میری طاقت، میرا تاج،
میں فضائل سے خالی ہوں،
آپ، ان کے سمندر.
میرے دل کی موسیقی،۔۔۔۔۔ آپ میری مدد ہیں
میری دنیا سے میں تجاوز کرتی ھوں
ہاتھیوں کے بادشاہ سے محفوظ.
آپ گھبرا کے خوف میں تحلیل ھوجاتے ہیں
آپ کہاں جا سکتے ہیں؟ میری عزت کو محفوظ کریں
میں نے آپ کے لئے خود کو وقف کر دیا ہے
اور اب میرے لئے کوئی اور نہیں ھے. (آزاد ترجمہ: احمد سھیل)
*******************
میرابائی ہندی زبان کی مذھبی شاعرہ ہیں ۔ وہ راچپوت رانی تھیں۔ ان کی شاعری وشنو بھگتی کی تعلیمات سے متاثر تھی۔ جس میں روشن خیالی اور سچائی کا عنصر حاوی ھے۔ ان کی شاعری میں والہانہ عشق اور سپردگی بھی نظر آتی ھے۔ انھوں نے 1300 کے قریب نظمیں کہیں ۔میرا بائی (راجستھانی زبان: میراں بائی) ہندو دھرم کے بھگوان کرشن کی بھکتی والے فرقے کی مقبول شاعرہ تھیں۔ میرا بائی کی پیدائش1504ء میں جودھ پور کے کڑکی گاؤں میں ہوا تھا۔ میرا بائی کا سال ولادت متنازعہ ہے کچھ جگہ 1498 ان کی سال پیدائش درج ہے
سولہویں صدی عیسوی کی نامور شاعرہ کرشن بھگت میرا ؔ بائی (راجستھان کی ریاست ) ’’ میٹرتا‘‘ کے راجا رتن سنگھ کی بیٹی کی شادی۱۵۱۶ء میں چتوڑ کے رانا سنگرام سِنگھ المعروف رانا سانگا کے بیٹے کنور بھوج راج سے ہوئی لیکن جب بیوہ ہوگئی تو اُس نے ایک جوتا ساز اور شاعر رَے داؔس کی شاگردی قبول کرلی تھی۔ اِس لئے کہ رَے داس اُس سے بڑے کرشن بھگت تھے ۔ میرا بائی کی کہانی میں کہیں یہ تذکرہ نہیں ہے کہ ’’ رَے داس ؔنے میرا بائی، اُس کے راجا باپ ، رانا سُسر یا اُس کے پتی (شوہر) کے لئے بھی جوتا سازی کی تھی۔ ہندوستانی تاریخ میں اِس کا تذکرہ نہیں۔میرا بائی نے اپنے گُرو (اُستاد) کی نگرانی میں شری کرشن جی مہاراج کی مدح میں جتنے بھی بھجن لکھے وہ آج بھی ہندو ثقافت کا حصہ ہے۔
ان کے والد " مرتا" کے حکمران راؤ دورا کے صاحب زادے تھے۔ ان کی زندگی بہت تلخ گزری ، کیوں کہ میاں بیوی میں مذہبی اختلاف رہا۔ بھوج راج درگا دیوی کا بھگت تھا۔ میرا بائی کرشن جی کی عقیدت مند تھیں۔ ان کے والد کا نام رتن سنگھ تھا۔ ان کے شوہر ادے پور کے رانہ کُمار بھوجراج تھے۔ ان کی شادی کے کچھ وقت بعد ہی ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ میرا کو اپنے خاوند کے مرنے پر ان کی چتا پر ستی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن میرا اس کے لیے تیار نہیں تھی۔بھوج راج کے مرنے پر میرا بائی نے دُنیا تیاگ دی اور تیرتھ یاترا کے لیے نکل پڑیں۔وہ دنیا سے اداس ہو گئی اور سادھو سنتوں کی سنگت میں ہری کیرتن (ہندو مقدس مناجات جو گیت کی شکل میں ادا ہوتے ہیں) کرتے ہوئے وقت گزارنے لگی۔ کچھ دن بعد میر بائی نے گھر چھوڑ دیا اور تیرتھ یاترا پر نکل گئی۔ وہ بہت دنوں تک ورنداون میں رہی اور پھر دوارکا جی چلی گئی۔ جہاں 1560ء میں انھوں نے دنیا سے منہ موڈ لیا۔
دوارکا جی میں ان کا انتقال ہوا۔ گرو گرنتھ صاحب کے قلمی نسخوں میں ان کے نام سے ایک شبد راگ مارو
:::"مجھے اکیلے چھوڑ کر مت جاؤ ":::
== میرابائی ===
، اکیلے ایک لاچار عورت مجھے چھوڑ نہ جاؤ
یں بھی درج ہے۔
