میر و غالب دونوں قدرِ اول کے شاعر ہیں میرے خیال میں ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا ٹھیک نہیں ہاں اگر کوئی کسی منظقی استدلال کی بنیاد پر یہ کہے کہ بعض معامالات میں غالب میر سے آگے ہے اور کچھ دوسرے معاملات میں میر پیچھے ہے۔ یا پھر کوئی یہ کہے کہ میر اپنے عہد کا خدائے سخن تھا اور غالب اپنے عہد کا خدائے سخن اور نابغہ تو شاید اس قسم کی رائے شاید پھب سکتی ہے۔ میر کی خوبی یہ ہے انہوں نے روزمرہ کی زبان کو شعریت سے آشنا کیا اور غالب نے خیال بندی ،تخیل آرائی اور مضمون آفرینی کو ایسی وسعت اور بلندی دی ہے کہ جس کی مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی۔
یہ سچ ہے کہ میر استعارہ سازی کی دلدل میں نہیں پھنستا اسکا کلام پر لطف اور بامزہ ہوتا سے ۔ غالب کے یہاں معنوی ابعاد اور فکری جہتیں بہت ہیں غالب کے یہاں ترفع مثالی ہے ۔ اسکا اسلوب ، امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ اسکا قاری لامتناہی فضاوں میں اڑنے لگتا ہے
میر انسانی تعلقات کا شاعر ہے اور وہ عشق کی رسی سے پراگندہ معالات کی شیرازہ بندی کرتا ہے
جبکہ غالب فکر و شعور انسانی کو وسعت اور رفعت دیتا ہے اسکے یہاں عشق و خرد کا زبردست امتزاج ملتا ہے
غالب کے یہاں تحیر اور تعقل کی جادوئی دنیائیں ملتی ہیں
میر بھی اپنی تخلیقات میں عالم وجد میں پہنچ جاتا ہے اور قاری کے دل و دماغ کو سطح سے اٹھا کر اپنے ساتھ شریک کرلیتا ہے ۔یہی ترفع ہے
میر کے یہاں دل کو نرمی سے چھولینے والے الفاظ کا عاشقانہ آہنگ ہے
جب کے غالب کے یہاں شوکت لفظی کے ساتھ لب و لہجہ کی گونج ہے۔
میر عاشقانہ معاملات اور انسانی رشتوں کا عظیم شاعر ہے جب کہ غالب کا تخیل ، انداز بیان ، حشر خیز اور حشر انگیز تھا اور رہے گا بھی
اگر کوئی یہ کہے کہ
میر کی شاعری الہامی ہے تو یہ درست نہیں کیوںکہ شاعری تخلیقی منصوبہ کے تحت ہی معرض وجود میں آتی ہے البتہ میر کی شاعری ’’داخلی‘‘ نوعیت کی ضرور ہے اس کے اشعار آب مصفا کے سوتے ہیں کلام خود رو ہے کہیں بھی تکلف و تصنع کا شائبہ نہیں ہوتا لہذا کہا جاسکتا ہے میر کی شاعری سچی کیفیتوں کی عکاس ہے میر جب بھی خیال آرائی کرتے ہیں تو بھرے ہوئے حوض کی طرح اطراف میں بہہ جاتے ہیں
جب کہ خیال بندی ،مضمون آفرینی، فنکارانہ چابک دستی اور فکری بالیدگی کے اعتبار سے غالب کا شمار اردو تو اردو دنیا کے بڑے شعرا میں ہوتا ہے۔ میر و غالب کے اشتراکِ خیال کی کچھ مثالیں دیکھیں ان سے واضح ہوجاتا ہے غالب نے میر سے ملتے جلتے مضامین اور خیالات میں تصرف کر کے انہیں بلندیوں پر پہنچا دیا ہے ۔ بہر حال تقدیم کے اعتبار سے میر کی استادی اپنی جگہ پر مسلم ہے ۔
معاملات عشق میر وغالب کا رویہ کا رویہ مختلف ہے
میر عجزو نیاز کی راہ اپناتے ہیں جب کہ غالب کا عشق غیور ہے کبھی کبھی میر بد مزاج ہو کر معشوق سے الجھ جاتے ہیں۔ جب کہ میر زمانے سے الجھتے ہیں ۔۔
اتنی بھی بد مزاجی ہر لحظہ میر تم کو
الجھاو ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے
میر
عجز و نیازسے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو آج حریفانہ کھینچئے
غالب
پوچھ مت رسوائی انداذ استغنائے حسن
دست مرہون حنا، رخسار رہن غازہ تھی
غالب
آج ہمارا دل تڑپھے ہے کوئی وہاں سے آوے گا
یا کہ نوشتہ ان ہاتھوں کا قاصد ہم تک لاوے گا
میر
ہولئے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا
غالب
کرو گے یاد باتیں تو کہو گے
کہ کوئی رفتۂ بسیار گو تھا
میر
وائے دیوانگیِ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیراں ہونا
غالب
کہتا تھا کسو سے کچھ تکتا تھا کسو کا منہ
کل میر کھڑا تھا یاں سچ ہے کہ دوانا تھا
میر
وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیران ہونا
غالب
میر
نیت پہ سب بِنا ہے یاں مسجد اک پڑی تھی
پیرِ مغان موا سو اس کا بنا خطیرہ
میر
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرےبت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
غالب
یوں تو مردہ سے پڑے رہتے ہیں ہم
پر وہ آتا ہے تو آجاتاہے جی
میر
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں بیمار کا حال اچھا ہے
غالب
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...