کیا بودوباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو !
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
ابتدائیہ:
میر ان شعراء کرام میں سے ہیں ،جو اپنی حقیقت کو خود خوب پہچانتے تھے ۔ اسی لئے اکثر اپنے اشعار میں شاعرانہ تعلی کا اطلاق کیا ہے۔اپنے لئے فرماتے ہیں۔
سب دیئے ہیں میر کو جگہ اپنی آنکھوں پہ
اس خاک رہ عشق کا اعزاز تو دیکھو
میر تقی میر اردو شاعری کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جو اردو شاعری کاسنہری دور کہلاتا ہے ۔ لیکن میری ناقص رائے میں یہ اردو شاعری کی خوش نصیبی ہے کہ اس کو میر جیسا صاحب طرز ،صاحب اسلوب اور غم کو آفاقیت بنادیئے والا شاعر نصیب ہوا ۔ اسی لیے ’’ آب حیات ‘‘ میں مولانا محمد حسین آزادرقم طراز ہیں ،کہ میرؔ نے اپنی مشہور کتاب ’’ نکات الشعراء ‘‘ میں اس دور میں صرف دو شعراء کو تسلیم کیا جن میں خود ایک ، دوسرے سودا مگر کسی کے پوچھنے پر درد کو بھی آدھا شاعر تسلیم کرلیا ۔
سارے عالم پہ ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا !!!
خراج تحسین میر جیسے استاد کے لیے میری ناقص نظر میں:
بچپن میں جس نے غزل خوانی کے جھنڈے گاڑے
غزل چمن میں ناصر عندلیب کچھ یوں پکارے
ہر دور کی آواز رہیں گے میر خو ش نصیب ہمارے
غم اورانسو دے کر گیسو غزل کے خوب سنوارے
عظمت میر:
میر تقی میر اردو ادب کے سب سے بڑے شاعر ہیں وہ ہر عہد میں شہنشاہ غزل کہلاتے گئے ۔ غزل کی دنیا میں کوئی بھی شاعر میر کے مقام تک نہیں پہنچ سکا نہ ہی کسی نے میر کی ہمسری کا دعوی کیا ۔ میر کے بعد آنے والے تقریبا تمام شعااء نے میر کی پیروی کو ہی غطمت سمجھا ۔
غالبؔ میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر ؔ نہیں
ابن انشاء میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
اک بات بتاؤ انشاء جی تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم سارے جہاں کا علم پڑھے کوئی میر سا شعر کہا تم نے
شیخ ابراہیم ذوق ؔ میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
نہ ہوا، پرنہہوا میر ؔ کا انداز نصیب
ذوق یارونے بہت زور غزل میں مارا
مرزا رفیع سودا ؔمیر ؔکی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
سودا تو اس زمیں میں غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میر ؔ سے استاد کی طرح
حسرت ؔ موہانی میر ؔ کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
شعر میر ےبھی ہیں پر درد و لیکن حسرتؔ
میر کا سا شیوہءِ گفتار کہاں سے لاؤں
غلام ہمدانی مصحفی ؔ میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
اے مصحفی ؔ تو اور کہاںشعر کا دعویٰ
پھبتا ہے یہ اندازِ سخن میر ؔ کےمنہ پر
اکبر ؔالہٰ آبادی میر ؔ کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخ ؔ و ذوق ؔ بھی جب چل نہ سکے میرکے ساتھ
میاں میر مہدی مجروح ؔ میر کی عظمت کا اعتراف یوں کرتے ہیں:
یوں تو ہیں مجروح ؔ شاعر سب فصیح
میر ؔ کی پر خوش بیانی اور ہے
حالی ؔ میر کی عظمت کا اعتراف یوں کرتے ہیں:
حالی ؔ سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
غالب ؔ کا معتقد ہے مقلد ہے میر ؔ کا
میر کا تصور غم:
بقول مجنوں گو رکھ پوری:
’’ میر الم کو ایک نشاط اور درد کو ایک سرور بنا دیتے ہیں ‘‘
شعر ملاحظہ ہو :
روتے پھر تے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
درحقیقت میر کی شاعری درد و غم ، رنج والم ، آنسو کی ترجمان ہے ۔ انہوں نے اپنی پوری شاعری کو غم کے سانچے میں ڈھال دیا ہے ۔ گویا غزل نہیں ان کا غم حقیقت کے پردے سے نکل کر غزل کے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔
شعر ملاحظہ ہو :