میرا بائی پر ہندی میں یقیناً بہت کام کیا گیا ہے اور کیا جانا بھی چاہئے تھا لیکن میرا بائی کی شخصیت اور فن پر انگریزی زبان میں بھی ایسی کتابوں کی کمی نہیں جن کو پڑھ کر میرا بائی کی شخصیت میں جھانکا جاسکتا ہے ۔ لندن سے چھپی ہوئی رابرٹ بلائی اور جین ہمسیڈ فیلڈ کی میرا بائی نامی کتاب ایک معتبر ومستند کتاب ہے۔ اسی طرح میرا بائی پر اوشا ایس نکسن کی کتاب بھی ایک اہم کتاب ہے جسے 1969میں ساہتیہ اکیڈمی دہلی نے شائع کیا تھا۔ولیم تھیوڈ ور کی مشہور زمانہ کتاب Sources of Indian Tradition بھی ایک ایسی کتاب ہے جو میرا بائی کے بارے میں اپنے قاری کو اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔اس سمینار میں شرکت کرنے والے اردو کے اساتذہ سے تو خیر توقع ہی نہیں کی جاسکتی لیکن ہمیں حیرت ہے کہ دوسری زبانوں کے مقالہ نگاریوں نے بھی انگریزی زبان کی ان کتابوں سے کوئی استفادہ نہیں کیا۔ میرا بائی کے پرستاروں کو شاید اس کا علم نہیں کہ پولینڈ میں کریکیو (crackow)نامی ایک قصبہ ہے جہاں کے چرچ میں میرا بائی کے گیتوں سے ہی دعا (Prayer) شروع ہوتی ہے ۔ بہت سے لوگ اس حقیقت سے بھی لاعلم ہیں کہ مشہور گیت کا ر محترمہ ایم ایس سبالکشمی نے 1950میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس کا آغاز میرا بائی کا ایک بھجن گا کر کیا تھا۔ آنجہانی سبا لکشمی نے یہ بھجن پنڈت جواہر لال نہرو کی فرمائش پر گاکر کیاتھا۔
ڈاکٹر اعظم کُریوی نے ’’ہندی شاعری ‘‘ میں ان کاسن ولادت نہیں دیا البتہ سن وفات ۱۶۳۳ء دیا ہے۔
میرا بائی کا نمونہ کلام دیکھیے :
دھان نہ بھاوے، نیند نہ آوے، برہ ستائے موئے
گھائل سی گھومت پھروں رے، میرا درد نہ جانے کوئے
جو میں ایسا جانتی اے، پریت کیے دُکھ ہوئے
نگر ڈھنڈھرورا پھیرتی رے، پریت کرو مت کوئے
کاگا سب تن کھائیو، چن چن کھائیو مانس
دو نیناں مت کھائیو، پریہ درشن کی آس
(ہندی شاعری…ص۱۱۸، ۱۱۷)
یہ دوہے ہجر و فراق اور محبت کی اذیت ناکیوں کے شاہد ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میرا بائی جی کی پوری زندگی ان دوہوں میں سمٹ آئی ہے۔ لیکن یہ میرا بائی کا عمومی موضوع نہیں ہے۔ اس کی گواہی عرش صدیقی یوں دیتے ہیں ـ:
’’جس طرح ہماری غزل ایک عرصہ تک عورت کے لیے مرد کی ہوس کے اظہار کا ذریعہ بنی رہی ہے۔ اسی طرح مردوں نے دوہے کی صنف کا استعمال بھی اس مقصد کے لیے صدیوں تک جاری رکھا۔ سہجوبائی اور میرابائی نے دوہے کواس زہر سے پاک کیا اور بہت سے مرد شاعروں کی طرح دوہے کو رفعت اور وقار کا مقام دیا۔ ‘‘ مارگریٹ میکنیکل نے میرا بائی کے بارے میں یہ رائے ظاہر کی ہے : ’’میرا بائی سب سے مشہور شاعرہ ہے۔ وہ ہندی اور گجراتی زبانوں میں شعر کہتی تھی۔بہت سارے روایتی گیتوں کی طرح میرا بائی کا بھجن ’’گھونگٹ کا پٹ کھول رے توہے پیا ملیں گے‘‘ گیتا دت نے آج سے لگ بھگ تھتر /73 سال قبل فلم ’’جوگن‘‘ کے لیے گایا تھا۔ اس بھجن کو گیت کے انداز میں نرگس نے اپنی اداکاری سے وہ تکریم بخشی کہ دیکھنے اور سننے والے الفاظ کے زیر و بم میں ڈوب گئے۔۔ اس بھجن مو بہت موثر انداز سے فلمایا گیا تھا اور نرگس کی آداکاری بھی لاجواب تھی ہم اس حقیقت کے منکر نہیں ہوسکتے کہ اس میں برصغیر کی فلم انڈسٹری گیت کاری کی منازل طے کرتی ہوئے اس مقام تک پہنچ چکی تھی جہاں ایک سے ایک معروف شاعر اس کی آبیاری کے لیے موجود تھا۔ اور میرا بائی کے بھجن بغیر کسی مذھبی بھید بھاو کے آج بھی اس عہد کی معاشرتی حسیت اور مزاج پر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور اس سے پڑھنے اور سنے والوں کی جمالیاتی تطہیر بھی ہوجاتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...