نالۂ دل، دُودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
(غالب)
فارسی کلام:
مرزا عبدالقادر بیدل ؔ
اُردو ترجمہ:
احمدمنیبؔ
۱: اگر بہگلشن ز نازگردد قد بلند تو جلوه فرما
ز پیکرسر وموج خجلتشود نمایان چو می ز مینا
اے میرے محبوب! اگر تیرا حُسن اپنی تمام تر رعنائیوں اور اداؤں کے ساتھ گلشن میں جلوہ افروز ہوجائے تو تیرے سرو سراپے کو دیکھ مینا بھی منہ چھپاتی پھرے گی ۔
۲: ز چشم مستت اگر بیابد قبولکیفیت نگاهی
تپدزمستیبه رویآیینهنقش جوهرچوموج صهبا
اے میرے محبوب! تیری مست نگاہی اگر مجھے قبول کر لے تو میں کسی موجِ شراب کی مانند آئینۂ فطرت میں جوہر کے نقش کی طرح بے قرار ہو کر رقص کرنے لگوں۔
۳: نخواند طفل جنون مزاجم خطی زپست وبلند هستی
شوم فلاطون ملک!دانش اگر شناسم سر ازکف پا
اے طفل مکتب! تو میرے مزاج کے ظاہر و باطن کے جذب و جنون کا شعشہ بھی نہیں جان پایا کیونکہ اگر مجھے پہچان لیا جائے تو یقیناً مجھے اپنے زمانے کا افلاطون تسلیم کر لیا جائے۔
۴: به هیچ صورت زدورگردون نصیب مانیست سربلندی
زبعد مردن مگر نسیمی غبار ما را برد به بالا
گردش و اِدبارِ زمانہ کی وجہ سے ابھی میرے مقدر میں شہرت و سر بلندی نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ مرنے کے بعد نسیم ِ صبا میری خاک کو بہت اُونچا اُڑا لے جائے گی اور میں شہرت کی آسمانوں پر سرفراز ہو جاؤں گا۔
۵: نه شام ما را سحرنویدی نه صبح ما راگل سفیدی
چو حاصل ماست ناامیدی غبار دنیا به فرق عقبا
میرے مقدر پر ابھی رات اور غبار و ظلمت چھائی ہوئی ہے ۔ سو نہ میری شام کے لئے نوید سحر ہے اور نہ صبح کے لئے گل سبوتی۔ پس ابھی میری زندگی کا ماحصل نااُمیدی ہے لیکن مرنے کے بعد بالضرور شہرت کی بلندیاں میرا مقدر ہوں گی۔
۶: رمیدی از دیده بیتأملگذشتی آخر به صد تغافل
اگر ندیدی تپیدن دل شنیدنی داشت نالهٔ ما
اے میرے محبوب! تو نے تو مجھے آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا جیسے میں التفات کے قابل بھی نہیں اور تجاہلِ عارفانہ کے ساتھ میرے قریب سے گزر گیا۔ مان لیا کہ تجھے میرے تڑپتے دل کی خبر نہ ہوئی ہو گی لیکن میری آہ و بُکا پر تو کان دھرتا۔
۷: ز صفحهٔ راز این دبستان ز نسخهٔ رنگ اینگلستان
نگشت نقش دگر نمایان مگر غباری به بال عنقا
اے میرے محبوب! دبستانِ حیات کے صفحات پر لکھے مخفی حروف بھی اُبھر آئے اور باغ زیست کی رنگین کتابوں کا ہر نقش واضح دکھائی دینے لگا لیکن وائے حسرت! کوئی بھی حربہ بال عنقا کو ظاہر کرنے میں کارگر نہ ہو سکا ۔
۸: بهاولین جلوهات ز دلها رمیده صبر وگداخت طاقت
کجاست آیینه تا بگیرد غبار حیرت درین تماشا
اے میرے محبوب! تجھ پر پہلی نظر پڑی تو دل کا صبر و قرار لُٹ گیا گویا جسم سے جان ہی نکل گئی۔میرے پاس آئینہ ہوتا تو میں بھی اپنی حیران کن صورت اور کیفیت کو دیکھ پاتا۔
۹: به دورپیمانهٔ نگاهت اگر زند لاف می فروشی
نفس به رنگکمند پیچد زموج می درگلوی مینا
اے میرے محبوب! اگر تو نشیلی آنکھوں سے شراب بانٹے تو مے کش کا سانس اس کے گلے میں پھانس بن کر ایسے اٹک جائے جیسے صراحی کی گردن کسی پھندے میں پھنس جاتی ہے ۔
۱۰: بهبوی ریحان مشکبارت بهخویش پیچیدهام چوسنبل
ز هررگ برگگل ندارم چو طایررنگ رشته برپا
اے میرے محبوب! میں نے گلِ ریحان کی خوشبو کی طرح تیری خوشبو میں خودکو مسحور و محصور کر رکھا ہے گویا سنبل کا درخت ہوں۔ میری ہر شاخ پر پرندوں کو لبھانے والے پھول نہیں کھلتے۔
۱۱: به هرکجا ناز سر برآرد نیاز هم پایکم ندارد
توو خرامی و صد تغافل، من و نگاهی و صد تمنا
اے میرے محبوب! خوب ناز و ادا دکھا تاکہ میرے اندر تیرے دیدار کی خواہش مزید بھڑکے کیونکہ جس قدر تو مجھ سے بے اعتنائی برتے گا تجھے دیکھنے کی تمنا اُسی قدر میرے اندر بڑھتی چلی جائے گی۔
۱۲: ز غنچهٔ او دمید بیدل بهار خط نظر فریبی
بہ معجز حسنگشت آخر رک زمرد ز لعل پیدا
بیدلؔ! یاد رہے کہ تیرے کلام کی یہ بہار اسی محبوب کے غنچے سے پھوٹی ہے اور یہ زَمَرُّد نما غزل اسی محبوب کی خوبیٔ حسن کے معجزے کا کمال ہے۔