غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخؔ
”آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں“
اعتقاد : کسی خاص سمت قلبی رجحان۔ اردو میں مطلق عقیدت کے معنیٰ میں زیادہ مستعمل ہے۔ مرزا ناسخؔ کے رسمی اعتراف کو مسلّم عقیدے کے درجے پہ فائز چاہتے تھے۔ اور یہی عمل اس دعویٰ کے لیے بطورِ دلیل کافی ہے کہ غالبؔ، میرؔ سے بیش قدر متاثر تھے۔
بے بہرہ : وہ شخص جو کسی سے فائدہ کش ہونے کی استطاعت نہ رکھتا ہو یا اس کی بے اعتقادی اس میں مانع ہو۔
جو معتقدِ میر نہیں، یعنی :
جو میرؔ کی شعریت سے بے فیض ہے۔
جو میرؔ کو بڑا شاعر یقین نہیں کرتا۔
جو مکتسبِ میرؔ نہیں۔ [حاشیہ نمبر *]
جو میرؔ کی استادی کا قائل نہیں۔
جو میرؔ سے عقیدت نہیں رکھتا۔
جو میرؔ کے پایۂ سخن کا معترف نہیں۔
زیرِ بحث شعر میں غالبؔ نے ناسخؔ کے اس عقیدہ پہ جزم و اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ جو میرؔ کی عظمت کا قائل نہیں، وہ بہرۂ سخن سے تہی دامن ہے۔ ناسخؔ کا شعر :
معترف کون نہیں میرؔ کی استادی کا
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں
ناسخؔ کے مصرع پہ غالبؔ نے پہلے یہ گرہ باندھی :
ریختے کا وہ ظہوری ہے بقولِ ناسخؔ
اس مصرع کو اصلاح کے بعد موجودہ شکل میں بدلا۔ وجوہِ ترمیم دو ہیں :
1۔ ”بقولِ ناسخؔ“ سے یہ شبہ پیدا تھا کہ ”ریختے کا وہ ظہوری ہے“ بھی ناسخؔ کا بیان ہے، حالانکہ ایسا نہیں۔ طباطبائی نے بھی یہی وجہ لکھی ہے : ”اس بندش میں یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ ناسخؔ کا یہ قول ہے کہ "میر ریختہ کا ظہوری ہے"“ (اصلاحاتِ غالبؔ، صفحہ 57)
2۔ ظہوری یوں تو ہر صنفِ سخن میں طبع آزما ہوئے لیکن مثنوی خاص اُن کا میدان تھا۔ نیز لفظی صنّاعی میں بھی ماہر۔ نثر میں صنعت آرائی اُن کا خاص وطیرہ تھا۔صاحبِ خزانۂ عامرہ نے اُن کی نثر پہ جاندار تبصرہ کیا ہے۔ قصیدہ گوئی میں بھی خاص رنگ کے موجد تھے۔ چونکہ میرؔ کی طبیعت لفظی صنّاعی کی طرف میلان نہیں رکھتی تھی۔ اور نہ وہ قصیدہ گوئی میں مروّج تقاضوں کے مطابق لفظی طمطراق و صنعی طنطنہ کی بجا آوری کرتے تھے۔ [حاشیہ نمبر **] اسی لیے غالبؔ نے ان سب کے پیشِ نظر مصرع میں ترمیم ضروری سمجھی۔
2۔ ایک وجہ شمس الرحمان فاروقی نے بھی لکھی ہے :
”غالبؔ کی نظر میں ظہوری کتنا ہی موقر رہا ہو، لیکن میرؔ کو ریختہ کا ظہوری کہنا کچھ مناسب نہیں، کہ ظہوری سے بھی بڑے شاعر فارسی میں موجود تھے۔ ظہوری خیال بند شاعر تھا جبکہ میر کیفیت اور معنیٰ کے شاعر تھے۔ لہٰذا غالبؔ نے مصرعِ اولیٰ کو بدل دیا“
(غالبؔ پر چار تحریریں، صفحہ 96)
میرؔ کی بوطیقا سے یہاں بحث نہیں۔ البتہ اُن وجوہات کا اجمالی تذکرہ عین بجا ہے جن کی بنا پر میرؔ کے پایۂ سخن پہ تمام جدید و قدیم شعراے اردو ناصیہ فرسا ہیں، بالخصوص غالبؔ سا خالص تجریدی شاعر۔
زبانِ میرؔ : ریختہ گوئی میں میرؔ کی استادی مسلّم ہے۔ ان کی زبانِ سخن میں سلاست، بے تکلفی، بے ساختگی، عامیانہ پن۔ (عامیانہ پَن سے مراد عوامی سطح کی نہیں بلکہ عوامی جذبات کی نمائندگی کرنے والی زبان مراد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سب اشعار خواص پسند ہیں۔ انھوں نے زبان کے پورے امکانات کو روشن کر، اس کی ظاہری و مخفی ساختوں کو شعری اظہار کی اعلیٰ ترین سطحوں پہ فائز کیا۔ عبد المغنی نے درست لکھا ہے کہ ان کی زبان اور اسلوبِ بیان میں کسی تصنع اور تکلف کی عمل داری نہیں۔ جملوں کی ساخت، روانی، متن میں پوشیدہ تہذیبی علامتوں کا تعین، معنویت، آہنگ اور بحر وغیرہ میں وہ منفرد شان رکھتے ہیں۔ (آہ سیتا پوری نے اس پہ مفصّل لکھا) اسلوبِ میرؔ کا قوی عنصر زبانِ میرؔ ہی ہے۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :