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے تب نہیں آتا
غم کی کسک عشق کی جان درحقیقت ان کے زمانی طور پرنا کام ہونے کی دلیل ہے یا یوں کہیئے وہ ناکام نہیں ہوئے ،حالات زمانہ نے انہیں ناکام کردیا تھا ۔ اسی لیے اک تڑپ ،اک کسک ،محرومیاں اور ناکامیاں ان کے کلام میں رچی بسی ہیں ۔شاید ان کے سینے میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے ۔
خلوص وصداقت و سوزوگداز:
یہ ایک زندہ حقیقت ہے جگرنے کیا خوب کہا ہے ۔
صداقت ہو تو دل سنتے سے کھچنے لگتے ہیں واغط
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
میر نے اپنی شاعری میں اپنے ذاتی غم کو آفاقی غم بنا کر پیش کیا ہے اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ اپنا غم دنیا کے پر غم پر حاوی نظر آتا ہے ۔ اسی لیے سوزوگداز پیدا کرنے کے لئے موسیقار حضرات گلوکاروں کوبھی غم سے آشنا کرتے ہیں ۔ میر کے ہاں غم کی یہی کیفیت موجود ہے جس نے ان کے غم کو آفاقیت نجشی ہے ۔
شعر ملاحظہ ہو :
مرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
میر نے اپنی ذاتی زندگی میں والد کی وفات ،سوتیلے بھائیوں کا ناروا سلوک پھر اس پر اپنے سوتیلے ماموں خان آرزو کا سلوک ۔ ان کے غم کو اور سنیے کی جلن کو آتش نوا بنانے کے لئے کافی تھا یہ غم غزل کا لبا دہ اوڑھ کر اک بہتا دریا بن گیا ۔
اشعار ملاحظہ ہو ں:
ہمیشہ آنکھ ہے نمناک ہاتھ دل پر ہے
خداکسی کومجھ سا سادرد مند نہ کرے
سرہانے میر ؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
میر کا غم عشق :
میر کے ذہن میں عشق کا مفہوم بہت وسیع ہے۔یہ جذبہ ان کےرگ و پے میں بچپن سے سرائیت کر گیا تھا۔میر کے غم عشق کے لیے اشعار ملاحظہ ہوں ، ایسا لگتا ہے میر جیسے استاد کے لیے شاید میری زبان گنگ ہوگئی اور قلم نے بھی ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے ۔ کچھ ربط کے بعد میر کے اشعار ملاخطہ ہوں ۔
محبت نے طلمت سی کاڑھاہے تور
نہ ہوئی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت ہی اس کا رخانےمیں ہے
محبت ہی سب کچھ زمانے میں ہے
ناقدین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ میر کا مفہوم عشق بہت وسیع ہے اور عشق کا جذبہ ان کے سنیے میں حقیقی طور پر سرائیت کرگیا تھا لہذا میر صوفیاء کے اس گروہ سی تعلق رکھتے ہیں جوکہ پوری کائنات کوہی عشق کا مظہر سمجھتے ہیں ۔شعر ملاحظہ ہو۔:
جب نام ترا لیجیئے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
اک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے اک درد جگر میں ہوتا ہے
ہم راتوں کو اٹھ کر روتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہے
میر کی عظمت اپنی نظر میں:
میر تقی میر بڑے سخن فہم ،خود نگر اور خود شناس انسان تھے ۔اسی لئے اپنی حیثیت اور مقام کو واضح انداز میں پہچانتےتھے۔ اور بر ملا کئی مقامات پر انہوں نے اپنے عظیم تر ہونے کا اظہار کیا۔ناقدین نے اس اصطلاح کو ’’شاعرانہ تعلی ‘‘قرار دیا ہے۔
اشعار ملاحظہ ہو ں :
اگر چہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیئے گا
پڑھتے کسی کو سنیئے گا تو دیر تلک سر دھنئیے گا
میر دریا ہے شعر سنے زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
میر کا دل ،دلی اور حالات زمانہ :
ڈاکٹر سید عبداللہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’ نقد میر ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’ اگر میر زمانے کی تاریخ نہ لکھی جاتی تو میر کی شاعری پڑھ کر ایک گہری نظر رکھنے والا اس زمانے کی تاریخ مرتب کر سکتا ہے ‘‘ ۔
آب حیات میں مولانا محمد حسین آزاد نے کیا خوب جملہ لکھا ہے کہ ’’اگر کوئی دلی کی تاریخ پڑھنا چاہے تو وہ دیوان میر پڑھ لے ‘‘
