پاکستان کی سیاست میں بھٹو خاندان کا کردار سب سے اہم رہا ہے اس کے بعد خان عبدالغفار خان، مولانا مفتی محمود، شریف خاندان ،چوہدری خاندان اور زرداری خاندان کا نام شامل ہے ۔ بھٹو خاندان کی تاریخ قابل فخر مگر ان کا انجام بہت عبرت ناک ہے۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے بعد جیل میں بند کر دیئے گئے اور پھر پھانسی کے پھندے پر لٹکائے گئے۔ اور ان کی تدفین بھی اس طرح خاموشی کے ساتھ کی گئی کہ ان کے جنازہ نماز میں بھی چند ایک افرد کے علاوہ کسی کو بھی شامل ہونے نہیں دیا گیا ۔ بھٹو کی موت کے بعد ان کے چھوٹے صاحبزادے میر شاہ نواز بھٹو فرانس میں پر اسرار طور پر موت سے ہمکنار ہو گئے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو ان کی اہلیہ کے ذریعے زہر دلا کر قتل کیا گیا ۔ بیگم نصرت بھٹو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں ۔ میر مرتضی بھٹو کو ان کی بہن وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں کراچی میں گولیوں سے چھلنی کر کے قتل کیا گیا ۔ بعد میں خود بینظیر بھٹو صاحبہ کو پاکستان کے محفوظ ترین سمجھے جانے والے شہر راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا ۔ جس کے بعد بھٹو کی موروثی سیاست کا خاتمہ ہو گیا اور ان کی سیاسی قوت اور وراثت زرداری خاندان میں منتقل ہو گئی ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں تھیں ۔ جن میں بینظر بھٹو سب سے بڑی تھیں اس کے بعد مرتضی بھٹو، صنم بھٹو اور شاہ نواز بھٹو تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو جمہوریت پسند حلقے عدالتی قتل کہتے ہیں جن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے عدلیہ پر دباؤ ڈال کر نواب محمد احمد خان قصوری قتل کیس میں مجرم قرار دلا کر سزائے موت دلائی ۔ بھٹو کی موت کے بعد ان کے خاندان پر مشکلات اور مصائب کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے ۔ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ پر لاٹھیاں برسائی گئیں ۔ بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کو نظربند کر دیا گیا ۔ جبکہ میر مرتضی بھٹو اور میر شاہ نواز بھٹو نے جلاوطنی اختیار کر لی بعد ازاں محترمہ بینظیر بھٹو بھی جلاوطن ہو گئیں ۔ وہ جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد 10 اپریل 1986 کو اپنی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئیں ۔ لاہور میں ان کا تاریخی استقبال کیا گیا ۔ میر شاہ نواز بھٹو جلاوطنی کے دوران فرانس میں پر اسرار طور قتل کر دیئے گئے جبکہ میر مرتضی بھٹو پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کی غرض سے " الذوالفقار" نامی دہشت گرد تنظیم بنائی ۔ ان پر ایک پاکستانی طیارہ ہائی جیک کرکے افغانستان لے جانے کا بھی الزم لگایا گیا ۔ مرتضی بھٹو اپنے والد کی موت کے سانحے سے پہلے ایک امن پسند اور غیر سیاسی شہزادے کے طور پر اپنی ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے ۔ وہ 18 ستمبر 1954 میں پیدا ہوئے اور اپنے باپ کے بڑے بیٹے تھے۔ انہوں نے اپنے والد صاحب کی طرح 2 شادیاں کی تھیں ۔ انہوں نے دوسری پسند کی شادی عرب ملک شام کے شہر کی ایک معروف ڈانسر غنوی سے کی جو بعد ازاں غنوی بھٹو کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ غنوی بھٹو ایک بہادر ،باہمت خاتون اور ایک وفادار بیوی ثابت ہوئیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو اور میر مرتضی بھٹو کے درمیان سیاسی اور نظریاتی اختلافات پیدا ہوتے گئے جو بڑھتے بڑھتے شدید تر ہو گئے ۔ میر مرتضی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی میں اپنا الگ دھڑا قائم کر لیا ۔ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کا جھکاؤ مرتضی بھٹو کی جانب تھا جس کی وجہ سے بینظیر بھٹو اپنی والدہ محترمہ کو پارٹی کی چیئرپرسن کے عہدے سے ہٹا کر خود چیئر پرسن بن گئیں ۔ 1993 کے عام انتخابات میں یہ اختلافات مزید کھل کر سامنے آ گئے ۔ بیگم نصرت بھٹو نے میر مرتضی بھٹو کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ لاڑکانہ کی صوبائی اسمبلی کے انتخابی حلقے میں مرتضی بھٹو کی بھرپور انتخابی مہم چلا کر ان کو صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کرا لیا تاہم دوسرے تمام مقامات سے بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی الیکشن جیت گئیں اور وہ دوسری بار ملک کی وزیر اعظم منتخب ہو گئیں ۔ بینظیر بھٹو کے دور میں ہی میر مرتضی بھٹو کو 20 ستمبر 1996 کو کراچی میں فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا گیا ۔ وہ کئی گھنٹے زخمی حالت میں سڑک پر پڑے رہے ۔ جب ان کو ہسپتال پہنچایا گیا تو وہاں زیادہ خون بہہ جانے کے باعث ان کی موت واقع ہو گئی ۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو اپنے بھائی کے قتل کی اطلاع ملی تو وہ ننگے پاؤں روتی ہوئی ہسپتال پہنچ گئیں اور گریہ زاری کرنے لگیں ۔ مرتضی بھٹو نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ محترمہ غنوی بھٹو، ایک بیٹی فاطمہ اور ایک بیٹا جونیئر ذوالفقار علی بھٹو چھوڑا ۔ غنوی بھٹو صاحبہ اپنے شوہر کی پیپلز پارٹی کو چلا رہی ہیں مگر ان کو پارٹی منظم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے ۔ فاطمہ بھٹو ایک ادیبہ، شاعرہ اور کالم نگار بن گئیں جنہوں نے ادب اور صحافت کے میدان میں بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے جبکہ جونیئر ذوالفقار علی بھٹو ایک غیر فعال اور حالات سے مایوس فرد ثابت ہوئے ہیں ۔