”میرؔ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے پوری اردو کے ادبی حسن کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ آشکار کیا۔ ٹھیٹھ بول چال کی زبان سے انھوں نے شاعری کی زبان وضع کی اور فارسی اثرات کی خوش آہنگ آمیزش سے ایکائی اظہار کی ایسی ایسی رفعتوں تک ایک نوزائیدہ زبان کو پہنچا دیا کہ باید و شاید۔ میر کے یہاں حسن کاری اور تہ داری کی بنیادیں دراصل زبان کی جڑوں میں پیوست ہیں“
(اسلوبیاتِ میر از ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، صفحہ 84)
میرؔ کا اندازِ تشکیل : اسلوبِ میر میں انفرادی ندرت کی کارفرمائی بہت ہے۔ کیوں کہ ذاتی کشش Peraonal Impressiveness اور ندرتِ احساس ان کے ہاں وضعیت کے لازمی اجزاء ہیں۔ میرؔ کا اسلوب ان کے عہد کے مجموعی تشخص کا روشن اظہاریہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میر کا سمجھنا سہل نہیں۔ ان کی بصیرت تہ در تہ ہے۔ انھوں نے اپنی موجِ سخن کو بلاوجہ صد رنگ نہیں کہا تھا :
جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریاے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبعِ رواں ہوں
آفاقیت یعنی Universality : میرؔ کا مشاہدہ دُور بینی شان رکھتا ہے۔ اُن کا کہا ہر عہد میں بامعنیٰ ہی نہیں انبساط و مسرت بہم بھی پہنچاتا ہے۔ تفہیمِ کائنات میں ان کے موضوعہ اصول آج بھی اتنے کارآمد ہیں جتنے ان کے دور میں۔ آفاقیت کی ضد قطعیت و اختصاص Particularity ہے۔ عجب ماجرا یہ ہے کہ میرؔ کے اسلوب میں آفاقیت اور قطعیت دونوں اپنے اپنے زاویوں میں موجود رہتے ہوئے بھی متوازی سفر کرتے ہیں۔ اسی لیے فراقؔ گورکھ پوری نے کہا تھا : معلوم ہوتا ہے کہ میر نہیں بول رہے بلکہ ہماری انسانیت اور ہماری فطرت بول رہی ہے۔
میرؔ کا شخصی احساس : یعنی اقبالؔ کی خودی کا مظہر۔ میرؔ کی شخصیت کا یہ پہلو براہِ راست ان کے فن پر اثر انداز ہوا ہے اور ضمناً اس کی شہادت تمام مستند شعراے اردو نے دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[*] وجہ یہ ہے کہ وہ خدا کے سوا ایک انسان کی جھوٹی بندگی کا دعویٰ ہتکِ حرمت کے مترادف محسوس کرتے تھے۔ لیکن حالات کی چیرہ دستیوں اور وقت کے جبر نے انھیں یہ بھی کرنے پہ مجبور کیا۔ ان کی طبیعت اس پہ ہمیشہ منفعل ہی رہی۔ نیز ان کا احساسِ برتری بھی اس میں مانع تھا۔ شاید وہ طبعاً قصیدہ کہنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ میرؔ کی قصیدہ گوئی سے متعلق تقریباً اکثر ناقدین متفق ہیں کہ وہ اپنی قصیدہ گوئی میں ممدوح کی تعریف و توصیف کے علاوہ واسوخت بھی لے آتے ہیں۔
[**] اعتقاد کی دو قسمیں ہیں : اعتقاد بالکسب اور اعتقاد بالحُب
شعرِ غالبؔ میں دونوں اقسام مراد ہیں۔ اسی لیے "اعتقاد" کا ایک پہلو اکتساب بھی ہے، شعوری ہو یا غیر شعوری۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالبؔ کے شعر میں ناسخؔ کے مصرع ”آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں“ میں ”معتقدِ میر“ کو ”مکتسبِ میرؔ“ سمجھنا روا ہے۔ لیکن خود ناسخؔ کے لیے اکتساب و فیض مراد لینا درست نہیں، کیوں کہ ناسخؔ اسلوبِ اظہار میں میرؔ سے فیضان اخذ کرتے ہیں نہ قدرتِ زبان میں میرؔ کے قریب پہنچتے ہیں بلکہ بقولِ ڈاکٹر سید عبد اللہ ”ناسخؔ نے محض رسماً میرؔ کی معتقدی جتائی ہے“۔ اگر ناسخؔ کے ہاں کچھ قابلِ تعریف ہے تو وہ ان کا تعجب انگیز اختراعی انداز ہے، جس کی خود غالبؔ بھی تعریف کتے کی۔ طرزِ میرؔ اختیار کرنے کا مضمون رندؔ کے ہاں بھی ہے لیکن پرلطف بات یہ ہے کہ اُن کے ہاں نصف غزل بھی میرؔ کی طرح کی نہیں۔ جبکہ غالبؔ کے ہاں شعوری مماثلات کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ غالبؔ کی میرؔ سے جزوی مماثلت براہِ راست استفادے یا جذبِ اثر کے بغیر بھی ممکن ہے۔ لیکن ہم بالیقین کہتے ہیں کہ غالبؔ اور میرؔ کے مابین فکری مماثلتیں ان کی باہمی ذہنی اور نفسی ہم رنگی کی غماز ہیں۔ ان دونوں کے جذب و جبلت کے قماش کے بیشتر نقوش ایک وضع کے ہیں۔