میر کا زمانہ سیاسی زوال ، اقتصادی ، بدجالی ، معاشرتی افراتفری اور اخلاق انحطاط کا زمانہ تھا ۔ اسی لیے انہوں نے ان مخصوص حالات کو گویا اپنی غزلیات کے سانچے میں ڈھال دیا۔
اشعار ملاحظہ ہوں:
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
میر ؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھا میے دستار
مرثئے دل کے کئی کرکے دیئے لوگوں کو
شہر دلی میں سب پاس ہے نشانی اس کی
میر کی تشبیہات اور استعارات :
تشبیہ اور استعارات تقریبا ََ ہر شعر کا جوہر ِ خاص ہوتے ہیں۔ لیکن میر نے تشبیہ اور استعارات ایسے معیاری انداز میں اختیار کیے ، کہ وہ زبانِ زد عام ہو گئے۔اور یقیناَ۔ یہ کہنا درست ہوگا میر کا کلام ان خصوصیات سے مالا مال ہے۔ شاید اسی لئے ڈاکٹر عبادت بریلوی رقم طراز ہیں۔
میر تشبیہوں اور استعاروں کے ذریعے سے بعض کیفیات کی ایسی خوبصورت تصویر کشی کرتے ہیں ،اور اس میں شک نہیں کہ ان کے ہاتھوں اس فن میں مصوری جیسی شان پیدا ہو گئی ہے۔
تشبیہات اور استعارات کے باب میں میر کا کچھ کلام ملاحظہ ہو:
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر ؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر ؔ دریا ہے شعر سنے زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
میر اور دنیا کی بے ثباتی کا تصور :
حادثات زمانہ اور گردش دوراں نے میر کے دل میں گوشہ نشینی کا تصور اور بھی گہرا کردیا تھا اس کیفیت کا اظہار انہوں نے جابجا کیا ہے ۔ دنیا کےعارضی ہونے کا تصور ان کی شاعری میں ایک خاص مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔
اشعار ملاحظہ ہوں:
چار دیواری عناصر میرؔ
خوب جگہ ہے پر ہے بے بنیاد
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
کہا میں نے کتنا ہے گل کو ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
انسان دوستی اور احترام آدمیت:
میر نے اپنی شاعری میں انسانی عظمت اور اعلیٰ انسانی اقدار کو بڑی کثرت سے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون ان کی شاعری کا مستقل موضوع بن گیا ہے ۔اوران کے کلام میں جگہ جگہ اس رنگ کی نشانیاں موجود ہیں ۔
کلام ملاحظہ ہو :
آدمی کو ملک سے کیا نسبت
شان ارفع ہے میر انساں کی
کعبے سو بار وہ گیا تو کیا
جس نے یاں ایک دل میں راہ نہ کی
آہنگ اور موسیقیت میر کی شاعری کا خاص جوہر ہیں :
کلیم الدین احمد نے میر کی ان خصوصیات سے متاثر ہو کر کیا خوب کہا ہے ۔ مقولہ ملاحظہ ہو۔
’’ میر سید ھے سادھے مختصر،نرم اور ملائم لفظوں میں اپنے اچھوتے احساسات اور تاثرات کو صفائی اور درد انگیزی کے ساتھ بیان کرتے ہیں ان کے اشعار میں ایسا ترنم ہوتا ہے کہ گویا ان میں روح موسیقی آبسی ہے ‘‘۔
آہنگ اور موسیقیت کے لیے میر کا کلام ملاحظہ ہو :
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
عالم عالم عشق و جنوں دنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
تبصرہ میری اپنی ناقص رائے میں:
اس میں کوئی شک ہی نہیں کی میر اردو ادب میں غزل کے سب سے بڑے استاد ہیں ۔اور ہر دور میں ان سے متاخرین نے فیض اٹھایاہے۔ویسے تو میر نے مختلف اصناف ِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن غزل میں ان کا رتبہ سب سے بلند ہے۔سچ یہ ہے کہ تغزل جس کامیابی اور خوش اسلوبی سے میر ؔ نے نبھایا ہے ،وہ ان ہی کے حصے کی بات ہو گئی ہے۔یا یوں کہیئے کہ غزل ان کا مزاج بن گئی تھی۔احساس کی شدت ۔تجربے کی گہرائی، مضامین کی شدت، آلامِ روزگار اور غمِ عشق وغیرہ وہ خصوصیات ہیں۔جنہونے جمع ہو کر میر ؔ کو شہنشاہِ غزل اور غزلوں کا امام بنادیا ہے۔جس کی بناء پر میر ؔ اردو شاعری کے افق پر ہمیشہ ایک سورج کی طرح چمکتے رہیں گے۔